(مدرسہ ڈسکورسز کے سمر انٹنسو ۲۰۲۱ء کی اختتامی نشست میں گفتگو)
مدرسہ ڈسکورسز کے سمر انٹنسو کا یہ اختتامی سیشن ہے۔ یہ پانچ سال کا پروگرام تھا جس کا پہلا مرحلہ آج مکمل ہو رہا ہے۔ میں اپنے شرکاء کی یاد دہانی اور اپنے مہمان علماء کی معلومات کے لیے اس پراجیکٹ کی ابتدا، مختلف مراحل اور اس کے مقاصد کے بارے میں اختصار سے کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس پروگرام کی ابتدا 2016 کے آخر اور 2017 کے اوائل میں ڈاکٹر ابراہیم موسی نے کی جو بنیادی طور پر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم ہندوستان کے بعض بڑے مدارس جیسے دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء میں ہوئی۔ اب وہ تقریبا ربع صدی سے امریکی جامعات میں ہیں اور تعلیم و تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ پروگرام ان کے دوست، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا امین عثمانی صاحب (جن کا گزشتہ سال انتقال ہو چکا ہے) کی باہمی مشاورت بلکہ بقول ڈاکٹر ابراہیم موسی، مولانا امین عثمانی صاحب کی تحریک پر شروع ہوا۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی کے مطابق مولانا امین عثمانی صاحب کا ان سے مسلسل تقاضا اور اصرار تھا کہ آپ نے دینی مدارس میں دینی علوم کی تحصیل کی، اس کے بعد آپ ایک دوسری علمی دنیا میں چلے گئے، مغربی جامعات میں تعلیم، تحقیق اور تدریس کا ایک لمبا سفر طے کیا، آپ نے ان دونوں دنیاوں کو دیکھا ہے، دونوں جگہ غور و فکر، تعلیم و تحقیق اور پڑھنے پڑھانے کا تجربہ حاصل کیا ہے، آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے اس علمی تجربے میں مدارس کے فضلاء و اساتذہ کو بھی شریک کریں۔ کوئی ایسی ترتیب بنائیں کہ آپ نے جو کچھ سیکھا ہے اور آپ کے اس علمی دنیا میں جو روابط ہیں اور اس دنیا میں اسلام کو، مسلمان معاشروں کو، اسلامی تاریخ کو، مسلمانوں کے مسائل کو کیسے دیکھا جاتا ہے، کیسے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اس سےایک تعارف اور واقفیت مدارس کے فضلاء و اساتذہ کو بھی حاصل ہو۔
اس پس منظر میں انہوں نے اس پروگرام کی ابتدا کی۔ وہ امریکہ میں مختلف جامعات میں رہے، لیکن جب وہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں آئے تو وہاں ان کو ایسا ماحول اور وسائل میسر آئے کہ وہ اس طرح کا ایک منصوبہ یا پراجیکٹ شروع کر سکیں۔ ابتدائی طور پر ان کے ذہن میں تھا کہ جنوبی ایشیا کے تینوں ممالک، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے علماء کی ایک منتخب جماعت کو لیا جائے اور ان کے لیے تدریس کا ایک آن لائن نظام بنایا جائے۔لیکن بعض وجوہ سے بنگلہ دیش پہلے مرحلے میں شامل نہیں ہو سکا اور پاکستان و ہندوستان میں اس کے آغاز کی ترتیب بنی۔ انڈیا سے ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر وارث مظہری صاحب سے رابطہ کیا گیا جو دیو بند سے فارغ التحصیل ہیں اور اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ان کا بھی دینی مدارس کے نصاب اور طریق تعلیم و تدریس کے ساتھ ایک پرانا شغف ہے۔ مجھ سے بھی ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب کا تعارف تھا، بلکہ امریکہ کے سفر میں وہ میرے میزبان بھی بنے، اس لیے پاکستان میں انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا تاکہ مقامی طور پر پروگرام کی ذمہ داری لینے اور علماء کی ایک جماعت کو منتخب کرنے کے لیے میں اس میں شریک ہوں۔ اسی طرح امریکہ میں ان کے کچھ معاونین جیسے ڈاکٹر مہان مرزا جو پاکستان کے ہی ایک سکالر ہیں، وہ بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔
اس ٹیم کے ساتھ اور اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے 2017 میں پاکستان اور انڈیا سے علماء کے ایک گروپ کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان سے تیرہ لوگ تھے اور اسی کے لگ بھگ انڈیا سے علماء شریک تھے۔ ان کے لیے تین سال کا ایک نصاب ترتیب دیا گیا جس کی شکل یہ تھی کہ سال میں دو سمسٹرز میں ہفتہ وار کچھ منتخب موضوعات پر طے شدہ متون کی روشنی میں ہم علمی مباحث کرتے تھے۔ شرکاء سوالات پوچھتے تھے اور کسی بھی سیشن کے جو معلم تھے، وہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور اس طرح ان مباحث کی تفہیم کا ایک عمل شروع ہو گیا۔ اس پروگرام میں تین موضوعات یا دائروں کو فوکس کیا گیا۔ ایک بڑا دائرہ اسلامی روایت کےتفصیلی مطالعہ کا تھا۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں ان مباحث کا سامنا ہوا تو کیا کیا سوالات پیدا ہوئے، کیا کیا بحثیں چھڑیں، ان بحثوں میں اہل علم نے جو اظہار خیال کیا، اس سے کون کون سے مواقف وجود میں آئے، اس تراث کا اس سے کہیں زیادہ تفصیلی مطالعہ کیا گیا جو ہم عام طور پر مدارس میں کرتے ہیں تاکہ اپنی روایت اور اس کی جہات سے زیادہ گہری اور تفصیلی واقفیت حاصل ہو۔
دوسرا دائرہ یہ تھا کہ مغربی دنیا میں مذہب، تاریخ اور معاشرے کو دیکھنے کا ایک بالکل متوازی اور مستقل نظام فکر ہے، اس روایت سے بھی واقفیت حاصل کی جائے۔ فلسفے کے مباحث اور اس میں زیادہ ارتکاز سائنس پر ہو کہ جدید سائنس کیا ہے ؟ یہ قدیم سائنس سے کیسے مختلف ہے ؟ سائنس کام کیسے کرتی ہے ؟سائنس میں نظریات کیسے بنتے ہیں، کیسے ٹوٹتے ہیں ؟اس وقت جو غالب تھیوریز کائنات کی یا انسان کی تفہیم کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، وہ کیا ہیں ؟ اور خاص طورپر یہ کہ جدید سائنس نے مذہب کے لیے، علم کلام اور تھیالوجی کے لیے کیا سوالات کھڑے کیے ہیں ؟ دوسرا بڑا دائرہ یہ تھا، یعنی جدید علم یا مغربی علوم کا تعارف اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات کو سمجھنا۔
تیسرا بڑا دائرہ یہ تھا کہ جیسے ماضی میں اہل علم نے اپنے دور میں پیدا ہونے والے سوالات کو موضوع بنایا اور ان پر اپنا موقف متعین کیا، استدلالات مرتب کیے، اسی طرح جدید دور میں آنے والی تبدیلی اور پیدا ہونے والے سوالات سے آج کے دور کے اہل علم نے بھی صرف نظر نہیں کیا۔ ان سوالات کو موضوع بنایا گیا، ان کی تفہیم کی کوشش کی گئی اور ان کے بارے میں مواقف سامنے آئے ہیں۔اس کا بھی مطالعہ کیا گیا کہ دور جدید میں جدیدیت کے تناظر میں اور خاص طور پر برصغیر کی علمی روایت میں ان کو کیسے سمجھا گیا اور ان کے بارے میں کیا مواقف اپنائے گئے۔ ان سب چیزوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا کہ کہاں خلا ہے، کون سی چیز نظر انداز ہو رہی ہے، کہاں چیزوں کی تصحیح کی ضرورت ہے، تاکہ یہ روایت آگے بڑھ سکے۔
یہ تین بنیادی دائرے تھے۔ ایک اور چیز کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایسے پروگرامز کا ایک فارمیٹ یہ ہوتا ہے کہ کسی صاحب علم نے غو رو فکر کے نتیجے میں کوئی موقف ڈیویلپ کیا ہے، کچھ نتائج اخذ کیے ہیں، تو ایسے کسی پروگرام میں کچھ لوگوں کو وابستہ کر کے ان کو ان نتائج کی تفہیم کی کوشش کی جاتی۔ اس پروگرام کے لیے یہ طریقہ یا فارمیٹ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ پروگرام ڈاکٹر ابراہیم موسی کے مواقف و آراء کی تفہیم یا ان کے لیے کوئی قبولیت پیدا کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، اسی لیے ہمارے تینوں بیچز کے شرکاء کو یہ شکایت رہی کہ ہمیں پروفیسر ابراہیم موسی صاحب سے استفادے کا بہت کم موقع میسر آیا۔ اس پراجیکٹ کا یہ فارمیٹ تھا کہ کسی ایک موقف یا رائے کی تفہیم، ترویج یا اس کے لیے قبولیت پیدا کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہ بحثوں کو سمجھنے کا ایک پلیٹ فارم ہے جس میں کوئی بھی ایک سوال سامنے رکھ کر مختلف زاویوں سے، مختلف مواقف اور ان کے استدلالات کو سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اسی فارمیٹ میں ہمارا یہ پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ ہمارے پہلے بیج کے دوستوں کو یہ شکایت رہتی تھی کہ جب ساری بحثیں ہو گئیں، ساری رد و قدح کر لی، اب نتیجہ کیا ہے ! کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط ! ہم ہمیشہ یہ معذرت کرتے تھے کہ نتیجہ بتانا یا کوئی ایک موقف بتانا اس پروگرام کا ہدف نہیں ہے۔ اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ تمام اساتذہ کے نتائج فکر ایک ہی ہوں، اس لیے کوئی نتیجہ نکال کر ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔ اب اس مسئلہ پر اور اس بحث پر غور جاری رکھنا، اس پر مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھنا اور اپنے لیے ایک نتیجہ طے کرنا یہ آپ کا کام ہے۔
اسی مقصد کے لیے فکری وسائل کے طور پر ایک وسیع دائرے میں متون، کتابیں، ان کے اقتباسات سلیبس کا حصہ بنائے گئے تاکہ مطالعہ کا دائرہ وسیع ہو، مختلف مصادر سے واقفیت پیدا ہو۔ ہم ساری کتابیں پوری نہیں پڑھ سکتے لیکن ان کی اہم بحثیں مطالعہ میں آ جائیں اور کتاب کا تعارف ہو جائے، اس طرح فکری وسائل کو وسیع کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ اساتذہ و محققین کے ساتھ تعارف بھی ایک مقصد کے طور پر کورس میں شامل رہا ہے۔ بنیادی طور پر ٹیم میں تین چار اساتذہ ہی شامل تھے لیکن دیگر جن اساتذہ سے استفادے کا موقع شرکاء کو میسر آیا جن میں زیادہ تعداد مغربی جامعات کے اساتذہ ومحققین کی تھی، وہ تقریبا تین درجن کے قریب ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں تخصص کے حامل تھے۔ گویا شرکاء کا مصادر کے ساتھ تعارف بھی مقصود رہا اور جو لوگ مغربی دنیا میں اسلام اور اسلامی موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں، ان تک بھی ان کی رسائی کو ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔
ان پانچ سالوں میں جو چیزیں ہمیں حاصل ہوئی ہیں، وہ میرے خیال میں دو ہیں۔ ایک بڑا حاصل تو پاکستان و انڈیا کے شرکاء ہیں جن میں ان مباحث کو سمجھنے اور ان سے ڈیل کرنے کی بنیادی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ ان کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔ یہ فضلاء اس عمل کو اپنے طور پر بھی اب آگے بڑھا سکتے ہیں اور ہم بھی کچھ ایسے وسائل و امکانات دیکھ رہے ہیں کہ اس سارے عمل کی کوئی تنظیم کی جائے۔ دوسری چیز جو ہم نے حاصل کی ہے، وہ ایک اچھا مرتب نصاب ہے۔ ہمارے پاس تین گروپ آئے تھے، ایک 2017 میں، دوسرا 2018 اور تیسرا 2019 میں۔ ان تینوں کے لیے نصاب کو ہم مسلسل ریویو کرتے رہے، نئے اساتذہ بھی آئے اور نئے موضوعات بھی شامل ہوئے۔ ان سب تجربات کو ہم نے ایک جامع نصاب میں مرتب کر دیا ہے جو کہ اب ایک ماڈل سلیبس ہے جس میں سات آٹھ بنیادی موضوعات ہیں اور جو متون استعمال کیے گئے، ان کی مکمل فہرست ہے، تاکہ اگر اور لوگ بھی ایسا کوئی تجربہ کرنا چاہیں تو ہمارا حاصل تجربہ ان کے پاس ہو جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ گویا دو چیزیں حاصل ہوئی، ایک ایسے شرکاء جو ان بحثوں سے دلچسپی رکھتے ہیں، سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان مطالعات کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں اور دوسرا ایسا نصاب جس سے دوسرے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔
اس کام کے تسلسل کے لیے ہم مختلف پہلووں پر غور کر رہے ہیں۔ ہمارے کافی فضلاء اس بات کے لیے پر عزم ہیں کہ جن اساتذہ سے تعارف ہوا ہے، ان سے استفادہ جاری رہے گا اور ہفتہ وار میٹنگز میں ان مطالعات کا تسلسل جاری رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ ادارے بھی جو اس پروگرام کو کچھ بدلی ہوئی شکل میں اپنے ہاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔