پشاور ہائی کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اس مقدمے میں درخواست گزار کی جانب سے بنیادی طور پر یہ استدعا کی گئی تھی کہ عدالت 2018ء اور 2019ء میں نافذ کیے گئے ان دو قوانین کو دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے جن کے ذریعے سابقہ پاٹا (سوات، دیر چترال وغیرہ) اور فاٹا (وزیرستان، خیبر، کرم وغیرہ) میں پہلے سے رائج قوانین کے متعلق قرار دیا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعد بھی ان علاقوں میں یہ قوانین نافذ رہیں گے۔ مزید یہ استدعا کی گئی تھی کہ ان قوانین کے تحت جو ذیلی قوانین ، ریگولیشنز اور قواعد وغیرہ وضع کیے گئے انھیں بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ان ذیلی قوانین میں اہم ترین وہ ریگولیشنز تھے جنھوں نے  "سول اتھارٹی کی مدد " کےلیے مسلح افواج کو بہت وسیع اختیارات دیے تھے اور جو ان علاقوں میں 2011ء سے نافذ تھے۔ اس کے علاوہ یہ خصوصی استدعا بھی کی گئی کہ مؤخر الذکر ریگولیشنز کے ذریعے ان علاقوں میں قائم کیے گئے مسلح افواج کے زیر کنٹرول قید خانوں (انٹرنمنٹ سینٹرز) کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ان میں قید افراد کے مقدمات کی سماعت ان عدالتوں میں کی جائے جن کو ان مقدمات پر قانوناً اختیارِ سماعت حاصل ہے۔ نیز ہر ایسے قانون، قاعدے، ضابطے یا نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے جس کی رو سے ان علاقوں کے باشندوں کے ساتھ امتیاز پر مبنی سلوک کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس دوران میں اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت ان قوانین کے خلاف فیصلہ دینے جارہی ہے تو اس نے جلدی میں 5 اگست 2019ء کو گورنر کے ذریعے ایک آرڈی نینس جاری کروایا جس کے تحت "سول اتھارٹی کی مدد" کے لیے مسلح افواج کے اختیارات کو پورے صوبے تک وسعت دے دی گئی، یعنی بجاے اس کے کہ اس ظالمانہ قانون کو ختم کردیا جاتا، انھوں نے اسے پورے صوبے پر نافذ کیا تاکہ عدالت سے کہا جائے کہ ہم ان علاقوں کے لوگوں سے امتیازی سلوک نہیں کررہے، اور ، بہ الفاظِ دیگر ، سب کے ساتھ ظلم کررہے ہیں! چنانچہ درخواست گزار نے ایک اور درخواست کے ذریعے اس آرڈی نینس کو بھی چیلنج کیا اور استدعا کی کہ اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

مزید پس منظر میں جائیں تو درخواست گزار کے بیٹے کو فورسز نے 2012ء میں تحویل میں لے لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل ان کی تحویل میں ہی ہے۔ درخواست گزار نے اس کی رہائی کےلیے مختلف مواقع پر دو درخواستیں دیں جن پر عدالت نے مناسب احکامات بھی جاری کیے لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں نکلا۔ چنانچہ اب کے درخواست گزار نے ان ریگولیشنز کو ہی چیلنج کرلیا جن کے تحت اس کے بیٹے کو تحویل میں لیا گیا تھا اور اس نے اپنے بیٹے کے علاوہ ان سب قیدیوں کی رہائی کی استدعا کی جن کو اسی طرح قید کیا گیا ہے۔


اس ساری کہانی میں چونکہ پچیسیوں دستوری ترمیم کا اہم کردار ہے جس کی رو سے پاٹا اور فاٹا کا صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا ، اس لیے اس دستوری ترمیم کے چند پہلوؤں پر بھی گفتگو ضروری ہے۔

اس دستوری ترمیم کے ذریعے ، جو صدر کے دستخطوں کے بعد، 31 مئی 2018ء سے نافذ ہوئی ، دستور کی دفعہ 246 میں ترمیم کرکے پاٹا اور فاٹا کے علاقوں کو باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنادیا گیا؛ نیز دستور کی دفعہ 247 کو ، جس کے تحت ان علاقوں میں خصوصی قوانین نافذ کیے گئے تھے، حذف کیا گیا ۔ گویا دستوری پوزیشن یہ ہوئی کہ پچیسویں دستوری ترمیم کے بعد ان علاقوں کو قانوناً وہی حیثیت حاصل ہوگئی جو صوبے کے دیگر علاقوں ، جیسے پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ وغیرہ، کو حاصل ہے۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ترمیم کے مؤثر ہونے سے دو دن قبل ، 29 مئی 2018ء کو ، دستور کی دفعہ 247 کے تحت صدر کی جانب سے فاٹا میں عبوری قانونی نظام کےلیے خصوصی ریگولیشنز جاری کیے گئے ۔ اب سوال یہ تھا کہ جب دو دن بعد  صدر نے پچیسویں دستوری ترمیم پر دستخط کیے اور دفعہ 247 ہی دستور سے حذف ہوگئی تو اس دفعہ کے تحت بنائے گئے ان ریگولیشنز کی کیا قانونی حیثیت باقی رہ گئی؟ ہمارے ایک نوجوان شاگرد رشید علی عظیم آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ کے سامنے یہی سوال پیش کیا اور اس بنیاد پر ان ریگولیشنز کی دستوری و قانونی حیثیت کو چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے پچھلے سال اس مقدمے کے فیصلے میں ان ریگولیشنز کے ایک بڑے حصے کو دستور سے متصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا۔ وفاقی حکومت اس کے خلاف اپیل میں سپریم کورٹ گئی جس نے جنوری 2019ء میں اپیل کا فیصلہ سنا تے ہوئے صوبائی حکومت کو بعض ہدایات جاری کیں اور ان پر عمل کےلیے چھے مہینے کا وقت دیا۔ اس دوران میں صوبائی ان ہدایات پر کیا عمل کرتی ، الٹا اس نے سابقہ فاٹا کےلیے سابقہ پاٹا کے طرز پر قانون بنایا جس کا ذکر شروع میں ہوچکا۔ پھر جب فاٹا اور پاٹا کےلیے ان قوانین کو ہائی کورٹ میں موجودہ مقدمے کے درخواست گزار نے ہمارے محبوب دوست بیرسٹر ڈاکٹر عدنان خان کے ذریعے چیلنج کیا تو حکومت نے مزید آگے جاکر گورنر کے ذریعے وہ آرڈی نینس بھی جاری کروایا جس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ چنانچہ درخواست گزار کو اس آرڈی نینس کو بھی چیلنج کرنا پڑا۔


ہائی کورٹ کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ جن ریگولیشنز کو وفاقی حکومت نے وضع کرکے قبائلی علاقوں میں نافذ کیا تھا، انھیں صوبے میں شامل علاقوں میں کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے؟ یہ سوال پاکستانی دستور کی وفاقیت کے تناظر میں نہایت اہم ہے۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ مذکورہ ریگولیشنز کو مذکورہ صوبائی قوانین کے ذریعے تسلسل دینا قانونی لحاظ سے انتہائی غلط تھا۔

دوسرا اہم مسئلہ جس پر ہائی کورٹ نے بحث کی یہ تھا کہ سابقہ پاٹا کے لیے مذکورہ قانون جنوی 2019ء میں اور سابقہ فاٹا کےلیے مذکورہ قانون مئی 2019ء میں نافذ کیا گیا جبکہ پچیسیویں دستوری ترمیم کا نفاذ مئی 2018ء سے ہی ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مئی 2018ء سے جنوری 2019ء تک سابقہ پاٹا میں اور مئی 2019ء تک سابقہ فاٹا میں لوگوں کو فورسز اور ایجنسیوں نے کس قانون کے تحت قید کیا تھا ؟ اس قید اور دیگر فیصلوں کا قانونی جواز کیا تھا؟ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سرکاری وکیل کے پاس ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

واضح رہے کہ یہ دونوں قوانین بھی حکومت نے تب منظور کیے جب لاپتہ افراد کے مقدمات میں یہ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ پھر جب ان قوانین کو چیلنج کیا گیا اور چیلنج کیے جانے کا ایک سبب ان کا امتیازی ہونا بھی تھا تو حکومت اگست 2019ء میں وہ آرڈی نینس لے آئی جس کے ذریعے ان کھوکھلے قوانین کو پورے صوبے پر وسعت دی گئی! اس آرڈی نینس پر دیگر اعتراضات کے علاوہ ایک اہم اعتراض یہ اٹھا کہ اگر اس کا اجرا اس بنا پر ضروری تھا کہ مسئلہ پاکستان کے دفاع اور تحفظ کا تھا تو وفاقی فہرست میں شامل ہونے کی بنا پر اس مسئلے پر آرڈی نینس صدر کی جانب سے جاری ہونا چاہیے تھا، نہ کہ گورنر کی جانب سے۔ ہائی کورٹ نے یہ اعتراض تسلیم کیا اور قرار دیا کہ گورنر کے پاس یہ آرڈی نینس جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

سرکاری وکیل کی جانب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ ہائی کورٹ کو قانون کو کالعدم قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہائی کورٹ نے اس ضمن میں دستور اور قانون کے بنیادی اصول واضح کرکے قرار دیا ہے کہ قانون کے متعلق عدالت کا بنیادی مفروضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ دستور سے متصادم نہیں لیکن دو مواقع پر اس پر لازم ہے کہ وہ قانون کو کالعدم قرار دے:

ایک، اس وقت جب قانون بنانے والے ادارے کے پاس وہ قانون بنانے کا اختیار ہی نہ ہو؛ اور

دوم ، جب یہ دستور کی کسی شق ، بالخصوص جب دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق ، کی واضح خلاف ورزی ہوتی ہو۔

ہائی کورٹ نے تصریح کی کہ ان دونوں معیارات پر مذکورہ قوانین کالعدم ٹھہرتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ قوانین وفاق کو بنانے چاہیے تھے نہ کہ صوبے کو اور دوسرے ان سے دستور میں مذکور تقریباً تمام حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔


یہاں تک پہنچ کر ہائی کورٹ نے "سول اتھارٹی کی مدد" کےلیے فوج کو وسیع اختیارات دینے والے ریگولیشنز  کا جائزہ لیا ہے ہم نے ان ریگولیشنز اور ان کے علاوہ "تحفظ پاکستان ایکٹ" کے متعلق بارہا مختلف فورمز پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان نام نہاد قوانین کےلیے ہمیشہ سندِ جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ کہ ملک میں رائج عام قوانین اور بالخصوص قانونِ شہادت کی موجودگی میں "دہشت گردوں" کو سزا نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ اس کےلیے خصوصی قوانین کی ضرورت تھی لیکن جب یہ قوانین لائے گئےتو ان میں جرم کے متعلق شہادت یا ثبوت کے متعلق کچھ بھی نہیں تھا بلکہ سارا زور صرف اور صرف "تحویل " (custody) پر تھا  اور ان قوانین کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ فورسز اور ایجنسیوں سے یہ نہ پوچھا جائے کہ کس کو کیوں اور کہاں قید رکھا گیا ہے ؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے بھی سب سے پہلے یہی بات کہی ہے کہ ان میں "مقدمہ" (trial) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو سالہاسال تک عدالت میں پیش کیے بغیر قید رکھا جائے۔ اس سے آگے ہائی کورٹ کے الفاظ انتہائی اہم ہیں اور اس لیے ہم انھیں جوں کا توں نقل کرنا پسند کریں گے:

We have witnessed in number of missing persons cases that they detained detenues for years and years without ever providing the record to this effect. During the missing persons cases, about 15-20% cases suddenly detenue appears before the Court and informs that he has been released by the agencies and on the assurance of non-disclosing anything. These proceedings are not recorded in any of the order sheets for the last so many years for the reason not to expose the conduct of the agencies to the world.

(ہم نے لاپتہ افراد کے مقدمات میں دیکھا کہ یہ لوگ قیدیوں کو سالہا سال قید رکھتے ہیں اور اس بارے میں کبھی کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کرتے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں ، تقریباً 15 سے 20 فی صد مقدمات میں ایسا ہوتا ہے کہ قیدی اچانک عدالت کے سامنے نمودار ہوکر کہتا ہے کہ ایجنسیوں نے اسے اس شرط پر رہا کیا ہے کہ وہ کوئی معلومات نہیں دے گا۔ مقدمات کی کارروائی میں ان باتوں کو کسی حکم نامے میں ریکارڈ نہیں کیا جاتا صرف اس وجہ سے کہ ایجنسیوں کا کردار دنیا کے سامنے آشکارا نہ ہو۔ )

ہائی کورٹ نے اس زاویے سے ان قوانین پر شدید تنقید کی ہے اور انھیں نہ صرف دستور اور ضابطۂ فوجداری بلکہ آرمی ایکٹ کے بھی خلاف قرار دیا ہے اور کہا کہ ان نام نہاد انٹرنمنٹ سینٹرز میں قید لوگوں کو سالہا سال مقدمہ چلائے بغیر قید رکھا جاتا ہے ، انھیں نہ رشتہ داروں سے ملنے دیا جاتا ہے ، نہ ہی وکیل کرنے دیا جاتا ہے ، نہ ہی انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف الزام ہے کیا؟


اس کے بعد ہائی کورٹ نے اس امر کا جائزہ پیش کیا ہے کہ کیا واقعی یہاں افواج اس مقصد سے آئی ہیں کہ وہ سول اتھارٹی کی مدد کریں، جیسا کہ اس قانون کا عنوان بتاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہائی کورٹ نے سب سے پہلے اس حقیقت کو ریکارڈ کیا ہے جو ہر جاننے والا جانتا ہے لیکن اس طرح ریکارڈ کا حصہ بنانے کی جرات ہر کوئی نہیں کرتا۔

ہائی کورٹ نے تصریح کی ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمے میں عدالت کے سامنے جواب دینے کی ذمہ داری ہوم سیکرٹری کی ہوتی ہے لیکن ہوم سیکرٹری بے چارہ خود نہیں جانتا کہ مذکور قیدی کہاں اور کس حال میں ہے؟ ! وہ اس معاملے میں چھے سات ایجنسیوں سے معلومات لینے کی کوشش کرتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ انٹرنمنٹ سینٹرز سول انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں بلکہ فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ ہائی کورٹ نے مزید قرار دیا ہے کہ سول اتھارٹی کی مدد والے ریگولیشنز اور آرڈی نینس کی موجودگی میں بھی عدالت کے سامنے ان انٹرنمنٹ سینٹرز کی تفصیلات نہیں پیش کی جاتیں اور یوں فوج اور سول انتظامیہ دونوں بدنیتی کا بھی مظاہرہ کرتی ہیں اور دستور کی خلاف ورزی کی مرتکب بھی ہوتی ہیں ۔ آگے ہائی کورٹ نے ان علاقوں کے لوگوں کی حالتِ زار کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

It has come to the knowledge of this court during different proceedings that under the camouflage activities and protection of the above mentioned regulations and law, the entire erstwhile tribal area citizens are treated inhumanely and unconstitutionally, as it they are not the citizens of this Country.

(مختلف مقدمات میں اس عدالت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ مذکور ریگولیشنز اور قانون کے تحفظ کا جامہ اوڑھ کر تمام سابقہ قبائلی علاقہ جات کے باشندوں کے ساتھ غیرانسانی اور غیردستوری سلوک کیا جاتا ہے، گویا وہ اس ملک کے شہری ہی نہ ہوں ۔ )

نہ صرف یہ بلکہ اس کے آگے کے الفاظ ایسے ہیں جو ان علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ نجی محفلوں میں تو کہتے ہیں لیکن عدالتی فیصلے میں پہلی دفعہ وہ الفاظ ریکارڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہائی کورٹ کا کہنا ہے:

The conduct of the Armed Forces is that of conqueror particularly in reference to the erstwhile tribal area.

(مسلح افواج کا رویہ بالخصوص سابقہ قبائلی علاقوں میں فاتح کا سا ہوتا ہے۔ )

ہائی کورٹ نے مزید قرار دیا ہے کہ مذکورہ قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے تحت تمام اختیارات فوج کو دیے گئے ہیں جبکہ کسی قانون کی رو سے فوج کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ سول لوگوں پر مقدمہ چلاسکے۔ یوں دیگر کئی پہلوؤں کے علاوہ اس پہلو سے بھی  یہ قوانین ناجائز ٹھہرتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مسلح افواج کی ذمہ داری ملک کے بیرونی سرحدات کے تحفظ کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جب ضرورت پڑے تو وہ دستور اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سول اتھارٹی کی مدد کرے لیکن جس طرح ان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیرمعینہ مدت تک لوگوں کو قید رکھے، ان سے تفتیش کرے یا ان پر مقدمہ چلائے تو اس کی ملک کے قانونی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔


ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ایسی کیا ایمرجنسی پیدا ہوگئی تھی کہ اس قانون کو ایک آرڈی نینس کے ذریعے جلدی میں پورے صوبے میں نافذ کیا گیا اور اس کو مقننہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری وکیل سے خصوصاً یہ سوال پوچھنے کے باوجود وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔

ہائی کورٹ نے اس بات کی بھی نشان دہی کی ہے کہ مذکورہ ریگولیشنز کا اجرا جون 2011ء میں کیا گیا لیکن انھیں مؤثر بہ ماضی کرکے فروری 2008ء سے نافذ کیا گیا  اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 2008ء سے 2011ء تک ان کی قید میں لوگ موجود تھے جس کے لیے ان کے پاس کسی قسم کا قانونی اختیار نہیں تھا۔

ہائی کورٹ نے ایک اور اہم بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اب جبکہ یہ آرڈی نینس جاری کیا گیا ہے تو دو مہینے گزرنے کے باوجود اس آرڈی نینس کو کسی ویب سائٹ پر نہیں ڈالا گیا ، نہ ہی اس کی تشہیر کی گئی کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس کے ذریعے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

اس کے بعد ہائی کورٹ نے اس قانون پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تنقید کا بھی حوالہ دیا ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ یہ قوانین انسانی حقوق سے متعلق ان بین الاقوامی معاہدات کے بھی خلاف ہیں جن کی پاکستان نے توثیق کی ہے۔ ہم فیصلے کے اس حصے میں اختیار کیے گئے طرزِ استدلال پر تحفظات رکھتے ہیں لیکن فی الحال اس پر بحث کے بجاے فیصلے کے آخری حصے کی طرف جانا چاہیں گے جس میں عدالت نے ان قوانین کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکومت کو بعض نہایت اہم احکامات جاری کیے ہیں۔


چنانچہ ہائی کورٹ نے ان قوانین کے خلاف درخواستیں قبول کرتے ہوئے ان تمام قوانین اور ان کے تحت بنائے گئے ذیلی قوانین، قواعد، ضوابط اور نوٹیفیکیشنز کو کالعدم قرار د یا  اور اس کے بعد درج ذیل احکامات جاری کیے ہیں:

1۔ ہوم سیکرٹری کو حکم دیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے موصول ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کریں۔

2۔ آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا گیا کہ وہ ان تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد تین دن کے اندر ان کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔

3۔ آئی جی جیل خانہ جات کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ جن قیدیوں کے خلاف ابھی تک کوئی چارج نہیں لگایا گیا اور انھیں قید ہوئے 90  دن سے زائد ہوچکے ہیں، انھیں رہا کردیا جائےاور جن قیدیوں کے خلاف چارج لگایا گیا ہے انھیں قانون کے تحت اختیار رکھنے والی عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

4۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ ان احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اگر کسی قیدی کی زندگی یا آزادی کے حق کو نقصان پہنچا تو اس کےلیے یہ دونوں ذمہ دار ہوں گے۔

5۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ تمام قیدیوں کی جامع فہرست تیار کرکے سات دنوں کے اندر اسے ان عدالتوں کے سامنے پیش کریں جہاں لاپتہ افراد کے مقدمات سنے جارہے ہیں۔

6۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کویہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ قیدیوں سے رشتہ داروں کی ملاقات کا بھی بندوبست کریں۔ 

ان احکامات سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کےلیے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے وہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر ان احکامات پر عمل کےلیے زیادہ وقت دیا جائے گا تو اس دوران میں حکومت اپیل میں سپریم کورٹ جائے گی اور وہاں سے قانون کے تقاضے پورے کرنے کےلیے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ عدالت نے کم سے کم وقت دیا تاکہ حکم امتناعی کے حصول سے قبل ہی ان احکامات پر عمل لازم ہوجائے اور یوں اگر ان پر عمل نہ ہوتو ان افسران کے خلاف توہینِ عدالت کا امکان بھی ہوگا اور ان کے خلاف متاثرین کے پاس دیگر قانونی حقوق بھی میسر ہوں گے۔

اس فیصلے پر قومی سطح پر تفصیلی گفتگو اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ۔  ہم نے ٹھہرے پانیوں میں پتھر پھینک کر فرض کفائی ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول کرلے ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس وقار سیٹھ صاحب، مقدمے کے درخواست گزار جناب شبیر حسین گگیانی اور ان کے وکیل جناب بیرسٹر ڈاکٹر عدنان خان کو ان کی کاوشوں کا بہترین اجر دے ، اس فیصلے کو ان کے میزانِ حسنات میں قبول فرمائے، اور اسے ملک میں قانون کی حکمرانی کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔


پس نوشت: یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انضمام درست فیصلہ تھا کیونکہ ، جیسا کہ سال بھر پہلے ہم نے لکھا تھا ، اس کی وجہ سے ہائی کورٹ کو ان علاقوں پر اختیارِ سماعت حاصل ہوگیا ہے اور اب یہ سرزمینِ بے آئین نہیں ہے۔

حالات و واقعات

(نومبر ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter