دارالعلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی علالت کے بارے میں کئی روز سے تشویشناک خبریں آرہی تھیں جبکہ گزشتہ روز کی خبروں نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی دوران خواب میں ان کی زیارت ہوئی، عمومی سی ملاقات تھی، میں نے عرض کیا کہ حضرت! دو چار روز کے لیے دیوبند میں حاضری کو جی چاہ رہا ہے مگر ویزے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی، میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا اچھا کچھ کرتے ہیں۔ خواب بس اتنا ہی ہے، اب خدا جانے پردۂ غیب میں کیا ہے، مگر یہ اطمینان ہے کہ خاندانِ قاسمی کی نسبت سے جو بھی ہوگا خیر کا باعث ہی ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ خاندانِ قاسمی کے چشم و چراغ اور اس عظیم خانوادہ کے ماتھے کا جھومر تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے فرزند و جانشینؒ، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد احمدؒ کے پوتے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پڑپوتے تھے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے ساتھ میری نیازمندی اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے وسیلہ سے تھی کہ ان بزرگوں کا باہمی قرب و تعلق مثالی تھا۔ حضرت قاری صاحبؒ جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو شیرانوالہ لاہور میں کوئی نہ کوئی مجلس ضرور جمتی اور میرا شمار اس دور میں شیرانوالہ کے حاضر باش شرکاء میں ہوا کرتا تھا، اس لیے متعدد بار ان برکات سے فیض یاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت قاری صاحبؒ کے بعد حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمیؒ کے ساتھ بھی اسی تسلسل میں نیاز مندی کا تعلق رہا اور جب دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے ساتھ میں بھی شریک تھا، ہم تینوں کا قیام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے مکان میں رہا اور چند روز تک ہم ان کی میزبانی کا حظ اٹھاتے رہے۔ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کے چند اور دوست مولانا مفتی محمد نعیم اللہ، قاری محمد یوسف عثمانی، جناب امان اللہ قادری، عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر حضرات کے علاوہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا حکیم محمودؒ بھی اسی مکان میں ہمارے ساتھ قیام پذیر تھے۔ اس دورے میں حضرت قاری صاحبؒ کی رہائش گاہ کا قیام اور حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی دعوتیں اور مجالس میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہیں۔
مولانا محمد سالم قاسمیؒ جب پاکستان تشریف لاتے تو میری کوشش ہوتی کہ کسی جگہ ان کی زیارت و ملاقات کی کوئی صورت بن جائے جس میں اکثر کامیاب ہو جاتا۔ ایک بار گوجرانوالہ تشریف لائے تو میرے گھر کو بھی رونق بخشی اور جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں میری رہائش گاہ پر ناشتہ کے لیے قدم رنجہ فرمایا۔ لاہور، راولپنڈی اور دیگر مقامات کی بعض ملاقاتیں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں مگر ایک ملاقات بہت یادگار رہی۔ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ بنگلہ دیش کے سفر پر تھا، سلہٹ میں ایک پرانے اور معروف بزرگ حضرت شاہ جلالؒ کا مزار ہے جو لوگوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے، میں اسے سلہٹ کا داتا دربار کہا کرتا ہوں، ہم وہاں اپنے پروگرام کے تحت گئے تو معلوم ہوا کہ دربار کے ساتھ جو دینی درسگاہ ہے وہ ہمارے ہم مسلک دوستوں کے زیر انتظام ہے اور وہاں حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے تاکہ زیارت و ملاقات کی سعادت حاصل ہو جائے۔ میزبانوں کو ایک پاکستانی مولوی کی کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ان سے ملاقات کرانے میں تردد تھا اور اس تردد کی وجہ بھی سمجھ آرہی تھی۔ میں نے ڈیوٹی پر موجود ایک صاحب کو اپنا نام لکھ کر دیا کہ حضرت کو صرف یہ نام بتا دیں اگر وہ اجازت دیں تو ملاقات کرا دیں۔ حضرت مولانا مرحوم نے نام پڑھا تو بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ یہ ادھر کہاں آگئے ہیں؟ بہرحال اذن باریابی مل گیا اور کچھ دیر محفل رہی۔ ایک بار جدہ کے سفر میں دوستوں نے بتایا کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں اور قریب ہی ایک دوست کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ حاضری پر خوشی کا اظہار فرمایا، مختلف مسائل پر باہمی گفتگو ہوئی اور دعاؤں سے نوازا۔ اسی طرح اور بھی بعض مقامات پر ملاقات و گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مرحوم کے والد گرامی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اپنے دور کے بڑے خطباء میں شمار ہوتے تھے اور انہیں بجا طور پر خطیب اسلام کہا جاتا تھا۔ بلکہ میں نے ان کی پہلی زیارت اپنے طالب علمی کے دور میں ایک جلسہ میں ہی کی تھی جب لاہور کے انارکلی بازار میں بہت بڑا جلسہ تھا، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ حضرت قاری صاحبؒ کی تقریر سننے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور تشریف لے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ میرا شاید کافیہ کا سال تھا اور میں نو عمر لڑکا ہی تھا مگر اس سفر کی بہت سی باتیں اور جلسہ کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے۔ حضرت قاری صاحبؒ کی باتیں تو یاد نہیں مگر ان کا سراپا اب بھی نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت اپنے والد گرامیؒ کی خطابت کا رنگ رکھتی تھی اور انہیں خطیب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا مگر میرا طالب علمانہ ذوق حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے لیے خطیب کی بجائے “متکلم اسلام” کے تعارف کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ متکلم کا اپنا دائرہ ہوتا ہے اور محدثین، فقہاء، مناظرین اور مفسرین کی طرح متکلمین بھی مستقل تعارف رکھتے ہیں۔ متکلم کا کام اپنے دور کی عقلیات کے دائرے اور ماحول میں اسلامی عقائد اور ان کی تعبیرات کی تشریح و توضیح کرنا ہوتا ہے اور ہر دور میں جلیل القدر متکلمین امت مسلمہ کی راہنمائی کرتے رہے ہیں۔ جب دیوبندی مکتب فکر کی ان دائروں میں تقسیم کی بات ہوتی ہے تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے سب سے بڑے متکلم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے، ان کے بعد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اس محاذ کو سنبھالا اور پھر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ان دونوں کے ترجمان بن گئے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت و تدریس میں بھی اس کی بھرپور جھلک پائی جاتی تھی اور بسا اوقات ان کی گفتگو سنتے ہوئے ہم آنکھیں بند کر کے حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کی زیارت کا حظ اٹھا لیا کرتے تھے۔
دیوبندی متکلمین کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ایک اور نام کا اضافہ کیے بغیر میری تسلی نہیں ہوتی اور وہ بزرگ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ہیں جو اپنے دور میں پنجابی زبان کے سب سے بڑے متکلم اسلام تھے اور عقائد کی مشکل سے مشکل تعبیر کو آسان مثالوں اور سادہ اسلوب میں عام آدمی کو سمجھا دینے کا کمال رکھتے تھے۔ مجھ سے ایک بار پوچھا گیا کہ حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت قاضی صاحب چوٹی کے خطیب تھے، حضرت جالندھریؒ کمال کے متکلم تھے اور حضرت لال حسین اخترؒ میدانِ مناظرہ کے شاہسوار تھے۔ تینوں کا مشن ایک ہی تھا مگر دائرہ کار اور اسلوب الگ الگ تھا اور یہ تینوں اسلوب کسی بھی دینی تحریک کی لازمی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں۔
بہرحال حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے خانوادہ کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب و ذوق کے بھی ایک اور نمائندہ بزرگ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انہیں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے تمام متعلقین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔