رجب کے دوران ملک بھر میں بیسیوں مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا اور دینی مدارس کے مختلف النوع اجتماعات میں شرکت کے علاوہ متعدد ارباب علم و دانش کے ساتھ بعض علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان میں سے ایک اہم اور نازک مسئلہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں بعض اہل علم کے فتویٰ کی بات بھی تھی جس کے بارے میں احباب نے میرا موقف معلوم کرنا چاہا۔ متعدد دوستوں کے ساتھ کی گئی متفرق گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ کی روح اور قبر پر جن سے طویل عرصہ تک جمعیة علماءاسلام کی سرگرمیوں میں رفاقت کا تعلق رہا ہے جب وہ لکی مروت میں تھے، پھر کراچی چلے گئے اور اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ ”شریعت بل“ کی تحریک اور نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ ایک بار انہوں نے دریافت فرمایا کہ کچھ دوستوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی بعض عبارات استفتا کی صورت میں بھجوائی ہیں اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ چونکہ بات مشورہ کی تھی اور مسئلہ علمی و فقہی تھا اس لیے دیانت داری کے ساتھ جو کچھ محسوس کیا وہ ان سے عرض کر دیا۔ اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب کے بعض افکار و آرا پر میں نے متعدد مواقع پر نقد کیا ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے بعض مضامین کا مجموعہ ”ایک علمی و فکری مکالمہ“ کے عنوان سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور ایک مختصر کتابچہ ”غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت“ کے عنوان سے الگ طور پر بھی شائع ہو چکا ہے۔جبکہ میری ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر غامدی صاحب کے عنوان سے ایک درجن سے زائد مضامین موجود ہیں جو وہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فتویٰ کے حوالہ سے مجھے تامل رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ سے میں نے عرض کیا کہ:
- محض معترضین کی نقل کردہ عبارات کو کسی فتویٰ کی بنیاد بنانے کی بجائے ان عبارات کی روشنی میں تین چار سنجیدہ مفتی صاحبان کو غامدی صاحب کے متعلقہ لٹریچر کا از خود مطالعہ کر کے اشکالات و سوالات مرتب کرنے چاہئیں۔
- جو اشکالات و سوالات پیدا ہوں، وہ باضابطہ طور پر غامدی صاحب اور ان کے ذمہ دار رفقاءکو بھجوائے جائیں۔ وہ اگر ان کے جوابات نہ دیں یا ان کی طرف سے دیے گئے جوابات مفتی صاحبان کے نزدیک تسلی بخش نہ ہوں تو اس کے بعد جو مناسب سمجھا جائے، فتویٰ صادر کیا جائے۔ کیونکہ جن صاحب کے بارے میں فتویٰ دیا جانا مقصود ہے، وہ زندہ و موجود ہیں اور ان تک رسائی بھی میسر ہے تو انہیں اپنے موقف کی وضاحت کا موقع دیے بغیر صادر کیا جانے والا فتویٰ یکطرفہ متصور ہوگا۔
حضرت مفتی صاحبؒ نے میری اس گزارش کا جو کہ تحریری صورت میں تھی کوئی جواب نہیں دیا جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں میری بات سے اتفاق نہیں تھا۔ مگر میں اس موقف پر اب بھی قائم ہوں اس لیے کہ فتویٰ اگر افکار و نظریات کے حوالہ سے ہو تو اس کی نوعیت اور ہوتی ہے کہ ایسا نظریہ اور فکر رکھنے والے شخص کے بارے میں شرعی فتویٰ یہ ہے۔ لیکن اگر فتویٰ کسی متعین شخصیت کے بارے میں ہو جو موجود و زندہ ہے تو اس سے اس کا موقف پوچھے بغیر اور اسے اپنے بارے میں اشکالات و سوالات کی وضاحت کا موقع دیے بغیر محض معترضین و ناقدین کی منتخب اور نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر کوئی شخصی فتویٰ صادر کر دینا فقہ و شریعت کے ایک سنجیدہ طالب علم کے طور پر میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے یہ بات اس لیے بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ خود ہم اس طرزعمل کا شکار چلے آرہے ہیں کہ ہمارے انتہائی محترم اکابر کی چند عبارات نقل کر کے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا اور اس پر عرب و عجم کے بہت سے علماءکرام سے دستخط بھی کرا لیے گئے جبکہ ان بزرگوں سے نہ پہلے پوچھنے کی زحمت کی گئی اور نہ ہی بعد میں ان کی طرف سے کی جانے والی وضاحت کو قبول کیا گیا اور یہ سلسلہ ایک صدی سے مسلسل چل رہا ہے جو اب بھی جاری ہے۔
اس لیے میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ میں غامدی صاحب کے بعض افکار و نظریات سے اختلاف میں ان دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن باقاعدہ شخصی فتویٰ کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سنجیدہ مفتی صاحبان مبینہ اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کریں اور خود سوالات و اشکالات مرتب کر کے انہیں اور ان کے معتمد رفقاءکو بھجوا کر ایک معقول متعینہ مدت کے اندر جواب و وضاحت کا تقاضا کریں، اگر وہ جواب نہ دیں یا ان کے جوابات تسلی بخش نہ ہوں تو اس کے بعد باضابطہ فتویٰ اگر ضروری ہو تو صادر کر دیا جائے۔
جبکہ اس سے ہٹ کر میرا یہ ذوق بھی ہے جس کی بنیاد تجربہ و مشاہدہ پر ہے کہ ماضی قریب میں انکار حدیث کے عنوان سے دو بڑی شخصیات سامنے آئیں اور پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے حلقہ کو متاثر کیا۔ ایک چودھری غلام احمد پرویز اور دوسرے ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم تھے۔ عملی تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ چودھری غلام احمد پرویز پر ملک بھر کے سرکردہ علماءکرام کے اتفاق سے کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا جس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے مگر اس سے ان کی واپسی کا دروازہ بند ہوگیا۔ جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے خلاف کوئی شخصی فتویٰ نہیں دیا گیا بلکہ ان کی کتابوں کا باقاعدہ جواب دیا گیا بالخصوص حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے برق صاحب کے حدیث نبوی پر اعتراضات اور تنقید کا مدلل رد کیا اور حجیت حدیث کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ اس کے ساتھ ہی اٹک کے حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ فاضل دیوبند نے برق صاحب کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور سالہا سال کی باہمی گفتگو کے بعد انہیں حجیت حدیث پر نہ صرف قائل کیا بلکہ ان سے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان کروایا اور ”تاریخ الحدیث“ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچہ بھی تحریر کروایا جو شائع ہو چکا ہے۔
حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ مجاز تھے اور خود بھی ایک مفسر قرآن اور روحانی شیخ کی حیثیت سے علماءکرام کی ایک بڑی تعداد کا مرجع تھے۔ ابھی چند روز قبل ۱۵ ۔اپریل کو باغبان پورہ لاہور کی مسجد امن میں ختم قرآن کریم کی ایک تقریب میں حضرت قاضی صاحبؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینیؒ اس طویل مکالمہ و مباحثہ کا تذکرہ کر رہے تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے درمیان چلتا رہا اور جس کے نتیجے میں برق صاحب مرحوم نے انکار حدیث سے رجوع کر کے حدیث نبوی کی حجیت و تاریخ پر کتابچہ لکھا اور شاید اسی وجہ سے پرویز صاحب کی طرح ملک میں برق صاحب کا کوئی حلقہ قائم نہ ہو سکا جبکہ پرویز صاحب کا حلقہ اب بھی قائم ہے اور مسلسل مصروف عمل ہے۔
چنانچہ میں ذاتی طور پر تو اس قسم کے کسی بھی معاملہ میں اس دوسرے راستے کو ترجیح دیتا ہوں لیکن عمومی مصلحت اور مفاد عامہ کی ضرورت کے تحت اہل علم کی طرف سے کسی فتویٰ کی ضرورت و اہمیت سے بھی مجھے انکار نہیں ہے بشرطیکہ وہ محض معترضین کی نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ متعلقہ شخصیت کو وضاحت کا موقع دے کر فتویٰ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تحقیق و تجزیہ کی بنیاد پر ہو۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ضروری نہیں کہ دیگر دوستوں کو بھی اس سے اتفاق ہو البتہ یہ ضرور توقع رکھتا ہوں کہ اس طالب علمانہ رائے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے گا۔