مسلم امت کا دور زوال علوم و فنون کا دور جمود ہے، زوال نے علوم و فنون کے ارتقاء کا سفر روک دیا، ماضی کے ذخیرے کی تشریح، توضیح، تعلیق، اختصار اور تلخیص علمی حلقوں کا مشغلہ بن گیا ہے، فقہ اسلامی علوم و فنون میں سب سے زیادہ زوال سے متاثر ہوئی، خاص طور پر ادارہ خلافت کے ٹوٹنے سے فقہ اسلامی کے وہ شعبے یکسر منجمد ہوگئے، جن کا تعلق مسلم امت کے اجتماعی امور سے ہے، ریاستی امور، عدالتی قضایا، اقتصادی معاملات، بین الااقوامی ایشوز اور معاشرتی نظم و نسق سب سے زیادہ جمود کا شکار ہوئے، اور افتاء و استفتاء عبادات اور عائلی معاملات میں منحصر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اور احیا کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ رفتار زمانہ کی تیزی اور نت نئی تبدیلیوں کے سیلا ب نے نوازل و حوادث کا پہاڑ کھڑا کیا، عبادات سے لے کر معاملات تک، انفرادی امور سے لے کر اجتماعی امور تک نئے مسائل کثیر تعداد میں پیدا ہوئے ہیں، جن کا حل نکالنا فقہ اسلامی کی روشنی میں وقت کی سب بڑی ضرورت بن گیا ہے۔ ان نوازل و حوادث کو اباحیت اور جمود سے بچتے ہوئے تیسیر اور احتیاط کی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کام کے لئے ایسے نبض شناس فقہا چاہئے ، جو ایک طرف ماضی کے ذخیرے پر مکمل عبور رکھتے ہوں،دوسری طرف حال کی تبدیلیوں اور تقاضوں کا کامل ادراک رکھتے ہوں ۔ ماضی سے انحراف یا حال سے اعراض پر مبنی کوششیں جمود یا اباحیت پر منتج ہو ں گی ۔
اس مقالے میں اس حساس اور اہم ترین موضوع پر بحث کی جائے گی اور جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے رہنما خطوط واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ مقالہ میں حسب ذیل سوالات زیر بحث لائے جائیں گے :
۱۔ جدید ریاست کیا ہے اور جدید ریاست سے جڑے تصورات شریعت سے کتنے ہم آہنگ ہیں؟
۲۔ فقہ اسلامی کا کون سا حصہ تشکیل ِجدید کا متقاضی ہے اور کس قسم کے مسائل و احکام میں تشکیل ِجدید وقت کی ضرورت ہے؟
۳۔ تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور اس کے اساسی مراحل کون سے ہیں ؟
۴۔ عالم اسلام میں فقہ اسلامی کی تشکیل ِجدید کیا کوششیں ہوئی ہیں اور ان کوششوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟
ان چار سوالات کو چار ابحاث میں بیان کیا جائے گا ۔
بحث اول : جدید ریاست اور اس کے اجزائے ترکیبی
فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے خدوخال طے کرنے سے پہلے جدیدریاست کے اجزائے ترکیبی اور اس کی اسلامائزیشن کا کام اہم ہے ، اگر ریاست غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑی ہوگی ،تو تجدید و احیا کے کام میں متنوع رکاوٹوں سمیت ایسے عناصر اثر انداز ہو سکتے ہیں ،جس کی وجہ سے تجدید کے حساس کام کا تحریف و تغیر میں تبدیل ہو نے کا امکان ہے ۔عالم اسلام میں وقتاً فوقتا ً تجدد پسندی کی اٹھنے والی لہروں کے پیچھے متنوع عوامل میں سے ایک یہ عامل بھی کارفرما ہے ۔اس مو قع پر ریاست کے جملہ اجزائے ترکیبی (یہاں اجزائے ترکیبی سے مراد وہ امور و ہ تصورات ہیں ،جو ریاست کے وجود ،تنظیم اور نظم و نسق سے متعلق ہیں ، ورنہ ٹھیٹھ سیاسی فلسفہ کی رو سے ریاست آبادی ،علاقہ ،حکومت اور اقتدار اعلی صرف چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے )سے بحث کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ان پہلووں پر بات کی جائے گی ،جو شرعی نقطہ نظر سے قابل غور ہیں ،اور اسلامی تعلیمات سے قطعی طور پر ٹکراتی ہیں یا شریعت کے مقاصد کلیہ سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔اس میں درجہ ذیل تصورات پر بحث ہوگی:
۱۔تصورریاست (concept of state )
۲۔سیکولرازم (secularism)
۳۔ اقتداراعلی (sovereignty) کاتصور
۴۔ تصورقومیت (concept of nationalism )
۵۔آزادی ومساوات (freedom and equality )
۶۔فلسفہ حقوق (philosophy of rights )
۱۔ تصور ریاست (concept of state )
جدید سیاسی فلسفے میں ریاست کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جدیدپولیٹکل سائنس میں ریاست کو مستقل بالذات عنصر مانا گیا ہے ،ریاست باقاعدہ ایک شخص قانونی ہوتا ہے ، اور یہ شخص قانونی عام افراد کی طرح حقوق و فرائض کا مخاطب ہوتا ہے ،ریاست معاشرے ،حکومت اور قوم سے الگ تھلگ وجود رکھتا ہے، سارے افعال ریاست کی طرف منسوب ہوتے ہیں ،جو ریاست کی نیابت میں حکومت سر انجام دیتی ہے۔ 1
ریاست کا یہ تصور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانچنے کی ضرورت ہے ،کیا فقہ السیاسہ کی روشنی میں یہ تصور درست ہے؟اس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے ، فقہ اسلامی میں خلیفہ و امام کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور خلیفہ و ا مام کو ہی احکام کا مخاطب بنایا گیا ہے ، دار کی اصطلاح بھی آئی ہے ،جسے ہم کسی نہ کسی درجے میں ریاست کے قریب قریب مفہوم دے سکتے ہیں ،لیکن اس کی نوعیت بھی امام وسلطان اور رہنے والے افراد کے بدلنے سے بد ل جاتی ہے ،دار الاسلام ،دار الکفر،دار الامن اور دار الحرب وغیرہ،ان سب اصطلاحات کا مدار عوام اور حکمرانوں پر ہے ،یہی وجہ ہے کہ دار الاسلام دار الکفر میں بد ل سکتا ہے اور اس کے برعکس بھی ،اس لئے دار کی اصطلاح کو کلی طور پر جدید تصورِ ریاست کے ہم معنی قرار دینا مشکل ہے۔
یہ بات باعثِ تعجب ہے کہ جدید مسلم مفکرین کے ہاں جدید تصور ریاست اور اسلام کے تصور ریاست پر کوئی تفصیلی بحث نہیں ملتی ،بلکہ اسلامی ریاست پر لکھنے والوں کا مرکز توجہ نظام حکومت ہے ،البتہ مو لانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے اسلام کی رو سے ریاست و حکومت کا حسب ذیل الفاظ میں فرق بیان کیا ہے:
’’خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کے لئے استعما ل ہوئی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے ،جو خلافت کے اداروں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘ 2
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا بیان کردہ فرق محلِ نظر ہے ۔خلافت و امامت کی اصطلاحات مترادف ہیں۔ابن خلدون مقدمہ میں لکھتے ہیں:
واذ قد بینا حقیقہ ھذا المنصب وانہ نیابۃ عن صاحب الشریعہ فی حفظ الدین وسیاسۃ الدنیا بہ تسمی خلافۃ و امامۃ والقائم بہ خلیفہ و امام۔ 3
ترجمہ: جب ہم اس منصب کی حقیقت بیان کر چکے اور اس بات کا بیان بھی ہوچکا کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیاوی امور کی تدبیر میں شارع کی نیا بت کانام ہے ، تو اسے امامت و خلافت کہتے ہیں اور اس کو قائم کرنے والا خلیفہ و امام کہلاتا ہے۔
جب جدید مسلم سیاسی فکر میں جدید ریاست کی ماہیت پر بحث نہیں ملتی تو اس کی مختلف تشریحات اور انواع پر بحث کجا ملے گی؟،جدید سیاسی فلسفے کی رو سے ریاست کی مختلف نقطہ ہائے نظر سے متنوع تشریحات ہیں مثلا liberal-pluralist state (لبرل تکثیری ریاست ) social-democratic state (سماجی جمہوری ریاست ) Marxist analysis (ریاست کا مارکسی تجزیہ ) feminist analysis (ریاست کا تانیثی تجزیہ) self-serving state (خود مکتفی ریاست) وغیرہ 4، ان تمام تشریحات سے ریاست کی متنوع اقسام بنتی ہیں،اس لئے جدید ریاست کا گہرا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جدید ریاست اپنی ماہیت اور جدید تشریحات کے اعتبار سے اسلامی بن بھی سکتی ہے یا نہیں؟ اور اسے اسلامی فقہی تصورات سے ہم آہنگ کرنا کیا ممکن ہے؟
۲۔ سیکولرازم (secularism)
سیکولرازم جدید ریاست کے مفہوم کا لازمی جزو ہے، یہ اصطلاح انیسویں صدی میں جارج ہالی اوک(George Jacob holyoake) نے وضع کی تھی5، سیکولرازم ریاست سے مذہب کی بے دخلی کا نام ہے ،اجتماعی امور سے مذہب کو نکال کر اسے محض ایک پرائیویٹ معاملہ بنانے کی تحریک ہے ،سماج سے مذہبی علامات ،تعلیمات اور شعائر کو الگ کر کے اسے خالص دنیاوی رنگ دینے کانام ہے ،انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں سیکولرازم کی درجہ ذیل تشریح کی گئی ہے:
A movement in society directed away from other worldliness to life on earth. 6
ترجمہ :سماج میں اخرویت سے رخ پھیر کر دنیویت پر توجہ دینے کی تحریک۔
عام طور پر اس کی شناعت کم کرنے کے لئے اسے مذہب کے بارے میں ریاست کی غیر جانبداری سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن یہ درحقیقت الفاظ کا ہیر پھیر ہے ،ریاست کا مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہونا دراصل مذہب کو ریاستی امور سے نکالنے کا نام ہے ۔ سیکولرازم معاصر فقہا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ آج نئے روپ اور نئی تعیبرات کے ساتھ سیکولر فکر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہے ،خصوصا مسلم ممالک میں چلنے والی خارجیت و عسکریت کی حالیہ لہروں کے جواب میں بعض مسلم مفکرین7 کی جانب سے جو بیانیہ (narrative)سامنے آیا ہے ،وہ انجام ِکار کے اعتبار سے سیکولرازم کی ایک" اسلامی توجیہ" ہے ،اس کے علاوہ مسلم سماج میں ایسے دانشور اور صحافی موجود ہیں8 ، جو اپنے آ پ کو علانیہ سیکولرازم کا علمبردار کہتے ہیں اور باعثِ تعجب یہ کہ اسے اسلامی تعلیمات کے منافی بھی نہیں سمجھتے ،حالانکہ اسلامی تعلیمات میں اجتماعی و انفرادی امور کی اس اعتبار سے کوئی تقسیم نہیں ہے ،کہ سماجی امور اور ریاستی معاملات الہی اوامر و نواہی سے آزاد ہوں گے،بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد کی زندگی کی تشکیل کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور اسے احکام و فرائض کا پابند بناتا ہے ۔
۳۔ اقتدار اعلی ( sovereignty) کاتصور
جدید سیاسی فلسفہ میں اقتدا راعلی کا تصور کلیدی اہمیت رکھتا ہے ، حکومت کی مختلف اقسام اور ایک ریاست میں مختلف سپریم ادارے اقتدار اعلی کے تصور میں تنوع کا نتیجہ ہے ،اندورنی (internal) و بیرونی (external) اقتدار اعلی ہو یا آئینی (legal) اور سیاسی (political) اقتدار اعلی ، فوری (immediate) اور حتمی (ultimate) اقتدار اعلی ہو ،یا عمومی (popular)، قا نونی (jure) اور حقیقی (actual) اقتدار اعلی ہو،9 ان تمام اقسام نے متعدد سوالات کھڑے کئے ہیں ،ان سوالات کا فقہ السیاسہ کی روشنی میں جائزہ لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ،یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ جدید سیاسی فلسفوں کے برعکس اسلامی تعلیمات کی رو سے مقتدر اعلی صر ف اور صرف اللہ کی ذات اور اللہ و رسول کے دئیے ہوئے احکامات ہیں ،جسے دین اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن اس دین کو نافذ کرنے کے لئے کس قسم کے مقتدر اعلی کی ضرورت ہے جو حقیقی مقتدر اعلی کے تابع ہوکر سپریم اتھار ٹی کی حیثیت رکھتا ہو؟ وہ مقتدر اعلی خلیفہ و امام ہوتا ہے یا اہل حل و عقد، خواص ہوتے ہیں یا عوام؟ اگرچہ قدیم فقہی تصور کے مطابق خلیفہ و امام سپریم اتھارٹی ہے ، کیا جدید دور میں یہ تصور قابلِ عمل ہے؟ جدید اسلامی ریاست میں ایک ہی شخص اور ادارے میں اختیارات مرتکز کرنا زیادہ مفید ہوگا یا جدید تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اختیارات کی تقسیم مقاصدِ شریعت سے زیادہ ہم آہنگ ہوگا؟ مسلم مفکرین نے اقتدار اعلی کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے عموماً حتمی و حقیقی اقتدار اعلی پر بحث کی ہے،اور اقتدار اعلی کے جدید تصور کو بیک جنبشِ قلم اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے ،حالانکہ اس تصور کی تحلیل اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
۴۔تصور قومیت
قومیت جدید سیاسی فلسفہ کا وہ نظریہ ہے ،جس سے عالم اسلام سب سے زیادہ متاثر ہوا ،برصغیر میں "قوم وطن سے بنتی ہے یا مذہب سے "کے سوال پر لمبا عرصہ تک بحث مباحثہ ہوتا رہا ،متحدہ قومیت اور اسلامی قومیت کے دو الگ الگ نعرے ایجاد ہوئے ،اس کے علاوہ عالم عرب میں عرب نیشنلزم کی لہر چلی ،جس سے خلافت کا ادارہ ٹو ٹ پوٹ کا شکار ہوا ،نیزمصر وعراق میں قدیم تہذیبوں کے احیا کی صداوں کے پیچھےبھی یہی تصور کارفرما تھا ،بلکہ خود یورپ اس تصور سے شدید متاثر ہوا ،بیسیویں صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے بھی قومیت کا عنصر شامل تھا ،فلسفہ سیاسیات کے معاصر برطانوی مصنف Andrew Heywood لکھتے ہیں :
Nationalism was therefore a powerful factor leading to war in both 1914 and 1939. 10
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جدید ریاستیں سب کے سب قومی ریاست (nation –state ) کے تصور پر کھڑی ہیں ،اور nationalism ایک تسلیم شدہ نظریہ بن گیا ہے ۔
اسلامی حوالے سے لفظ قوم مختلف معانی و مفاہیم رکھتا ہے ،ڈاکٹر مستفیض علوی صاحب نے ایک مضمون میں قرآن پاک میں لفظ قوم کے مختلف استعمالات جمع کئے ہیں ،ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
"کتاب الہی میں اس کاذکر درجہ ذیل حوالوں سے آیا ہے :
۱۔کسی خاص طرز فکر و عمل رکھنے والے گروہ کے لیے جیسے ان فی ذلک لایات لقوم یومنون 11
۲۔کسی نبی کی امت اور کسی بادشاہ کی رعایا کے لئے جیسے من بعد قوم نوح 12، من قوم فرعون 13، اتذر موسی و قومہ14
۳۔کسی خاص علاقے میں رہنے والے گروہ کے لئے جیسے قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط 15
۴۔کسی خاص نسلی اور نظریاتی پس منظر ،توارث اور تشخص کے حامل گروہ کے لئے قوم کے ساتھ ملت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،جیسے انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون 16، ملۃ ابیکم ابراہیم 17
۵۔کسی عقیدے اور مسلک کے حامل گروہ کے لئے قوم کے ساتھ امت کا لفظ بھی ساتھ آیا ہے ،جیسے ومن قوم موسی امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون 18
تاہم امت کا لفظ ایک مقدس فریضہ حیات کے ضمن میں استعمال کیا گیا ہے ،جیسے کنتم خیر امۃ 19، ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر 20
معلوم یہ ہوا کہ قرآن نے قوم کا لفظ یا تو ایسے انسانی گروہ کے لئے استعمال کیا ہے :
۱۔ جو ایک خاص نقطہ نظر کا حامل ہو اور ایک خاص تہذیب یا کلچر رکھتا ہو ۔
۲۔ ایسی اجتماعیت کے لیے جو ایک دستور اور اقتدار و حکومت کے تحت ہو ،
۳۔ یا ایسی جامعت انسانی کے لئے جو خاص علاقوے میں رہائش پذیر ہو ۔
اس کے ساتھ کسی ایسی قوم کے لئے جو ایک خاص نسلی توارث اور نظریاتی تشخص کی حامل ہو ،قرآن نے ملت کا لفظ استعمال کیا ہے اور ایسی ملت کو جو ایک اپنے سامنے ایک فریضہ اور نظریاتی مقصدیت رکھتی ہو ، امت کے لفظ سے یاد کیا ہے۔" 21
ڈاکٹر صاحب کی اس وقیع عبارت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے قوم کی بجائے ملت اور امت کا لفظ استعما ل کرنا قرآنی تعبیرات سے ہم آہنگ ہے ،اس لئے اسلامی قومیت کا نعرہ قرآنی تعبیرات کی رو سے محل نظر ہے۔
البتہ کسی خاص نسل ،زبان یا کلچر کے اشتراک کی بنیاد پر ریاست بنانا اسلامی اصولوں سے میل نہیں کھاتا ،مسلم سیاسی فقہ میں ریاستوں کی تقسیم نظریات کی بنیاد پر ہوئی ہے جیسے دار الاسلام ،دالحرب وغیرہ کے تصورات ،اس لئے (nation-state)کے تصور پر از سر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
۵۔ آزادی و مساوات (freedom and equality )
آزادی و مساوات جدید سیاسی فلسفے کے لازمی اجزا ہیں ،پولیٹکل سائنس کی چھوٹی کتاب سے لیکر بڑی کتب تک اور بنیادی ماخذ سے لیکر ثانوی ماخذ تک سب میں آزادی و مساوات پر بحث ملتی ہے ، معروف برطانوی مفکر برلن آزادی کے متعلق لکھتے ہیں:
The area within which a man can act unobstructed by others. 22
یعنی آزادی سے مراد ایسا دائرہ جس میں ایک فرد دوسروں کی مداخلت سے مکمل طور پر آزاد ہو کر اپنے اعمال سر انجام دے سکے ، کسی بھی دوسری طاقت کو اسے روکنے کا اختیار نہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان جب خارجی مداخلت سے مکمل آزاد ہوگا تو اپنے اعمال کا انتخاب بھی خود کرے گا ،یوں خیر و شر طے کرنے کا پیمانہ اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور ہر آدمی خیر و شر خود تخلیق کرے گا ۔آزادی کے اس تصور سے خیر و شر کے جملہ خارجی معیارات بشمول مذہب کے لایعنی ہوگئے ۔
اسی طرح مساوات کے بارے میں political ideas and movements کے مصنفین لکھتے ہیں :
whatever the actual circumstancesall human beings are ‘equal’ by virtue of being human. 23
یعنی اصل حالات جو کچھ بھی ہوں، تمام انسان بحیثیت انسان ہونے کے مساوی ہیں،گویا انسان کے جملہ وجوہِ تعارف اور نظریات و عقائد سے صرف ِنظر کرتے ہوئے سب انسان برابر ہونگے،حالانکہ روئے زمین پر عقائد ،خیالات،نظریات اور میلانات و رجحانات سے مجرد کوئی انسان موجود نہیں ہے ،انسان ہمیشہ شناخت اور مخصوصی ذہنی میلانات کے سانچے میں ہوتا ہے خواہ وہ جو بھی ہوں۔
آزادی ومساوات کا مذکورہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے مکمل منافی ہے۔ اسلام انسان کے بارے میں آزادی کی بجائے عبدیت اور نیابت الہی کا تصور رکھتا ہے ،جبکہ مساوات کی بجائے انسانوں میں فرق ِمراتب کا قائل ہے ،مومن کافر ،برا اچھا ،عالم جاہل وغیرہ مراتب میں تقسیم کر کے ہر ایک کو الگ خانے میں رکھ کر اس پر حکم لگاتا ہے ۔اس لئے جدید ریاست تشکیل دیتے وقت مغربی ساسی فلسفہ کے تصور آزادی و تصور مساوات کا محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
۶۔فلسفہ حقوق (Philosophy of rights)
جدید سیاسی فلسفے میں حقوق کا نظریہ بنیادی فلسفہ ہے ،حقوق کا پورا پیراڈائم جدیدیت (modernism) کا تشکیل کردہ ہے ،جس میں عقلی بنیادوں پر انسانوں کے حقوق طے کئے گئے ہیں ،ان میں بعض بنیادی حقوق ہیں ،جسے جدید سیاسی فلسفے میں انسانی حقوق human rights یا فطری حقوق natural rights کا نام دیا گیا ہے ،اور باقی ثانوی حقوق ہیں ، جیسے تعلیم کا حق،آزادی اظہار رائے کا حق،سماجی حقوق،قانونی حقوق وغیرہ 24 ان میں خاص طور پر ا نسانی حقوق عہدِ جدید کا مقدس عقیدہ ہے ،انسانی حقوق کی یہ عمارت مذہب کے ملبے پر تعمیر کی گئی ہے ،معروف برطانوی ماہر سیاسیات andrew heywood لکھتے ہیں :
By the twentieth century, the decline of religious belief had led to the secularization of natural rights theories, which were reborn in the form of ‘human’ rights. Human rights are rights to which people are entitled by virtue of being human. 25
اسلامی بنیادوں پر جدید ریاست تشکیل کرتے وقت فلسفہ حقوق کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے ، خاص طور پرفلسفہ حقوق کا پس منظر گہرے مطالعے کا متقاضی ہے ،بعض مسلم مفکرین نے انسانی حقوق کو اسلامی اصطلاح حقوق العباد کے مترادف مانا ہے ، جسے مغالطہ کہا جاسکتا ہے 26، اس مغالطے کی تفصیل مغربی فلسفے کے معروف ناقد ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کی زیر نگرانی مرتب شدہ کتاب" سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ "میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
جدید ریاست اور مسلم مفکرین
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول میں مسلم مفکرین کا مرغوب موضوع ریاست و سیاست کے مباحث تھے ،لیکن ان تمام مباحثوں میں بنیادی طور پر دو نکات پر زیادہ زور تھا :
۱۔ اسلا م میں سیاست و ریاست کا مقام و مرتبہ
۲۔اسلامی نظام خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ ومحاکمہ
پہلے نکتے سے ریاست مقصود ہے یا موعود ، عبادات مقصود ہیں یا حاکمیت الہی پر مشتمل ریاست کے قیام کے لئے وسیلہ وغیرہ جیسی بحثوں نے جنم لیا ، بعض مسلم مفکرین 27 نے تو سرے سے ہی اسلام کے نام پر سیاست اور اسلامی ریاست کا انکار کر دیا اور بعض 28 نے اسلامی ریاست کا صور کچھ اس زور سے پھونکا کہ اسے اسلامی تعلیمات کا مقصود اعظم قرار دیا ،جبکہ دوسرے نکتے نے جمہوریت سراسر کفر ہے یا اس کی اسلامائزیشن ممکن ہے،جیسی ابحاث کو جنم دیا ،اور آج بھی ان آوازوں کی گونج وقتا فوقتا سنائی دیتی ہے ۔اسے مسلم دنیا کا المیہ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی سیاسی فلسفے سے جڑئے دیگر اہم تصورات ان ابحاث کے بوجھ تلے دبے رہے اور ان پر وہ بحثیں نہ ہوسکیں ،جو جدید دور میں مسلمانوں کا سیاسی رخ متعین کرنے کے لئے بے حدضروری تھیں ،آج عالم اسلام میں سیاسی حوالے سے افراط و تفریط اسی اغماض کا نتیجہ ہے ،کہ مسلم دنیا میں ایک طرف خارجیت کی فکر زور پکڑ رہی ہے ،جس نے اسلامی ممالک میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ، دوسری طرف سیکولرازم و لبرلزم کی فکری لہر نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑ ا ہوا ہے اور باقاعدہ اپنے آپ کو لبرل و سیکولر کہلوانے والے گروہ پیدا ہوگئے ہیں ،جو جدید مغربی سیاسی فلسفے کے سامنے سر ِتسلیم خم ہیں ،اس لئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید سے پہلے جدید اسلامی ریاست کے خدوخال واضح کرنے کی ضرورت ہے اور مغربی سیاسی فلسفے کے فکری اور انتظامی اجزا الگ الگ کر کے خذ ما صفا و دع ما کدر پر عمل کرنا چاہئے اور مغرب سے در آمد شدہ پورے سیاسی ڈھانچےاور جدید سیاسی تصورات کا محاکمہ کرکے اس پر حکم لگانا چاہئے۔
حواشی
1. Andrew, hywood,political theory an introduction (new york 2004) P.75
2. اصلاحی ،امین احسن،اسلامی ریاست ، ص ۱۶،دارالتذکیرلاہور ۲۰۰۴
3. ابن خلدون ،عبد الرحمن ،تاریخ ابن خلدون ج۱،ص،۲۳۹،دار الفکر ۲۰۰۱
4. Kevin,Harrison and tony, boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.19
5. فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ،ص ،۷۱،کتاب محل لاہور
6. بحوالہ ،فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ، ص ۱۹
7. جاوید احمد غامدی صاحب کے حالیہ بیانیے کی طرف اشارہ ہے
8. سوشل میڈیا پر سینئر صحافی وجاہت مسعود صاحب کی زیر سرپرستی چلنے والا گروپ ہم سب مراد ہے
9. Heywood andrew ,political theory an introduction(new yark 2004) P .90,97
10. .heywood Andrew , political ideologies an introduction (3rd edition) P.127
11. الزمر:۵۲
12. الاعراف:۶۹
13. الاعراف:۱۲۷
14. الاعراف:۱۲۷
15. ھود:۷۰
16. یوسف:۳۷
17. الحج:۷۸
18. الاعراف:۱۵۹
19. آل عمران:۱۱۰
20. آل عمران:۱۰۴
21. علوی مستفیض ،ڈاکٹر،رائج الوقت سیاسی افکار کا تجزیہ ،فکر و نظر،شمارہ ۴،جلد ۴۵ ص ۷۰،۷۱
22. Belin, Isaiah ,tow concepts of liberty (oxford university press) P.3
23. Kevin,Harrison and tony , boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.119
24. Heywood , andrew ,political theory an introduction (new York 2004) P.185
25. Heywood,Andrew ,political theory an introduction (new york 2004) P.188
26. مودوی ،ابو الاعلی ،اسلامی ریاست ، ص ۵۷۰،اسلامک پبلیکیشنز ۲۰۰۰
27. جیسے مولانا وحید الدین خان صاحب
28. مولانا مودودی صاحب مراد ہیں
(جاری)