پرانے رفقاء میں سے کسی بزرگ یا دوست کی وفات ہوتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ جنازہ یا تعزیت کے لیے خود حاضری دوں اور معمولات کے دائرے میں ایک حد تک اس کی کوشش بھی کرتا ہوں مگر متنوع مصروفیات کے ہجوم میں صحت و عمر کے تقاضوں کے باعث ایسا کرنا عام طور پر بس میں نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں چند انتہائی محترم بزرگ اور دوست جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا شفیق الرحمانؒ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے، ایبٹ آباد میں کیہال کے مقام پر مکی مسجد اور مدرسہ انوار العلوم میں مدت العمر تدریس و اہتمام کی خدمات سرانجام دیتے رہے، شہر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب تھے اور خطیبِ ہزارہ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان کے شاگرد تھے اور ان کی طرز پر ایک عرصہ تک ہر سال علماء و طلبہ کو دورہ تفسیر قرآن کریم پڑھاتے رہے اور جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ مختلف دینی جماعتوں اور تحریکات میں سرپرستی کے ساتھ متحرک عملی کردار ادا کرتے رہے۔ مجھے ان کی ہمیشہ سرپرستی اور شفقت حاصل رہی بلکہ ان کے ساتھ رشتہ داری بھی تھی کہ ان کے فرزند مولانا انیس الرحمان قریشی میرے خالو محترم مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی آف میر پور آزاد کشمیر کے داماد ہیں۔
مولانا عبد الوارث چنیوٹ کے بزرگ عالم دین تھے، دارالعلوم مدنیہ کے مہتمم اور بے باک خطیب تھے، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کے سرگرم رفیق کار اور دست و بازو رہے، جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، دینی حمیت کے پیکر تھے اور مختلف دینی تحریکات میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا مرحوم میرے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا تعلق رکھتے تھے اور جماعتی و تحریکی امور میں ہماری ہر دور میں رفاقت رہی۔ ان کے شاگرد اور خوشہ چین علماء و طلبہ کی بڑی تعداد دینی کاموں میں مصروف ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
مولانا رشید احمد لدھیانوی جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر رہے، لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق تھا جو جرات و عزیمت کے حوالہ سے برصغیر کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ استقامت اور حق گوئی میں اپنے خاندان کی روایات کے امین تھے اور دینی تحریکات میں ہمیشہ سرگرم رہتے تھے۔ رحیم یار خان میں ان کے ہاں متعدد بار حاضری ہوئی اور جماعتی مجالس اور پروگراموں میں وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی تھی بلکہ دو سال قبل دیوبند کی شیخ الہند کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر پاکستان سے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں علماء کا جو قافلہ گیا اس میں ہم دونوں شریک تھے اور لدھیانہ میں ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بعض بزرگوں سے ملاقات میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہے۔
مولانا احمد سعید ہزاروی گوجرانوالہ کے بزرگ علماء میں سے تھے جو پرانے دور کے علماء کرام کی آخری نشانی کے طور پر باقی رہ گئے تھے۔ ۱۹۶۲ء میں صدر ایوب خان مرحوم کے مارشل لاء کے خاتمہ پر جب جمعیۃ علماء اسلام دوبارہ متحرک ہوئی تو ضلع گوجرانوالہ میں اسے منظم کرنے میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد کے ساتھ مولانا احمد سعید ہزاروی کا کردار نمایاں تھا۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو جمعیۃ علماء اسلام کا ضلعی امیر منتخب کیا گیا تو ان کے ساتھ مولانا احمد سعید ہزاروی ضلعی سیکرٹری جنرل تھے اور کم و بیش ربع صدی تک دونوں بزرگوں کی یہ عملی رفاقت قائم رہی۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدین کے تلامذہ میں سے تھے اور شہر کے محلہ آبادی حاکم رائے کی ایک مسجد کے خطیب و امام تھے۔ ساری زندگی وہیں گزار دی اور دینی خدمات میں مصروف رہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد کے معتمد ترین ساتھی تھے حتیٰ کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے چھوٹے سے ذاتی کارخانے کا نظم بھی سنبھالتے تھے، حق گو اور جرات مند خطیب تھے، دینی تحریکات اور جماعتی کاموں میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔
مولانا سید غلام کبریا شاہ بھی اسی قافلہ کے ایک فرد تھے۔ وہ میرے ابتدائی شاگردوں میں سے تھے، میں نے ۱۹۷۰ء کے دوران مدرسہ انوار العلوم ملحقہ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا تو اس دور میں انہوں نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں بالخصوص علم الصیغہ مجھ سے پڑھا۔ اس دور کی بعض یادوں کا وہ اکثر تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام میں کچھ عرصہ متحرک رہے پھر شہید عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی کی رفاقت کے دائرہ میں شامل ہوگئے اور آخر وقت تک پوری استقامت اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اسی دائرہ میں رہے۔ ایک دور میں سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر بھی رہے۔ ضلعی انتظامیہ کے سامنے مسلکی اور جماعتی موقف اور معاملات کی جرات و بے باکی کے ساتھ ترجمانی کرتے تھے اور حکومتی دائروں میں ضلعی سطح پر ہماری نمائندگی کرنے والے چند متحرک اور حوصلہ مند ساتھیوں میں سے تھے۔ گوجرانوالہ کے قریب مرالی والا میں مسجد و مدرسہ بنا کر علاقہ کے لوگوں کی دینی و تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ایسے بے لوث، باشعور، سادہ اور ایثار پیشہ رفقاء اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ سب بزرگ اپنا اپنا وقت پورا کر کے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں اور یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہ چند دوست ہی ہم سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ بہت سی قدریں اور روایات بھی نگاہوں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک پرانے دوست نے حال پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی اردگرد ہجوم تو بڑھ رہا ہے مگر اسی حساب سے تنہائی بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ جن دوستوں، ماحول اور روایات و اقدار میں ہم نے زندگی گزاری ہے وہ قصہ ماضی بن گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان و متعلقین کو ان کی اچھی روایات جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔