حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ولادت4/شوال 1114ہجری، وفات 29/محرم 1176 ہجری) کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے اصلاح وتجدید کا مشعل روشن کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے دل میں ایمان وعمل کی نئی جوت جگائی۔ جب سلطنت مغلیہ کا آفتاب لب بام تھااور مسلمانوں کی پستی وانحطاط نوشتہ دیوار نظرآرہی تھی، ایسے نازک حالات میںآپ نے برصغیر کے مسلمانوں کومایوسی کے اندھیارے میں امید کی نئی کرن دکھائی اور یہاں کے مسلمانو ں کو قرآن وحدیث کے آب حیات وچشمہ زلال سے سیراب کیا ۔ جن اختلافی مسائل پر معرکے گرم تھے،ان میں عالمانہ اورغیرجانبدارانہ نقطہ نظرپیش کیا،فقہی تنگ نظری کو ختم کرکے تمام ائمہ فقہ کے احترام کی دعوت دی اوراپنے مسلک پر تنقیدی نگاہ ڈالنے اورمخالف کے نقطہ نظر پر غیرجانبداری سے غور کرنے کی تاکید کی۔
تنقیدی نگاہ کی ضرورت
یہ حقیقت ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار وخیالات پر کام ہواہے،ان کی شخصیت پر کام ہواہے، ان کی تعریف وتوصیف پر مشتمل کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کے قرآنی،حدیثی اورفقہی خیالات کو نقل کیاگیاہے ؛لیکن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار وآراء پر تنقیدی نظربہت کم کسی نے ڈالی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہندوستان برصغیرکی ان گنی چنی شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے پچھلوں کے افکار وخیالات پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے، روش عام کو قبول نہ کرکے اپنانیاراستہ نکالاہے،علم وتحقیق کی وادی میں آبلہ پائی کی ہے اور نشاندہی کی ہے کہ کس نے موتیوں سے دامن بھرے اورکس کے حصے میں خرف ریزے آئے۔ حضرت محدث دہلوی نے اہل علم کے لیے اجتہاد کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اس کو ضروری قراردیتے ہوئے پچھلوں کے افکار وخیالات کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ترغیب دی ہے اورکسی حدتک اس پر خود بھی عمل کیاہے۔(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اس طرزعمل کی روشنی میں ہمارے لئے بھی ضروری ہوجاتاہے کہ ہم بھی ان کے افکار وخیالات کو علم وتحقیق کی میزان پر تولیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کا مقام بڑااوربلند ہے؛لیکن جب حضرت شاہ ولی اللہ اپنے سے بڑوں لوگوں کے افکار وخیالات پر علم وتحقیق کی روشنی میں تنقید کرسکتے ہیں تو یہ حق ان کے چھوٹوں کوبھی ملناچاہیے کہ وہ بھی اپنے علم وتحقیق کی روشنی میں ان کے افکار وخیالات کاجائزہ لیں؛کیونکہ تنقید اورتحقیق سے ہی کاروان علم رواں دواں ہے او رآسمان علم میں فکرونظر کے اختلاف اوراختلاف آرا کی ضیاپاشیوں سے ہی اجالاہے،مختصر
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
تنقید اورتحقیق سے ہی پچھلوں کی غلطیاں سامنے آتی ہیں اور اگلوں کے لیے محفوظ سفر کا راستہ تیار ہوتاہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس شخصیت پر ہم قلم اٹھائیں، اس کا پورااحترام کریں، تنقید ہو،تنقیص نہ ہو،اپنی بات سلیقے سے کہی جائے، کہیں سے بھی ایسانہ لگے کہ مضمون نگار یا محقق نے زیر بحث شخصیت کے وقار کے خلاف کوئی بات کہی ہے،اگرکسی انتہائی غلط بات پر سخت الفاظ میں تنقید بھی کرنی ہو توبھی مناسب تعبیر کا خیال ضروری ہے کیونکہ بقول کلیم عاجزمرحوم
بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
اہل الرائے اوراہل الحدیث کا تعین
فقہی اختلاف اورتاریخ وتراجم پر لکھی گئی کسی بھی کتاب کو اٹھاکردیکھئے،اس میں دوطبقے ضرور ملیں گے، اہل الحدیث اوراہل الرائے، چاہے مسلک کا ذکر ہو ، یاشخصیات کا ،ہرجگہ آپ یہ لکھاپائیں گے کہ فلاں اہل حدیث میں سے تھا اورفلاں اہل الرائے میں سے تھا۔
رہایہ امر کہ اہل حدیث کون ہے اور اہل الرائے کون ہے؟ یہ بحث جتنی اہم تھی،عمومی طورپر اس سے اتنی ہی غفلت برتی گئی ہے اوراس کو اتنی ہی بے توجہی کے ساتھ نظراندازکیاگیاہے۔ ماضی کے بیشتر علماء اورمورخین نے عمومی طور پر اس بھاری پتھرکواٹھانے کے بجائے محض چوم کر چھوڑدیاہے اور اہل الرائے اوراہل الحدیث کی تقسیم اورمعیار کے ضمن میں کوئی فیصلہ کن بات کہنے سے قاصر رہے۔
دکتور عبدالمجید اس ضمن میں لکھتے ہیں:
واذا استثنینا قلیلا من المحققین الذین وقفوا عند ھذہ العبارۃ محاولین الرجوع بھا الی اصل اطلاقھا ومسمی اھلھا فان الکثرۃ الغالبۃ من المورخین کانوا یذکرونھا نقلا عمن سبقھم وتقلیدا لھم دون عنایۃ بمعرفۃ حقیقۃ ھذا الاطلاق ودون ادراک لعامل الزمن فی تطویرہ لھذا المصطلح بما یجعل اطلاقہ غیر متساو تماما فی عصرین مختلفین (الاتجاہات الفقہیۃ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الہجری، الناشر: مکتبۃ الخانجی، مصر. 1399 ھ ۔ 1979 م)
’’اوراگرہم ان تھوڑے سے محققین کو مستثنیٰ کردیں جنہوں نے اس عبارت پر ٹھہر کر غوروفکر کیا اور اس کے اطلاق کی اصل تک پہنچنے کی کوشش کی اور اس کے مصداق کو معلوم کرنے کی جدوجہد کی تو اکثریت ایسے مورخین کی ہے جواسے اپنے سے ماقبل کے مورخین سے ان کی تقلید کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں، نہ وہ اس لفظ کے اطلاق کی معرفت رکھتے ہیں نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس لفظ میں زمانی اعتبار سے کیاتبدیلیاں اور تغیرات واقع ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دو مختلف زمانوں میں اس کا اطلاق ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو جاتا ہے۔‘‘
الملل والنحل کے مولف عبدالکریم الشہرستانی(متوفی548)نے سیدھی سادھی تقسیم یہ کی ہے کہ جو حجازی ہے، وہ اہل حدیث ہے اور جوعراقی ہے، وہ اہل الرائے ہے:
ثم المجتھدون من ائمۃ الامۃ محصورون فی صنفین لا یعدوان الی ثالث: اصحاب الحدیث، واصحاب الرای۔ اصحاب الحدیث: وھم اھل الحجاز133133 اصحاب الرای: وھم اھل العراق (الملل والنحل، مؤسسۃ الحلبی، 2/12)
’’اس امت کے مجتہدین کی دوقسم ہے، تیسری قسم نہیں ہے، اصحاب الحدیث اوراصحاب الرائے۔ اصحاب الحدیث، وہ حجاز والے ہیں اور اصحاب الرائے، وہ عراق والے ہیں۔
ان کی یہ رائے بتاتی ہے کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کااختلاف فکر ونظر کا نہیں، بلکہ مقام کا اختلاف ہے۔ جو حجاز کا ہوگا، وہ اہل الحدیث ،اورجو عراق(بغداد)سے ہے ، وہ اہل الرائے۔ یہ رائے بالبداہت غلط ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل اوربہت سے محدثین کا تعلق کوفہ، بصرہ اوربغداد سے ہے، لیکن وہ اہل الرائے قطعاًنہیں ہیں اورامام ربیعہ مدینہ کے ہیں، لیکن وہ ربیعۃ الرائے کے نام سے مشہور ہیں۔
بعض دیگر مصنفین جیسے ابن خلدون ودیگر نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تقسیم اس طورپر کی کہ حنفی اہل الرائے ہیں اور بقیہ مالکی، حنبلی اور شافعی اہل الحدیث ہیں ،ابن خلدون لکھتے ہیں:
’’اور فقہ ان دوحصوں میں بٹ گیا،ایک طریقہ تو اہل الرائے والقیاس کا تھا جو اہل عراق تھے اورایک طریقہ اہل حدیث کا تھا،جو حجازی تھے۔ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں کہ عراقیوں کے پاس حدیث کا ذخیرہ کم تھا، اس لئے انہوں نے کثرت سے قیاس کیے اوراس میں خوب ماہر ہوگئے ،اس لیے انہیں اہل الرائے کہاجانے لگا۔ اہل الرائے میں سب سے پیش پیش ابوحنیفہ ہیں،جن کا اورجن کے شاگردوں کا ایک مستقل مذہب ہے، اور حجازیوں کے امام مالک بن انس اوران کے بعد امام شافعی ہیں۔ علماء کی ایک جماعت نے قیاس کو نہیں مانا اور قیاس پر عمل کو غلط ٹھہرایا،یہ فرقہ ظاہریہ کاہے۔‘‘ (مقدمہ تاریخ ابن خلدون،2/283،ترجمہ مولاناراغب رحمانی،ناشرنفیس اکیڈمی،اردو بازار کراچی،طبع یازدہم 2001)
ابن خلدون اور اس تقسیم کے حامیوں نے یہ سوال تشنہ چھوڑدیاکہ شوافع ،حنابلہ اورمالکیہ اہل حدیث کیوں ہیں اور حنفیہ اہل الرائے کیوں ہیں؟ بعض مصنفین بشمول شہرستانی وغیرہ نے اس سوال کا تحقیقی جواب دینے کے بجائے ایک سطحی ساجواب دے دیاکہ ’’احناف کے یہاں قیاس بہت ہے اور وہ قیاس جلی کو اخبار آحاد پر مقدم کردیتے ہیں‘‘۔ (الملل والنحل، ۲/۱۲)
اولاًتوکثرت اورقلت ایک اضافی اورنسبتی امر ہے۔ امام احمد بن حنبل کے یہاں قیاس کم ہے اوراس کے مقابلہ میں امام شافعی اورامام مالک کے یہاں قیاس زیادہ ہے ،ایسے میں امام احمد کی نسبت سے شافعیہ اورمالکیہ کو اہل الرائے کہناچاہئے؛ لیکن ایسانہیں کہاجاتا۔ علاوہ ازیں قلت وکثرت کی بنیاد پرکسی علمی بحث کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ دوسرے یہ الزام کہ ’’احناف خبر واحد پر قیاس جلی کو مقدم کردیتے ہیں‘‘ علم وتحقیق کی نگاہ میں غلط ہے کیونکہ محققین احناف بشمول امام کرخی ودیگر اس کی تغلیط کرچکے ہیں۔ یہ درحقیقت عیسیٰ بن ابان رحمہ اللہ کی رائے تھی (۲) جسے بعد میں کچھ دیگر متاخرین فقہاء احناف نے پسند کیا،لیکن یہ رائے نہ امام ابوحنیفہ کی تھی ،نہ صاحبین کی ،نہ امام زفر کی اورنہ متقدمین فقہائے احناف کی اوراس پر تفصیلی بحث کشف الاسرار کے مصنف علامہ علاء الدین البخاری نے کی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: کشف الاسرار شرح اصول البزدوی (۲/۳۷۸)، دار الکتاب الاسلامی)
حضرت شاہ ولی اللہ اور اہل الحدیث واہل الرائے کی تعیین
اہل الرائے اور اہل الحدیث کے درمیان فرق وامتیاز پر بحث حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنی کئی تصنیفات میں کی ہے اور اہل حدیث واہل الرائے کے درمیان مرکزی اختلاف کیاہے،اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بلامبالغہ یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس معاملہ پر نئے سرے سے غورکیا اور اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان جوہری فرق اور حد فاصل بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ دیگرتمام متقدم مورخین وتراجم وتذکرہ نگاروں سے ممتاز ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے درمیان فرق پر مختلف کتابوں میں اظہار خیال کیاہے، اس میں سب سے زیادہ بنیادی حیثیت ان کی الانصاف فی بیان سبب الاختلاف کوحاصل ہے۔ پھر یہی بحث حجۃ اللہ البالغہ میں بھی موجود ہے، اس کے علاوہ مختصر انداز میں حضرت شاہ صاحب نے اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان فرق پرمسویٰ شرح مؤطا میں بھی بحث کی ہے۔ چونکہ حضرت شاہ صاحب کی اس موضوع پر مستقل اور جامع کتاب الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ہے، لہٰذا اس بحث میں شاہ صاحب کے خیالات کے تعلق سے بنیادی طورپر اسی کتاب کے مندرجات سے ہم بحث کریں گے۔
اسباب اختلاف کے قطعی اوریقینی علم کا دعویٰ
الانصاف کے شروع میں حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک عجیب وغریب دعویٰ فرمایاہے،حضرت محدث دہلوی لکھتے ہیں:
اما بعد فیقول الفقیر الی رحمۃ اللہ الکریم ولی اللہ بن عبد الرحیم اتم اللہ تعالیٰ علیھما نعمہ فی الاولی والاخری ان اللہ تعالیٰ القی فی قلبی وقتا من الاوقات میزانا اعرف بہ سبب کل اختلاف وقع فی الملۃ المحمدیۃ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات واعرف بہ ما ھو الحق عند اللہ وعند رسولہ ومکننی من ان ابین ذلک بیانا لا یبقی معہ شبھۃ ولا اشکال (الانصاف، تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ،مطبع دارالنفائس،1986)
’’بہرحال اللہ کریم کی رحمتوں کا محتاج ولی اللہ بن عبدالرحیم (اللہ دونوں کودنیا وآخرت کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے ) کہتاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے دل میں کسی وقت ایک ایسی میزان ڈال دی جس سے میں ملت محمدیہ کے ہرواقع شدہ اختلاف کو جانتاہوں اور یہ بھی جانتاہوں کہ اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے اور اللہ نے اس پر بھی مجھے قدرت دی ہے کہ اس میں ان اسباب اختلاف کو اسی طرح بیان کروں کہ کوئی شبہ اوراشکال باقی نہ رہے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا یہ دعویٰ بڑاعجیب وغریب ہے۔ اسباب اختلاف پر علماء شروع سے ہی لکھتے چلے آرہے ہیں، لیکن کسی نے بھی اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے ممدوح علامہ ابن تیمیہ نے بھی ’’رفع الملام‘ ‘کے نام سے اس موضوع پر ایک بیش قیمت کتاب لکھی ہے؛ لیکن انہوں نے بھی اس کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں ملت کے ہراختلاف سے واقف ہوں اور یہ بھی جانتاہوں کہ اس میں اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے۔ اس دعویٰ پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، جنہوں نے الانصاف کواپنی تحقیق سے طبع فرمایاہے، نے بھی تنقید کی ہے،چنانچہ وہ حاشیہ میں لکھتے ہیں:
قول المولف133. واعرف بہ ماھو الحق عنداللہ وعند رسولہ، لایعول علیہ، فان علم ماھو الحق عنداللہ تعالیٰ وعند رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم لایمکن الجزم بہ لاحد (الانصاف، ص14)
’’مولف کا یہ کہنا کہ میں اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے، اس کو جانتاہوں، اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ اس چیز کاقطعی علم کہ اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے، اس کا دعویٰ کسی کے بھی حق میں نہیں کیاجاسکتا۔‘‘
ایک غلط خیال کی تردید
حضرت شاہ ولی اللہ اولاًاس غلط خیال کی تغلیط کرتے ہیں کہ یہاں صرف دوہی فرقے ہیں، ایک اہل الرائے اور دوسرے اہل الحدیث،اورتیسرا کوئی فرقہ نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں تیسرا فرقہ موجود ہے اور وہ ظاہریوں کی جماعت ہے:
ووجدت بعضھم یزعم ان ھناک فرقتین لا ثالث لھما، الظاھریۃ واھل الرای، وان کل من قاس واستنبط فھو من اھل الرای، کلا بل لیس المراد بالرای نفس الفھم والعقل فان ذلک لا ینفک من احد من العلماء، ولا الرای الذی لا یعتمد علی سنۃ اصلا فانہ لا ینتحلہ مسلم البتۃ، ولا القدرۃ علی الاستنباط والقیاس فان احمد واسحاق بل الشافعی ایضا لیسوا من اھل الرای بالاتفاق (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص 93)
’’بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ فقہائے اسلام کی صرف دوہی جماعتیں ہیں، تیسراکوئی فرقہ نہیں ہے، ایک ظاہری اور دوسرے اہل الرائے اورقیاس واستنباط سے کام لینے والے سبھی اہل الرائے ہیں ۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ رائے سے مراد صرف سمجھ اورعقل نہیں ہے کیونکہ اس سے علمائے اسلام کا کوئی فرد بھی خالی نہیں ہے اور نہ ہی رائے سے مراد یہ ہے جس میں سنت پر بالکلیہ اعتماد ہی نہ ہو،کیونکہ اس کی جانب کوئی مسلمان کبھی نہیں جاسکتا،اور نہ استنباط وقیاس کی صلاحیت ہے کیونکہ امام احمد،امام اسحاق اورامام شافعی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہیں ہیں۔‘‘
میراخیال ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ اس طرح شہرستانی کے رائے کی تردید فرمارہے ہیں جس نے امت کے ائمہ مجتہدین کو دوقسم میں محصور کیاہے اورتیسری کسی قسم سے انکار کیاہے۔
عہد صحابہ اور اکابر تابعین کے اختلاف کی نوعیت
حضرت شاہ ولی اللہ اولاًدور صحابہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ ان میں اجتہاد کا طریقہ کیاتھا؟ پھر یہ بتاتے ہیں کہ فروعی مسائل میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف کیوں ہوااوراس کی وجوہات کیاتھیں؟اس کے بعد وہ دور تابعین میں آتے ہیں اور اہل مدینہ اوراہل کوفہ یاعراق کے نمائندے سعید بن المسیب اور امام ابراہیم نخعی کے فقہی اجتہاد کے طریقہ پر گفتگو کرتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سعید بن المسیب اور ابراہیم نخعی دونوں ہی اپنے شہر کے متقدمین کبار تابعین اور صحابہ کرام کے فقہ وفتاویٰ کو اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے اور دیگر شہروں میں مقیم صحابہ کرام سے زیادہ لگاؤان کا اپنے شہر کے فقہاء صحابہ کرام سے تھا۔ جب صحابہ کرام وتابعین عظام میں کسی مسئلہ کے درمیان اختلاف ہوتا تو ہرایک عالم (مجتہد) کے نزدیک اپنے شہر کے علماء اورمشائخ کا قول زیادہ پسندیدہ ہوتا کیونکہ وہ اس سے زیادہ واقف تھے اور جن اصولوں کی رعایت پر یہ قول مبنی تھا، اس سے زیادہ باخبر تھے اور ان کو اپنے شہر کے علماء ومشائخ سے دلی لگاؤ تھا،چنانچہ حضرت عمرؓ، عثمانؓ، عائشہؓ، ابن عمرؓ ، ابن عباسؓ، زید بن ثابتؓ اوران کے شاگرد مثلاً سعید بن المسیب حضرت عمر کے فیصلوں اورحضرت ابوہریرہ کی روایتوں کے بڑے حافظ تھے،یامثلاً حضرت عروہ،سالم، عکرمہ،عطاء بن یسار، قاسم، عبیداللہ بن عبداللہ، زہری، یحییٰ بن سعید، زید بن اسلم اور ربیعہ وغیرہ حضرات کا مسلک اہل مدینہ کے لیے دیگر شہروں کے فقہاء کے مسلک سے زیادہ قابل قبول تھا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اوراہل مدینہ کی فضیلت بیان کی ہے اور علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ مدینہ ہردور میں علماء اورفضلاء کا مسکن وماویٰ رہاہے۔ اسی باعث امام مالک اہل مدینہ کے عمل کو ایک دلیل کے طورپر تسلیم کرتے ہیں اور امام مالک کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ اہل مدینہ کے اجتماعی تعامل کو حجت مانتے ہیں۔ امام بخاری نے ایک باب باندھاہے، باب فی الاخذ بما اتفق علیہ الحرمان، یعنی جس بات پر اہل مکہ واہل مدینہ دونوں کا اتفاق ہو، اسی کو اختیار کرنے کا بیان۔
شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ اوران کے اصحاب کا مذہب،حضرت علی،شریح اور شعبی کے فیصلے اور ابراہیم نخعی کے فتاویٰ جات کوفہ والوں کی نظر میں دیگر شہروں کے فقہاء وعلماء کے اقوال کی بہ نسبت زیادہ قابل ترجیح ہیں، اسی باعث جب حضرت مسروق، حضرت زید بن ثابت کے قول کی طرف مسئلہ تشریک میں مائل ہوئے تو حضرت علقمہ نے ان سے کہا ’’کیا کوئی عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ قابل وثوق ہے؟‘‘ حضرت مسروق نے جواب دیاکہ ایسی بات تونہیں ہے، لیکن میں نے زید بن ثابت اور اہل مدینہ کو تشریک(زمین بٹائی پر کاشت کے لیے دینا)پر عمل کرتے دیکھاہے۔
حاصل کلام یہ کہ کسی شہر کے فقہا اور مشائخ جس قول پر متفق ہو جاتے، اس پر یہ مجتہدین مضبوطی سے جم جاتے اور امام مالک کا یہ فرمان اسی قبیل سے ہے کہ جس سنت کے بارے میں اہل مدینہ میں اختلاف نہیں ہے، وہی ہمارے نزدیک قابل وثوق ہے۔ اوراگر شہر کے علماء ومشائخ میں کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو جورائے دلیل کے اعتبار سے قوی اور قابل ترجیح ہوتی،اس کو اپناتے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ غورکرتے کہ کس قول کی جانب علماء وفقہاء کی اکثریت ہے، کس قول کی بنیاد قیاس پر ہے اوراورکس قول کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے۔ امام مالک کا یہ قول بھی اسی قبیل سے ہے کہ ’’یہ جو میں نے سناہے، سب سے اچھی بات ہے‘‘۔ پھر جب یہ فقہاء اپنے شہر کے صحابہ وتابعین کے اقول وآثار میں پیش آمدہ مسئلہ کا حل نہ پاتے توان کے کلام اسے استنباط مسائل کرتے اوران کے اشارات ومقتضیات کی پوری تلاش کرتے۔ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص38)
اہل الرائے اور اہل الحدیث کے استنباط واجتہادکی نوعیت
اہل حدیث اوراہل الرائے کی تاریخ حضرت شاہ ولی اللہ تابعین عظام سے شروع کرتے ہیں۔ ایک جانب وہ سعید بن المسیب کو اہل حرمین کا نمائندہ بتاتے ہیں ،دوسری جانب وہ ابراہیم نخعی کو اہل کوفہ وعراق کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ ایک گروہ تو ایساتھاجس کو ہر مسئلہ میں احادیث رسول کی تلاش وجستجو تھی، اس غرض سے وہ شہروں شہروں ملکوں ملکوں ملکوں مارے پھرتے رہے۔ جہاں کہیں بھی حدیث رسول یا آثار صحابہ کا سراغ پایا، وہاں جاکر اس حدیث کو حاصل کیا اور اس طرح ان کے پاس ہرمسئلہ کے جواب میں یاتو حدیث رسول یاقول صحابی یاتابعین عظام میں سے کسی ایک کا قول فراہم ہوگیااور احادیث وآثار کے وسیع ذخیرہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنی فقہ کی تدوین احادیث وآثار پر رکھی۔ حضرت محدث دہلوی لکھتے ہیں:
’’حاصل کلام یہ کہ جب انہوں نے فقہ کو ان قواعد کے مطابق تیار کرلیا تو فقہی مسائل میں سے کوئی مسئلہ جس پر متقدمین علماء نے اپنی رائے دی ہو،اورجوان کے زمانہ میں واقع ہواہو،کوئی مسئلہ ایسانہ تھا جس میں انہوں نے حدیث مرفوع،متصل اورمرسل ،موقوف ،صحیح ،حسن اور اعتبار کے لیے صالح سند سے نہ پائی ہو، یاحضرت ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما یادیگر خلفائے راشدین اور شہروں کے قاضی اورفقہاء کا کوئی اثر نہ پایاہو یا انہوں نے ان احادیث وآثار کے عموم ،اشارہ یااقتضاء سے استنباط نہ کیا،تواس طورپر اللہ نے ان کے لیے سنت پر عمل کرنا آسان کردیا۔‘‘ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص 54)
دوسرا گروہ وہ تھاجسے احادیث رسول بیان کرنے میں تو ڈرلگتاتھا لیکن وہ رائے سے جواب دینے اور فتوی کے اظہار میں ہچکچاتے نہیں تھے:
’’اوران کے بالمقابل مالک ،سفیان اوران کے بعدکے دور میں ایک ایساگروہ تھاجسے مسائل کے بیان کرنے اورفتویٰ دینے میں کوئی باک نہیں تھا اوران کا کہنایہ تھاکہ فقہ پر ہی دین کی بنیاد ہے، لہٰذا اس کی اشاعت ہونی چاہیے اور وہ لوگ رسول اللہ سے روایت کرنے اور کسی کی نسبت آپ کی جانب کرنے میں بڑے محتاط تھے۔ شعبی کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد والوں تک اکتفاء کرنا ہمیں زیادہ پسند ہے، کیونکہ اگرخدانخواستہ کچھ کمی بیشی ہوئی بھی تو صحابہ کے تعلق سے ہوگی اور ابراہیم کہتے ہیں کہ میں کہوں ’’عبداللہ نے کہا‘‘، ’’علقمہ نے کہا‘‘، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں کہوں کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ‘‘ (الانصاف، ص 57)
حضرت محدث دہلویؒ آگے چل کر ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ الحدیث کے بالمقابل حضرات(جس کو آگے چل کر حضرت شاہ ولی اللہ اہل الرائے سے یاد کریں گے، یہاں پر انہوں نے قوم سے یاد کیاہے)کو فتوی دینے اورمسئلہ کے استنباط میں گہری دلچسپی تھی ،احادیث کا سرمایہ ان کے پاس نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ احادیث وآثار پر مسائل کی بنیاد رکھ سکیں ،لہٰذا اس گروہ نے تخریج کی بنیاد پر مسائل کا استنباط کیا،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اس طرح سے(اہل الرائے) کے احادیث سے فقہ ومسائل کی ضرورت دوسرے طریقہ سے پوری ہوئی اور ایسااس لئے ہواکہ ان کے پاس احادیث وآثار کا اتناسرمایہ نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ ان اصول پر فقہ کا استنباط کرتے جن پر اہل الحدیث نے اپنے فقہ کی بنیاد رکھی ہے اور ان کا یہ مانناتھاکہ ان کے ائمہ تحقیق کے بلند مرتبہ کے حامل ہیں اور ان کے دل بھی اپنے مشائخ کی جانب زیادہ مائل تھے جیساکہ علقمہ نے کہا: کیاکوئی ان میں عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ پختہ نظررکھتاہے اورامام ابوحنیفہ نے فرمایا: ابراہیم، سالم سے بڑے فقیہ ہیں اور اگرشرف صحبت کا لحاظ نہ ہوتا میں کہتاکہ علقمہ، ابن عمر سے بڑے فقیہ ہیں۔ اور ان کو ایسی ذہانت اور زور فہمی عطاہوئی تھی اوران کا ذہن ایک بات کی نظیر سے دوسری بات کی نظیر کی جانب بڑی تیزی سے منتقل ہوتاتھا۔ ان صلاحیتوں کے ذریعے وہ مسائل کا جواب اپنے مشائخ کے اقوال پر تخریج کرکے دیا کرتے تھے اور ہر ایک کے لیے اپنی خلقت کے لحاظ سے کام آسان ہو جایا کرتا ہے (ہر کسے رابہر کارے ساختند)۔ اس طرح فقہ کی تدوین تخریج کی بنیاد پر عمل میں آئی۔‘‘ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص57۔58)
تخریج کی وضاحت
اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ ہمیں بتاتے ہیں کہ تخریج کیاہے اور کس طرح کام میں لایاجاتاہے، چنانچہ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہرایک اپنی جماعت کے ترجمان اور مشائخ کے اقوال کی سب سے زیادہ پرکھ رکھنے والے اور ترجیح میں صائب نظروالے کی کتاب یاد کرلے اور ہرمسئلہ میں غورکرے کہ حکم کی وجہ کیاہے توجب بھی کسی پیش آمدہ مسئلہ کے بارے میں سوال ہو یاکوئی ضرورت آن پڑے تواولاًاپنے مشائخ کے اقوال جو اس کو یاد ہیں، اس میں غورکرے ،اگراس میں جواب مل جائے توبہتر ورنہ ان کے کلام کے عموم کا جائزہ لے اور اسی عموم میں پیش آمدہ مسئلہ کو منطبق کرے یاان کے کلام میں کسی ضمنی اشارہ کا علم ہو تواس سے استنباط کرے اوربسااوقات کلا میں ایسے اشارات اور تقاضے ہوتے ہیں،جس سے مقصود کوسمجھاجاسکتاہے۔
بسااوقات تصریح کردہ مسئلہ کی کوئی نظیرموجود ہوتی ہے جس پر زیربحث مسئلہ کو محمول کیاجاتاہے اور بسااوقات وہ صریح حکم کی علت میں تخریج یاسبر (۳)(مماثلت)اورحذف (درگزر) کے ذریعہ غورکرتے ہیں اوراس کی علت کو غیرمصرح مسئلہ پر منطبق کرتے ہیں اور بسااوقات ایسابھی ہوتاہے ان کے ایک ہی مسئلہ میں دوقول ہوتے ہیں۔ اگران کو قیاس اقترانی (۴) یا قیاس شرطی (۵) کے طرز ترتیب دیاجائے تواس سے مسئلہ کا جواب معلوم ہوجاتاہے۔
کبھی تخریج اس طورپر ہوتی ہے کہ ان شیوخ کے اقوال میں کوئی بات مثال یااصل مسئلہ کی ایک قسم کے طورپر ہوتی ہے ؛لیکن تعریف کے لحاظ سے وہ جامع مانع نہیں ہوتی تووہ اس سلسلے میں اہل زبان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس مسئلہ کی ذاتیات(خصوصیات )حاصل کرتے ہیں،جامع مانع کی تعریف ،مبہم کی نشاندہی اور مشکل کی تمیز بہم پہنچاتے ہیں۔
بسااوقات ایساہوتاہے کہ ان کے کلام میں دوپہلوؤں کا احتمال ہوتاہے تو وہ کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے میں غوروفکر کرتے ہیں،کبھی دلائل ومسائل کے درمیان جو پردہ پڑاہے اس کی نقاب کشائی کرتے ہیں ،کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ اصحاب تخریج اپنے ائمہ کے سکوت ،یافعل یااسی طرح کی کسی دوسری بات سے استدلال کرتے ہیں اوریہ سب (جوکچھ بیان ہوا)تخریج ہی ہے۔‘‘ (الانصاف، ص 61)
اہل الرائے سے مراد احناف ہیں
ماقبل میں آپ نے پڑھاکہ یہاں تین گروہ ہیں، اہل الرائے،اہل الحدیث اورظاہریہ، ظاہریہ سے پوری کتاب میں کوئی بحث نہیں کی گئی ، بحث صرف اہل الحدیث اوراہل الرائے سے ہے۔ حضرت شاہ صاحب جب بتاتے ہیں کہ اہل الحدیث کے بالمقابل ایک گروہ وہ تھا جو اپنے مشائخ کے اقوال میں تخریج کرکے پیش آمدہ مسئلہ کا جواب دیتاتھا تو یہ بات متعین ہوگئی تھی کہ وہ اہل الرائے کا ہی بیان کررہے ہیں کہ اہل الرائے کا کام تخریج کاہے؛ آگے چل کر حضرت شاہ ولی اللہ پوری صراحت اوروضاحت سے کہتے ہیں کہ اہل الرائے کاہی کام تخریج کاہے:
المراد من اھل الرای قوم توجھوا بعد المسائل المجمع علیھا بین المسلمین او بین جمھورھم الی التخریج علی اصل رجل من المتقدمین وکان اکثر امرھم حمل النظیر علی النظیر والرد الی اصل من الاصول دون تتبع الاحادیث والآثار (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص93)
’’اہل الرائے سے مراد ایساگروہ ہے جنہوں نے مسلمانوں میں متفق علیہ مسائل ایسے مسائل جن پر جمہور متفق تھے ،متقدمین میں سے کسی ایک شخص کی رائے پر تخریج کی اوران کے کام کا زیادہ حصہ نظیر پر نظیر کوحمل کرنا،یافروع کو اصول میں سے کسی اصل کی جانب لوٹانے کاتھا،احادیث اورآثار کی تلاش وجستجوکیے بغیر۔‘‘
اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان فرق تخریج کا ہے، یہ نظریہ شاہ ولی اللہ نے انصاف کے دیگر مقامات اور حجۃ اللہ البالغہ وغیرہ میں بھی دوہرایاہے۔ ایسابھی نہیں ہے کہ شاہ ولی اللہ کا یہ نظریہ تخریج بعد کے فقہاء احناف کے لیے ہو جس کو کہ اصحاب تخریج اور اصحاب المذاہب سے فقہ حنفی میں یاد کیاگیاہے، بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ اس تخریج کااطلاق امام ابوحنیفہ پر بھی کرتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وکان ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ الزمھم بمذھب ابراھیم واقرانہ لا یجاوزہ الا ما شاء اللہ وکان عظیم الشان فی التخریج علی مذھبہ دقیق النظر فی وجوہ التخریجات مقبلا علی الفروع اتم اقبال وان شئت ان تعلم حقیقۃ ما قلنا فلخص قول ابراھیم من کتاب الآثار لمحمد رحمہ اللہ وجامع عبد الرزاق ومصنف ابی بکر بن ابی شیبۃ ثم قایسہ بمذھبہ تجدہ لا یفارق تلک المحجۃ الا فی مواضع یسیرۃ وھو فی تلک الیسیرۃ ایضا لا یخرج عما ذھب الیہ فقھاء الکوفۃ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص39)
’’امام ابوحنیفہ، حضرت ابراہیم نخعی اوران کے ہم عصروں کو مسلک کو سب سے زیادہ مضبوطی سے پکڑنے والے تھے،کبھی کبھار ہی اس سے تجاوز کرتے تھے،ابراہیم کے مذہب پر تخریج کرنے میں آپ کوبڑی مہارت تھی ،تخریجات کی مختلف صورتوں آپ نہایت باریک بیں تھے،فروعات میں پوری توجہ تھی۔ اگرتم میری باتوں کی حقیقت جانناچاہتے ہو تو ابراہیم نخعی کے اقوال کو کتاب الآثار سے منتخب کرواورجامع عبدالرزاق سے اورمصنف ابن ابی شیبہ سے،پھراس کا موازنہ امام ابوحنیفہ کے مذہب سے کرو،تم پاؤگے کہ وہ اس ڈگر سے بہت کم ہٹے ہیں اوراس تھوڑے میں بھی وہ دیگرفقہائے کوفہ کے اقوال سے باہر نہیں نکلے ہیں۔‘‘
یہی بات حضرت شاہ ولی اللہ نے صاحبین کے بارے میں بھی کہی ہے:
’’اوروہ دونوں یعنی ابویوسف اورمحمد بھی ہمیشہ بقدراستطاعت ابراہیم نخعی کے طریقہ پر گامزن رہے جیساکہ امام ابوحنیفہ کا شیوہ تھا۔ امام ابوحنیفہ سے صاحبین کا اختلاف دوامور میں تھا۔ یاتو امام ابوحنیفہ کی ابراہیم کے مذہب پر کوئی تخریج ہو جس سے یہ دونوں متفق نہ ہوں ،یاپھر ابراہیم اوران کے معاصرین کے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال ہوں اوریہ دونوں اس میں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی ترجیح میں اختلاف کریں (یعنی امام ابوحنیفہ مختلف اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دیں اوریہ دونوں کسی دوسرے کو)۔ ‘‘(الانصاف، ص 40)
اب تک کی بحث کا خلاصہ یہ ہے :
۱: امت میں اگرچہ تین گروہ ہیں لیکن زیر بحث کتاب میں دوہی گروہ سے بحث ہے، ایک اہل الحدیث اوردوسرا اہل الرائے۔
۲: اہل حدیث حضرات نے حدیث وآثار کی تلاش میں ملکوں اورشہروں کی خاک چھانی اور اس طرح ان کے پاس احادیث کابڑاذخیرہ ہوگیا اور ہرقسم کے مسئلہ کے جواب کے لیے ان کے پاس حدیث رسول، آثارصحابہ وتابعین عظام میں سے کوئی قول موجود رہا۔
۳: دوسرا گروہ ان کا تھاجو احادیث کی تلاش میں شہروں کی خاک نہیں چھان سکتے تھے،ان کے پاس احادیث کا سرمایہ کم تھا، مسائل کے جواب دینے میں انہوں کوئی جھجھک یاہچکچاہٹ نہیں تھی، انہوں نے اپنے مشائخ اوراساتذہ کے اقوال پر تخریج کرکے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیا۔
۴: تخریج کرنے والا گروہ اہل الرائے کا تھا۔
۵: امام ابوحنیفہ اور صاحبین اہل الرائے ہیں۔
۶: ان کابھی کام یہی تھاکہ وہ ابراہیم اوران کے ہم عصرکوفی فقہاء کے اقوال پرتخریج کے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیں۔
نظریہ تخریج پرتنقید کرنے والے ایک نگاہ میں
حضرت شاہ ولی اللہ کا نظریہ تخریج ایک نیانظریہ ہے۔ میرے علم کی حد تک ان سے قبل کسی بھی اہل علم نے اہل الرائے کا امتیازی وصف ’’تخریج ‘‘نہیں بتایاہے اورنہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیاہے کہ اہل الرای اوراہل الحدیث کے درمیان جوہری فرق تخریج کاہے۔ میرے علم ومطالعہ کی حد تک برصغیر کے کسی عالم نے نظریہ تخریج پرتنقید نہیں کی ہے، البتہ عرب علماء میں سے شیخ ابوزہرہ نے ابوحنیفۃ: حیاتہ وعصرہ وآراہ وفقھہ میں اورشیخ عبدالمجید محمود عبدالمجید نے الاتجاھات الفقھیۃ میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے نظریہ تخریج پر تنقید کی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ علامہ زاہد الکوثری (۶) نے بھی شاہ ولی اللہ پر تنقید کی ہے لیکن اس کی حیثیت نظریہ تخریج پر تنقید کی نہیں بلکہ عمومی نوعیت کی ہے اورحسب معمول سخت لفظوں میں تنقید کی ہے۔
حواشی
1۔ وصیت نامہ ،مجموعہ رسائل امام شاہ ولی اللہ ،ص: ۵۲۷،یہ وصیت نامہ درحقیقت تفہیمات الٰہیہ کے آخر میں شامل ایک چھوٹا سا جزہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:’’ اورفقہ کی جزئیات وتفریعات کو ہمیشہ کتاب وسنت کے روبرو پیش کریں،جوان کے موافق ہو، اسے قبول کریں اورجونہ ہو،اسے مسترد کردیں‘‘۔
2۔ حضرت عیسیٰ بن ابان کی رائے بھی مطلقاً یہ نہیں ہے کہ قیاس کے سامنے خبر واحد کو رد کردیاجائے بلکہ ان کی رائے تین چار شرطوں کے ساتھ مقید ہے۔ (دیکھیں سہ ماہی بحث ونظر کا شمارہ نمبر ۷/۱۷،جنوری تا مارچ، ص ۱۹ تا ۴۶)عملی لحاظ سے دیکھیں تو یہ اختلاف محض لفظی بن کر رہ جاتاہے ،عیسیٰ بن ابان کی شرائط یہ ہیں: 1:راوی فقہ اوراجتہاد میں معروف نہ ہو، 2:اس مفہوم کی تائید کرنے والی دیگر روایات نہ ہو، 3:صحابہ اورتابعین نے مذکورہ راوی کی دیگر روایات پر انکار کیا یاپھر زیر بحث خبر پر اعتراض کیاہو، 4:دیگر مجتہدین صحابہ کرام اورتابعین نے اس پرعمل نہ کیاہو۔(تفصیل کے لیے دیکھئے:الفصول فی الاصول ،امام جصاص رازی یاپھراصول السرخسی)
3۔ ایک صطلاحی لفظ ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل کے تمام اوصاف اس فرع پر منطبق کیاجائے ،جس کو اصل پر قیاس کیاجارہاہے اور اس وصف کو لے کر جواصل اورفرع میں مشترک ہے باقی سے صرف نظر کرلیاجائے تاکہ حکم کی علت متعین ہوجائے۔
4۔ قیاس اقترانی منطق کی اصطلاح میں اس قیاس کو کہتے ہیں جس کے مقدمات صغریٰ وکبریٰ میں نتیجہ یااس کی نقیض بعینہ موجود نہ ہو بلکہ دلیل سے نتیجہ برآمد ہوتاہو، یعنی وہ دلیل مشتمل برنتیجہ نہیں بلکہ مقترن بالنتیجہ ہو ،مثلاً عالم متغیر ہے اورہرمتغیر حادث ہے ،لہٰذا عالم حادث ہے ،یہ نتیجہ اس دلیل سے نکلتاہے۔
5۔ قیاس شرطی وہ ہے جس کے دونوں مقدمے شرطیہ ہوں یعنی جس میں کسی چیز کیلئے کسی دوسری چیز کے ثبوت یاعدم ثبوت کا حکم لگایاگیاہو،اس قیاس میں نتیجہ بعینہ موجود ہوتاہے مثلاًکوئی کہے کہ اگرتم جھوٹ بولے تو تم ذلیل ہوگے، لیکن جھوٹ نہ بولے تو ذلیل نہ ہوگے (یہ نتیجہ خود قیاس کے مقدمات یعنی صغریٰ وکبریٰ میں بعینہ موجود ہے،اسے شرطی اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں جملہ شرطیہ ہوتاہے۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت ،ترجمہ الانصاف ،ص68)
6۔ شیخ زاہد الکوثری سلطنت عثمانیہ کے نائب شیخ الاسلام تھے،مصطفی کمال کے انقلاب کے بعد انہوں نے ترکی سے ہجرت کی اورمصر آکر بسے۔ علم کی گہرائی، گیرائی اوروسعت مطالعہ میں وہ علامہ کشمیری کے مثل تھے، اسی کے ساتھ نادر مخطوطات کے معلومات ،خوف خدا اورتدین میں بھی اپنی نظیر آپ تھے،جس کی مثال شیخ ابوزہرہ نے ان کے حوالہ سے اپنے تاثراتی مضمون میں پیش کیاہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بڑے ناقد تھے۔ ان کی زندگی کا ایک وصف شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے ملتاجلتاہے، ابن تیمیہ کے بارے میں ذہبی نے لکھاہے کہ علماء ان کے علم کے معترف تھے لیکن ان کی شدت اورسخت کلامی سے نالاں تھے، بعینہ یہی بات ان کے تعلق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کا علم وفضل اپنوں کو توچھوڑیے، مخالفین تک میں مسلم تھا۔ معلمی ،البانی جیسے انتہائی شدید مخالفین نے ان کی علمی عظمت کااعتراف کیاہے، مگر ان کی سخت کلامی کی وجہ سے بات بگڑتی چلی گئی اورتانیب الخطیب میں بعض ائمہ پر سخت کلامی کی وجہ سے ان کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان برپاہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کتنا سچا ہے کہ اللہ نرمی پرجو دیتاہے، وہ سختی پر نہیں دیتا۔
(جاری)