بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن اس پر بھی نصف صدی بیت چکی ہے۔ ۱۸؍نومبر ۱۹۶۷ء گورنمنٹ پرائمری بورڈ اسکول کے احاطہ میں منعقد ہونے والے بھٹکل کی تاریخ کے عظیم الشان مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے مسلمانان بھٹکل کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ :
’’اے بھٹکل کے باشندو ! اے نوائط قوم کے چشم و چراغ ! تمہارے بزرگ یہاں کے لوگوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر آئے ، وہ تو بتیس دانتوں میں ایک زبان کی حیثیت رکھتے تھے ، کوئی ان کا ساز وسامان نہیں تھا ، کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں تھا ، اور ان کا کوئی دوست نہیں تھا ، لیکن ان کی باتوں کا وزن تھا ، اور تم ہو اتنی بڑی تمہاری تعداد ہے ، لیکن تمہارا کوئی وزن نہیں ہے ، تم یہاں قریب قریب پچاس فیصد ہو، یہاں تمہاری کتنی تعلیم گاہیں ہونی چاہیے تھیں، تمہارا یہاں تہذیب کا قلعہ ہونا چاہئے تھا، روشنی کا ایک مینا ر ہونا چاہئے تھا، وہ اس سے بھی زیادہ دور سے جو کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک روشنی کا مینارہ ہے ، اللہ نے تم کو بہت دیا ہے ، میں نے تم کو کالیکٹ میں دیکھا ہے ، میں تم سے ناواقف نہیں ہوں ، میں نے تم کو مدراس میں دیکھا ہے ، اور میں نے تمہارے کولمبو کے بارے میں بھی سنا ہے ، اور ایسی ایک کاروباری قوم اور ملت کے مسائل کو حل کرکے نہ رکھ سکے ، کوئی عقل اس بات کو مان نہیں سکتی جو اتنا بڑا اس کا کوئی ملی مسئلہ ادھورا پڑا ہوا ہے ، کیا بات ہے ؟ کیا راز ہے ، اس کا ؟ ایک دن میں یہ مسئلہ حل ہو جانا چاہئے ، تمہارا نام یہاں ایک ضرب المثل ہونا چاہئے ، تمہاری قومی زبان نوائطی میں لٹریچر ہونا چاہئے ، واقعی جامعہ اسلامیہ ایک ایسا مرکزی ادارہ ہوتا جو دکن میں ایک بڑا ادارہ مانا جاتا ، تمہارے یہاں سے تم سارے دکن کو برابر غذا پہنچاتے ، مسلمانوں کے اداروں کو اور جگہ کے مسلمانوں کے اداروں کو تم سے غذا ملتی ۔‘‘
دیکھنے والوں کو آج بھی وہ منظر یا د ہے ، حضرت مولانا کی زبان مبارک سے تحریک اور جذبے سے بھرپور خطابت کا ایک دریا موجزن تھا اور سننے والے والوں کی آنکھوں سے سیل رواں جس سے بہتوں کے رخسار اور ڈاڑھیاں تر ہو رہے تھے۔ ایسا والہانہ منظر بھٹکل نے اس سے پہلے کاہے کو دیکھا ہوگا؟ یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا ، شاید قبولیت دعا کا بھی۔
حضرت مولانا اس وقت پہلی بار بھٹکل تشریف لائے تھے ، اور ان کے استقبال کے لئے اولین مہتمم جامعہ اور استاد الجیل مولانا عبد الحمید ندوی علیہ فرش راہ بنے ہوئے تھے ، مولانا ندوی اپنے اس مہمان عزیز سے اس وقت سے متعارف تھے جب سات آٹھ سال کی عمر میں سایہ پدری آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا ، پھر کچھ عمر بڑھی تو لکھنو یونیورسٹی میں حصول علم میں مصروف نظر آنے لگے، اس وقت وہ بغل میں کتابیں دبائے ندوے کی چہار دیواری میں اس وقت کے اساطین علم ، مولانا حلیم عطا، شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان ٹونکی وغیرہ سے کسب فیض پانے آیا کرتے، طلبہ میں مرحوم ناظم ندوہ کے دریتیم کی حیثیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، ورنہ ایک خاموش الطبع اور سنجیدگی کی اس مورت کا میل جول دوسروں سے کم ہی تھا، اس وقت مولانا عبد الحمید ندوی جوان تھے آپ کا ندوے میں طوطی بولتا تھا ، جوشیلے مقرر ، تحریک خلافت کے ایک لیڈر کی حیثت سے آپ کا لکھنو و اطراف میں شہرہ تھا ، لیکن چالیس سال بعد عالم دوسرا ہی تھا ، مولانا عبد الحمید ندوی مرحوم دنیا جہاں سے تنہا ایک دور دراز بستی میں ناموری اور شہرت سے بلند ہوکر ایک دین کے قلعہ تعمیر میں مگن ایک گمنام زندگی گزاررہے تھے ،اتنے عرصہ بعد اپنے ایک خورد کو مقبولیت کی اس چوٹی پر دیکھیں ، جس سے فیض عام کے سوتے پھوٹ رہے ہوں تو آنکھیں شدت جذبات سے چھلک نہ اٹھیں، اور چہرہ تمتمانے نہ لگے توکیوں آخر کر؟ وہ بھی کس قدر جذباتی منظر تھا ، جب مولانا عبد الحمید ندوی اپنے سے کم سن مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ سے گلے مل رہے تھے ، جذبات کا ایک ریلا بڑھ رہا تھا ۔ وہ لمحہ بھٹکل کی تاریخ میں یادگار بن گیا۔
اس وقت بھٹکل میں حضرت مولانا سے ربط و تعلق رکھنے والوں کی کمی نہیں تھی ، مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی مرحوم نے حضرت مولانا کی رفاقت میں آپ کے سرپرست بھائی ڈاکٹر عبد العلی حسنی مرحوم سے صحیح مسلم کا خصوصی درس مکمل کیا تھا،بانیان جامعہ میں سے جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ سے آپ کے گزشتہ پچیس سال سے مراسم تھے ، ۱۹۴۲ء میں منیری صاحب نے آپ کے ساتھ تبلیغی قافلے میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ کی بار گاہ میں حاضری دی تھی ، انجمن خدام النبی ممبئی سے وابستگی اور حاجیوں کی خدمت نے آخر الذکر سے غیر ملکی اسفار کے انتظامات ٹکٹ وغیرہ بنانے میں ضرورت پڑتی رہتی تھی ، بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا مرحوم کے تو آپ سے نیازمندانہ مراسم کوئی پوشیدہ نہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ممبئی سے بھٹکل کا سفر تین دن تین رات کا اور منگلور کا سفر پورے ایک دن کا ہوا کرتا تھا ،اور زندگی کے ایک ایسے مرحلہ میں جب حضرت مولانا بینائی سے محروم ہوگئے تھے ، اور لمحے لمحے کے لئے دوسروں کے دست نگر بن گئے تھے ، اس وقت معمول کی غذا ئیں بھی ایک مسئلہ بن گئی تھیں ، بھٹکل جیسے دور دراز قصبے میں جہاں لال بھبھوکا مرچیں روازنہ غذا کا جزء لاینفک ہو ا کرتی تھیں ،اور آپ کا یہ حال کہ مرچ کی بو بھی آنکھوں میں جلن پیدا کردے اور راتوں کی نیندیں اڑادے ، ایسی حالت میں اتنی لمبی مسافت طے کرکے اس عظیم شخصیت کا بھٹکل کی سرزمین پر قدم رنجہ ہونا جہاں عظیم قربانی اور مخلصانہ تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے ، وہیں اس بات کی بھی غماز ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات تھے ، اس وقت خداوند قدوس سے قوم کے لئے جو بھی مانگا جاتا مل جاتا۔
جامعہ آباد میں آج جہاں عظیم الشان مسجد کھڑی ہے ، اس کے محراب کی سمت پر حضرت مولانا نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا تھا ، اس وقت جامعہ آباد صرف ایک خواب تھا ، ایک وادی غیر ذی زرع ، بستی سے دور ایک ویرانہ ، جہاں چرندوں پرندوں اور درندوں کا بسیرہ تھا، سانپ بچھو قدم قدم پر رینگتے نظر آتے تھے ، یہاں سے گزرنے والے آسیب اور جنات کے بھی شاکی تھے ، یہاں سے نوائط کالونی تک تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی آبادی نظر نہیں آتی تھی ، نہ ہی کوئی پختہ سڑک پائی جاتی تھی ، بس پگڈنڈیاں تھیں ، دور دور تک آدمی کی لمبائی سے بھی اونچی سوکھی گھاس نظر آتی تھی ،جنہیں چیر کرجانے والوں پر دور دور سے نگاہ نہیں پڑسکتی تھی، بس دور دور فاصلے پر اونچے اونچے پیپل کے درخت ایستادہ تھے، جہاں صبح و شام اڑوس پڑوس سے گزرنے والے مزدوراور مچھیرے سستانے کے لئے ٹہرا کرتے ۔ آج جب شہر کی طنابیں جامعہ آباد تک پھیل گئی ہیں ، کون ان باتوں پر یقین کرے گا؟ لیکن یہ وہی مبارک لمحہ تھا جب اس علاقہ کو حضرت مولانا نے جامعہ آباد کا نام دیا تھا اور بھٹکل نے ایک نئے دن کا سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تھا، بہت ہی روشن اور تابناک ، یہاں کی تاریخ بدلنے والاسورج۔
حضرت مولانا پہلی مرتبہ جب بھٹکل تشریف لائے تھے ، وہ زمانہ مسلمانان ہند کے لئے مشکل ترین دور تھا ، پور ا ہندوستان فسادات کی لپیٹ میں جھلس رہا تھا ، جہاں جہاں مسلمانوں کی اقتصادی حالت اچھی تھی ، وہاں پر ان کی صنعتوں کو راکھ کی ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا ، مسلمانوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کا اقلیتی کردار چھینا جارہا تھا ، ان کی قومی زبان اردو کا دیس نکالا ہورہا تھا ، اور مسلمانوں کے تشخص کے لالے پڑ گئے تھا ، یہی دن تھے جب حضرت مولانا مسلمانان ہند کی رہنمائی اور ان میں عمل کی تحریک پیدا کرنے کے لئے دوسرے رفقاء کے ساتھ میدان میں کود پڑے تھے ، اس میں دو رائے نہیں کہ حضرت مولانا کا عظیم خطیبوں میں شمار ہو تا ہے ، لیکن جس طرح دل پر ٹھیس پڑنے پر ایک شاعر کا وجدان پھڑک اٹھتا ہے ، اور اس کے ذہن و قلب سے دلوں کو تڑپانے والے شعر پھوٹنے لگتے ہیں ، اسی طرح حضرت مولانا کی ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہوئی تقاریر کا جواب نہیں ، جس طرح آپ نے دلوں کو گرمایا ، ڈھارس دی اور ہمت بڑھائی ، اس کی مثالیں شاذو نادر ہی ملتی ہیں، اس کے بعد آپ کی بھٹکل کی سرزمین پر تینتیس سال تک تسلسل کے ساتھ تشریف آواری ہوتی رہی ، جن میں بہت ساری تقریریں بھی ہوتی رہیں ، لیکن جنہوں نے حضرت مولانا کو قریب سے سنا ہے ان کی یہ رائے وزن رکھتی ہے کہ حضرت مولانا کی اصل ماسٹر پیس تو (نشان منزل )وہی پہلی والی تقریر تھی جس کا کوئی ثانی نہیں ۔
دیکھئے اتفاقات بھی کتنے حسین ہوتے ہیں ، جامعہ آباد کی سرزمین قدم رنجہ رکھنے کے ٹھیک نصف صدی بعد حضرت مولانا کی دعوتی زندگی پر یہاں ادبی سیمینار منعقد ہورہا ہے ، اہل بھٹکل پر یہ ایک قرض تھا ،جس کی ادائیگی کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ، کیادنیا میں کوئی ممتا کے دودھ کا بھی قرض ادا کرسکا ہے ، لیکن گلاب نہیں تو پنکھڑی ہی سہی ۔ اگر رو ز قیامت آپ کا سامنا ہو تو شرمندگی تو نہیں ہوگی ، اہل بھٹکل ،ارباب جامعہ، حضرت مولانا کے جانشین اور جامعہ کے روز اول سے خیرخواہ اور محسن ، اور موجودہ سرپرست جامعہ کے دل کی گہرائیوں سے ممنون احسان ہیں کہ دور حاضر کی جاری اصطلاحات گولڈن جوبلی وغیرہ کے تکلفات سے بلند ہوکر لاشعوری میں ایک یادگار موقعہ عنایت فرمایا کہ بھٹکل کی جو سرزمین حضرت مفکر اسلام کی توجہات کی ہمیشہ سرتاپا سپاس رہی ہے ، وہاں زمانہ بیتنے کے بعد اب بھی انہیں اسی طرح یاد کیا جائے جیسے پہلے روز سے کیا جارہا ہے۔ یہ احسان مندی اور تشکر کی علامت ہے جو خوش نصیب قوموں کے ماتھے ہی پر سجتی ہے ۔
آپ کی پہلی آمد کے بعد سے تین سال کے عرصہ تک جامعہ پر بڑی قیامت ٹوٹی ، اور یہ ادارہ ابتلاء کے دور سے گزرا ، ۱۹۷۱ء میں آپ کی دوسری بار یہاں آمد ہوئی ، پہلے سفر میں دئے گئے پیغام کی یاد دہانی کے لئے ، ا س وقت جامعہ گوائی منزل ، سوداگر بخار اور جامع مسجد سے ہوتا ہوا جامعہ آباد سے نصف مسافت پر بھٹکل کے وسط میں واقع شمس الدین سرکل پر جوکاکو منشن میں منتقل ہوچکا تھا ۔ پھر ۱۹۷۳ء میں وہ دن آیا جب سرپرستان و بانیان جامعہ کو ان کے خوابوں کی حقیقی تعبیر مل گئی ، آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے ایک چھوٹی سی مسجد اور چند کمروں کے پر مشتمل جامعہ آباد کا افتتاح ہوا ، اور اس وقت آپ نے ایک عالم باتدبیر مولانا شہباز اصلاحی علیہ الرحمۃ کو نئے دور کے جامعہ کا تعلیمی نظم و نسق سنبھالنے کے لئے پیش کردیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن چاہے طوفان آئے یا باد وباراں ، آندھیاں اٹھیں یا مشکلات روڑے اٹکائیں ، جامعہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، اسکی کشتی لہروں کا مقابلہ کرتے ، بھنوروں سے بچ بچاتے ، سیل رواں میں آگے ہی بڑھتے جارہی ہے ، اس میں جہاں توفیق یزدی شامل رہی ، وہاں آپ کی اور دیگر اکابر کی توجہات اور دعائیں بھی شامل حال رہی ہیں ، ورنہ جامعہ کو قائم کرنے والے اور اسے چلانے والے عموما متوسط طبقہ کے افراد تھے ، اس کے بانیان اور ناظمین میں کوئی بھی معروف معنی میں سکہ بند مولوی اور فارغ التحصیل نہیں ہوئے تھے۔
حضرت مولانا کی جب پہلی مرتبہ بھٹکل آمد ہوئی تھی تو اس وقت اس ناچیز کی عمر پختہ نہیں ہوئی تھی، پانچویں پرائمری کا طالب علم اپنے بڑوں سے بزرگوں کا صرف نام یا تعریفیں ہی سن سکتا ہے ۔ ایک عشرے تک بالمشافہ دیکھنے اور استفادے کی کوئی صورت نہیں نکل سکی ، لیکن جامعہ میں اس زمانے میں مطالعہ اور کتابیں پڑھنے کا کچھ ایسا ماحول بن گیا تھا ، اور خاص طور پر ہمارے استاد مکرم اور جامعہ کے اولین طالب علم مولانا ملا اقبال ندوی صاحب اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے ، انہوں نے اسلامی فکر پر مبنی کتابوں سے وابستگی کا ایسا ذوق طلبہ میں پیدا کردیا تھا کہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بے سمجھے بوجھے ناول پڑھنے کی رفتار ہی سے سہی حضرت مولانا کی اس وقت تک کی زیادہ تر اردو کتابیں نظر سے گذر گئی تھیں۔ اس کچی عمر میں دل و دماغ پر آپ کی جن کتابوں نے اثرات مرتب کئے ان میں مولانا نور عظیم کی ترجمہ کردہ عربی تقاریر اور مضامین کا مجموعہ( عالم عربی کا المیہ) آج بھی نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے ، واقعی عالم اسلام کے واقعات سے اس کتاب نے دلچسپی پیدا کی تھی، یہاں کی سیاسیات اور عرب قوم پرستی کے بارے میں اسی کتاب نے پہلے پہل متوجہ اور آئندہ پیش آنے والے واقعات و حوادث کی گہرائی تک پہنچنے کا فہم عطا کیا تھا۔
ستر کے اوائل میں حضرت کی تصانیف کے ذریعہ نصف ملاقات ہوتی رہی ، اس دوران مختلف ایام میں جنوبی ہند کے عظیم بزرگ مفکر اور عالم دین حضرت مولانا محمد صبغۃ اللہ بختیاری علیہ الرحمۃ سے کبھی ویلور میں کبھی مدراس میں ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوتا رہا ، اس زمانے کی ایک مجلس میں مولانا بختیاری کے سامنے حضرت مولانا کی تازہ تصنیف ارکان اربعہ رکھی ہوئی تھی ، بختیاری صاحب کہنے لگے کہ اس کتاب میں سیرت النبی ،حجۃ اللہ البالغہ ، زاد المعاد اور جمع الفوائد سے مواد مرتب کیا گیا ہے ، یہ کتابیں ہم نے بھی پڑھی ہیں ، لیکن اللہ تعالی نے ارکان اربعہ اور آپ کی دوسری تصانیف کو مقبولیت دی۔ یہ انسان کی محنت سے نہیں ہوا ہے ، توفیق خداوندی اسی کو کہتے ہیں ، ورنہ مفسر قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمۃ کے یہاں حضرت مولانا میرے رفیق درس تھے ، مولانا لاہور ی کے دروس عام درسوں جیسے نہیں ہوا کرتے تھے ، بلکہ آپ کے دروس میں آنے سے قبل بہت محنت کرکے آنی پڑتی تھی ، مولانا اشاروں اور مختصرنکات میں تفسیر بیان کرتے تھے ، ان دروس میں منطق اور فلسفہ کی آمیز ش ہوتی تھی ، ہم جیسے دیوبند سے پڑھ کر آنے والوں کو مولانا کے درس سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی تھی ، لیکن چونکہ حضرت مولانا کا منطق و فلسفہ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انہیں ان دروس کو سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ، مولانا لاہوری کے یہاں ہمارا شمار زیرک طلبہ میں ہوتا تھا ، لیکن حضرت مولانا کا خاندانی پس منظر کچھ ایسا تھا کہ مولانا لاہوری کے یہاں آپ کے ساتھ بڑے احترام کا معاملہ ہوا کرتا تھا، اب دیکھئے مجھ جیسا ہونہار طالب علم اور اپنے وقت کا مقرر کتابوں کا پارکھ باقیات الصالحات ویلور کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گمنام پڑا ہے ، اور حضرت مولانا کا چاردانگ عالم میں طوطی بول رہا ہے ، یہ انعام خداوندی ہے جسے چاہے نوازدے ۔
حضرت مولانا سے تسلی بخش انداز سے ملنے کا موقعہ ہمیں پہلی مرتبہ غالبا ۱۹۷۹ء کے اوائل میں ہوا ۔ اس وقت مخدومی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم کی آپ کے ساتھ پہلی مرتبہ بھٹکل آمد ہوئی تھی ، اس وقت میں جامعہ آباد میں تدریس سے میں وابستہ تھا، حضرت مولانا امریکہ سے آنکھوں کے کامیاب آپریشن کے بعد شفایاب ہوکر آئے تھے ، اور دس بارہ سال بعد کھلی آنکھوں سے دنیا کے مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے ، انہی دنوں ایران میں خمینی انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہورہا تھا، اور جنرل محمد ضیاء الحق کے بھی یہ ابتدائی ایام تھے ، اور حضرت مولانا پڑوسی ملک ہوکر آئے تھے ، حضرت مولانا کی زبانی عالم اسلام کے واقعات و حوادث اور حقائق جاننے کا اس سے بہتر موقعہ کہاں مل سکتا تھا ، آپ سے ان موضوعات پر خوب استفادے کا موقعہ ملا ، انہی ایام میں کیریر گانڈنس پر ڈیل کارنیگی کی کتابیں میٹھے بول میں جادو ہے وغیرہ نظر سے گزری تھیں، ان کتابوں کو پڑھ کر بولنا یا تقریر کرنا تو کبھی نہیں آیا ، لیکن انٹرویو لینے کے لئے چند ایسے نکات مل گئے جنہیں ہم نے دو شخصیات پر آزمایا ، حضرت مولانا نے تو طالب علمانہ سوالات پر اس وقت دل کھول کر رکھ دیا اور دوسری مرتبہ پاکستان کے مولانا مفتی محمو علیہ الرحمہ نے پہلے ہی سوال میں ڈھیر کردیا، مفتی صاحب سیاسی جو ٹھہرے ۔ حضرت مولانا سے اسی سفر میں غیر مرتب انداز میں ارتجالاً اس ناچیز نے طالب علمانہ سوالات کی بھر مار کردی تھی اور آپ نے اس وقت بڑی تفصیل سے اپنی ذاتی علمی و مطالعاتی زندگی پر روشنی ڈالی تھی ، ان میں سے بہت سی باتیں بعد میں کہیں ہمارے مطالعے سے نہیں گزریں ۔ اسی مجلس میں اس ناچیز نے آپ سے آب بیتی لکھنے کی درخواست کی جرات کی تھی ، جس پر پہلے تو آپ نے فرمایا کہ پرانے چراغ کی بنیاد پر ان کے رفیق قاضی عدیل عباسی صاحب نے آپ کی ایک آب بیتی مرتب کی ہے ، اسی مجلس میں آپ نے اپنی مستقل آب بیتی لکھنے کا عندیہ دیا تھا جو کاروان زندگی کے عنوان سے ایک تاریخی و دعوتی دستاویز کی شکل میں بعد میں سامنے آئی ۔
آپ کو جامعہ اور بھٹکل سے بڑی محبت تھی ، بر صغیر میں عربوں کی آباد کردہ قدیم بستیوں میں وہ صر ف بھٹکل کے نوائط کو عربی خصوصیات کا حامل سمجھتے تھے ،وہ محبت اور تعلق میں وہ ہمیشہ ندوۃ العلماء کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو اہمیت دیتے تھے ، اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے ، بھٹکل میں پہلی آمد پر آپ نے جامعہ کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا تھا، ان میں آخری دم تک سر مو فرق نہیں آیا ، انہیں جامعہ کو درپیش ابتلاء اور امتحان کی گھڑیوں میں بڑی فکر لاحق ہوتی تھی ، اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ بلند بہ دعاء ہوجایا کرتے تھے ۔ بھٹکل کو جب حاسدوں کی نظر لگتی ، اور یہاں کا امن و امان بگڑ جاتا تو آپ بلک اٹھتے ، بہت پریشان ہوتے ، اور اسے نظر بد سے بچانے کے لئے جملہ اسباب استعمال کرتے ، مولانا کی زندگی میں جب کبھی یہاں کی فضاوں میں مایوسی کے بادل چھا جاتے تو اور وسائل و اسباب سب ناکارہ نظر آتے تو آپ جیسے بزرگارن کی کی نظر کرم اورتوجہات سے یہ بادل چھٹے ہوئے صاف نظر آتے ۔
نو زائیدہ جامعۃ الصالحات کی عمارت کی تقریب افتتاح کے دوسرے روز مورخہ : ۳۰ ؍دسمبر ۱۹۸۰ء جامعہ آباد میں منعقدہ اعیان شہر اور اراکین مجلس شوری کے سامنے دل کھول کر جس انداز سے جامعہ سے اپنی محبت اور لگاؤ کاآپ نے اظہار کیا تھا ، اس میں اخلاص اور درد کے جذبات امنڈ رہے تھے ، ہماری ناقص رائے میں حضرت مولانا کی زبانی ایسے والہانہ جذبات کسی اورادارے یا جامعہ کے لئے نہیں سنے گئے ، آپ کے الفاظ تھے:
’’میں آپ سے اس جامعہ اسلامیہ سے متعلق کہوں گا کہ اسے اس درجہ تک پہنچائیں کہ عرب کے بڑے بڑے علماء اور ماہرین یہاں آئیں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ جامعہ اس درجہ تک پہنچ جائے گا اور میں زندہ رہا تو بڑے سے بڑے آدمی کو ان شاء اللہ یہاں لے آؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ کیسے شوق سے آتے ہیں، تو اس کو ترقی دیجیے۔ اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے اور تعجب بھی ہے کہ میں شروع سے آرہا ہوں، سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک رہا ہوں ،جامعہ کو جہاں تک پہنچنا چاہئے تھا نہیں پہنچا،کیا اسباب ہیں ؟ میں زیادہ واقف بھی نہیں اورتفصیل میں جانا بھی مناسب نہیں سمجھتا،لیکن جامعہ کو اس وقت واقعی صحیح معنی میں اسم بامسمیٰ ہونا چاہئے تھاہر حیثیت سے ،ابھی تک یہ اس حیثیت کو نہیں پہنچا ،نہ عمارتوں کی حیثیت سے پہنچ سکا ،نہ معیار تعلیم کے لحاظ سے پہنچ سکا،میں چاہتا ہوں کہ اس قابل ہوجائے کہ اس کے ساتھ الحاق ہو،اور یہ ایک مرکزی مدرسہ بن جائے ،اس میں آپ کا فائدہ ہی فائدہ ہے اور آپ کی شہرت کا باعث ہے ۔‘‘
’’میں منیری صاحب سے کہوں گا کہ آپ اس ذمہ داری کو سنبھالیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو کام کا طریقہ سکھایا ہے، صلاحیت دی ہے، تمام ذمہ داروں سے کہوں گا کہ اس کام کو سنبھالیں اور اسکو ترقی دیں، میں اس سے قبل بھی جامعہ میں آیا ہوں، لیکن جامعہ میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، وہی تین بڑے کمرے اور چار چھوٹے کمرے، اور ایک مسجد ، اتنے دن کے بعد آیا، وہی کمرے اس میں کوئی ترقی نہیں ، تعمیری ترقی بھی ہونی چاہئے۔‘‘
درد دل کے مالک اس اللہ والے کی تمنا ئیں پوری ہوئیں ، اس خطاب کے بعد جامعہ نے ایک اور کروٹ لی ، الحاج محی الدین منیری مرحوم کے دور میں تیز رفتاری سے اس نے ترقی کے مراحل طے کرنا شروع کیا ، اپنی زندگی ہی میں آپ نے سیرت ٹیپو سلطان کے رسم اجراء کی تقریب میں یہاں کے فرزند مولانا محمد الیاس ندوی کے تصنیفی کام سے خوش اور شادمان ہوئے ، اور آپ کی آنکھیں بند ہوتے ہیں آپ کے جانشین سرپرست جامعہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم نے یہاں پر رابطہ ادب اسلامی کے ادب اطفال پر سیمینار منعقد کرکے آپ کے خواب کو تعبیر بخشی ، اور اب یہ تیسرا سیمینار ہے جس کا موضوع جامعہ اور بھٹکل کے عظیم محسن کی دعوتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔
۱۹۸۰ء کے بعد حضرت مولانا سے بھٹکل اسفار میں تیز ی آگئی ، رحلت سے قبل جب آپ کو اطلاع ملی کہ یہاں کے کتب خانے میں علامہ رشید رضا کے مجلہ( المنار) کی پوری فائل موجود ہے ، تو فرمایا کہ اس مجلے میں اٹھارہ سال کی عمر میں اپنا تحریر کردہ پہلا عربی مضمون شائع ہوا تھا، لیکن اسے کبھی دیکھنے کا موقع نہ مل سکا ،ساٹھ سال بعد جب پہلی مرتبہ اسے یہاں پر دیکھا تو بہت خوش ہوئے ، دبی انٹرنیشنل قرآن ایوارڈ کے موقعہ پر ملاقات ہوئی تو ہمیں بڑی دعائیں دیں، اور جب ہم نے طلبہ و اساتذہ کی مطالعہ میں بے رغبتی اور کتب خانے کے علمی خزانوں کے جمود پر ہمت پست ہونے کا تذکرہ کیا تو فرمایا کہ کتب خانے آج کی نسلوں کے لئے نہیں ہوا کرتے ، یہ آئندہ نسلوں کے لئے ہوتے ہیں ۔ اور بڑی محبت سے تہجد کے وقت بلا کر اپنے سلسلے کی اجازت اسناد حدیث سے نوازا۔ دوبئی میں کوئی تین چار بار آپ کا آنا ہوا ، ہر مرتبہ صحبت کا شرف حاصل رہا ، اس ناچیز سے اپنے دو طرح کے تعلقات بھٹکل سے اور منیری صاحب سے تعلق کا تذکرہ بار بار کرتے رہے۔
منیری صاحب نے بھی علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی علیہم الرحمۃ سے آپ تک بیشتر برصغیر کے علماء و اکابر کو قریب سے دیکھا تھا، لیکن آپ کا جو والہانہ محبت اور تعلق حضرت مولانا سے تھا، اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ، ایک مرتبہ ہم سے کہنے لگے کہ حضرت مولانا بار بار تکلیف کرکے بھٹکل آتے رہے لیکن کبھی آپ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ، لیکن جامعہ آباد کے افتتاح کے موقعہ پر آپ تنہائی میں جاکر آپ کی خدمت میں پانچ ہزار روپئے جب پیش کئے تو حضرت مولانا کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا، کہنے لگے: چالیس سالہ تعلق کا یہ صلہ دے رہے ہو ؟ منیری صاحب کہنے لگے کہ میں آپ کے جلال سے تھر اگیا ، انگ انگ کانپ اٹھا ، مال و زر سے ایسی بے اعتنائی کا منظر کبھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ اور جب منیری صاحب نے آپ کے سامنے بیعت کے لئے دست طلب پیش کیا تو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں سفارشی خط کے ساتھ بھیج دیا۔ بھٹکل سے حضرت مولانا کو قریب سے دیکھنے والی اس نسل میں اب کوئی نہیں رہا ، یہی قانون قدرت ہے ، لیکن یہ کیا کم ہے کہ ان حضرات کے فیوض و برکات جاری و ساری ہیں، ان کی دعائیں اور توجہات اب بھی بلاؤں کو ٹالتی رہتی ہیں ، ورنہ ہمارا رویہ تو ایسا نہیں ہے ، خدا کرے ان کی جلائی ہوئی شمع تا قیامت روشنی بکھیر تی رہے ، یہ جہاں ان حضرات کے بلندی درجات کا باعث بنے ، وہیں آنے والی نسلوں کی مغفرت کا بھی ، آمین