(ایک صاحب علم کے سوالات کے جواب میں لکھی گئی۔)
سوالات
نظم قرآن کا تصور اور تفسیر میں مخاطب کے تعین کا مسئلہ (اور اس کے ساتھ اتمام حجت کا قانون بھی) سامنے آنے کے بعد احکام کی تحدید وتعیین اور تعمیم کے مسئلے پر ذہن کافی الجھا ہوا ہے۔ رہ نمائی فرمائیں۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس کون سے ایسے قطعی اصول ہیں جن کی رو سے ہم بعض احکام کو عہد رسالت کے ساتھ خاص اور بعض کو عمومی مانیں گے؟مولانا اصلاحی کے ہاں "تدبر قرآن" میں تخصیص کی وہ صورتیں نظر نہیں آتیں جو غامدی صاحب کے ہاں اور آپ کی کتاب "جہاد ایک مطالعہ" میں نظر آتی ہیں۔ آپ کی جہاد کی کتاب میں "خیر امت" کے خطاب کی بھی مجھے بظاہر ایسے لگتا ہے کہ صرف عہدِ صحابہ کے لیے ہے، جب کہ امت میں ہمیشہ اس اطلاق کو عمومی مان کر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اس امت کی ذمہ داری باور کیا گیا ہے۔ مولانا اصلاحی بھی ’’کذلک جعلناکم امۃ وسطا‘‘ کے تحت آیت کو ایک تو تاویل خاص کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور پھر اس سے عمومی طور پر امت محمدی کی ذمے داری پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ مولانا فراہی اور اصلاحی (جو ان اصولوں کے بانی اور مؤسس ہیں) کے مقابلے میں ان اصولوں کے استعمال میں زیادہ تخصیص کا پہلو نمایاں ہو رہا ہے۔ اس سے بسا اوقات یہ خدشہ سا دل میں اٹھتا ہے کہ یہ اطلاقات کی تخصیص اسلام کے تصورِ آفاقیت ہی کو محدود کر کے اسے ایک زمانی اور مکانی دین کے طور پر پیش نہ کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ اور ابن عاشور کا کہنا ہے کہ آیت جن معانی کو محتمل ہو، وہ اس سے مراد ہوں گے۔ یہ بات محض لغت کی اساس پر نہیں، بلکہ ابن عاشور نے اپنی تفسیر کے مقدمے کے آٹھویں باب میں اس مسئلے کو زیر بحث لایا ہے اور روایات اور آثارِ صحابہ کی رو سے ایسی کئی مثالیں دی ہیں کہ آیت کو سیاق وسباق کے بغیر عمومی طور پر دیکھا گیا ہے اور پھر فقہاء کے ہاں تو اس کی مثالیں بے شمار ہیں جہاں استنباطِ حکم کو لفظی دلالتوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ہمارے اصولیین ، خصوصاً حنفیہ، نے دلالتِ معنی کی درجہ بندی پیش کی ہے۔اس کو اگر پیش نظر نہ رکھا جائے تو پھر قرآن ہرعہد میں کس طرح ہماری رہ نمائی کرے گا؟
جواب
میرے خیال میں پہلے سوال کے کسی جواب تک پہنچنے کے لیے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھنا مناسب ہوگا:
۱۔ کلام کے اولین مخاطب اور اس واقعاتی سیاق کی تعیین جس میں کلام کیا جا رہا ہے، اور اسی طرح ان معہودات ذہنیہ کا تعین جو متکلم اور کلام کے اولین مخاطب کے مابین پائے جاتے ہیں، کسی بھی کلام کی صحیح تفسیر کی ایک بنیادی شرط ہے۔ ہر کلام کچھ معہودات خارجیہ اور کچھ معہودات ذہنیہ پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کوئی کلام ایسا نہیں ہو سکتا جو کسی آفاقی مخاطب کو فرض کر کے کیا جائے، یہاں تک کہ کلام الٰہی بھی نہیں۔ یہ خدا کے کلام کا نقص یا قدرت الٰہی کا عجز نہیں، بلکہ انسان کے ذہن کی ایک خلقی محدودیت سے پیدا ہونے والی ناگزیر ضرورت ہے جسے اس کے ساتھ کلام اور تخاطب میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔ یہ بھی بدیہی ہے کہ کلام کی مذکورہ تحدیدات اس کو مستلزم نہیں کہ کلام کی معنوی آفاقیت اس سے منتفی ہو جائے۔ انسانی ذہن عموماً آسانی کے ساتھ کلام کی اصل روح اور پیغام میں اور اس کے ان لوازم وعناصر میں جو اولین مخاطب اور اس کے معہودات ذہنیہ یا عادات بیانیہ سے متعلق ہوتے ہیں،امتیاز کر کے کلام کو مختلف ومتنوع سیاقات میں بامعنی اور relevant بنا لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
۳۔ قرآن کے فہم کے معاملے میں مذکورہ دونوں پہلووں کا با معنی ہونا صدر اول کے اہل علم کے لیے بہت واضح تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اسباب النزول سے کافی اعتنا ملتا ہے اور وہ اس پہلو کو کلام کے مصداقات کی تعیین اور مشکلات کے حل کے لیے ایک بنیادی وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ چیز کلام الٰہی کی روح، پیغام اور تعلیمات کی آفاقیت کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں کوئی سوال پیدا کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
۴۔ بعد کے ادوار میں کلام الٰہی کی تفسیر میں ان دونوں پہلووں کے مابین توازن بعض پہلووں سے متاثر ہوا، خاص طور پر اسباب النزول سے استفادہ کا دائرہ تدریجاً محدود تر ہوتا چلا گیا اور ناگزیر ضرورت کے مقامات کے علاوہ عمومی طور پر کلام کی تفسیر اس مفروضے پر کی جانے لگی جیسے اس کا مخاطب کوئی آفاقی انسان ہے۔ رجحان کی اس تبدیلی کے اثرات ہدایت الٰہی کے بعض بنیادی مشمولات مثلاً عقائد، اخلاق، امثال وغیرہ کے فہم میں تو نمایاں نہیں ہوتے اور اس دائرے میں عموماً کوئی بنیادی الجھن اس کے علاوہ اہل تفسیر کو پیش نہیں آتی کہ بعض باتوں کا مصداق پوری طرح واضح نہیں ہو پاتا یا بلاغت کلام کے بعض پہلو نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ تاہم قرآن کے بعض دوسرے اہم مضامین کے فہم اور تفسیر میں اس رجحان کی وجہ سے کئی الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور تفسیری منہج میں ایک نوع کا تضاد بھی رونما ہوا۔
۵۔ اس کی سب سے نمایاں مثال قرآن کے مخاطب اولین گروہوں سے متعلق اجزاء کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے مشرکین مکہ اور منافقین چونکہ عملاً عہد رسالت کے بعد اپنی گروہی حیثیت میں ختم ہو گئے، اس لیے ان سے متعلق اجزاء کی تفسیر میں مفسرین مکمل طور پر عہد رسالت کے واقعاتی سیاق پر انحصار کرتے اور اسی کی روشنی میں کلام کے مصداقات اور اس کی اطلاقی حدود متعین کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اہل ایمان کی جماعت اور یہود ونصاریٰ سے متعلق حصوں میں، اس کے برعکس، خطاب کی آفاقیت کا مفروضہ مفسرین کے انداز نظر پر غالب دکھائی دیتا ہے، حالانکہ اصول تفسیر کی رو سے ایک خاص واقعاتی صورت حال میں فریق کی حیثیت رکھنے والے سبھی گروہوں سے متعلق خطابات کی تفسیر ایک ہی منہج کے تحت ہونی چاہیے۔چنانچہ اگر مشرکین پر عذاب اور وعید اور ان کی داروگیر کے مضامین منکرین کے کچھ مخصوص گروہوں سے متعلق تھے تو فتح ونصرت، فضیلت ومنقبت اور ذمہ داری ومنصب کی وضاحت کے ضمن میں وارد بیانات بھی اہل ایمان کی اس مخصوص جماعت سے متعلق ہونے چاہییں جو اس معرکے کا دوسرا فریق تھی۔ (دونوں فریقوں کے بعض لوازم اور اوصاف جزوی طور پر بعد میں آنے والے گروہوں سے بھی متعلق ہو سکتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ انھیں کلام کا براہ راست مصداق نہیں کہا جا سکتا۔ اس توسیعی انطباق کے الگ اصول ہیں جن کی طرف اگلے نکات میں اشارہ کیا جائے گا)۔
۶۔ اسی نوع کی الجھن احکام وقوانین کے باب میں پیش آئی۔ یہاں بھی فہم کلام کا درست منہج یہی تھا کہ اس کے اولین تخاطب کا ماحول پیش نظر رکھا جاتا، اس کی روشنی میں ہدایات کی براہ راست اطلاقی شکلوں اور مصداقات کو سمجھا جاتا، اور پھر بعد کے ادوار میں اس ذخیرہ ہدایات کی relevance کو اسی طرح متعین کیا جاتا جیسے عقائد واخلاق اور قصص وامثال، نیز اولین مخاطب گروہوں کے باب میں کیا گیا۔ شاطبی نے الموافقات میں کسی جگہ لکھا ہے کہ آج ہم جو قرآن میں مذکور احکام شرعیہ پر عمل کرتے ہیں تو یہ قیاس کے اصول پر کرتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ قرآن ان احکام کو بیان کرتے ہوئے براہ راست ہمیں مخاطب نہیں کر رہا۔ اس کا اولین تخاطب انھی لوگوں سے ہے جن کے درمیان اس کا نزول ہوا۔ بعد کے لوگوں کے لیے ان احکام کا relevant ہونابراہ راست تخاطب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ جس معاملے سے متعلق اولین مخاطبین کو کوئی ہدایت دی گئی تھی، بعد کے لوگوں کو بھی اسی سوال سے سابقہ پیش آ رہا ہے اور یوں اشتراک علت کی وجہ سے قرآن کی ہدایت ان کے لیے بھی واجب الاتباع ہے۔
۷۔ احکام وقوانین کے باب میں خطاب کو اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے عمومی وآفاقی فرض کرنے سے جو الجھنیں پیدا ہوئیں، ان کی نمایاں ترین مثال جہاد وقتال سے متعلق احکام ہیں۔ قرآن کے سیاق کی روشنی میں ان احکام کی framing کے حوالے سے راقم نے اپنی ایک تحریر میں جو کچھ لکھا تھا، اسے یہاں نقل کرنا چاہوں گا۔
’’بعض احکام اپنی علت کے لحاظ سے اصلاً واساساً خاص ہوتے ہیں اور ان میں دلیل کی ضرورت تخصیص کے لیے نہیں، بلکہ تعمیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر کا براہ راست مخاطب بننے والے گروہوں اور قوموں کا معاملہ ہے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایمان کے معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ انسانوں کو ایمان یا کفر کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی انسان کو بھی دین وایمان کے معاملے میں کسی دوسرے انسان پر جبر کا حق حاصل نہیں۔ چنانچہ قرآن میں خود انبیا کی ذمہ داری کا دائرہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ذمے بس حق بات کو واضح طریقے سے پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے: ’فَذَکِّر اِنَّمَآ اَنتَ مْذَکِّر لَستَ عَلَیہِم بِمْصَیطِرٍ‘، البتہ قرآن نے اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر حق کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کر کے اسے عبرت کا نمونہ بنا دیتے ہیں۔ یہ کسی انسان کا نہیں، بلکہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے جس کا وقت متعین کرنے کا اختیار کسی انسان، حتیٰ کہ خود پیغمبر کو حاصل نہیں ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو پوری طرح واضح کر دیے گئے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ’اِنَّمَا عَلَیکَ البَلٰغُ وَعَلَیَنا الحِسَابُ‘، یعنی خدا کا پیغام پہنچانا تو پیغمبر کی ذمہ داری ہے، جبکہ منکرین سے حساب لینا خدا کاکام ہے، البتہ سابقہ قوموں کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے لیے عذاب کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں کسی آسمانی آفت کا نشانہ بنانے کے بجاے خود اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے جہنم رسید کیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اہل کفر کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب تھا۔ چنانچہ فرمایا: ’وَلَو یَشَآءُ اللّٰہُ لَانتَصَرَ مِنھُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکْم بِبَعْضٍ‘،یعنی اللہ چاہتا تو اپنے دین کا انکار کرنے پر ان کفار سے خود انتقام لے لیتا، لیکن اس نے اپنی خاص حکمت کے تحت اہل ایمان کو جانچنے کے لیے انھیں اہل کفر کے مقابلے میں معرکہ آرا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی بات ’قَاتِلُوھُمْ یُعَذِّبھُمُ اللّٰہُ بِاَیدِیکُمْ‘ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے، یعنی تم ان کے خلاف قتال کرو، اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں سے انھیں عذاب دینا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کے آخری مرحلے میں مشرکین عرب کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی، جبکہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے جو اس دورمیں محکومی اور تحقیر وتذلیل کی ایک علامت تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی اہل کفر کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ جائے، اسے قتل کر دیا جائے۔ فقہائے صحابہ نے اسی پہلو سے ان کی جان کی حرمت کو مسلمانوں کے برابر تسلیم نہیں کیا اور یہ رائے قائم کی کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ کافر کی دیت بھی مسلمان کی دیت کے مساوی نہیں ہوگی۔
دین کے معاملے میں جبر واکراہ کو جائز تسلیم نہ کرنے اور منکرین حق کو دنیا میں سزا دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل کفر کو قتل کرنے یا جزیہ عائد کر کے توہین وتحقیر کی سزا دینے کے اس معاملے کو انھی کفار سے متعلق مانا جائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی طرف سے اجازت موجود ہے۔ اس تناظر میں جو قرآن سے باہر کسی تاریخی سیاق سے نہیں، بلکہ خود قرآن کے نصوص سے معلوم ہوتا ہے، ان احکام کے نفاذ اور اطلاق کے معاملے میں تحقیق طلب چیز یہ نہیں تھی کہ ان میں تخصیص یا استثنا کس دلیل کی بنیاد پر کی جائے، بلکہ یہ تھی کہ علت کی رو سے یہ تعمیم کے کس حد تک متحمل ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر نے اہل کتاب کے علاوہ مجوس پر جزیہ عائد کرنے کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جب تک ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں آ گیا۔ سیدنا عمر نے ہی اپنے دورمیں مرتد ہونے والے بعض افراد کو قتل کرنے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے لیے قید کی متبادل سزا تجویز کی۔ فقہائے احناف نے اسی بنیاد پر یہ راے قائم کی کہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب بننے والے مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے اور اس کا اطلاق دنیا کے دوسرے مشرک گروہوں پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
گویا ہر حکم اولاً واصلاً ایک خاص دائرہ تخاطب میں دیا گیاجسے نظر انداز کر کے حکم کی درست framing نہیں ہو سکتی۔اس پورے سیاق کی روشنی میں حکم کی نوعیت متعین ہوگی اور اسی کی روشنی میں یہ طے ہوگا کہ کون سا حکم کتنا اولین دائرہ تخاطب تک محدود ہے اور کتنا اس سے باہر تعمیم کا متحمل ہے۔ حنفی فقہاء کے فہم نصوص کے منہج میں تو یہ چیز بہت نمایاں ہے۔ اسی کی بنیاد پر وہ مشرکین کے قتل عام اور مسجد حرام میں ان کے داخلے کی ممانعت کو اولین مخاطبین تک محدود مانتے ہیں۔ اسی طرح ان کے نزدیک مال غنیمت میں بیان کیا جانے والا ذوی القربیٰ کا حصہ عمومی نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے والے اولین ذوی القربیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ جو فقہاء اشہر حرم کی حرمت کو ابدی نہیں مانتے، ان میں سے بھی بعض نے اس پابندی کی توجیہ اسی اصول کے تحت کی ہے۔ مال غنیمت کی تقسیم کے متعلق پورے حکم (یعنی خمس کو بیت المال میں جمع کرنے کے بعد باقی حصوں کو مجاہدین کا حق قرار دینے) کو بھی بعد میں امت کی فقہی دانش نے اپنی ظاہری صورت میں واجب الاتباع نہیں سمجھا اور اس کی توجیہ یہ کی گئی کہ اس وقت چونکہ جنگی اخراجات اور مجاہدین کی تنخواہ وغیرہ کی ذمہ داری نظم اجتماعی کے سپرد نہیں تھی، اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کر دینے کی ہدایت دی گئی۔
۸۔ جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ تحدید وتخصیص کے اس تصور سے قرآن یا اسلام کی آفاقیت مجروح ہونے کا خدشہ ہے تو میرے خیال میں اس کا تعلق علمی اصول کے غلط اور بے جواز استعمال سے ہے اور اس امکان سے کوئی بھی علمی اصول محفوظ نہیں۔ صحیح علمی رویہ، یہ ہے کہ فی نفسہ اصول کے درست اور محکم ہونے یا نہ ہونے پر غور کیا جائے۔ اگر کوئی علمی اصول فی نفسہ محکم ہے تو اس کے غلط اطلاق کے امکان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ایسی غلطیوں کی exclusion کے لیے خود نصوص اور اس کے بعد امت کی مجموعی علمی روایت کافی وشافی ہے۔ اگر ایسا کوئی اطلاق بالکل بے بنیاد ہوگا تو امت کا اجتماعی فہم اسے رد کر دے گا۔ اگر فی الواقع وزنی ہوگا تو اسے قبول کر لیا جائے گا، اور اگر معاملہ ذو الوجہین ہوگا تو اہل علم کے مابین ایک اختلافی بحث کی صورت اختیار کر لے گا جو کہ ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے۔ اس کی حالیہ مثالوں میں زکوٰۃ کی شرح یا حدود شرعیہ کو غیر ابدی واجتہادی قرار دینے کا نقطہ نظر ہے جسے امت کے راسخ اہل علم نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کے برخلاف جزیہ کے نفاذ اور دیت کی مقدار کو غیر آفاقی قرار دینے کے نقطہ ہائے نظر بھی اسی دور میں پیش کیے گئے جنھیں ان کے ٹھوس علمی استدلال کے پیش نظر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
میں اس حوالے سے جصاص کے نقطہ نظر کا قائل ہوں جن کا کہنا ہے کہ احکام شرعیہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے خلاف، شریعت کا وارد ہونا عقلاً جائز نہیں اور یہی دراصل ہدایت الٰہی کے محکمات اور اس کے بنیادی مشمولات ہیں، جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ ان کے متعلق شریعت کا حکم مختلف عقلی امکانات میں سے کسی بھی امکان کے مطابق وارد ہو سکتا ہے۔اس دوسرے دائرے میں اصل فیصلہ کن چیز حکم الٰہی ہے اور چونکہ اصلاً ان کے متعلق شریعت کا حکم مختلف امکانی صورتوں میں سے کچھ بھی ہو سکتا تھا، اس لیے ان کے فہم میں بھی مجتہدین کے لیے پوری گنجائش ہے۔ اسی بنیاد پر جصاص ایسے امور میں کل مجتھد مصیب کے نقطہ نظر کے قائل ہیں۔
یہ گذارشات تو آپ کے پہلے سوال سے متعلق تھیں۔ دوسرے سوال سے متعلق یہ عرض ہے کہ قرآن کے الفاظ کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کرنے کی مثالیں جس کی تائید سیاق وسباق سے نہیں ہوتی، یقیناًمرفوع روایات اور آثار صحابہ میں موجود ہیں اور ان کے فی نفسہ جواز پر مجھے کوئی اشکال نہیں۔ تاہم میرے فہم کے مطابق اس طرز تعبیر کی نوعیت تفسیر کی نہیں، بلکہ استشہاد کی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بات اگر علمی وعقلی پہلو سے فی نفسہ درست ہو یا کم سے کم علم وعقل کی کسی واضح دلیل کے منافی نہ ہو تو کلام الٰہی کے ظاہری الفاظ کو توسعاً اور استشہاداً اس پر محمول کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے کلام کو اس مفہوم سے ہٹانے کے لیے جو سیاق وسباق سے واضح ہو رہا ہے، بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ کلام کی اصل مراد وہی ہوگی جو اس کے داخلی قرائن اور سیاق وسباق سے مفہوم ہے۔ اس سے زائد کوئی بات اگر روایات وآثار میں بیان ہوئی ہویا مفسر اور فقیہ کا ذہن اس کی طرف متوجہ ہو رہا ہو تو ثانوی درجے میں اس کے حق میں آیت سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس سے قوی تر کوئی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔ اسے ’الفال الحسن‘ کی قبیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس نوع کی روایات وآثار کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیری نے یہی بات لکھی ہے اور میرا طالب علمانہ فہم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔