راقم کو ۳ تا ۵ جولائی ۲۰۱۷ء، میرین ہوٹل گوجرانوالہ میں ایک سہ روزہ ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا جو الشریعہ اکادمی اور خوارزمی سائنس سوسائٹی کے باہمی اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔ ورکشاپ کا عنوان تھا: ’’مذہب اور سائنس: تنازعات کی وجوہات اور مفاہمت کی اساسیات‘‘۔
ورکشاپ میں معلم کی ذمہ داری ڈاکٹر باسط بلال کوشل صاحب نے انجام دی اور تین دن ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ورکشاپ جس موضوع کے تحت منعقد کی گئی تھی، وہ دور حاضر میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سائنسی ایجادات اور ان کے فوائد نے سبھی طبقات کو اپنے اثر میں لے لیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً سبھی شعبے اور قدریں اب اسی کے زیر اثر جانچی جا رہی ہیں۔
غورو فکر کا موجودہ عمل یا طرز انھی کے تشکیل کردہ ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہ غور و فکر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ترقی چوں کہ حسیات سے تعلق رکھتی ہے، دوسرے الفاظ میں مادہ سے متعلق، ہے، اس لیے دوسری اقدار ہوں یا اشیاء، وہ اسی پہلو سے جانچی جا رہی ہیں کہ آیا وہ ظاہری فوائد کی حامل ہیں یا نہیں ؟ اگر ظاہری فوائد جن کا باقاعدہ کوئی وجود ہو ، نہیں ہیں تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے ؟
اس پوری سوچ کو واضح انداز میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ آیا دور حاضر میں جب ہر چیز عقلی دنیا سے نکل کر تجرباتی دنیا میں آگئی ہے اور اپنی افادیت ثابت کر چکی ہے تو کیا اب کسی آسمانی تعلیم کی ضرورت باقی بچتی ہے جو سراسر غیر مرئی ہے اور اصلاً اقدار کے تعین اور دنیوی و اخروی رویوں کی تہذیب کو موضوع بناتی ہے؟ کیا اس سائنسی ترقی کے دور میں بھی ہمیں کسی آسمانی کتاب سے اصول اخذ کرنے کی ضرورت ہے؟
اس سوال کا براہ راست ایسا جواب ہر گز نہیں دیا جاسکتا جو معاملہ کو فوری طور پر حل کردے اور اس میں پنہاں تہہ در تہہ گتھیوں کو سلجھا دے بلکہ اس سوال کو سمجھنے سے پہلے بہت سے مراحل ہیں جو ذہن میں موجود ہونا ضروری ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے آغاز میں ہی فرما دیا " سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں گے کہ کسی ٹھوس منطقی بنیاد پر باہمی تنازع بنتا بھی ہے یا نہیں ؟ اگر ٹھوس بنیاد پر تنازع موجود ہوگا تو ہی ہم اس کی نوعیت ، دائرہ کار اور عملی حل پر غور کریں گے۔ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ تینوں بڑے گروہوں یعنی اہل مذہب، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے ہاں غور وفکر کا موضوع کس چیز کو بنایا گیا ہے ؟ غور و فکر کی اساس کسے ٹھہرایا گیا ہے ؟ اور اس پورے عمل میں کیسا انداز فکر کار فرما ہے؟
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کا موضوع روح ہے جس پر وحی کے ذریعے غورو فکر ہوتا ہے، سائنس کا موضوع جسم ہے جس پر حواس خمسہ کے ذریعے غور و فکر ہوتا ہے اور فلسفہ عقل کے ذریعے زندگی کے مسائل پر غور و فکر ہوتا ہے۔ تینوں گروہوں نے اپنے نصوص سے اپنے اصول وضع کیے اور پھر اس سے نتائج برآمد کیے اور انھیں نتائج کو قطعیت کا درجہ دے دیا۔ اب وہ کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، لہٰذا ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ تنازع پوری شدومد کے ساتھ موجود ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ تنازع آیا آج پیدا ہوا ہے یا ماضی میں بھی اس کی کوئی جھلک موجود ہے ؟ اس کے لیے ہمیں اپنی علمی روایت کا بنظر غائر جائزہ لینا پڑے گا اور اگر ہم اس عمل میں کامیاب ہوگئے تو بطریق احسن جان لیں گے کہ معاملہ نہیں بلکہ پرانا ہے ۔ البتہ اب معاملہ صرف علمی درس گاہوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔
یہ مسئلہ پرانا چلا آرہا ہے، اس پر بطور استشہاد انھوں نے حاضرین کے سامنے قرون وسطیٰ کے نامور یہودی فلسفی اور عالم موسیٰ بن میمون کا ایک خط پیش کیا جس میں وہ اپنے شاگرد کوفرمارہے ہیں کہ" میں نے علوم عقلیہ کی بحثوں میں پہنچ کر یہ محسوس کیا کہ تمھیں وہ متوحش کر رہے ہیں اور تم گاہے اضطراب میں چلے جاتے ہو اور گاہے حیران و پریشان ہو جاتے ہو۔ میں کوشش کروں گا ان معاملات میں تمھاری درست رہ نمائی کر دوں اور ایسے اشارے کر دوں جو تمھیں مقصود تک پہنچا دیں۔‘‘
معاملہ کو مزید واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے امام غزالی علیہ الرحمہ کی سرگزشت کا وہ حصہ پیش کیا جس میں وہ خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ ’’مجھ پر بھی ایک عرصہ ایسا بیتا کہ ذہن تشکیک میں مبتلا ہو گیا اور قلب میں اضطراب ہی اضطراب تھا۔‘‘ وہ ’’ خواب اور موجودہ دنیا کے حقائق ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک الجھن کا ذکر کرتے ہیں جو انھیں اس زمانے میں لاحق ہوگئی تھی ۔ انھیں یہ بات کھٹکتی تھی کہ جیسے خواب کے حقائق بیداری عالم میں محض وہم اور خیال لاطائل کی کرشمہ سازی ہے، اسی طرح جس دنیا کو ہم عالم بیدار گردانتے ہیں، ہو سکتا ہے ، یہ بھی کسی دن ایک ایسا ہی جہان ثابت ہو جو محض وہم ہو اور اس کی حقیقت بھی محض ایک خواب جیسی ہی ہو ۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ ’’ جب اس طرح کے اندیشے دل میں ابھرے اور اس انداز کے جذبات شکوک و شبہات کا باعث بنے تو میں نے ہر چند چاہا کہ اس بیماری کا علاج کروں یہ نہ ہو سکا کیوں کہ اس بیماری کا علاج تو دلائل ہی سے ممکن ہے اور دلیل اسی پر موقوف ہے کہ اولیات سے مرکب ہو، مگر اولیات جب اعتبار کھو بیٹھے تو دلیل قائم کرنا اور ثبوت مہیا کرنا سخت دشوار ہو گیا، لہٰذا میں دو ماہ اس سو فسطائیہ تشکیک میں مبتلا رہا۔‘‘
یہ استشہاد بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ دونوں استشہاد اس بات پر گواہ ہیں کہ ماضی میں بھی یہ مسئلہ موجود تھا ۔
ورک شاپ میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی سرگزشت الحاد کا خصوصی پر مطالعہ اور تجزیہ کیا گیا۔ مولانا ٹھیٹھ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ایسے علمی ماحول میں آنکھ کھولی تھی کہ 12،13 سال کہ عمر میں ہی آریوں ،مسیحیوں اور نیچریوں کے جواب میں لکھنے لگے تھے اور سولہ سال کی عمر تک کافی علمی پختگی پیدا ہو چکی تھی، لیکن کالج میں داخل ہوتے ہی دو کتابیں ہاتھ لگیں جو براہ راست مذہب کے موضوع پر نہیں تھیں اور نہ ہی ان کا تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذہب سے تھا بلکہ ایک اصول معاشرت اور آداب معاشرت پر تھی اور دوسری آداب و محاضرہ کی تھی۔ لیکن ان دو کا اثر ہی یہ ہوا کہ خود فرماتے ہیں "لیجیے ! برسوں کی محنت اور تیاری کا قلعہ بات کی بات میں ڈھے گیا اور بغیر کسی آریہ سماجی یا کسی اور دشمن اسلام سے بحث و مناظرہ میں مغلوب ہوئے ذات رسالت سے اعتقاد بحیثیت رسول کیا معنی ،نہ بحیثیت ایک بزرگ یا اعلی انسان کے بھی دیکھتے دیکھتے دل سے مٹ گیا ! اسلام و ایمان کی دولت عظیم بات کہتے ارتداد کے خس و خاشاک میں تبدیل ہو گئی ۔‘‘
اس مقام پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مولانا کی واپسی کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ بظاہر خود جو ہدایت پر نہ تھے اور ابھی ظلمتوں میں ہی سرگرداں تھے، وہ ایک ایک کر کے معاون ثابت ہوتے ہیں اور بتدریج ان کے ایمان کا سفر مکمل ہو جاتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے حکیم کنفیوشس کی تعلیمات سے متاثر ہوئے جس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں روحانیت سے جا ملتے تھے۔ ساتھ میں ایک اور کتاب کے ذریعے بدھ مت،جین مت اور تھیاسوفی سے بھی تعارف ہو گیا۔ بدھ مت چوں کہ نرے مجموعہ اوہام کا نام نہیں بلکہ اس کے اندر نفس بشری اور روح سے متعلق کچھ گہری حقیقتیں اور بصیرتیں بھی ہیں اور تھیا سوفی ہندو تصوف اور فلسفہ کی ہی ایک شکل ہے جس میں سارا زور روح پر ہے، اس لیے ان تعلیمات سے واقف کاری کا اثر یہ ہوا کہ مادیت ،لاادریت و تشکیک کی جو سر بفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، بتدریج منہدم ہوتی چلی گئی۔
ورک شاپ میں سائنس، فلسفہ اور مذہب کے تنازع کے حوالے سے بہت سے اہم نکات زیر بحث آئے اور شرکاء کی طرف سے سوال وجواب کا سلسلہ بھی ہوا۔ ایک نشست میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے خصوصی طور پر شرکت کی، جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر تینوں دن مسلسل ورک شاپ میں شریک رہے۔ ورکشاپ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال خوارزمی سائنس سوسائٹی کے رفقاء اور الشریعہ اکادمی کی ٹیم نے مل کر کی اور یوں ایک پرسکون اور علمی ماحول میں شرکاء کو ایک اہم موضوع پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔