تعلیمی ماحول کی تشکیل میں استاد کا کردار
تعلیمی عمل کا ایک اساسی بلکہ اہم ترین رکن استاد ہے ۔ لیکن تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلے میں استاد کے علاوہ تعلیمی وسائل کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے ۔ تعلیم کے وسائل پورے اور بہتر ہوں تو استاد کو عمل تدریس میں لگن پیدا ہوگی ، اس طرح بہتر اور معیاری تدریس اپنے مثبت اور اچھے اثرات کے باعث عملِ تعلیم کو خوش گوار اور پرکشش بنا دیتی ہے۔ اس لیے تعلیمی ماحول کی تشکیل میں اولین ذمہ داری اداروں کے سربراہان یا مدارس کے مہتممین حضرات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مدارس کے بادشاہ یا سلاطین بننے کے بجائے طلبہ اور بالخصوص مدرسین کے خدام بنیں۔ کیونکہ اگر وہ تدریس کے عمل میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو دور کریں اور تدریس کے لیے امکانی حد تک تمام وسائل مہیا کریں تو ہر استاد محبت اور محنت کے ساتھ تعلیم و تربیت میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔
تاہم تدریس کے وسائل خواہ جتنے بھی بہتر ہوجائیں، تعلیمی ماحول کی تشکیل میں کلیدی کردار استادہی کا ہے کیونکہ وسائل کے پورا ہونے کے بعد بھی تدریس کا عمل ازخود بہتر نہیں ہوسکتا بلکہ استاد کو اسے بہتر اور معیاری بنانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں استاد اولاً اپنی یہ ذہن سازی کرے کہ عمل تدریس کو ایک فن کے طور پر تسلیم کرے جس میں تربیت اور تجربے کی روشنی میں بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد استاد ماہرین تعلیم کی تجاویز اور کہنہ مشق اساتذہ کی راہنمائی حاصل کریں۔ اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریاں پہچانیں، حقوق اور مراعات کے حصول پر توجہ کم دیں، اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی پر زیادہ توجہ دیں۔ ہر وقت اپنا احتساب خود کریں۔ طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں اور عمل تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے فکر مند رہیں۔ سوچنا چاہیے کہ اگر عمل تدریس معیاری ہے، اس سے اہداف و مقاصد کا حصول ہورہا ہے اور طلبہ مصلحین بن کر معاشرے میں جا رہے ہیں تو وہ معاشرے کے دیگر افراد کے لیے نمونہ اور آئیڈیل ثابت ہوں گے ، اور لوگ اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیجتے رہیں گے اور مدارس کے ساتھ ان کا تعلق مزید مضبوط ہوگا ۔
ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت اور استاد کی رہنمائی
تعلیم و تربیت کا عمل مدرسے کی چار دیواری یا کمرۂ جماعت تک محدود و مقید نہیں کرنا چاہیے بلکہ طلبہ کی ذہنی، جسمانی، اخلاقی اور فکری تربیت کے لیے باقاعدہ نصاب سے ہٹ کر کچھ تفریحی ، ہم نصابی سرگرمیوں اور تربیت جسمانی کے عمل کو بھی بروئے کار لانا چاہیے ۔ کیونکہ نصابی تعلیم و تدریس کے ساتھ طلبہ کی طبعی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلبہ کی تربیت میں ان سرگرمیوں کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ اس تصور کو بالعموم مغرب سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن نبوی تعلم و تربیت کے تصورات کا اگر جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ آپؐ نے چودہ سو سال قبل بھی تعلیم کے اس پہلو پرکس قدر توجہ دی تھی۔ آپؐ نے جہاں بچوں اور نوجوانوں کو عقائد، اخلاق اور فنون کی تعلیم دی، وہیں ان کی جسمانی نشوونما اور ان کی تفریح کا بھی پورا پورا خیال رکھا۔ آپؐ نے جاہلیت کے ان تمام مشاغل کو جو اخلاقی اعتبار سے مفید ہوسکتے تھے یا ان کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ذریعے مفید بنایا جاسکتا تھا، عموماً برقرار رکھا۔ مثلاً گھڑ دوڑ، کشتی، تیراندازی ، تیراکی، دوڑ کے مقابلے ، سیر و تفریح وغیرہ۔
تعلیم و تربیت کے نظام کو کتابوں تک محدود یا تعلیمی مراکز کے اندر مقید رکھنے کے بجائے خارجی دنیا کو سمجھنے کے لیے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ یوں ہم نصابی سرگرمیوں کو صلاحیتوں کے اُجا گر کرنے اور جسم کو تندرست و توانا رکھنے کا وسیلہ بنایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ان تمام سرگرمیوں کو مفید بنانے کے لیے اور ان میں ایک حسین ربط اور توازن برقرار رکھنے کے لیے استاد کی راہنمائی ضروری ہو گی۔ (۵) بہترین معاون نبوی تعلیم و تربیت کے اصول ہی بہترین معاون ہوسکتے ہیں۔چنانچہ ذیل کی سطور میں ان میں سے چند اہم اصولوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
حدود اللہ کی پابندی
طلبہ کو تفریحی، ادبی، کھیل کود یا ہم نصابی سرگرمی کے اُن تمام انواع سے دور رکھنا ضروری ہے جن میں حدود شرعیہ سے تجاوز کا خطرہ ہو۔ ہم نصابی سرگرمی کے بنیادی مقاصد سے کبھی بھی صرفِ نظر نہ کیا جائے۔ نبی کریم ا کا ارشاد مبارک ہے:
إن لکل ملک حمیً ألا إن حمی اللہ محارمہ
ہر بادشاہ کے لیے ایک مخصوص چراگاہ ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ محرمات ہیں۔(مسلم)
اسلامی ثقافت کا فروغ
طلبہ کو ان تمام ہم نصابی سرگرمیوں سے دور رکھنا چاہیے جو اپنا اسلامی تشخص کھو کر غیروں کی ثقافت کی آئینہ دار ہوں، یا ایسی سرگرمیاں جو اسلامی اقدار کو فروغ دینے کا ذریعہ نہ ہوں، یا وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے اور دلوں کو مردہ بنانے والی ہوں۔ حدیث میں نبی اکر م ا کا ارشاد گرامی ہے:
کُلُّ شَيْءٍ لَیْسَ مِنْ ذِکْرِاللّٰہِ فَھُوَ سَھْوٌ أَوْ لَھْوٌ، إِلاَّ أَرْبَعَ خِصَالٍ: رَمْيُ الرَّجُلِ بَیْنَ الْغَرْضَیْنِ، وَتَادِیْبِہٖ فُرُسَہٌ، وَتَعَلُّمِہٖ السَّبَاحَۃَ، وَمَلَاعِبَتِہٖ اأھْلَہٌ
ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی یاد نہیں رہتی وہ لہو ہے یا درست نہیں ہے سوائے چار چیزوں کے، ۱۔دو نشانوں کے درمیان تیراندازی کرنا، ۲۔ گھوڑے کو جہاد کی غرض سے سدھانا، ۳۔ اپنی اہل کے ساتھ کھیل کود کرنا، ۴۔ اور تیراکی سیکھنا۔(السنن الکبری للبیہقی)
اخلاقی بگاڑ سے اجتناب
طلبہ کو کسی بھی ہم نصابی سرگرمی یا کھیل کود کی اجازت دینے میں ان کا علمی معیار، فکری بلندی اور اخلاقی تربیت مدنظر رکھنا چاہیے ۔ ایسے لہو و لعب سے اجتناب کرانا چاہیے جس سے اخلاقی بگاڑ کا خطرہ ہو یا حیا وعفت کے آنچل پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ طلبہ کو ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا چاہیے جن میں ان کے بہادری، حیاو عفت، صبر و استقامت، ضبط نفس، حسنِ تدبر، انتظام و انصرام کی صلاحیت، ٹیم ورک، ایثار، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی تکریم، ہمدردی اور باہمی تعاون کو فروغ ملے۔
صلاحیتوں کا فروغ
طلبہ کو ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف لے جانا چاہیے جہاں ان کو نصابی یا تعلیم کے عمل کی تھکاوٹ سے تفریح کا سامان ملے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی، ذہنی و فکری صلاحیتوں کو فروغ ملے اور ان میں تخلیقی استعداد پروان چڑھے اور مینجمنٹ اور تنظیمِ عمل کا سلیقہ سیکھنے کا موقع ملے۔
اعتدال
نبی کریم ا کی تعلیمات میں اعتدال ایک ایسا بہترین اصول ہے جس کو اگر کسی بھی عمل میں اپنایا جائے تو افراط کی ندامت اور یا تفریط کی حسرت کا موقع باقی نہیں رہتا۔ تعلیماتِ نبوی میں اس کو تعلیم و تربیت سے بڑھ کر زندگی کے ہر شعبے میں عام کردیا گیاہے ۔ چنانچہ ایک متعلقہ حدیث کے مطابق آپؐ کا ارشاد ہے:
خَیْرُالْاُمُوْرِ اأوْسَاطُھَا
بہترین کام وہ ہیں جو اعتدال اور میانہ روی سے سرانجام دیے جائیں۔(السنن الکبری للبیہقی)
اس اصول کے پیش نظر اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کے اوقات اور تمام مشاغل مناسب طریقہ سے تقسیم کریں۔ ہم نصابی سرگرمیوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ نہ دی جائے کہ وہ بنیادی مقصد نہیں ہے، اور نہ تعلیمی اور نصابی عمل میں ہر وقت مشغول رکھا جائے ، کہ اس میں صلاحیتوں کے ضیاع کا خطرہ ہوتا ہے ایک حدیث میں وار دہے:
إِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَلِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَ إِنَّ لِاأھْلِکَ عَلَیْکَ حَقّاً
بے شک تم پر تمہارے نفس، تمہارے رب، تمہارے مہمان اور تمہاری بیوی کا حق ہے۔ پس ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ (ترمذی)
ان تمام حقوق کی ادائیگی اعتدال کے اصول پر مبنی تقسیمِ عمل اور تقسیمِ کار ہی کی صورت میں ممکن ہے۔(۶)
مطالعے کا شوق بڑھانا
اساتذہ کے لیے ہمیشہ نہایت اہم سوال یہ رہا ہے کہ طلبہ میں مطالعے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟ مشاہدہ ہے کہ طلبہ میں آج جہاں صلاحیت اور استعداد کی کمی شدت اختیار کرتی جارہی ہے وہاں مطالعے کا شوق اور بحث وتحقیق کا ذوق بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اساتذہ کو ’’تعلیمی تحریک‘‘ کا فارمولا بروے کار لانا پڑے گا۔ ’’تحریک‘‘ کسی بھی انسان کی وہ اندرونی کیفیت ہے جو اس کے خیالات، احساسات اور افعال کی سمت متعین کرتی ہے۔ یہ چند اسباب و علل سے پیدا ہونے والی ایسی قوت ہے جو فرد کو مخصوص سرگرمی سے ثابت قدمی کے ساتھ وابستہ رکھ کر اس کی تکمیل تک مصروف رکھتی ہے۔ عبادت میں مخصوص الفاظ کہلوانے والی طاقت وہ اندرونی ’’تحریک‘‘ ہے، مخصوص سمت مثلاً مسجد کی طرف چلنے پر مجبور کرنے والی قوت وہ اندرونی ’’تحریک‘‘ ہے۔ چنانچہ ’’تعلیمی تحریک‘‘ سے مراد وہ اندرونی قوت ہے جو طالب علم کو استقلال و استقامت سے سیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ طالبِ علم کی اس اندرونی طاقت میں رکاوٹ ڈالنے والے اسباب تین ہیں۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
(i) اُکتاہٹ یا لاتعلقی
مثلاً طالبِ علم کسی کتاب یا مخصوص فن پڑھنے سے اکتاجائے یا لاتعلق ہو جائے۔ یہی اکتاہٹ طالب علم کی اس اندرونی قوت کو جو اس کو اس کتاب کے پڑھنے یا اُس فن کو سیکھنے پر مجبور کر رہی تھی، متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں طالبِ علم اس کتاب یااُس مخصوص فن سے لاپروا ہو جاتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ طلبہ کے اندر تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی کو فروغ دیا جائے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی کو فروغ دینے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔
- بعض اوقات طلبہ کی دلچسپی کو کم کرنے والی رکاوٹ ان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا نہ ہونا ہوتی ہے۔ مثلاً صحت، خوراک، آرام، کتاب یا کلاس کا ماحول سازگار نہ ہو۔ استاد کو اس سلسلے میں طلبہ کی احتیاجات پر نظر رکھنی چاہیے کہ طلبہ کی تمام ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں اور وہ اس کی پڑھائی میں رکاوٹ نہ بنیں۔
- جہاں تک ممکن ہو طلبہ کی گوناگوں دلچسپیاں معلوم کرنے کے لیے انہیں اپنی پسند کے مطابق کام کرنے کا موقع دیں، مثلاً اپنے پسندیدہ موضوعات کا مطالعہ کرکے کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ چونکہ ذاتی طور پر دلچسپ درسی مواد فہم اور تعلّم میں استقامت کا باعث بنتا ہے؛ اس لیے معلمین کوشش کریں کہ تدریس طلبہ کی اقدار اور فطری دلچسپیوں کے مطابق ہو۔
- تجسس انسانی فطرت کی ایک خاصیت ہے۔ وہ انوکھی صورتحال میں دلچسپی لیتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ یہ کیا ہے، ایسا کیوں اور کیسے ہے؟ استاد آج کے سبق کے آخر میں کل کی کلاس کی تیاری کے لیے یہ طریقہ اختیار کرسکتا ہے کہ بعض غیر متوافق حقائق یا مسائل کلاس میں پیش کرے اور طلبہ سے ان کے بارے میں دریافت کرے۔ ظاہرہے کہ طلبہ نہیں بتا سکیں گے۔ اس صورت میں استاد کے پاس موقع ہوگا کہ وہ مزید تحقیق کے لیے دیگر متعلقہ کتب اور مآخذ کی نشاندہی کرے، نیز طلبہ کو خود مراجعت کا کہہ کر تیاری پر آمادہ کرے اور ا ن کو اگلی کلاس کے انتظار میں رکھا جائے کہ ان مسائل پر مزید گفتگو اگلی کلاس میں ہوگی۔ اس طرح ہر طالبِ علم، ان شاء اللہ، اگلی کلاس میں گفتگو میں شرکت کے لیے تیاری کرے گا، ورنہ کم ازکم شدتِ انتظار کے باعث اپنی حاضری کو یقینی تو بنائے گا۔
(ii) نااہلی کا احساس
کبھی کبھار طالبِ علم کو اچھے امتحانی نتائج نہ ملنے پر یا ایک دوبار مسلسل کوئی مسئلہ نہ سمجھنے پر یہ احساس تنگ کرنا شروع کردیتا ہے کہ میں تو نااہل ہوں اورمیں کبھی یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کر پاؤں گا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ استاد ہر طالب علم کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے اور اس کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھائے کہ ’’میں یہ کام کرسکتا ہوں‘‘۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کے آغاز پر خود کو یا سینئر طلبہ کو یا دیگر معروف شخصیات کو نمونے کے طور پر پیش کرے کہ اپنے ابتدائی عہد طالب علمی میں یہ بھی آپ ہی کی طرح تھے۔ مسلسل محنت کے بعد اس مقام پر پہنچے۔ اسی طرح طلبہ کو تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔ تھوڑے سے کام پر حوصلہ افزائی اور مزید ترقی کے لیے ترغیب و راہنمائی سے کام لے۔ امید ہے کہ اس طریقہ پڑھائی میں ان کی رغبت بڑھے گی۔
(iii) مایوسی
نااہلی کا احساس یا احساس کمتری کا اگر بر وقت تدارک نہ کیا جائے تو یہ طالب کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے جس کے بعد طالب علم پڑھائی ترک کرکے تعلم کے عمل سے دور بھاگنے کے راستے تلاش کررہا ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ طالبِ علم کے اندر خوداعتمادی اور اطمینان پیدا کیا جائے اور استاد اس کو یہ یقین دلائے کہ اس کے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے تاہم مزید بہتری کے لیے بس اس میں ذرا نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کلاس میں کچھ طلبہ سیکھنے کے عمل سے مایوسی کا شکار ہیں تو استاد عمدہ نمونے پیش کرنے اور ترغیب کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل کام کرے:
اولاً : ایسی کلاس کے اندر استاد تسلسل سے ایک ہی نوعیت کے مقابلوں کا انعقاد اور تقسیم انعامات کا سلسلہ ترک کرے کہ قابل طلبہ کے مسلسل جیتنے اور انعامات حاصل کرنے سے مایوسی کے شکار طلبہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ استاد کو اس پہلو پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ جو طلبہ کسی ایک مضمون میں یا کسی ایک پہلو سے پڑھائی میں کمزور ہیں تو وہ کسی دوسرے پہلو سے اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے مقابلۃً بہتر بھی ہوں گے۔ یا ان کی کچھ پوشیدہ صلاحیتیں بھی ہوسکتی ہیں کہ انہیں اجاگر کیا جائے، اور ان کی دلچسپی کے میدان میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ان کی مایوسی کی کیفیت دور ہوسکتی ہے۔
ثانیاً: استاد ایسی کلاس میں سیکھنے کے عمل میں باہمی تعاون پر زور دیں اور کمزور طلبہ کی یہ ذہن سازی کریں کہ قابل طلبہ سے تعاون حاصل کرنے میں کوئی عار نہیں اور نہ قابل طلبہ کے لیے اس میں کوئی فوقیت کی بات ہے۔ مختلف گروپوں میں طلبہ کو اس طریقہ پر تقسیم کریں کہ ہر گروپ میں استعداد والے طلبہ شامل ہو اسی طرح کلاس کے اندر باہمی تعاون کی فضا بنائیں۔
ثالثاً: کمزور طلبہ کے اوپر سے آمرانہ کنٹرول ختم کیا جائے اور انہیں ممکن حد تک اختیار دیا جائے کہ مثلاً آپ کو اس باب کے دس مسائل میں سے اب تک چار مسائل یاد ہیں۔ اگلے ٹیسٹ کے لیے کتنا وقت درکار ہے اور اس کے لیے کتنے مسائل کی تیاری کرسکتے ہیں۔ اسی طرح طالب علم کو عملِ تعلم میں مزید پیش رفت کے لیے تربیت اور راہنمائی کے تحت بااختیار بنائیں۔اس طریقے سے طالب علم اپنے اندر تعلم میں پیش رفت اور استمرار محسوس کرتا جائے گا، جس کے ساتھ ساتھ مایوسی کا عنصر بھی ختم ہوتا جائے گا۔
تعلیمی ادارے کے ساتھ وابستگی
بعض اوقات طالب علم اپنی ذات کی حد تک کتنا ہی بد ذوق اور پس ماندہ کیوں نہ ہو لیکن اس کی ناکامی کی ذمہ داری اس کے ادارے، ادارے کے سربراہ اور وہاں کے اساتذہ پر ڈالی جاتی ہے۔ شکایت کنند گان اس معاملے میں ایک حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر طالبِ علم کی ذات اور فطرت میں شوق تعلم نہیں، تو اگرچہ اس فطرت کو یکسر تبدیل کرنا ایک نہایت مشکل اور بظاہر ناممکن عمل ہے لیکن اساتذہ اور متعلقہ ادارے کا سربراہ مل کر ادارے کے تعلیمی ماحول کے ذریعے سے کافی حدتک اُس طالبِ علم کی فطرت کو متأثر کر سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت ایسی نا خوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے ایک طالبِ علم کے مثالی ہونے کی تمام تر ذمہ داریاں نہ تو استاد پر عائد ہوتی ہیں اور نہ سربراہ ادارہ یا تنہا مہتمم اس کا مسؤل ہو سکتا ہے۔ لیکن تمام اساتذہ اور مہتمم کو مل کر اجتماعی صورت اور بہتر ماحول اختیار کرنے کے لیے کچھ اقدامات ضرور کرنے ہوں گے، جن میں کچھ ذمہ داریاں مہتمم کے ذمہ آتی ہیں اور کچھ کے متعلق اساتذہ جواب دہ ہوتے ہیں۔
تدریس کے لیے درکار وسائل اور ضروریات کا فراہم کرنا تو بظاہر مہتم کا کام ہے لیکن استاد کی ذمہ داری بھی صرف کتاب کی تدریس یا کمرہ جماعت تک محدود نہیں بلکہ کمرۂ جماعت سے باہر اور نصابی کتاب کی تدریس سے بڑھ کر بھی عمل تعلیم جاری رہنا چاہیے۔ اسی طرح استاد کتاب پڑھانے کے علاوہ طلبہ کی عملی تربیت اور اصلاح بھی اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ کیونکہ نبی کریمؐ کے طرزِ تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو آپؐ صحابہ کرامؓ کی تعلیم صرف صفہ یا مسجد تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ مسجد سے باہر بھی سفر و حضر دونوں میں آپؐ کی تعلیم کا عمل جاری رہتا تھا ۔ اسی طرح آنحضرت ا قرآن کریم کی آیات کی تشریح پر اکتفا نہیں فرماتے تھے بلکہ احادیث کی بھی تعلیم دی گئی ہے اور اسی طرح آپؐ کی تعلیم کا عمل تو اتنا عام اور صحابہؓکی زندگیوں کے ہر شعبے میں اتنا زیادہ تھا کہ ان کو معمولی معمولی معاملات میں، حتیٰ کہ استنجا تک کے طریقہ کی تعلیم بھی دی گئی۔ لہٰذا اس اصول کے پیش نظر اساتذہ کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم نصاب اور کمرہ جماعت سے بڑھ کر ہم نصابی سرگرمیوں اور طلبہ کی زندگی کے ہر شعبے تک عام ہو۔ہر استاد کے لیے یہ بھاری ذمہ داری اٹھانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام اساتذہ اور مہتمم کے درمیان مضبوط وابستگی اور رابطہ کار ہو ۔سب مل کر ایک دوسرے کو طلبہ کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا کریں۔ مناسب وقت کے بعد ان کا باہمی مشورہ ہو اس میں ہر استاد اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ اور ادارے اور طلبہ کے انتظامی اور تعلیمی سب امور کا بنظرِ غائر جائزہ لے کر غور و فکر کرکے تیاری کے ساتھ آئیں ، نیز ادارے اور طلبہ کی ترقی کے لیے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مثبت اور با معنی تجاویز پیش کریں۔
اگر تما م اساتذہ اور ادارے کے مہتمم کے درمیان باہمی تعاون اور مشوروں کا یہ رشتہ استوار نہ ہو اور مہتمم تعلیم کی تمام تر ذمہ داری استاد کا فرض سمجھتا رہے اور اساتذہ اپنے فرائض صرف کتاب کی تدریس اور کمرہ جماعت تک محدود تصور کرلیں اور ادارے کی انتظامی اور تعلیمی امور میں حصہ نہ لیں تو طلبہ کی اصلاح و تربیت اور تعلیم میں اعلیٰ کردار کے حامل ہونے کے خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا ناممکن نہیں تومشکل امر ضرور بن جائے گا۔
جدید وسائل و مسائل سے واقفیت
تعلیم کے جدید وسائل سے آگاہی
تعلیمی وسائل سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عملِ تعلیم میں حسن، جودت، بہتری اور عملِ تعلّم میں سہولت اور آسانی پیدا کرے۔ یعنی وہ چیز جس سے استاد کی تدریس معیاری ہوجائے اور جو طالب علم کوسبق پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کا باعث ہو۔ یہ چیز استاد کے خطبات، تعبیرات وتمثیلات کے علاوہ دیگر مادی و حسی اشیا بھی ہو سکتی ہیں۔استاد کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو چیز وہ تعلیم و تدریس کے عمل میں طلبہ کو منتقل کررہا ہے طالب علم اس کوسمجھ لے اور ذہن میں بٹھائے اور اس دوران اس کو کوئی مشکل نہ ہو۔ استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تدریس اور تعلیم ایک تسلسل کے ساتھ رواں تقریر اور خطبے کی شکل میں نہ ہو بلکہ اس میں تعبیر کا حسن بھی چاہیے ،کبھی مثالوں سے وضاحتیں بھی، اور بعض اوقات تختہ تحریر پر جدول سازی اور صورتوں کی بناوٹ بھی۔ اسی طرح بعض اوقات حسی اور مادی اشیاء کے ذریعے بھی وہ توضیحِ مزید کرسکتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے لیے ان سب سے چیزوں سے واقفیت ضروری ہے، کیونکہ ان سب کی بنیاد نبی کریم ا کی تعلیمات میں موجود ہے۔ مثالیں تو حدیثوں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ نبی کریم ا نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ ملنے والی قربت کو دو انگلیوں کی قربت سے سمجھا دیا تھا۔ عذاب قبر کے باعث پسلیوں کے آپس میں ایک دوسرے کے اندر تداخل کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے تداخل کی صورت کے ذریعے سمجھا دیا تھا۔ اسی طرح اپنے اور قیامت کے درمیان قربت کو بھی دو انگلیوں کی قربت کے ذریعے سمجھایا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی مختصر زندگی ، لمبی امید یں اور موت کے نزدیک ہونے کو زمین پر ایک تصویر اور جدول سازی کے ذریعے سمجھایا ہے۔ایک موقع پر اس معنی کو تین کنکریوں کے ذریعے بھی سمجھایا ہے کہ دو کنکریوں کو قریب یکے بعد دیگرے رکھ دیا اور تیسری کو دور پھینکا، پھر فرمایا کہ یہ دو قریب کنکریاں انسان اور اس کی موت ہے جب کہ تیسری کنکری اس کی لمبی لمبی امیدیں ہیں۔ الغرض ذخیرہ احادیث کے اندر اسّی سے زائد ایسے مواقع ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ کے علاوہ مختلف مثالوں، اشیاء یا اشکال کے ذریعے کوئی تصور یا بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ٹھوس بنیادوں کے ہوتے ہوئے اور عصر حاضر کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر کسی بھی استاد کے لیے اُن عصری وسائل کا جاننا بہت ضروری ہے جو اس کے عمل تعلیم میں نکھار، حسن، اور جان پیدا کریں۔
عصری تعلیمی مباحث
علمی دنیا میں جب سے تدریس کو ایک فن کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس وقت سے اس کی تربیت کے عمل کو بھی دیگر فنون و علوم کی طرح ہی سمجھا گیا اور اس پر مختلف کتابیں لکھی گئیں اور جرائد و مجلات کا اجراء کیا گیا۔ اساتذہ کی تربیت و رہنمائی کے لیے تعلیمی کا نفرنسیں، سیمینارز اور کورسز کا انعقاد کیا گیا اور یوں اب تک تدریس بطور فن پر دنیا کی مختلف زبانوں میں خاصا لٹریچر جمع ہوگیا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس میں دینی مدارس کے بعض علماء کا بھی حصہ ہے ان کی بھی اس موضوع سے متعلق کئی کتابیں دستیاب ہیں اور متعدد مجلات میں بھی دینی مدارس کے اساتذہ کے مقالات چھپتے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر اس سرعت کے ساتھ اتنی وافر مقدار میں کام کا ہونا اور جاری رہنا اس بات کا غماز ہے کہ استاد کو اپنے تدریسی عمل میں مزید بہتری لانے اور نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہر لمحہ محسوس ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا اساتذہ بالخصوص نو آموز اساتذہ کو بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ معاشرے میں عمومی طور پر نئے نئے اسباب و وسائل کے سیلاب سے طلبہ کی نفسیات اور ان کی فطرتیں متأثر ہوتی جارہی ہیں۔ ماضی میں انہیں جس انداز سے کوئی بات سمجھائی جاسکتی تھی یا تربیت کے حوالے سے وہ اپنی کسی عادت کو بُرا خیال کرتے ہوئے اُسے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کر سکتے تھے شائد آج کے طلبہ کو اسی طریقے اور انداز سے وہ بات نہیں سمجھائی جاسکتی۔ آج اُس بات کو باور کرانے اور نوعمروں کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے نئے ڈھنگ اور نئے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم و تدریس کو بطور فن تسلیم کریں اور پھر ماہرین فن کی تحریروں، مباحث، کتابوں اور تجربات سے آگاہی حاصل کریں اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے طریقۂ تعلم و تربیت کو مؤثر بنائیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کے نئے نئے اسباب و وسائل کے عام ہوجانے سے طلبہ کی نفسیات اور مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ان اسباب اور وسائل میں روز بروز جدت بھی آتی رہتی ہے اور اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نفسیات اور فطرتیں بھی تنوع اور تغیر کا اثر لیتی رہتی ہیں۔ اس صورت حال میں عملِ تعلم اور تربیت میں ان کی عادات اور دلچسپیوں میں بھی تغیر واقع ہوگیا ہے۔ ماہرین تعلیم وقت کے ساتھ ساتھ اس پر لکھتے رہتے ہیں،سیمینار کراتے ہیں، اور کانفرنسوں اور تعلیمی محفلوں میں اساتذہ کو بلایا جاتا ہے تاکہ انہیں اس تغیر کا اندازہ ہو اور طبیعتوں اور عادتوں کے مختلف ہونے کا ادراک و شعور ہو جس کی روشنی میں وہ اپنی تدریس کے عمل میں مزید بہتری پیدا کرتے رہیں۔ اس بنیاد پر تمام اساتذہ کو اس موضوع پر تسلسل کے ساتھ جاری اس کام سے واقفیت رکھنا ضروری ہے جس کے لیے کانفرنسوں اور سیمینارز میں جانا اور اس موضوع پر لکھی جانے والی مختلف تحریروں اور رسالوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔
مستقبل کی امکانی تبدیلیوں سے آگہی
اس سے پہلے ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ طرق تدریس یا عمل تعلیم و تربیت کے اسالیب و مناہج انگلیوں پر گنے جانے والے چند امور کا مجموعہ نہیں، کہ استاد ان کی ایک فہرست بنا کر اپنے پاس رکھ کر تدریس کے میدان میں اپنی تربیت مکمل سمجھیں، بلکہ عملِ تعلیم و تدریس کے اسالیب و مناہج وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تدریس کی اساس اور بنیاد جو تدریس کے مؤثر یا غیر مؤثر قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہ طلبہ کی نفسیات، عادات، ذہنی سطح اور فکری طاقت ہے کہ تدریس اگر ان امور کے ساتھ ہم آہنگ ہے تو بلاشبہ عمل تدریس مفید ہے ورنہ دوسری صورت میں تدریس کی ناکامی میں بھی کوئی شک نہیں۔ طلبہ کی نفسیات اور ان کی عادتیں اور اسی طرح ان کی سوچ کی سطح اور طاقت و رفتار ان کی زندگی میں موجود حالات، واقعات اور تعیش کے اساب و وسائل سے کافی حد تک متأثر ہوتی ہیں۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ حالات اور واقعات مسلسل کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی بہتر اور معیاری بنانے کے لیے اساب اور وسائل کی بھی فراوانی ہے جس میں جدّت کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب امور اپنے طبعی تغیر کا طلبہ کی نفسیات اور عادتوں اور خیال و فکر پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس شدتِ اتصال اور تلازم کے باعث طلبہ کی عادتوں اور ان کی نفسیات کا متغیر ہوتے رہنا ایک فطری اور بدیہی امر ہے جس کے لیے اساتذہ کواپنی تدریس اور عملِ تعلیم و تربیت کے اسالیب اور مناہج کے اندر متوافق اور ہم آہنگ تغیر اور تبدیلی کرتے رہنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جب ہم نے یہ جان لیا کہ عمل تعلیم و تربیت اور طرق تدریس مسلسل تغیر پذیر عمل ہے، ماضی میں ایک طرح تھا،حال میں اس کی نوعیت بدل چکی ہے اور مستقبل میں مزید تبدیلی کے امکانات ہیں؛ تو پھر ہمیں حال کی ضروریات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے خدوخال کوسمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں اساتذہ ذاتی طور پر بھی غور و فکر سے کام لیں کہ طلبہ کی نفسیات کس سمت جارہی ہے یا مدرسے کے اندر کسی خاص طالب علم کی صورتِ حال تعلم میں ابتری کی طرف جارہی ہے تو ایسی صورت میں فوراً تبدیلی کے لیے جبر کی راہ اختیار نہ کریں بلکہ اس طالب علم کی نفسیات اور اردگرد کے حالات وواقعات میں جھانکیں اور طالب علم کا مستقبل جاننے کی کوشش کریں۔ اگر یہ محسوس ہو کہ ابتری کی کیفیت معروضی اور وقتی ہے، طالب علم کچھ وقتی رکاوٹ کا سامنا کر رہا ہے تو استاد اس رکاوٹ کو دور کرے اور طالب علم کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن اگر یہ محسوس ہو کہ طالب علم مختلف قسم کی رکاوٹوں کے حصار میں قید ہے اور ایسی صورت حال کی روک تھام اگر بروقت نہ کی گئی تو اس طالب علم کا مستقبل مستقل طور پر خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے، تو پھر استاد کی حکمت عملی یکسر مختلف ہونی چاہیے۔ دیگر اساتذہ کی مشاورت اور اُن کا تعاون حاصل کیا جائے اور مستقبل میں ایسی صورتوں سے نمٹنے کے لیے مستقل تجاویز مرتب کی جائیں۔ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اگر ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی صورتِ حال میں سوچ بچار کا عمل کیا گیا ہو اور کچھ تجاویز مرتب کی گئی ہوں تو ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ نیز دیگر ماہرین امورِ تعلیم کی تحریروں، رپورٹوں اور ان کے تجربات سے بھی استفادہ ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں آنے والی عمومی تبدیلیوں اور حالات و واقعات پربھی گہری نظر ہو، ان کی رفتار کا اور جس رخ کی طرف یہ جارہے ہیں اس رخ کا ادراک و شعور ہو تو مستقبل میں رونما ہونے والے چیلنجز اور مقاصد و اہداف کا تعین آسان ہوجاتاہے۔ اہداف و مقاصد متعین ہوں، ضروریات اور تقاضوں کا ادراک ہو تو عمل تدریس کے راستے سے ان کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اولاًتدریس کو ایک زندہ اور متحرک فن کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا، وقت اور حالات کا ادراک اورمختلف لوگوں کے تجربات سے استفادے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہیے۔
اس کے بعد ہم مستقبل میں رونما والی تبدیلیوں کا ادراک و شعور بھی حاصل کرسکتے ہیں اورممکنہ ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بر وقت مؤثر حکمت عملی بھی وضع کرنے کے قابل ہوں گے۔
حواشی
۵۔ ’’اسلامی نظامِ تعلیم‘‘ (ص ۶۹۲۔۳۰۸)۔
۶۔ ملاحظہ ہو، ’’اسلامی نظامِ تعلیم‘‘، ترتیب و ادارت ڈاکٹر ابراہیم خالد، طبع: پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن، اسلام آباد (ص ۳۴۱۔۳۵۲)۔