مولانا محمد رفیق شنواری

کل مضامین: 7

امام طحاوی کا مقدمہ احکام القرآن

شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر قرآن و سنت ہیں۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ قرآنِ کریم احکام کا سب سے اعلی و برتر اور تنہاماخذ ہے۔ پھر اس مفروضے کا تمام مسائل پر یکساں اطلاق کردیاجاتا ہے۔ حالانکہ فقہا اور اصولیین اس بارے میں مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کے یہاں ایک مستقل موقف ، جو فروع اور احکامِ شریعت پر دور رس فقہی و قانونی اثرات مرتب کرتا ہے، پایا جاتا ہے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر گذشتہ کئی ماہ سے قارئین کی خدمت میں قرآن و سنت کے درمیان تعلق کے حوالے سے اس مؤقر جریدہ کے ایڈیٹر مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر ایک مکمل پروجیکٹ...

جدید سائنس کے مباحث اور علم الکلام

(پروفیسر نضال قسوم (امیریکن یونیورسٹی، شارجہ) کے مقالہ Kalam’s Necessary Engagement with Modern Science سے مستفاد) خالص عقیدے سے متعلق قدیم مباحث پر مشتمل علم کلام سائنسی مباحث پر کیوں مشتمل ہو؟ سائنس کی تعریف پر غور و فکر کسی حد تک اس سوال کا جواب سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ سائنس کی تکنیکی اعتبار سے جو بھی تعریف کی جائے، ان میں پائے جانے والی فنی اور دقیق فروق سےہٹ کر بنیادی عناصر تقریبا سب میں یکساں پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں اس علم کی معروضیت، آفاقیت ، تجربیت اور معیاریت کے دعوے۔ یعنی جدید علم جو معلومات فراہم کرتا ہے، وہ معروضی حقائق ہیں ، یہ علم مذہب اور کلچر...

چند جدید عائلی مسائل ۔ فقہی تراث کا تجزیاتی مطالعہ

ہم نے مدرسہ ڈسکورسز کی کلاس میں “جرم زنا” کی ماہیت اور تعریف نیز بنیاد فراہم کرنے والے مفروضوں کا تجزیہ کرنا تھا جس کے لیے ڈاکٹر سعدیہ یعقوب صاحبہ نے امام سرخسی کی کتاب المبسوط کے کچھ صفحات (جلد نہم ص ۵۴-۵۵) کا انتخاب کیا تھا۔ پہلے ہم نے اس بنیادی سوال کا تعین کیا جس کا امام سرخسی ان صفحات میں جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیوں کہ تراث جس مقصد کے لیے پڑھائی جا رہی ہے ، اگر وہ مقصدی سوال سامنے نہ ہو تو سمجھنے کے جتن کا کیا معنی؟ اس کے بعد اس منتخب حصے کو کئی مناسب حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ حصہ محض کئی مسائل کی تصویر اور تکییف پر مشتمل تھا ، جس...

مدرسہ ڈسکورسز : سفر قطر کے احوال و تاثرات

امریکہ کی ایک معروف کیتھولک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے پاک و ہند کے دینی مدارس کے فضلاء کے لیے " مدرسہ ڈسکورسز" کے عنوان سے ایک تین سالہ کورس متعارف کروایا ہے جو پچھلے سال شروع ہوا تھا اور آئندہ سال اختتام پذیر ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی پیدائش ساؤتھ افریقہ میں ہوئی، دارلعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنو میں دینی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد لندن میں صحافت سے وابستہ رہے اور اس کے بعد امریکہ منتقل ہوگئے۔ امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈی کی۔ ان کا پی ایچ ڈی کا کام...

دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۲)

تعلیمی ماحول کی تشکیل میں استاد کا کردار۔ تعلیمی عمل کا ایک اساسی بلکہ اہم ترین رکن استاد ہے ۔ لیکن تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلے میں استاد کے علاوہ تعلیمی وسائل کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے ۔ تعلیم کے وسائل پورے اور بہتر ہوں تو استاد کو عمل تدریس میں لگن پیدا ہوگی ، اس طرح بہتر اور معیاری تدریس اپنے مثبت اور اچھے اثرات کے باعث عملِ تعلیم کو خوش گوار اور پرکشش بنا دیتی ہے۔ اس لیے تعلیمی ماحول کی تشکیل میں اولین ذمہ داری اداروں کے سربراہان یا مدارس کے مہتممین حضرات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مدارس کے بادشاہ یا سلاطین بننے کے بجائے طلبہ اور بالخصوص مدرسین...

دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۱)

اپنے اہل خانہ کے بعد طالب علم جس شخصیت سے زیادہ متا ثر ہوتا ہے، وہ اس کا استاد ہے۔ طالب علم اپنے استاد سے تہذیبی اقدار اور اخلاقیات کے وہ اسالیب سیکھتا ہے جو اس کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ استاد کی ’’شخصیت‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’شخصیت‘‘ سے مراد اس کا رویہ اور ظاہری تصویر مثلاً لباس، چال ڈھال، لب و لہجہ اور برتاؤ ہے۔ ’’مثالی‘‘ کا سابقہ ساتھ لگا کر استاد یعنی ’’مثالی استادکی شخصیت‘‘ کے مفہوم میں چند دیگر امور بھی شامل ہوتے ہیں۔ استاد کی شخصیت تب کامل ہوگی جب اعلیٰ اخلاق، حسین ظاہر ی تصویر...

دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثرات

جرمنی کی ایرفرٹ یونی ورسٹی کی طرف سے دینی مدارس کے طلبہ کے بعد وہاں کے ایک تحقیقی ادارے میکس پلانک فاؤنڈیشن (Max Foundation۔Planck ) کی دعوت پر دینی مدارس کے فضلا بھی یورپ کے دورہ سے ہو آئے ہیں۔ اس دورے کی مختصر روداد ، تاثرات اور اس کے انتظام و انصرام کے بارے چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔ میکس پلانک فاؤنڈیشن کا تعارف اور دورے کا مقصد۔ سب سے پہلے میکس پلانک سوسائٹی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی، بکھرنے کے بعد جب دوبارہ لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ ابھرنے لگا تو مختلف شعبوں میں حکومت کو رہنمائی فراہم کرنے کی خاطر 1948ء میں اس ادارے...
1-7 (7)