اس سال عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی کھالوں کے حوالہ سے دینی مدارس کے ساتھ جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اور کافی عرصہ سے سرکاری پالیسیوں کا رخ اسی طرف نظر آرہا تھا کہ دینی مدارس کی میڈیا پر مسلسل کردار کشی کے ساتھ ساتھ ان کے ذرائع آمدن پر قدغنیں لگا کر ان کی ’’سپلائی لائن‘‘ کاٹ دی جائے تاکہ دینی مدارس کے موجودہ معاشرتی کردار کو محدود کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔ امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی رپورٹ کے بعد اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ گیا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے مسلم معاشرہ میں دینی علوم کے تحفظ و فروغ کا مسلسل اور مؤثر کردار ادا کرنے والے دینی مدارس کا یہ پرائیویٹ نظام کون سے طبقات اور عناصر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور کون سی قوتیں اور لابیاں ان مدارس کی تعلیمی و فکری جدوجہد کو اپنے اہداف و مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ کا ذوق و مزاج رکھنے والے عناصر نے ’’پنڈ کاھلی‘‘ کا جو منظر پیش کیا ہے وہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ دن بدن مضحکہ خیز بھی ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے قربانی کی کھالوں کو دینی مدارس کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تصور کرتے ہوئے اسے محدود کرنے کے لیے دو طرفہ عمل دھیرے دھیرے جاری تھا۔ ایک طرف کھالوں کی قیمت کو منصوبہ بندی کے ساتھ گراتے چلے جانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جبکہ دوسری طرف دینی مدارس کو اس بات کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت حاصل کریں، اور اس طرح اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کے اجازت نامے کو بالآخر ضروری قرار دے دیا گیا۔
اس سال عید الاضحی سے کافی روز قبل جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے ملاقات کر کے ان سے اس مسئلہ پر بات کی تو انہیں یقین دلایا گیا کہ درخواست دینے والے مدارس کو اجازت دے دی جائے گی۔ چنانچہ وفاق المدارس کی طرف سے مدارس کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے کر اجازت حاصل کرلیں۔ لیکن جب یہ درخواستیں دی گئیں تو انہیں عید الاضحیٰ سے دو روز قبل تک ٹال مٹول میں رکھا گیا اور عین وقت پر بہت سے مدارس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اور پھر کہا گیا کہ اپیل کی جائے تو اپیل پر اجازت مل جائے گی۔
دینی مدارس کے ساتھ یہ رویہ صرف قربانی کی کھالوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب کی حکومت ’’چیریٹی ایکٹ‘‘ کے نام سے جو مجوزہ قانون لا رہی ہے، اس میں دینی مدارس کو اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ زکوٰۃ و صدقات بھی سرکاری منظوری کے بغیر وصول نہیں کر سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کے معاملہ میں بھی دینی مدارس اور سرکاری اداروں کے درمیان ’’آنکھ مچولی‘‘ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے بلکہ ہمارے خیال میں اس سال قربانی کی کھالوں کے بارے میں اس قدر سختی کا معاملہ مجوزہ چیریٹی ایکٹ کی کامیابی کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے بطور ’’ٹیسٹ کیس‘‘ کیا گیا ہے تاکہ اس کے نتائج کی روشنی میں پابندیوں کا نیا جال بچھایا جا سکے۔
اس پس منظر میں متعلقہ حلقوں سے مختصراً چند گزارشات پیش کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں اور اس پر اپنی پالیسیوں کی بنیاد رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ یہ بات صحیح طور پر سمجھے ہیں کہ مغرب کے استعماری ایجنڈے اور مادر پدر آزاد ثقافت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جنوبی ایشیا کے یہ دینی مدارس ہیں۔ ہمیں اپنے اس کردار کا اعتراف اور اس پر فخر ہے۔ اور ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ تمام تر رکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود دینی مدارس کا یہ معاشرتی، تعلیمی اور تہذیبی کردار بہرصورت جاری رہے گا اور مغربی فکر و فلسفہ کو بالآخر اسی کے آگے سرنڈر ہونا پڑے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مسلمان حکمرانوں اور افسران سے گزارش ہے کہ اگر وہ اس علمی، فکری اور تہذیبی جنگ کا ادراک نہیں رکھتے تو اس کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں، مطالعہ کریں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں تو اپنے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچ لیں کہ وہ تنخواہ و مراعات کے چند سال گزار لینے کے بعد دنیا و آخرت میں کون سے کیمپ میں شمار ہونا پسند کریں گے۔
دینی مدارس کے وفاقوں اور ان کی قیادتوں سے گزارش ہے کہ وہ مجموعی صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کا ازسرنو تعین کریں، لیپاپوتی کے ماحول سے نکلیں اور ان معامالت میں اپنے پیش رو بزرگوں کی حکمت عملی اور طرز عمل کا احیاء کرتے ہوئے دوٹوک لائحہ عمل اختیار کریں۔
دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ سے گزارش ہے کہ وہ اس سے زیادہ مشکل اور پریشان کن حالات کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔ ہمارے خیال میں سہولتوں میں اپنی حدود کا لحاظ نہ رکھنے کی روش ہمیں راس نہیں آئی اور پھر سے سادگی، قناعت، جفاکشی اور توکل کے اب سے نصف صدی قبل کے ماحول میں واپس جانا شاید ہمارے لیے ضروری ہوگیا ہے، فافہم وتدبر۔
معاونین اور بہی خواہوں سے گزارش ہے کہ حالات ان کے سامنے ہیں اور بدلتی ہوئی صورتحال ان سے مخفی نہیں ہے۔ مدارس محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چل رہے ہیں جبکہ آپ جیسے معاونین اور ہمدردوں کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل و کرم میں ذریعہ کے طور پر قبول کر رکھا ہے جو کہ بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔ آپ حضرات کو سب سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا کہ زمانے کی چالیں، مخالفین کی تدبیریں اور میڈیا کی کردارکش سرگرمیاں کہیں آپ کو اس مقام سے پھسلا نہ دیں۔ اسباب کی دنیا میں مدارس کے ساتھ تعاون جاری رکھنا، انہیں ضروریات فراہم کرتے رہنا، اور منفی حیلوں کے ذریعے انہیں پہنچائے جانے والے نقصانات کی تلافی کرنا آپ حضرات کی دینی ذمہ داریوں میں سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب ہے۔ اس لیے اپنے تعاون اور توجہات کو مسلسل جاری رکھیں اور اس میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔
اللہ اللہ کرنے والے بزرگوں اور راتوں کو نماز و دعا کے لیے جاگنے والے اہل اللہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پرخلوص دعاؤں میں مزید اضافہ کریں کہ ہمارا اصل ہتھیار اور اساس یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا اپنا کام صحیح طور پر کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔