جنرل باجوہ اور بلوچستان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے پونے دو سو کے لگ بھگ طلبہ کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں تلقین کی ہے کہ وہ مختلف بیرونی ایجنسیوں اور اداروں کی طرف سے پاکستان کے بارے میں کیے جانے والے منفی پراپیگنڈا سے متاثر نہ ہوں اور وطن عزیز کی سلامتی و استحکام اور فلاح و ترقی کے لیے تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے اور وہ بلوچستان کے شہریوں اور نوجوانوں سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک بہت سے ادارے اور ایجنسیاں بلوچستان کے حوالہ سے مخالفانہ پروپیگنڈا کر کے وطن عزیز پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جس کا جواب ہمیں متحد اور منظم ہو کر دینا ہوگا۔

محترم باجوہ صاحب کے یہ ارشادات حرف بہ حرف درست ہونے کے ساتھ ساتھ برموقع بھی ہیں کہ بلوچستان کے حوالہ سے پاکستان کے خلاف بیرونی سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے اور سوئٹزرلینڈ میں اس سلسلہ میں آویزاں کیے جانے والے بینروں کے علاوہ بھارتی دانشوروں کا ایک حلقہ اپنی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ بلوچستان میں نام نہاد آزادی کی تحریک کو سپورٹ کرے جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے چند دن قبل ایک تقریر میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ گزشتہ روز یوٹیوب پر ایک ڈاکومنٹری دیکھنے کا موقع ملا جس میں کسی بھارتی تجزیہ نگار نے سی پیک منصوبے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس سے مبینہ طور پر بھارت کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کیا ہے اور اس کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ بھارت بلوچستان کا کارڈ استعمال کرے اور وہاں آزادی کے نام سے اٹھائی جانے والی آواز کو مضبوط کرے۔ بھارتی حکومت کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جن سوالات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے جواب میں بھی وہ بلوچستان کا حوالہ دیتے ہیں، حالانکہ بلوچستان دیگر علاقوں کی طرح ’’قانونِ آزادی ہند 1947ء ‘‘ کے تحت پاکستان میں شامل ہوا تھا اور کشمیر نے بھی اسی قانون کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا لیکن بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے علی الرغم اس پر بزورِ طاقت قبضہ جما لیا جبکہ اس قبضہ کو طوالت دینے میں عالمی قوتوں کے مفادات آج تک کارفرما ہیں۔

سی پیک منصوبے سے کس کس کو فائدہ ہوگا اور کون کون نقصان میں رہے گا یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس سے خطہ میں طاقت و معیشت کا توازن کن تبدیلیوں سے دوچار ہوگا یہ بھی ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ لیکن سرِدست اتنی بات واضح ہے کہ یہ عظیم معاشی منصوبہ چونکہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے پاکستان کی بے پناہ ترقی کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہیں اس لیے یہ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی طاقتوں کو کھٹک رہا ہے۔ اور یہ ظاہر و پوشیدہ قوتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے خدانخواستہ روکنے کے لیے اپنے اپنے دائروں میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا منظر دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔

سی پیک میں مرکزی کردار بلوچستان اور اس کی بندرگاہ گوادر کا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ منفی سرگرمیوں کا سب سے بڑا ہدف بھی وہی ہوگا۔ بلوچستان میں آزادی کی محدود اور مصنوعی تحریک ان سرگرمیوں کا ایک اہم دائرہ ہے اور بلوچستان کو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس قسم کی منفی سرگرمیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے: ایک دور میں بلوچ اور پختون قوموں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھانے اور انہیں منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مہم چلتی رہی۔ پھر بلوچوں کو قومیت کے حوالہ سے آزادی اور خودمختاری کا خواب دکھلا کر اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ایک موقع پر کوئٹہ میں پنجابی اور غیر پنجابی کا سوال بھی ابھارا گیا، جبکہ ہزارہ قوم کے معاملہ میں باہمی قتل و قتال کو بھی اس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن ان میں سے کوئی کارڈ بھی کامیابی کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکا اور اس قسم کی ہر مہم میں اس کے منصوبہ کاروں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور پاکستانی کہلانا ہی پسند کرتے ہیں۔ لیکن ایک وجہ اور بھی ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں اور اس کے بعد کم و بیش ہر الیکشن کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کی ایک اہم سیاسی اور عوامی قوت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے جو حوصلہ مند اور محب وطن علماء کی قیادت سے بہرہ ور ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کو ایک مضبوط و مستحکم اسلامی ریاست کے طور پر ترقی دینے کی خواہش مند ہے اور بلوچستان کے تمام علاقوں اور قومیتوں میں یکساں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اگر کوئی منصف مزاج تجزیہ نگار خالصتاً سیاسی اور سماجی نقطہ نظر سے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لے تو اس کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں خدانخواستہ علیحدگی یا تقسیم کی کسی بھی تحریک کے مقابلہ میں سب سے مضبوط رکاوٹ یہی دینی و سیاسی قوت ثابت ہوئی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا۔

اس لیے آرمی چیف محترم کے ارشادات و جذبات کی تائید کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ بلوچستان کے حوالہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی طور پر منظم کی جانے والی سازشوں سے نمٹنے کے لیے جہاں ان اقدامات کی ضرورت ہے جو فوج سمیت ریاستی ادارے اس وقت کر رہے ہیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف قومیتوں کے حامل بلوچستان کے شہریوں کے درمیان عقیدہ و دین کے رشتہ کو اور زیادہ مضبوط کیا جائے اور دینی وحدت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ کیونکہ یہی وہ وحدت اور رشتہ ہے جو کسی بھی منفی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر رکاوٹ بن سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی محترم جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک اور گزارش بھی کرنا چاہتا ہوں۔وہ یہ کہ بیرون ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بہت سے دیگر مورچے بھی مصروف عمل ہیں جنہیں مختلف بیرونی ایجنسیاں اور ادارے سپورٹ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مورچہ قادیانیوں کا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے دستور و قانون پر عملدرآمد کا بائیکاٹ کر کے بلکہ اسے چیلنج کر کے اس کے خلاف بین الاقوامی فورموں پر مورچہ لگائے ہوئے ہیں جس سے ریاست کی ’’دستوری رٹ‘‘ سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے جبکہ ریاست کی رٹ قائم کرنا اور دستور کی بالادستی کا احترام کروانا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس مسئلہ پر ہم نے مسلح افواج سمیت تمام ریاستی اداروں کی ہمیشہ حمایت کی ہے حتیٰ کہ ’’اسلامی شریعت‘‘ کے نام پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو بھی ہماری دوٹوک مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ اسلامی شریعت کے نام سے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف اگر کاروائی ہو سکتی ہے، جو کہ حکومت کا دستوری و قانونی حق ہے، تو عقیدہ? ختم نبوت سے انکار کے نام پر دستور کی بالادستی کو چیلنج کرنے اور اس کے لیے بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کے خلاف مسلسل ’’مورچہ بندی‘‘ کا عمل بھی فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کی توجہ کا مستحق ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت و استحکام اور فلاح و ترقی کے لیے آری چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے جذبات و احساسات اور اقدامات کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے ہم ان کی کامیابی کے لیے بارگاہِ ایزدی میں خلوص دل کے ساتھ دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔


حالات و واقعات

(نومبر ۲۰۱۷ء)

نومبر ۲۰۱۷ء

جلد ۲۸ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter