دینی مدارس، دہشت گردی اور عالمی پالیسی ساز طاقتیں

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

اردو ترجمہ: ڈاکٹر وارث مظہری

(مصنف کی کتاب ?What is a Madarasa کی ایک فصل)


اکثر پالیسی ساز افراد اور ادارے جو فیصلے کرتے ہیں وہ یا تو ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں پر مبنی ہوتے ہیں یا پھر انٹیلی جنس کی گمراہ کن رپورٹوں پر۔ مسلمانوں کی مذہبی زندگی میں مدارس کا کردار کیا ہے، اگر مجھے اس کی تشریح و وضاحت کا موقع دیا جائے اور مجھے صدر امریکہ، امریکی کانگریس کے ارکان اور دنیا کی کسی بھی حکومت کو مدارس کے تعلق سے مشورہ دینا ہو تو میں اپنی کتاب ’’دینی مدارس:عصری معنویت اورجدید تقاضے‘‘ کا ایک نسخہ اس مکتوب کے ساتھ انھیں ارسال کرنا چاہوں گا:

محترم صدر امریکہ اور امریکی کانگریس کے معزز ارکان!

تصور کیجیے کہ جنوبی ایشیا میں تعینات امریکی فوج پر یا خدانخواستہ امریکہ کے مرکزی مقام پر ایک ایسا دہشت گردانہ حملہ، جس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی ہو، کامیاب ہوجائے، تو کیا امریکہ اس کے ردِ عمل میں آکر افغانستان اور پاکستان (افغان۔پاک سرحدی علاقے) میں قائم مدارس کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا؟ یا مدارس کی عمارتوں پر ڈرون حملے کرے گا؟ یہ منظر نامہ یقینی طور پر امکان کے دائرے میں ہے۔ ماضی کے مشاہدات گواہ ہیں کہ امریکہ کو جب کبھی شکست کا زخم لگا تو اس کے اندمال کے لیے امریکی سیاسی قیادت نے کسی نہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانے کو آسان اور ضروری سمجھا۔ چناں چہ Bay of Pigsکی مہم کی ناکامی کے بعد ویتنام کو اور گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد عراق پر حملے کے ذریعہ امریکہ نے اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی۔ بنا بریں افغان پاک سرحدی علاقے میں ڈرون بموں کے ذریعہ کیے جانے والے ایک پرشور حملے کے امکان کو کاملاً مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بھی کہ کم درجے کے ڈرون حملے وہاں پہلے سے ہی جاری ہیں۔

بدقسمتی سے انٹیلی جنس کے ذرائع اور گھاگ قسم کے ماہرین نے اپنی شطارت و مہارت کے ساتھ جنوبی ایشیا کے مدارس کی یہ تصویر کشی کی کہ وہ نہ صرف امریکہ کے ازلی دشمن ہیں بلکہ وہ مغرب اور پوری متمدن دنیا کے بدترین دشمن ہیں۔ بغیر کسی ثبوت و شہادت کے متعدد کالم نگاروں اور صحافیوں نے مدارس اور دہشت گردی کے مابین رابطہ پیدا کرنے کے عمل کے ذریعہ اپنی جیبیں بھرنے کی کوشش کی۔

مجھے امید ہے کہ کوئی بھی حادثاتی منظر نامہ وہائٹ ہاؤس، قانون سازوں اور امریکی عوام کو اس بات پر مائل نہیں کرے گا کہ وہ اس طرح مدارس کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے کی راہ اختیار کریں۔ میری کتاب ’’دینی مدارس:عصری معنویت اورجدید تقاضے‘‘ یقینی طور پر آپ کو اصل حقائق سے مطلع کرے گی۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کو ڈونالڈ رمس فیلڈ اور حتی کہ کولن پاویل جیسے سنجیدہ و بردبار سیاست دانوں کے اقوال کو بھی نظر انداز کرنا پڑے گا جنھوں نے مدارس کی شبیہ کو نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز بنادیا۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ان دونوں افراد نے جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں عراق پر جنگ مسلط کرنے کے فیصلے میں اور پھر جنگ کے دوران فاش غلطیاں کیں۔

اس میں شک نہیں کہ طالبان نے مدارس اور علما کی شبیہ کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ طالبان وابستگانِ مدارس کا محض ایک طبقہ یا گروہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اکثریت مدارس کو دینی علوم کی دانش گاہ کی شکل میں دیکھتی ہے، نہ کہ دہشت گردی کے مراکز کی شکل میں۔ وہ مدارس کے ساتھ تعاون کرتی ہے کیوں کہ وہ بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ وہ مسلم سماج کی خدمات میں مصروف ہیں۔ عام طور پر مسلمان مدارس کو امریکی اور یورپی باشندوں کی طرح سے خطرے کی علامت تصور نہیں کرتے۔

اب امریکی انتظامیہ کے لیے وہ وقت آگیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ تعامل کے بارے میں اپنے موقف کو درست کرے۔ مسلم معاشروں کے خلاف ثقافتی جنگ چھیڑ دینامسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوگی۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے عالمی سطح پر مسلم اقوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ اور اس زمرے میں متوسط اور اعلیٰ دونوں طبقات شامل ہیں۔ مسلمان خاص طور پر نوجوان مسلم طبقے کا احساس ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اسے جیسے اچھوت سمجھ لیا ہے، جس کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر تفریق و امتیاز برتا جارہا ہے۔ اب مسلم مخالف احساسات نے اسلام فوبیا کی شکل اختیار کرلی ہے۔

مدارس کے ساتھ معاندانہ برتاؤ امریکہ کی پبلک ڈپلومیسی کی ایک تاریخی ناکامی ہوگی۔ اس نوع کے برتاؤ سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات مزید بد سے بدتر ہوجائیں گے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں، خاص طور پر یورپ، شمالی امریکہ اور افریقہ میں مقیم مسلمانوں پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

مسلم ممالک کے اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے سیکولر افراد یا فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی باتوں کو محض ان کے ذاتی مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ طبقے کے افراد دو رخی باتیں کہنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اگر وہ مدارس سے متعلق زبان کھولتے ہیں تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ مدارس اور اہل مدارس دنیا سے منقطع اور دقیانوسیت کے شکار ہیں، جب کہ خود اپنے متعلقہ ممالک میں وہ اہل مدارس یا راسخ العقیدہ طبقے کی خوشامد و چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ دوسرے درجے کے وسیلۂ معلومات پر انحصار نہ کرتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مدارس سے تعلق رکھنے والے امریکہ کے مخالف یہ کون لوگ ہیں؟ ان سے متعلق مکمل معلومات بہم پہنچائی جائے اور ثقافتوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو کم کرنے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ایک فیصلہ ساز کی حیثیت سے آپ کو اچھی طرح یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم معاشروں میں مدارس اور علما کی اہمیت اور ان کاکردار کیا ہے؟ علما مذہبی تعلیم یافتہ افراد کا وہ طبقہ ہے، جو مسلم سماج کی خدمت کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہے۔ علما کا یہ طبقہ مدارس کے فضلا پر مشتمل ہوتا ہے جن کی تربیت اسی طرح ہوتی ہے جس طرح امریکہ یا بعض دوسرے ممالک کے مذہبی اسکولوں میں عیسائی مذہبی علما کی تربیت کی جاتی ہے۔ آپ غور کرسکتے ہیں کہ اگر ملک ’’الف‘‘ ملک ’’ب‘‘ کے مذہبی طبقے کو اس وجہ سے اپنی جنگ کا نشانہ بنائے کہ اس کے مذہبی طبقے کے بعض لوگ تخریب کارانہ سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہیں تو اس نوع کی حرکت کے نتیجے میں اس مذہب سے تعلق رکھنے والا مذہبی طبقہ عالمی سطح پر الگ تھلگ ہوکر رہ جائے گا۔ امریکہ نے افغان پاک سرحدی علاقے میں فوجی اور ثقافتی سطح پر جو جنگی مہم چھیڑ رکھی ہے، اس کے نتیجے میں ایسے ہی مظاہر سامنے آرہے ہیں۔

مسلم آبادی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں مسلمانوں کی کل آبادی کا تخمینہ 489ملین ہے۔ یہ آبادی تین ممالک 151 ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بکھری ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2030تک جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تعداد بڑھ کر 679ملین ہوجائے گی۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ظاہر ہے مذہبی طبقے میں وسعت آئے گی۔ یہ بات آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کروڑوں افراد پر مشتمل مسلم آبادی علما سے وابستہ ہے اور روز مرہ کی زندگی میں ان کی پیروی کرتی ہے۔ دنیا میں چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت وہ انھی علما کے پیچھے نماز اداکرتی ہے۔ وہ ان کے جمعہ اور عید کے خطبات سنتی ہے۔ اخلاقی و شرعی امور و معاملات میں وہ انھی سے رجوع کرتی ہے۔ مصائب و حوادث کی گھڑی میں وہ ان سے دعاؤں کے لیے التماس کرتی ہے۔ تجہیز و تکفین میں یہ علما ہی ہیں، جنھیں لوگ پیش پیش رکھتے ہیں۔ اسی طرح مسلم عوام کو خانگی زندگی کے معاملات 151 نکاح و طلاق، آمدنی کے صحیح استعمال اور وراثت سے لے کر عالمی سیاست کے معاملات تک میں علما کی رہنمائی شامل ہوتی ہے۔ انتخابات اور سیاسی اجتماعات میں بھی علما پیچھے نہیں رہتے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ نیز اپنی تحریروں اور کتابوں کے ذریعے وہ دور دراز اور مختلف النوع علاقوں: باندونگ (انڈونیشیا) بالٹی مور (امریکہ) کیشاگار (چین) اور کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) کے عوام کی بہت بڑی تعداد کو اپنا مخاطب بنالیتے ہیں۔

ملیشیا یا ’’مالی‘‘ کے ایک عالم ،یا بسا اوقات ایک عالمہ، نے خواہ قاہرہ میں تعلیم حاصل کی ہو، تاہم وہ جنوبی ایشیا کے کسی مدرسے کے فاضل کے کائناتی نظریے سے بخوبی واقفیت رکھتا / رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ مدارس اور علما اپنا عالمی نیٹ ورک رکھتے ہیں اور ایک مشترکہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ مشترکہ زبان فقہ اور دینیات کی زبان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے مسلمان علما کے بارے میں یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن کے اندرمطلوبہ تفقہ اور دینی بصیرت کی کمی ہے جس کے نتیجے میں نکاح و طلاق، جنسی معاملات اور خانگی زندگی کے تعلق سے ان کے بہت سے تصورات و نظریات حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے اور جو معاصر حساس ذہنیتوں کو زک پہنچاتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علما میں روشن فکر اور تاریک الخیال دونوں طرح کے افراد شامل ہیں۔

بعض علما اپنی عوامی مقبولیت میں کسی ’’راک اسٹار‘‘ سے کم نہیں۔ شیخ یوسف القرضاوی کا شمار انھی میں ہوتا ہے جن کا تعلق اصلاً مصر سے ہے، لیکن وہ قطر میں مقیم ہیں۔ یہ ان علما میں سے ایک ہیں جن کے افکار و نظریات، ان کے خطبات و مواعظ کے حوالے سے عالم اسلام کے ہزاروں ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی چینلوں سے نشر کیے جاتے ہیں۔(1) ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان علما میں سے سب کے سب امریکہ یا مغرب کے تئیں دوستانہ ذہنی تعلق نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ان علما کے ساتھ مکالمے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس مکالمے کے فکر و احساس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کانگریس کے ارکان، وہائٹ ہاؤس اور غیر ملکی حکومتوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے مشیر کاروں میں سے ان لوگوں کے مشوروں کو خاطر میں نہ لائیں جو اس قسم کے مکالمے کی اہمیت کے منکر ہیں اور جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کو اس کام میں لگائیں جو اس کی حقیقت اور فائدوں سے واقف ہیں۔

یہاں اس حقیقت کا تذکرہ کرنا بجا ہوگا کہ مسلم ممالک کے ارباب حل وعقد کا وطیرہ علما سے متعلق یہ ہے کہ وہ انھیں ’’داخلی جلاوطنی‘‘ کاشکار بناکر رکھتے ہیں۔ انھیں علما کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے اور وہ اس وقت ان کی طرف نظر التفات کرتے ہیں جب انھیں انتخابات میں ووٹوں کی فکر ستاتی ہے یا جب کوئی بڑا عالمی بحران سامنے آتا ہے۔ ایسے میں ان علما کو عوامی حلقے میں لایا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ ووٹوں کی کاشت کی جاسکے یا عوامی جذبات کو دبایا جاسکے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی نظام تزلزل کا شکار ہے، علما اس معاشرے کے تشویش ناک پہلوؤں سے واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔(2) 2008میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگی مہم میں پاکستانی فوج کی شرکت کو انھوں نے ’’دھوکے‘‘ اور’’ شرمناکی‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ علما کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اعلیٰ طبقہ اسراف پسند، بدعنوان اور عدالت کی حیثیت کو کم کرنے میں اپنی کوششوں میں بے حیائی کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر پاکستان کی محبت میں سرشار لوگ علما کے حلقوں کی طرف سے دئے گئے بیانات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ علما ایک طرف مغرب کے اسلامی معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی مذمت کرتے ہیں، دوسری طرف وہ مذہبی انتہا پسندی کی اشاعت کے راستے میں روک کا کام کرتے ہیں۔ 

علما کی نگاہ میں تعلیم ثقافت کا میدان کارزار ہے۔ وہ لارڈ میکالے کا ذکر نہایت ناپسندیدگی کے ساتھ کرتے ہیں کہ اس نے کہا تھا کہ ہمیں ایک ایسے طبقے کو وجود میں لانا چاہیے جو اپنے خون کے اعتبار سے ہندوستانی لیکن اپنے اسلوب فکر اور رجحان کے لحاظ سے انگریز ہو۔(3) علماسمجھتے ہیں کہ اگر سیکولر تعلیم پر کوئی بندش نہ ہوتو وہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس سے مسلمانوں کی مذہبی شناخت محفوظ نہیں رہتی۔ اس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ مستقبل کی اسلامی نسل یورپ اور امریکہ کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجائے۔ حال میں کیے گئے ایک مطالعے کی روشنی میں یوسف قرضاوی جیسا عالم بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ گلوبلائزیشن کا مقصد پس پردہ دنیا میں مغربی تہذیب کی اشاعت اور بالادستی کا قیام ہے۔(4) مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں کی نگاہ میں یوسف قرضاوی کی شخصیت اشتباہ کے دائرے میں ہے، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا معا ملہ ہے تو وہ انھیں ایک راسخ العقیدہ عالم و مفکر تصور کرتے ہیں۔ البتہ وہ اسی کے ساتھ یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ ان کے یہاں کسی حد تک آزاد خیالی یا تجدد کی روش پائی جاتی ہے۔

بعض مسلم جماعتوں، جن میں طالبان سرفہرست ہیں، نے مغربی خصوصاً خواتین کی تعلیم کے تعلق سے انتہا پسندانہ نقطۂ نظر اختیار کیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ طالبان کا معاملہ استثنائی ہے، ان کے خیالات کو مسلمانوں کی وسیع تعداد مسترد کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کے مدارس اور ریگولر اسکولوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ مزید برآں، مدارس سے تعلق رکھنے والے اصحابِ علم ودانش کی اکثریت اس نقطۂ نظر کی حامل ہے کہ اس حدتک جس حد تک سیکولر تعلیم ان کے طریق زندگی اور اخلاق و اقدار کو متاثر نہیں کرتی؛ مسلمان اس سے فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔

مدارس اور علما جس دینیات کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ ایک ذرا آپ اس کو نگاہ میں رکھیں تو اس سے حقیقت کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ توحید یا ایک خدا میں یقین رکھنا مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف خاتم الانبیا ہی نہیں بلکہ افضل الانبیا بھی ہیں۔ صدیوں قبل پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اصحاب نے شرک و کفر کے خلاف جنگیں لڑیں۔ ظلم و بے انصافی کے خلاف جہاد کیا اور انسانیت کی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ علما کے مطابق، دین کی روح اور اس کا جوہر پیغمبر اسلام کے نمونۂ زندگی کے مطابق، زندگی گزارنا ہے۔ پیغمبر محمد کی زندگی کے ماڈل اور دوسری شخصیات 151 شری رام، حضرت عیسیٰ اور گوتم بدھ151 کی زندگی کے ماڈل میں فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رول کے صحیح ادراک کے لیے مسلمانوں کی عبادات اور مذہبی اعمال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے ساتھ حساسیت کے ساتھ تعامل بین ثقافتی مکالمے اور مذہبی رواداری و قیام امن کی کوششوں کو کامیابی کے ساتھ ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے۔

مدارس قدیم فقہی مکاتب کی تقلید کا دم بھرتے ہیں اور اس حوالے سے معاصر دنیا کے سماجی تقاضوں کے تحت اپنے دینیاتی (theological) نقطۂ نظر میں تبدیلی بھی لاتے رہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس عمل میں ان پر قدامت پرستی کی ذہنیت غالب رہتی ہے اور وہ اس کو تعمیری ومثبت انداز میں انجام نہیں دے پاتے۔ یہی حال اسلامی قانون یا شریعت پر عمل کا ہے۔ اس تعلق سے علما کی مختلف جماعتیں لچک یا شدت پسندی پر مبنی رویہ رکھتی ہیں۔ یعنی اس حوالے سے علما کے یہاں یکساں کے بجائے متنوع رویہ پایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر تمام علما و اہل مدارس اپنے پیروکاروں کی اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ کی مسخ کاری کے واقعات پر مشتعل ہوں۔ اکثر بین مسلکی کشمکش کی صورتحال اور تنگ ذہن رکھنے والے چھوٹے درجے کے مولویوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے قطع نظر کہ ایسے معاملات میں شریعت کا حکم کیا ہے، لٹھ لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ تقریباً ایک صدی پیشتر علمائے دیوبند کے سرخیل مولانا محمود حسن نے گستاخی رسول کے واقعات پر مسلمانوں کے آتش زیر پا ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی حرکتیں مسلمان رسول کی محبت میں نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے۔

جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمانوں کی مذہبی قیادت مغرب اور مغربی اقدار کو اسلامی تہذیب و اقدار کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔ مدارس کو وہ مغربیت کے مقابلے میں ڈھال تصور کرتی ہے۔(5) جس طرح اٹھارویں صدی میں مدارس کے نیٹ ورک نے استعماری منصوبوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اسی طرح آج مدارس مغرب کی نئی استعماری ترک تازیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ثقافتی قلعے کی حفاظت پر کمر بستہ ہیں۔ ایک معتدل فکر ونظر رکھنے والے عالم لکھتے ہیں: ’’مدارس اسلام کے بقائے حیات کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘(6) ایک دوسری شخصیت کی نظر میں مدارس ’’پاور ہاؤس‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے مسلمانوں کی اجتماعی وثقافتی شناخت باقی ہے۔ مسلم معاشرے کی مذہبی واخلاقی اقدار انھی کی رہین منت ہیں۔(7) سردجنگ کے خاتمے کے بعد مدارس کے علما برملا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اب مغربی طاقتوں کا اصل حریف اسلام رہ گیا ہے۔(8)

یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ اہلِ مدارس دنیا کے سیاسی حالات سے واقف نہیں ہیں۔ بین الاقوامی خبروں اور تجزیوں پر ان کی نگاہیں رہتی ہیں اور امریکہ جس انداز میں خود کو عالمی سطح پر پیش کرتا رہتا ہے، وہ اس سے طیش میں آتے اور بل کھاتے رہتے ہیں۔ ان کے جذبات و احساسات کو جو چیز ٹھیس پہنچاتی اور برانگیختہ کرتی ہے، وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا کردار، عراق و افغانستان پر امریکہ کی طرف سے جنگ کو مسلط کرنا اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف نہ کیا جانا ہے۔

عالمی سطح پر سیاسی طاقتوں کے درمیان عدم توازن کی جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اس نے بہت سی مرضیاتی نفسیات کو پروان چڑھنے کا موقع دیا ہے۔ افغان پاک سرحدی علاقے کے بہت سے مذہبی علوم کے حاملین کا مزاج بدقسمتی سے تخریب کاری کی صفت رکھتا ہے۔

آپ کو اس بات کے لیے ذہنی طور پر آمادہ رہنا چاہیے کہ افغان پاک سرحدی علاقے اور عالم اسلام کے دوسرے حصوں میں مذہب، ثقافت اور سیاست کا ایک بڑا الجھا ہوا اورپیچیدہ منظر نامہ سامنے آنے والا ہے۔ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ مذہبی رنگ میں رنگا ہوا تشدد جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال کی ابتری سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کی صورتِ حال میں اصلاً کشمیر کے مسئلے کو دخل ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں ایک ایسی مستحکم اور شمولیت پسند حکومت وجود میں آپائے گی جو علاقے میں امن و سلامتی کی صورتِ حال کو یقینی بناسکے؟علاحدگی پسند تحریکات اور نسل پسندی کا نظریہ رکھنے والے عناصر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ موضوع گہری تحقیق و مکالمے کا متقاضی ہے۔

اب میں چند ایسے امور کی نشان دہی کرنا چاہوں گا، جن سے پالیسی سازوں کے لیے احتراز لازمی ہے، تاکہ مسلم راسخ العقیدگی کے ساتھ مکالمہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکے۔ مسلمانوں کے ساتھ تمام تر تعلقات پر پانی پھیردینے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی جائے اور مدارس کے نصاب، اقدار اور طرزِ حیات کے بارے میں کوئی چیز اُن پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مدارس کی قبیح اور پر ہیبت شبیہ سازی کا مطلب ہے: مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی اقدار وادارات کو مسترد کردینا جسے مسلم حلقوں میں شدت کے ساتھ مسترد کردیا جاتا ہے۔ لوگوں سے مدارس کی حمایت و اعانت سے دست کش ہوجانے کی بات کہنے کا مطلب ہے، مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی ترجیحات کو خود سے طے کرنا۔

راسخ العقیدہ مسلم طبقے کے ساتھ مکالمے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جنو بی ایشیا اور دوسرے مسلم خطوں میں ڈرون حملوں کے سلسلے کو بند کردیا جائے۔ مبینہ دہشت گردوں کو ملکی قانون کو خاطر میں لائے بغیر ہدف بنانا نہایت خطرناک ہے اور اس کا نتیجہ معصوم اور بے گناہوں کے قتل و ہلاکت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ مزید برآں اس طرح کی کاروائیاں امریکہ کی معتبریت کو نقصان پہنچاتی ہیں اورحقوق انسانی کے تئیں اس کے التزام عہد کی اہمیت کو کم کردیتی ہیں۔

علم وشعور کے ساتھ مکالمہ ہی اصل مسئلے کا حل ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اعتماد سازی کا عمل مسئلے کے حل میں بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی و یورپی قیادت کو اس خطے کے مستقبل کے ساتھ تعامل کرنے میں متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے چیلنج آمیز مسئلہ یہ ہے کہ ایسی جماعتوں کے ساتھ جن کا کائناتی نظریہ مغرب سے مختلف ہے، کس طرح باہمی احترام کے ماحول میں گفتگو کی جائے؟ کیا یورپ و امریکہ کسی ایسی دنیا کا تصور کرسکتے ہیں جہاں مضبوطی کے ساتھ تکثیری اقدار پائے جاتے ہوں؟ بامعنی گفتگو کی اساس اقدار پر باہم متفق نہ ہونا ہے۔ مدارس کے ساتھ مکالمے کے عمل سے اختلاف کو برداشت کرنے کا ہنر آئے گا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے یہ بات محسوس کی کہ اہل مدارس صرف یہ چاہتے ہیں کہ انھیں چھیڑا نہ جائے۔ وہ اسلام کے مطابق نیکی و پارسائی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور دانش وری کے روایتی سلسلے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے مذہبی ایقان کو استحکام عطا کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ انھیں یہ برداشت نہیں کہ کوئی دوسرا ان کے طرزِ حیات کو تبدیل کردے۔ ایک شخص کو دوسرے کے طرزِ حیات میں تبدیلی کا مسئلہ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں امریکیوں کے لیے نامانوس نہیں رہ گیا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے لوگوں کی سوچ یہی ہے کہ دوسرے لوگ ان کے اپنے اسلوبِ حیات کا احترام کریں۔

ان شرائط کی تکمیل کا تقاضا ہے کہ اس تعلق سے امریکی سیاسی قیادت کی ذہنیت میں تبدیلی آئے کہ دوسری اقوام، ثقافتوں اور اقدار کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے؟ بغیر اس بنیادی تبدیلی کے آگے کی راہ نہایت دشوار گزار ہوگی۔ آج کی گلوبلائزیشن کی دنیا کا ماحول اپنے اندر بہت زیادہ نزاکت رکھتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے ہواؤں میں در آنے والی آلودگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات، سفارت کاری، جنگ اور انسانی تعلقات تک یہ ساری چیزیں علم پر مبنی شعور و حساسیت کی متقاضی ہیں۔ یعنی یہ ادراک کرنا کہ ہماری بقا دوسروں کی بقا و ارتقا میں ہے نہ کہ انھیں ہلاک وتباہ کرنے میں۔ اصل نقطۂ آغاز اس اصول پر عمارت کی تعمیر ہے کہ دوسروں کی تہذیب و ثقافت بھی اتنی ہی قابل قدر ہے جتنی کہ اپنی۔ اس طرح کے بقائے باہم کو یقینی بنانے کے لیے مغرب کے لیے اصل آزمائش کی بات یہ ہے کہ طبقۂ علما کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر اور نارمل ہوں۔

مخلص:

ابراہیم موسیٰ

پروفیسر اسلامک اسٹڈیز

کروک انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز،

یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم،انڈیانا،امریکہ

حواشی

(1) یوسف قرضاوی کو ان کو استشہادی حملوں کے جواز کے نظریے کی وجہ سے برطانیہ اور امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کچھ دنوں قبل قرضاوی کے صاحبزادے نے سابق مصری صدر محمد مرسی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی اپنے والد کی کوششوں کی مخالفت کی دیکھئے: ’’اسامہ عبدالرحمن القرضاوی إلی أبیہ یوسف القرضاوی‘‘ ۔

(2) The News, "Ulema Open Their Heart to MPs on Terror."

(3) Macaulay's Minute on Indian Education, 

http://www/english.ucsb. edu/faculty/rraley/research/english/macaulay.html

(4) Zaman, Modern Islamic Thought, 156-57.

(5) عثمانی (تقی) : ہمارا نظام تعلیم، 77، مظہری (وارث) ’’فضلائے مدارس۔۔۔‘‘ 199-206، منصوری، محمد عیسیٰ ’’مغرب‘‘105-9

(6) مظہری(وارث): ’’فضلائے مدارس‘‘ ، 199

(7) مصباحی،یسن اختر: قرآن اور جہاد، 63

(8) منصوری،: ’’مغرب‘‘108


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(نومبر ۲۰۱۷ء)

نومبر ۲۰۱۷ء

جلد ۲۸ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter