امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز نے پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر خلافت سنبھالی تھی، اس سے قبل حضرات صحابہ کرام کے درمیان جمل اور صفین کی جنگیں ہو چکی تھیں اور صلح کے باوجود نفسیاتی طور پر اس ماحول کے اثرات کسی نہ کسی حد تک باقی تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور وہ اموی خلافت کے تسلسل میں ہی برسراقتدار آئے تھے جبکہ بنو امیہ مذکورہ بالا جنگوں میں واضح فریق رہے ہیں۔ اس پس منظر میں حضرت عمر بن عبد العزیز سے ان دو جنگوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو اس خونریزی میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو بھی ان جھگڑوں میں ملوث ہونے سے بچائیں گے۔
ہمارے بزرگ یعنی اکابر علماء دیوبند قیام پاکستان سے قبل اس کی حمایت یا مخالفت کے حوالہ سے دو گروہوں میں بٹ گئے تھے، باہمی سیاسی محاذ آرائی پوری شدت کے ساتھ ہوئی تھی اور اس کے اثرات خاصے عرصے تک محسوس کیے جاتے رہے۔ مگر جب دونوں گروہ کے علماء کی اکثریت ملک میں نفاذ اسلام کے لیے ایک نکتہ پر آگئی اور اس اتحاد کا کئی مواقع پر عملی مظاہرہ بھی ہوگیا تو اب پچھلی باتوں کو دوبارہ کرید کر نئی نسل کو کنفیوڑ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لیے مجھ سے اگر کوئی اس حوالہ سے سوال کرتا ہے تو کوفت ہوتی ہے، اکثر ٹال دیتا ہوں اور کبھی حسب موقع ڈانٹ بھی دیا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ دونوں طرف ہمارے بزرگ تھے، اگرچہ رائے کا اختلاف تھا اور اپنے وقت پر محاذ آرائی بھی ہوئی تھی مگر وقت گزر گیا ہے اور یہ محاذ آرائی جنگ جمل اور جنگ صفین کی طرح تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز کا مذکورہ بالا تاریخی جملہ ہی راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ جب ہم براہ راست اس محاذ آرائی کا حصہ نہیں تھے تو اب زبان و قلم کے ذریعہ اس کا بالواسطہ حصہ کیوں بنیں؟ میں نے دونوں طرف کے بعض کونوں سے ماضی کی تلخیوں کی راکھ سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھتے دیکھا ہے اس لیے یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔
دوسرا یہ کہ میرے طالب علمی کے دور کی بات ہے میں مدرسہ نصرۃ العلوم کا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کا متحرک کارکن بھی تھا۔ اس دور میں مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ایک بار مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تشریف لائے تو حضرت مولانا مفتی عبد الواحد نے شہر کے کچھ علماء کرام کو جمع کر لیا جن سے مولانا ہزاروی نے خطاب کیا۔ انہوں نے ایک بات بہت زور دے کر فرمائی کہ آپ میں بہت سے دوستوں نے حضرت مدنی، حضرت امیر شریعت، حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور دوسرے بزرگوں کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ اب آپ کا خیال ہوگا کہ ان جیسے مزید بزرگ سامنے آئیں گے تو ہم ان کی قیادت میں کام کریں گے۔ وہ سب چلے گئے ہیں ان میں سے کوئی نہیں آئے گا اور اب آپ حضرات کو ہمارے جیسے لوگ ہی ملیں گے اس لیے ان کا انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم جیسے لوگوں سے ہی کام لے رہا ہے اس لیے آپ بھی ہمارے ساتھ گزارہ کریں اور کام کے لیے میدان میں نکلیں۔ یہ وقت گزر گیا تو پھر ہم جیسے بھی نہیں ملیں گے۔ حضرت مولانا ہزاروی کی یہ باتیں یاد آتی ہیں تو بہت سی الجھنیں ذہن سے خود بخود محو ہوتی چلی جاتی ہیں اور آج کے کارکنوں سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وقت ضائع نہ کریں، جو موجود ہیں ان کو غنیمت سمجھیں اور دینی جدوجہد کے حوالہ سے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ بہتر کی تلاش بہت اچھی چیز ہے لیکن بہتر کے انتظار میں موجود کو گنوا بیٹھنا بھی کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔
جبکہ تیسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے دوستوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ سب لوگ متحد ہوں گے تو ہم کام کریں گے۔ اہل حق کا اتحاد بہت مبارک چیز ہے لیکن دینی جدوجہد تو اپنے اپنے دائرہ میں بھی کی جا سکتی ہے بلکہ آج کی تکنیک یہ ہے کہ ایک کام کو مختلف زاویوں اور حوالہ سے کیا جائے تو وہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ سیکولر حلقوں اور این جی اوز کو دیکھ لیں کہ وہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں حلقوں میں تقسیم ہیں اور اپنا اپنا کام کیے جا رہی ہیں۔ ایک ہی ایجنڈے کے لیے بیسیوں الگ الگ این جی اوز متحرک نظر آتی ہیں، البتہ ان کے درمیان انڈراسٹینڈنگ اور رابطہ موجود رہتا ہے اور بوقت ضرورت ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتی ہیں۔ آپ پاکستان میں سیکولر ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کو شمار کرنا چاہیں تو ان کی فہرست سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں بنے گی جبکہ ان کا کام اور اس کے اثرات دیکھیں تو سر چکرانے لگتا ہے۔ عسکری جنگوں میں بھی صف بندی کی ترتیب قصہ پارینہ بن چکی ہے، یہ جنگیں اب الگ الگ مورچوں اور مراکز میں بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں، البتہ ان میں پیش قدمی اور کامیابی کا انحصار باہمی ربط و تعاون اور اعتماد و مفاہمت پر ہوتا ہے۔
میں خود دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے ہر وقت اور ہر سطح پر کوشاں رہتا ہوں مگر اسے کام کرنے کی شرط قرار دینا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ ہم اگر موجود دائروں میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں، ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں، باہمی مفاہمت و تعاون کی فضا قائم کر لیں اور مشترکہ ملی و قومی مقاصد پر متفقہ موقف سامنے لا کر اس کے لیے کام کرتے رہیں تو اس کے اثرات بھی کمزور نہیں ہوں گے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ اتحاد کی کوشش بھی جاری رہے گی کہ بہرحال اتحاد میں برکت ہوتی ہے۔