جس طرح اردو کے مایہ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر ’’ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے‘‘ کی مشق کی گئی، اسی طرح علامہ اقبال پر بھی اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوا جو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ اعتراضات شخصی بھی ہیں، ان کے کلام کے شعری، لسانی اور عروضی پہلوؤں سے متعلق بھی، فکر کی تشکیل اور اس کے اجزا سے متعلق بھی اور دیگر مختلف جہات پر بھی۔ ان اعتراضات میں بہت سے وقیع اور صائب ہیں، جب کہ بعض اعتراضات سوے فہم، بعض قلت فہم، بعض مخصوص ذہنی سانچوں اور بعض حسد اور عناد کے سبب ہیں۔ 1910ء میں اقبال کے سفرِ حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق اور غالب شناس سید علی حیدر نظم طباطبائی نے ان کی اردو زبان کی ’’عجمیت‘‘ پر بعض تحفظات کا اظہار کیا۔ 1913ء میں ’’زمانہ‘‘ (کانپور) اور دیگر جرائد میں نقاد لکھنوی کے اعتراضات سامنے آئے، 1935ء میں اقبال کی زندگی ہی میں حافظ آباد کے برکت علی گوشہ نشین نامی ایک شیعہ مصنف نے ’’مکائدِ اقبال‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اسی طرح سیماب اکبر آبادی، نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی اور دیگر لوگوں کے سوالات کا سلسلہ چل نکلا اور جہات بدل کر ہنوز جاری ہے۔
جہاں تک زبان وبیاں کا تعلق ہے، یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں فاضل سے فاضل شخص کی زبان پر بھی اعتراضات ہوئے ہیں، کیوں کہ کلام میں بہتری کی گنجائش کا کوئی کنارہ شاید نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کا وہ اکمل ترین درجہ آ جاتا ہے،جسے کلامِ خداوندی کہا جاتا ہے اور جس کے ساتھ تصورِا عجاز متعلق ہے۔مرزا غالب کو شہنشاہِ سخن کہا جاتا ہے، لیکن استاد سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دیگر لوگوں نے ان کے کلام میں عروض وقوافی اور زبان کے کئی عیوب شمار کیے ہیں۔یہی معاملہ اقبال کا بھی ہے کہ ان کے کلام پر مختلف پہلوؤں سے اعتراضات کیے گئے ہیں، جن میں بہت سے درست بھی ہیں اور بہت سے غلط بھی۔ زیر نظر تحریر میں موجودہ فضا کے اعتبار سے ایک اعتراض ، اس کے حوالے سے خود اقبال کی اپنی تصریحات اور نامور شارحین اقبال کی وضاحت کا ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
موجودہ دور کی بڑی شخصیات میں ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان کا نام معروف ہے۔ دین کی تعبیر کے حوالے سے ان کا مخصوص نقطہ نظر ہے جو ’’اسلام کے انقلابی تصور‘‘ یا ’’دین کی سیاسی تعبیر‘‘ کے ردعمل اور نقد کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔مولانا وحید الدین خان عام طور پر مسلم دنیا کی بڑی بڑی شخصیات (بشمول ’’سیاسی اسلام‘‘ اور ماضی سے متعلق) پر یہ اعتراض مختلف جگہوں پر قلم بند کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگایا اور اس طرح جہاد کی تعبیر کو وہ تعذیبِ مذہبی (Persecution Religious ) کی علت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ یہ ماضی کا جبر تھا جس کے استیصال کے لیے جہاد مشروع ہوا اور چونکہ بعد کے ادوار میں یہ مسئلہ نہیں رہا، اس لیے مسلم رہ نما اس بدلتی صورتِ حال کو نہ سمجھ سکے اور مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگائے رکھا۔ مولانا کی فکر میں پائے جانے والے کئی قابل قدر اجزا کے باوجود ان کا یہ تصور (دیگر اور تصورات کی طرح)درست نہیں ہے اور اس سے تاریخ اسلام کی بھی ایک عجیب تصویر سامنے آتی ہے؛ بلکہ مولانا کے اس تصورِ جہاد اور فکر کے مجموعی نتیجے کے بارے میں راقم کا تاثر یہ ہے کہ اپنے مزاج اور مقاصد میں سے یہ تقریباً وہی چیز ہے جس پر علامہ اقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں حافظِ شیراز کی شاعری کے حوالے سے ’’ہوشیار از حافظِ صہبا گسار‘‘ کہ کر تنقید کی تھی جس پر خواجہ حسن نظامی نے اخبارات میں ایک شور برپا کر دیا تھا۔اقبال کا مقصود صرف اتنا تھا کہ زوال کے دور کے لٹریچر نے مسلمانوں کے قواے عملیہ کو جس طرح سرد کیا ہے، حافظ کا پیغام اس حوالے سے ایک افیون کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان اس سلسلے میں اقبال پر کافی سخت نقد کرتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کو ٹکراؤاور شدت پسندی کی راہ دکھانے والے آدمی ہیں اور اس وقت مسلمانوں میں جو جگہ جگہ عسکری کارروائیاں جاری ہیں، اس کے پیچھے فکر اقبال کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی اعتراض کہیں دبے لفظوں میں اور کہیں صراحتاً ہمارے لبرل دانش ور( جیسے ڈاکٹر مبارک علی) دہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض Neo-Religious Liberals حلقوں میں بھی اس اعتراض کی صداے بازگشت سننے کو ملتی رہتی ہے۔
ماضی میں اقبال پر یہ اعتراض دو حلقوں کی طرف سے سامنے آیا: ایک مستشرقین اور دوسرے اردو ادب میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے افراد کی طرف سے۔مستشرقین یا مغربی مصنفین تین طرح کے ہیں جنھوں نے کلام وفکر اقبال سے اعتنا کیا ہے: شعری یا نثری تحریروں کے مترجمین، شعر وفکر کے ناقدین اور کتابوں کے مبصرین اور وہ جنھوں نے اقبال کے کلام کے اجزا کو اپنے انتخابی مجموعوں میں شامل کیا۔پروفیسر اے آر نکلسن نے 1919ء میں ’’اسرارِ خودی‘‘ (1915ء ) کو انگریزی میں ڈھالااور اس پر مقدمہ بھی تحریر کیا جو اقبال کے انگریزی دنیا اور یورپ میں تعارف کا سبب بنا۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول پہلے اپنے ملک میں خواجہ حسن نظامی، محمد دین فوق کشمیری اور رسالہ ’’صوفی‘‘ منڈی بہاؤالدین کے مقالہ نگاروں نے اور پھر یورپ کے علمی حلقوں نے بحث ونظر کا بازار گرم کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں :
’’جہاں اقبال کے مقامی نقادوں کا مرکزی نکتہ بحث ،تصوف کی حمایت و مخالفت، وحدت الوجود والشہود کی تردید وتائید اور خودی وبیخودی کی تحقیق تھی، وہاں مغرب کے ان نقادوں نے مغربی ماحول اور مغربی ذہن کے مطابق اقبال کے فلسفہ خودی پر جرح کرتے ہوئے اسے احیائے اسلام کی ایک سعی قرار دیتے ہوئے یورپ کو آنے والے خطرے سے ڈرایا جو اسرارِ خودی کی حکمت سے (ان کی راے میں) پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، ’’اقبال کے غیر مسلم مداح اور نقاد‘‘ مشمولہ ’’اقبالیات کی مختلف جہتیں‘‘، مرتبہ یونس جاوید، ص 2)
مغربی نقادوں میں دو نے اقبال کے افکار پر ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ترجمہ سامنے آنے کے بعد تنقید کی:پروفیسر ڈکنسن اور ایم فارسٹر؛ اقبال نے مترجم پروفیسر نکلسن کو خط لکھا جس میں ان تینوں کے نکات پر تنقید کی۔ (ان تنقیدوں اور اقبال کے خط کے اردو تراجم دارالمصنفین اعظم گڑھ کے معروف جریدے" معارف" کے شماروں جون، ستمبر اور اکتوبر 1921ء میں شائع ہوئے۔)ن کلسن نے لکھا:
’’اقبال مذہب کے بارے میں بہت پرجوش ہے۔وہ ایک نئے حرم کی تعمیر میں مصروف ہے۔اس نئی بستی سے مراد ایک عالم گیر مذہبی ریاست ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان نسل ووطن کی قید سے بے نیازایک ہو جائیں گے۔وہ جس ریاست کی بات کرتا ہے، اس میں دین کی بادشاہت ہو گی۔میکیاولی کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
ڈکنسن کے اعتراضات میں یہ بنیادی بات تھی کہ اقبال جہاد کی بات کرتا ہے، اس لیے اسے اس تصورِ پیکارسے خوف محسوس ہوتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اقبال مسلمانوں کو اسلحہ کے زور سے متحد کرنا چاہتا ہے، وہ ایک خونیں ستارہ ہے، امن کا ستارہ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ :
’’مشرق اگر مسلح ہو گیا تو ممکن ہے کہ مغرب کو تسخیر کر ڈالے، لیکن کیا اس سے وہ فساد وہلاکت کی قوت کو بھی مسخر کر لے گا؟نہیں؛ بلکہ قدیم خون ریزیاں رہ رہ کر برابر ابھرتی رہیں گی اور ساری دنیا کو مبتلائے مصائب رکھیں گی۔ بس اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں، کیا اقبال کا یہی اختتامی پیغام ہے۔؟‘‘ (مرجع مذکور، ص 5)
دوسرے جس حلقے کی طرف سے اقبال پر شدت پسندی کے پرچارک کا اعتراض ہوا، وہ ترقی پسند ادیبوں کا حلقہ ہے۔ ترقی پسند تحریک میں ڈاکٹر اخترحسین راے پوری کا مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘ اکتوبر 1934ء میں ہندی میں اور جولائی 1935ء میں اردو میں شائع ہوا(ڈاکٹرا نور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، ص 436) اور یہ وہ مقالہ ہے جواس تحریک کی ’بائبل‘ ثابت ہوا۔پروفیسر آل احمد سرور اس مقالے کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال فاشسطیت کا ترجمان ہے اور یہ حقیقت زمانہ حال کی جدید سرمایہ داری کے سوائے کچھ نہیں۔ تاریخ اسلام کا ماضی اقبال کو بہت شاندار معلوم ہوتا ہے، اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا دورِ فتوحات اسلام کے عروج کی دلیل ہے اور ان کا زوال یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، حالانکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی اسلامی تصورِ زندگی پر عمل بھی ہوا تھا۔بہرحال وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبال قومیت کا اسی طرح قائل ہے جس طرح مسولینی۔اگر فرق ہے تو اتنا کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی۔ فاشسٹوں کی طرح وہ بھی جمہور کوحقیر سمجھتا ہے۔فاشزم کا ہمنوا ہو کر وہ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ملوکیت وسرمایہ داری کا وہ اس حد تک دشمن ہے جس تک متوسط طبقہ کا آدمی ہو سکتا ہے۔ اقبال مزدوروں کی حکومت کو چنداں پسند نہیں کرتا۔ وہ اسلامی فاشسٹ ہے۔‘‘ (آل احمد سرور، اقبال اور ان کا فلسفہ ، ص 91، 92)
کچھ اسی قسم کے اعتراضات مجنوں گورکھ پوری کی طرف سے سامنے آئے۔ (اے ایم خالد، "اقبال کا خصوصی مطالعہ"(ایم اے اردو ادب سیریز)، ص310 )
مذکورہ سطور سے یہ واضح ہوا کہ مستشرقین، ترقی پسند ادیبوں اور ہمارے ہاں کے Liberals اور Neo-Religious Liberals کے نزدیک اقبال دہشت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ہاں مرنا مارنا اور ٹکراؤ اصل فلسفہ ہے، وہ صرف "برہم زن" کے اصول کو جانتا ہے، وغیرہ؛ تاہم جب علامہ اقبال کی جملہ نثری تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس اعتراض کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے اور فکر اقبال سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اقبال نے اسلام کو ایک پرامن مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور ان پر یہ اعتراض ان کی فکر کی جملہ جہات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراض کا ایک بڑا منشا علامہ اقبال کی سیاسی فکرکی جملہ جہات کو نظر انداز کرنا بھی ہے جو ان کی نثری تحریروں میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔اقبال کو بحیثیت کل دیکھنے کا مسئلہ آج تک کے اقبال شناسوں میں ایک کافی مشکل علمی مسئلے کے حیثیت سے موجود ہے اور خود اقبال کے الفاظ میں اس "مجموعہ اضداد" کی کڑیوں میں ایک "نظم"تلاش کرنا اقبال کی صحیح تفہیم کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ اقبال کی سیاسی فکر کے بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ماضی قریب کے معروف دانش ور اور مصنف جناب مظہر الدین صدیقی نے بجا طور پر لکھا ہے:
Iqbal's political philosophy has been grossly misinterpreted. By some, he has been held us as the champion of Fascist dictatorship, others have tried to discover in his writings leanings towards Communism. Very few have tried to view as a whole the political ideas of Iqbal which lie scattered in his writings and therefrom to build up a consistent political theory which might fit in with the general framework of his philosophical ideas. It is often overlooked by the critics as well as the admirers of Iqbal that a man's political ideas cannot be isolated from the general system of his thought, because both spring from the depth of his personality, which is a unified whole. (Mazheruddin Siddiqi, Concept of Muslim Culture in Iqbal, 69)
’’اقبال کی سیاسی فکر کی بری طرح غلط انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔بعض نے اسے فاشزم کی ڈکٹیٹرشپ کے رہ نماکے طور پر پیش کیا، جب کہ بعض نے اس کی تحریروں میں کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والا باور کیا۔ بہت تھوڑے لوگوں نے اقبال کے سیاسی تصورات کو ان کی منتشر تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ایک ایسا مربوط سیاسی نظریہ کشید کیا جا سکے جو اقبال کے فلسفیانہ افکار کے عمومی فریم سے لگا کھاتا ہو۔ اقبال کے مادحین اور ناقدین ، دونوں ہی سے یہ بات عام طور پر نظر انداز ہوئی ہے کہ انسان کے سیاسی افکار اس کی فکر کے عمومی نظام سے جدا نہیں کیے جا سکتے، کیوں کہ دونوں ہی اس کی شخصیت کے مربوط کل کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ ‘‘
یہاں اقبال کی اپنی تحریروں اور اقبالیات کے ماہرین کی آرا کی روشنی میں اقبال کی مذکورہ بالا شناخت کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ڈکنسن کے مذکورہ بالا اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے لکھا:
’’میں جس شے کا قائل ہوں، وہ روحانی قوت ہے نہ کہ جسمانی طاقت۔بے شبہہ جب کسی قوم کو جہاد کی دعوت دی جائے تو اس صدا پر لبیک کہنا میرے عقیدے میں اس کا فرض ہونا چاہیے، لیکن جوع الارض (تسخیر ممالک) کے لیے جنگ وجدل کرنا میں نے حرام قرار دیا ہے۔‘‘
چناں چہ "اسرارِ خودی" میں ایک جگہ عنوان اسی طرح باندھا ہے: ’’دربیان ایں کہ مقصد حیاِ ت مسلم اعلاے کلمۃ اللہ است وجہاد اگر محرکِ او جوع الارض باشد، درمذہب اسلام حرام است‘‘؛اقبال کے عربی ترجمان شیخ عبدالوہاب عزام نے اس کا عربی ترجمہ خوب صورت الفاظ میں کیا ہے جو مقصودکو عمدہ طور پر واضح کرتا ہے یعنی: "مقصد حیاۃ المسلم اعلاء کلمۃ اللہ، والجھاد للاستیلاء علی الارض حرام"(عبدالوہاب عزام، محمد اقبال سیرتہ وفلسفتہ وشعرہ، 86) یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے اور زمین پر محض غلبہ پانے کی خاطر جہاد کرنا حرام ہے۔اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے توواضح ہے کہ اہل مغرب نے آج تک دنیا میں جو فساد مچایا ہے، وہ" جوع الارض"کے مرض کی وجہ سے برپا کیا ہے۔کہیں اقوام کے وسائل کی لوٹ، کہیں توسیعی عزائم ، کہیں حقیقی یا مفروضہ دشمن کو پامال کرنا، لیکن ان کا اعتراض صرف اسلام اور مسلم شخصیات پر ہے :
اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے
غلط الزام بھی اوروں پہ لگا رکھا ہے
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے!
اسی طرح اقبال نے کشمکش کے تصور پر لکھا: ’’میں کش مکش کا جو مفہوم لیتا ہوں، وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی، درآں حالیکہ نطشے کے پیش نظر غالباً اس کا صرف سیاسی مفہوم تھا۔۔۔ میں نے جنگ وتنازع کی صورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے، وہ اصلاً اخلاقی ہی ہے۔ ڈکنسن نے افسوس کہ میری تعلیم مردانگی وسختی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘
اسی طرح اقبال نے ڈکنسن کے مخصوص استشراقی پس منظر پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو ایک خون ریز مذہب سمجھنے کا جو متعصبانہ خیال یورپ میں قدیم سے چلا آتا ہے، وہ ڈکنسن صاحب کے سر پر بھی سوار ہے۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف مسلمان، بلکہ کافہ انام اسلامی عقیدے کی رو سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے، بشرطیکہ نسل وقوم کے اصنام کو توڑ دیا جائے اور ایک دوسرے کی خودی یا انا کو تسلیم کیا جائے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، حوالہ سابق، ص 8، 9)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اقبال کے بارے میں مغربی مصنفین میں سے پروفیسر آربری کی آرا نقل کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے پیغام کو جن مستشرقین نے سنجیدگی سے دیکھا، ان کی رائے کس طرح ڈکنسن کی رائے سے مختلف ہے۔آربری نے لکھا:
’’یورپ صدیوں سے اسلام کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے،ان معنوں میں کہ اسلامی تہذیب وتمدن کے واضح کارناموں کو نظرانداز کرتارہا، کیوں کہ یورپ کے فضلا علمی طریقہ کار اپنانے کے بجائے مذہبی عصبیتوں میں پھنسے رہے۔۔۔اس لیے اگر اقبال نے اپنی نظم ونثر میں یہ دعویٰ کیا کہ یورپ انسانی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ یورپ کے فضلاے سابق کے تعصبات کا قدرتی ردعمل ہے۔۔۔اب جب کہ تعصبات کے بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جا رہے ہیں، یورپ کو واقعی یہ سوچنا چاہیے کہ اس نے مشرق سے کیا کیا لیا اور اب بھی تہذیب کی ترقی کے لیے مشرق سے کیا کچھ لے سکتا ہے۔ اسی صورت میں تعمیرِ انسانیت کے مقصد میں وسیع تر اشتراکِ عمل ہو سکتا ہے۔‘‘
علامہ اقبال کے کلام کی علامات میں "شاہین" کی علامت بہت اہم ہے۔ اقبال کا شاہین غیرت و خودداری ، فقر واستغنا، خدامستی، بلند پروازی، خلوت پسندی، تیز نگاہی، سخت کوشی، آزادی، تجسس اور قوت وتوانائی کا سمبل ہے۔ اقبال کی علامتوں کے حوالے سے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کا یہ کہنا بہت برمحل ہے کہ "اقبال کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں اور یہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں، ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔"(خالد اقبال یاسر، جدید تحریکات اور اقبال، ص 332، بحوالہ سجاد باقر رضوی، علامہ اقبال اور عرضِ حال ص 13)
اقبال نے شاہین کی علامت مردِ کامل کی ترجمانی کے لیے پیش کی ہے جس سے مراد انبیاء علیہم السلام، حضراتِ صحابہ اور اولیاے امت ہیں۔اس کے مقابلے میں اقبال نے کرگس کی علامت لائی ہے جو گھٹیا درجے کی نفسانی خواہشات ، فروتر مقاصد ، فطرت کی پستی اور دوں نہاد مزاج کا استعارہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کا شاہین ،قرآن کا "نفس مطمئنہ" اور کرگس، "نفسِ امارہ" ہے۔ تاہم اقبال کے بارے میں شدت پسندی کا بیانیہ کشید کرنے میں سب سے زیادہ اس اصطلاح سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔اسے مسولینی کی فکر اور نیٹشے کے سپر مین کی علامت قرار دیا گیا، جہاں جبر وقہر اور تسلط ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس طرح کے اعتراضات زیادہ تر ترقی پسند ادیبوں نے کیے۔ فکر اقبال کے سلسلے میں ایک معتبر نام عزیز احمد(مصنف ، "اقبال ۔ نئی تشکیل") کا ہے۔انھوں نے ان امور پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’[اقبال کا شاہین] بلند پروازی اور خیر کی طاقت کا رمز ہے، جبر کا نہیں۔طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اس سے انسان مظلوم نہیں بن سکتا۔‘‘ عزیز احمد مزید کہتے ہیں کہ اقبال نے دوسرے مذاہب کے حقوق پامال کرنے کی ہدایت کبھی نہیں کی، صرف اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے طاقت جمع کرنے کی تلقین ضرور کی ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے بعض دیگر مقالات کے براہِ راست اقتباسات بھی درج کیے جائیں جو ان کی سیاسی فکر پر روشنی ڈالتے ہیں؛ کیوں کہ علامہ کے کلام میں ’’خلافت‘‘ کا لفظ دیکھتے ہی غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ جنم لے لیتا ہے اور اس اصطلاح کو اقبال کے پورے فکری نظام میں رکھ کر دیکھنے کے بجائے جزوی تفہیم کے نتیجے میں غیرصحیح نتائج اخذ کرلیے جاتے ہیں۔
اقبالیات میں ایک مستقل ذیلی صنف "اقبال دشمنی" کو اقبالیات کے نامور محقق جناب ڈاکٹر ایوب صابر نے ایک پورے پراجیکٹ کے طور پر پانچ کتابوں میں مکمل کیا ہے۔ ’’اقبال کی فکری تشکیل ۔ اعتراضات اور تاویلات کا جائزہ‘‘ نامی کتاب میں انھوں نے ’’کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت زیر نظر تحریر کے مقصد پر گفت گو کی ہے، تاہم انھوں نے اقبال کی نثری تحریروں کا بھرپور جائزہ نہیں لیا جو کہ ضروری تھا، کیوں کہ اقبال کے تصورِ سیاست کی ناقص تفہیم کے ساتھ لوگ تصورِ جارجیت کو جوڑتے ہیں۔یہاں اقبال کی نثری تحریروں کے مختلف اقتباسات دیے جا رہے ہیں۔ راقم کے پیش نظر سید عبدالواحد معینی کے مرتب کردہ ’’مقالاتِ اقبال‘‘ ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض کے مرتب کردہ ’’افکارِ اقبال‘‘ اور لطیف احمد شیروانی کی مرتب کردہ Speeches, Writings & Statements of Iqbal ہیں جن میں اقبال کی Original تحریریں درج ہیں۔ ’’افکارِ اقبال‘‘ میں ایک مقالہ ہے ’’اسلام کا اخلاقی اور سیاسی نقطہ نظر‘‘؛ یہ اصل میں ترجمہ ہے اقبال کے ایک مقالے "Islam as a Moral and Political Ideal" کا جو شیروانی کی مذکورہ بالا کتاب کا حصہ ہے؛اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید نے دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت دی ہے، لیکن منکروں اور کافروں کے خلاف جارحانہ جنگ لڑنے کا عقیدہ اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے بالکل ناجائز ہے۔۔تمام جنگیں جو پیغمبر اسلام کے زمانہ حیات میں لڑی گئیں، دفاعی تھیں۔۔دفاعی جنگوں میں بھی پیغمبر اسلام نے مفتوح پر وحشیانہ ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔میں ذیل میں آپ کے وہ رقت انگیز کلمات درج کرتا ہوں جو آپ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس وقت ادا کیے جب وہ جنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ‘‘
نبی پاک کے اس فرمان کے اقتباس میں بچوں، عورتوں ، غیر مقاتلین (Non-Combatants) وغیرہ سے جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آگے اقبال لکھتے ہیں :
’’تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کی توسیع واشاعت بطور مذہب کسی صورت میں بھی اس کے پیرؤوں کے سیاسی اقتدار سے مربوط نہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی روحانی فتوحات ہمارے سیاسی زوال اورانحطاط کے زمانے میں عمل میں آئیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’صداقت تو یہ ہے کہ اسلام لازمی طور پر امن کا مذہب ہے۔سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی خلل کی تمام صورتوں کو قرآنِ مجید نے غیرمصالحت پسندانہ اصطلاحات میں مسترد کیا ہے۔‘‘
آیاتِ قرآنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ قرآنِ مجید نے کتنی سختی کے ساتھ کھلے انداز میں سیاسی ، اجتماعی اور معاشرتی بدنظمیوں کی تمام صورتوں کی مذمت کی ہے۔ ‘‘
نیز لکھتے ہیں:
’’اسلام کا مطمح نظر ہر قیمت پر اجتماعی اور معاشرتی امن وامان کوحاصل کرنا ہے۔معاشرے میں سخت اور شدید قسم کے تمام طریقوں کی بڑی روشن اور واضح زبان میں مذمت کی گئی ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں امیر اگر ایک حبشی غلام بھی ہے توا س کی اطاعت کا حکم ہے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہم میں سے وہ لوگ جو اس بات کو اپنا شعار بناتے ہیں کہ سیاسی عقائد میں مسلمانوں کی ہیئت عمومی سے اختلاف کریں تو ان کو چاہیے کہ اس حدیث کو بڑے غور اور بڑی احتیاط سے پڑھیں اور اگر ان کے دل میں پیغمبر اسلام کے الفاظ کے لیے کوئی احترام ہے تو یہ ان کا فرض ہے کہ سیاسی رائے کے اظہار میں خود کو اس گھٹیا روش سے باز رکھیں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’قومیت ہی اسلامی اصول کی خارجی علامت ہے۔یہی وہ اصول ہے جو اسلام میں انفرادی آزادی کو محدود کرتا ہے، ورنہ اسلام کے آئین کی رو سے ہرفرد مطلقاً آزاد ہے۔ ایسی قوم کے لیے حکومت کی بہترین صورت جمہوریت ہے جس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کو قابل عمل حد تک آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنی فطرت کے تمام امکانات کی نشوونما کر سکے۔‘‘
آگے اقبال نے اسلام کے سیاسی ڈھانچے پر گفتگو کی ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ میں اللہ کے قانون کی حاکمیت، قوم کے تمام افراد میں مساوات ، فرقہ پرستی کی مذمت، مسلکی جھگڑوں پر تنقید اور وحدت کی دعوت دی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو، علامہ اقبال، "افکارِ اقبال"، مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض، ص 27 150 52)
اقبال کے اس مضمون میں اسلام کے تصورِ جہاد میں دفاعی جہاد کا موقف اپنایا گیاہے جو ایک خاص فضا میں برصغیر میں بعض افراد کے ہاں سامنے آیا جیسے سید امیر علی، چراغ علی،علامہ شبلی نعمانی وغیرہ؛ تاہم یہ موقف محل نظر ہے جس پر نقد کا یہاں موقع نہیں، لیکن اس کے علی الرغم اقبال کا یہ مضمون نہایت واضح طور پر ایسے خطوط دیتا ہے جن کی رو سے آج کی شدت پسند تحریکوں کے لیے اقبال کے ہاں کوئی جگہ نہیں۔ یہاں یہ دلچسپ تقابل پیش نظر رکھنا مناسب ہے کہ مولانا وحید الدین خان بھی صدرِ اول کے غزوات وسرایا کے بارے میں اقدامی کے بجائے دفاعی ہونے کے نقطہ نظر کے قائل ہیں اور اقبال بھی؛ لیکن وہ اقبال کے بارے میں موجودہ حالات کے لحاظ سے ایک بالکل دوسرے اور غیردرست نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ اس طرح کے امور ہراس شخص کو پیش آئے ہیں، جنھوں نے اقبال کی فکر کے کسی ایک جز کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ممکن ہے مولانا کے پیش نظر یہ بات ہو کہ چوں کہ تقسیم برصغیر کے معاملے میں اقبال تقسیم کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، اس لیے ضرور ہے کہ ان کی فکر بس "تقسیم" ہی سکھاتی ہے، حالاں کہ وہ اس وقت کے تناظر میں ایک خاص فیصلہ تھا جسے مسلمانانِ برصغیر نے اختیار کیا جس کے پس منظر، وجوہ اور جواز میں ان حضرات کا تصور کچھ کم زور اساسات پر استوار نہیں تھا۔ یہاں اس بحث میں جانے کا موقع نہیں۔
اسلام میں خلیفہ کے تصور کے ذیل میں اسلام کے شورائی مزاج کے روح کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:
"The Caliph is not necessary the high-priest of Islam; he is not the representative of God on earth. He is fallible like other men and is subject like every Muslim to impersonal authority of the same law... In fact the idea of personal authority is quite contrary to the spirit of Islam." (Sherwani, Speeches, Writings & Statements of Iqbal, 142.)
’’خلیفہ اسلام میں کوئی پوپ نہیں ہوتا، وہ زمین پر خدائی ترجمان نہیں ہوتا۔ وہ ویسا ہی غیرمعصوم ہوتا ہے جیسے دیگر لوگ اسی قانون کے غیرشخصی اقتدار کے تابع ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصی اختیار کا تصور مکمل طور پر اسلام کی روح کے منافی ہے۔‘‘
’’مقالاتِ اقبال‘‘ (مرتبہ عبدالواحد معینی) میں ایک مضمون ’’خلافت اسلامیہ 150 عرب جاہلیت اور طریق انتخابِ رئیس‘‘ ہے جواس باب میں اقبال کی فکر کی توضیح میں بہت اہم ہے؛ اقبال کہتے ہیں:
’’اسلام ابتدا ہی سے اس اصول کو تسلیم کر چکا تھا کہ فی الواقع اور عملاً سیاسی حکومت کی کفیل وامین ملت اسلامیہ ہے کہ کوئی فردِ واحد؛ ہاں جو عمل انتخاب کنندگان اس معاملہ میں کرتے ہیں، اس کے معنی صرف یہی ہیں کہ وہ اپنے متحدانہ وآزادانہ عملِ انتخاب سے اس سیاسی حکومت کو ایک ایسی مختصر ومعتبر شخصیت میں ودیعت کر دیتے ہیں جس کو وہ اس امانت کا اہل تصور کرتے ہیں۔ یوں کہو کہ تمام ملت کا ضمیر اجتماعی اس ایک فرد یا شخصیت منفردہ کے وجود میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حقیقتاً اور صحیح معنوں میں فرد تمام کی تمام قوم کا نمائندہ کہلا سکتا ہے، لیکن ایسے فرد کا مسند حکومت پر متمکن ہونا شریعت کے نزدیک اسے کسی برتری یا ترجیح کا مستحق ہرگز نہیں بناتا۔شریعتِ حقہ کی نگاہ میں اس کی شخصی وذاتی حیثیت بالکل وہی رہے گی جو ایک عام دوسرے مسلمان کی ہے۔اس کوان افراد پر ، جن کا وہ نمائندہ ہے، سوائے اس حکومت کے جو شرعاً آئین کے نافذ کرنے کی غرض سے اسے حاصل ہے اور کوئی اختیار و اقتدار نہ ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اسلام میں مسئلہ "قانون سازی" کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحاد و اتفاق و آرائے جمہور ملت کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔ ‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود اپنے فرزند کو خلافت کی امیدواری سے مستثنیٰ رکھنا کس قدر روشن اور جلی ثبوت ہے اس الم نشرح حقیقت کا کہ اس زمانے تک عرب کے سیاسی دل ودماغ کو روایتی بادشاہت کے خیال سے قطعاً بعد اور مغائرت تھی۔‘‘
’’جمہوریہ اسلامیہ کی بنا شریعت حقہ کے نزدیک ایک مطلق اور آزاد مساوات پر قائم ہے۔شریعت کے نزدیک کوئی گروہ، کوئی ملک، کوئی زمین فائق ومرجح نہیں۔ اسلام میں کوئی مذہبی پیشوائی یا مشیخت نہیں۔ ذات پات یا نسل ووطن کا امتیاز نہیں۔۔۔اسلام کا سیاسی منتہا یہ ہے کہ تمام نسلوں اور قوموں کے آزادانہ اتحاد واختلاط سے ایک نئی جامع فضائل وکمالات قوم پیدا کی جائے۔ ‘‘
اسی مضمون میں اقبال نے خلیفہ اسلام کے اوصاف شمار کرنے کے بعد عالم اسلام میں، ابن خلدون کے تصورِتعددِ خلفا کے نظریے کی حمایت کی ہے اور نظیر کے طور پر حضرت معاویہ اور حضرت علی کی خلافتوں کو پیش کیا ہے۔ اقبال کے تصورِ خلافت کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون نہایت اہم ہے جو لبرل ازم اور معاصر شدت پسندانہ رویوں کے مابین منہجِ اعتدال کا حامل ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: علامہ محمد اقبال، "مقالاتِ اقبال"، مرتب سید عبدالواحد معینی، ص 123۔ 153)
فکر اقبال کے اس نثری پہلو کا نقش اولین راقم نے سب سے پہلے جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل کی کتاب ’’اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل ، افکار اور تحریکات‘‘ میں پڑھا تو احساس ہوا کہ اقبال کی فکر اس پہلو سے ہمارے یہاں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔پھر براہ راست ان کی نثری تحریروں کو دیکھا تو یہ تصورِ مزید مستحکم ہوا۔ اس کے بعد ایک دوست کی وساطت سے معاصر ماہر اقبالیات جناب خرم علی شفیق نے اپنی مختصر کتاب ’’اسلامی سیاسی نظریہ علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں ‘‘ حاصل ہوئی تو اس کے نقوش مکمل طور پر نکھر کر سامنے آئے جس سے واضح ہوا کہ اقبال اسلامی حکومت سے کوئی جبر اور تسلط پر مبنی کسی سیاسی نظریے کا تصور پیش نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس میں شریعت کے قانون کی بالادستی کے ساتھ جدید جمہوری تصورات کے صالح اجزا کو بھی پورے طور پر پیش نظر رکھا گیا ہے؛ یوں یہ تصور ایک خوب صورت اور متوازن تصورِ سیاسی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس میں دینی روح اور تمدنی ارتقا دونوں کی پاس داری ملتی ہے جو اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اقبال ایک طرف اگر اقتدار اعلیٰ میں شریعت کی بالادستی کے قائل ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو حق اجتہاد تفویض کرنے کے قائل ہیں، لیکن ساتھ وہ خلیفہ کے اوصاف بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکم ران کو دینی لحاظ سے کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے۔
ہمارے یہاں ایک طرف اسلا م کے نام پر پرتشدد تحریکوں کا بیانیہ ہے جو بزورِ شمشیر اسلام کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانا چاہتی ہیں، تو دوسری طرف سیکولر اور لبرل ذہن کا جو مغرب سے مرعوب، کسی مجاہدہ نفسانی سے گریزاں اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کےHedonistic فلسفے پر عمل پیرا ہے۔محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے بیانیے میں اگرچہ اربابِ حکومت کی کچھ دینی ذمے داریاں بھی شمار کی گئی ہیں، لیکن عملی طور پر قانون سازی کے عمل میں قرآن وسنت کی بالادستی کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ بڑی حد تک دوسری قسم کے بیانیے کے لیے سازگار ہو گیا ہے۔ اس میں آج تک کی علما اور مخلصین ملت کی پرامن دینی جمہوری مساعی پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس لیے جدید جمہوری اداروں کو ایک وجودی حقیقت کے طور پر باقی رکھتے ہوئے اسلام کے تصورِ خلافت کی Values کی جو آئیڈیالوجی اقبال کے ہاں ہے، اس کو اپنانا اور اپنے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
اقبال کا یہ تصور منہجِ اعتدال معلوم ہوتا ہے جس میں اسلام کے تصورِ سیاست اور جدید تمدنی ارتقا کے تقاضوں کی پاس داری موجود ہے، نیز پاکستان کے تناظر میں یہ اوپر مذکورہ علما اور مخلصینِ ملت کی مساعی کے بھی موافق ہے۔مذکورہ بالا توضیحات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال جہاں ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ جیسی باتیں اپنی شاعری میں کرتے ہیں تو ان کا حقیقی محل اور مفہوم کیا ہوتا ہے اور یہ کہ کس طرح یہ بات شدت پسندی بیانیے کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ بات ظاہر ہے فکر اقبال کو بحیثیت مجموعی پیشِ نظر رکھنے سے سامنے آتی ہے، ورنہ جزوی امور پر توجہ مرکوز رکھنا بہت غلط نتائج اخذ کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم!