جمعیۃ علماء اسلام کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ میں شرکت کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف کو مولانا فضل الرحمان نے زبانی طور پر یہ کہہ کر دعوت دی تھی کہ آپ حضرات مہمان نہیں بلکہ میزبان ہیں اس لیے ہم دعوت نامہ اور انٹری کارڈ وغیرہ کے تکلف میں نہیں پڑے اور شریک ہونے کا پروگرام بنا لیا۔ چنانچہ مولانا عبدالرؤف ملک، جناب صلاح الدین فاروقی، مولانا احمد علی فاروقی، حافظ شفقت اللہ اور راقم الحروف کانفرنس میں حاضر ہوئے، پنڈال تک پہنچے، اس سے آگے جانے کے لیے ہم سے پاس طلب کیا گیا جو ہمارے پاس نہیں تھا اس لیے وہیں ایک کونے میں بیٹھ کر ہم نے مولانا فضل الرحمان، حافظ حسین احمد، مولانا عطاء الرحمان اور مولانا عبد اللہ کے خطابات سنے اور عصر کی نماز کا وقفہ ہونے پر واپس آگئے۔
کانفرنس میں ملک بھر سے علماء کرام، جماعتی کارکنوں، مختلف مکاتب فکر کے دینی و سیاسی راہنماؤں اور عوام کی وسیع پیمانے پر بھرپور شرکت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ ملک بھر سے لوگوں کی حاضری، مختلف مذاہب و مسالک کی نمائندگی اور سیاسی جماعتوں کے متعدد راہنماؤں کی شرکت کے باعث ایک بھرپور ’’قومی کانفرنس‘‘ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھی جبکہ مختلف ممالک سے علماء کرام کی جماعتوں کے وفود کی تشریف آوری نے اسے فی الواقع ’’عالمی اجتماع‘‘ بنا دیا تھا۔ البتہ مولانا سمیع الحق کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوئی کہ ان کے پڑوس میں منعقد ہونے والے اس عظیم دینی و قومی اجتماع میں ان کے شریک ہونے سے بلاشبہ کانفرنس کی عظمت و افادیت اور مقصدیت میں اضافہ ہوتا، بہرحال
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
ہمارے خیال میں کانفرنس کا بنیادی مقصد حریت قومی اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی قیادت میں اب سے ایک سو سال قبل اس جدوجہد کے طریق کار میں اساسی تبدیلی اور اس کا رخ عسکریت کے محاذ سے عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد کی طرف موڑ دینے کے تاریخی فیصلے کے ساتھ تجدید عزم اور اس کے تسلسل کو جاری رکھنے کا اعلان تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کامیاب رہی ہے اور ہم اس پر جمعیۃ کے قائدین او رکارکنوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
حضرت شیخ الہند کی قیادت میں جمہور علماء ہند نے ایک صدی قبل اپنی جدوجہد کو صرف عسکریت کے محاذ سے پر امن سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ اور بہت سی اہم باتیں اس تاریخی فیصلے کا حصہ تھیں۔ مثلاً یہ کہ اپنی جدوجہد کو دینی حلقوں تک محدود رکھنے کی بجائے انہوں نے جدید تعلیم یافتہ حضرات اور سیاسی کارکنوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا تھا جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اور ماسٹر تاج الدین انصاری جیسے قد آور سیاسی راہنما تحریک کو میسر آئے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم باشندگان وطن بھی تحریک آزادی حتٰی کہ تحریک خلافت کا حصہ بنے تھے۔ یہ حضرت شیخ الہند کی فہراست و بصیرت اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کا اظہار تھا کہ تحریک خلافت کو مہاتما گاندھی کی سربراہی میں غیر مسلم سیاسی کارکنوں کی ہر جگہ بڑی کھیپ مل گئی تھی۔ جبکہ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ شیخ الہند کی جدوجہد اور فکری راہنمائی کی روشنی میں جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام جیسی دو بڑی جماعتیں جب پورے برصغیر میں متحرک ہوئیں تو ان کی قیادت میں صرف دیوبندی مسلک کے بزرگ شامل نہیں تھے بلکہ دوسرے مذہبی مکاتب فکر مثلاً بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور جدید تعلیم یافتہ طبقوں کی سرکردہ شخصیات بھی اس قیادت کا متحرک حصہ تھیں۔
ہمارے خیال میں شیخ الہند کی راہنمائی میں اب سے ایک صدی قبل کے دینی راہنماؤں نے آزادی و خودمختاری اور نفاذِ اسلام کے دو بنیادی اہداف کے لیے تحریک کا جو نیا رخ طے کیا تھا، اس کی بنیاد میں (۱) عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد (۲) غیر مسلم باشندگان وطن کی اس تحریک میں شرکت (۳) جدید تعلیم یافتہ حضرات کو اس کی قیادت کے لیے آگے لانا (۴) اور تمام مذہبی مکاتب فکر کو اس تحریک کا عملی حصہ بنانا شامل تھا۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے حالیہ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کو دیکھ کر یہ اطمینان بخش اندازہ ہوتا ہے کہ دینی جدوجہد کے یہ اہداف اور دائرے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ تحریک شیخ الہند کے میرے جیسے نظریاتی اور شعوری کارکن کے اطمینان اور خوشی کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے اور اسی جذبہ و احساس کے ساتھ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے منتظمین کو اس بامقصد پیش رفت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کر رہا ہوں۔