علم و تحقیق کے سفر میں اختلاف رائے ایک ناگزیر امر ہے جو تحقیق و جستجو کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، مسائل و مباحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں، تحقیق طلب امور کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں، فکر و نظر کے نئے زاویے کھل جاتے ہیں۔ مگر اس اختلاف رائے میں ان سلف صالحین اور اکابرین امت کا درخشاں طرز واسلوب اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے جن کے منہج و طرز فکر سے وابستگی دینی طبقے میں ایک لازمی امر کے طور پر متعارف ہے۔ یہ بجا طور پر آج کے پرفتن دور میں ایک محتاط اور قابل تحسین حکمت عملی ہے۔ دینی طبقہ کے "اکابر سے وابستگی" کے اس رجحان کے پیش نظر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالحین اور اکابر علماء کے ’’اختلاف رائے اور رواداری‘‘ کے چند اصول و آداب اور ان کے منہج و اسلوب کے کچھ نمونے سامنے لائے جائیں تاکہ موجودہ دور میں باہمی علمی و سیاسی اختلافات کے موقع پر نقوش اکابر کے مطابق ہم اپنے طرز فکر و عمل میں تبدیلی لاسکیں۔
امامت و اقتدا کے معاملے میں رواداری
موجودہ دور میں دینی طبقے کے اختلاف رائے کا سب سے پہلا اثر "امامت" پر پڑتا ہے۔ معمولی نوعیت کے فقہی اختلافات میں بھی ایک دوسرے کی امامت میں نماز کی شرعی گنجائش ختم سمجھی جاتی ہے، حالانکہ اکابر امت نے عبادات میں بعض فروعی اختلافات کی بنیاد پر مسلکی تنوع کو کبھی بھی رکاوٹ نہیں سمجھا اور اس اختلاف مسلک کو امامت کے جواز و عدم جواز کا معیار نہیں بنایا۔
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ قاضی ابو عاصم عامری ایک حنفی عالم تھے۔ ایک مرتبہ وہ مشہور شافعی عالم علامہ قفال رحمہ اللہ کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے گئے۔ شافعی مسلک میں تکبیر کہتے وقت شہادتین یعنی ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ‘‘ اور ’’اشھد ان محمدا رسول اللہ‘‘ اور ’’حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح‘‘ صرف ایک ایک مرتبہ کہے جاتے ہیں اور حنفی مسلک میں دو دو مرتبہ۔ علامہ قفال شافعی نے قاضی ابو عاصم حنفی کو مسجد میں دیکھا تو ان کے احترام کی وجہ سے مؤذن کو حکم دیا کہ آج تم تکبیر کے یہ کلمات دو مرتبہ کہنا۔ اس کے بعد انہوں نے قاضی ابو عاصم حنفی سے نماز پڑھانے کو کہا تو قاضی صاحب نے نماز پڑھاتے وقت سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بلند آواز سے پڑھی اور نماز کے کئی دوسرے افعال بھی شافعی مسلک کے مطابق ادا کیے۔ (تراشے ص 90. مولانا مفتی محمد تقی عثمانی)
یہی حال اکابر دیوبند کا تھا، چنانچہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ کپڑے کے وہ باریک موزے جو ثخین نہ ہوں، لیکن ان کے تلے پر چمڑا چڑھا ہوا ہو،جنہیں فقہاء رقیق منعل کہتے ہیں، ان پر مسح کے جواز میں فقہائے حنفیہ کا کچھ اختلاف رہا ہے۔ اس مسئلہ میں مفتی اعظم مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا فتویٰ یہ تھا کہ ان پر مسح جائز نہیں، لیکن شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف تھا۔ اس مسئلہ پر دونوں کی زبانی گفتگو کئی بار ہوئی، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ایک دن حضرت مدنی نے حضرت مفتی اعظم سے کہا کہ اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے میں کچھ وقت فارغ کرکے دارالافتاء میں آؤں گا۔ چنانچہ ایک دن حضرت مدنی تشریف لائے اور کتابوں کی مراجعت کرکے گفتگو ہوتی رہی۔ حضرت مدنی نے اپنے دلائل بیان فرمائے اور مفتی اعظم نے اپنے دلائل پیش کئے، یہاں تک کہ یہ گفتگو تین دن تک چلی اور آخر میں حضرت مدنی نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ: ’’بات آپ کی بھی بے وزن نہیں ہے، لیکن میرا اس پر شرح صدر نہیں ہوتا اور آپ کو میرے دلائل پر اطمینان نہیں ہور ہا، اس لیے آپ اپنے موقف پر رہیں اور میں اپنے موقف پر۔‘‘
حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت مدنی رحمہ اللہ میرے بہنوئی مولانا نبیہ حسن صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔ میں بھی حاضر تھا۔ حضرت اس وقت ایسے ہی موزے (رقیق منعل) پہنے ہوئے تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو حضرت مدنی نے ان موزوں پر مسح فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’ مفتی صاحب! آپ کے نزدیک تو یہ مسح درست نہیں ہوا اس لیے میرے پیچھے آپ کی نماز بھی نہ ہوگی۔ اب آپ ہی امامت فرمائیں ۔‘‘ حضرت کے ارشاد پر میں نے بھی بلاتکلف خود امامت کی۔
حضرت مفتی صاحب یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ان حضرات نے اختلاف کرنے کا طریقہ بھی اپنے عمل سے سکھایا ہے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر 288/1 )
اختلاف کے باوجود باہمی محبت و عقیدت
علمی اختلافات کے علاوہ شدید ترین سیاسی اختلاف رائے کے مواقع پر بھی اکابر نے اپنی باہمی محبت و عقیدت میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی۔ ربط و تعلق کا والہانہ انداز حسب معمول برقرار رکھ کر ہمارے لئے قابل تقلید نمونے چھوڑ گئے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ حضرت مدنی کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے سیاسی مسلک سے اختلاف تھا، لیکن ان کے قلب میں نہ صرف حضرت تھانوی کی قدر و منزلت کم نہ تھی بلکہ وہ حضرت تھانوی کے ساتھ اپنے بڑوں جیسا معاملہ ہی فرماتے تھے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ عین اس زمانے میں جب کہ حضرت تھانوی اور حضرت مدنی کا سیاسی اختلاف الم نشرح ہوچکا تھا، ایک مرتبہ حضرت مدنی نے دیوبند کے بعض اساتذہ سے کہا کہ ’’ عرصہ ہوا ہمارا تھانہ بھون جانا نہیں ہوا اور حضرت تھانوی کی زیارت کو دل چاہتا ہے"‘‘ چنانچہ حضرت مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے بعض دوسرے اساتذہ تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوئے۔ اتفاق سے گاڑی رات گئے تھانہ بھون پہنچی اور یہ حضرات ایسے وقت خانقاہ کے دروازے پر پہنچے کہ خانقاہ بند ہوچکی تھی۔ ان حضرات کو یہ معلوم تھا کہ خانقاہ کا نظام الاوقات مقرر ہے، اس لیے نہ اس نظام کی خلاف ورزی مناسب سمجھی اور نہ حضرت تھانوی کو رات گئے تکلیف دینا پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مدنی کو بڑا جفاکش اور مجاہدانہ زندگی کا عادی بنایا تھا، چنانچہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت خانقاہ کے دروازے کے سامنے چبوترے ہی پر لیٹ کر سوگئے۔
حضرت تھانوی فجر کی اذان کے وقت جب اپنے مکان سے خانقاہ کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ کچھ لوگ باہر چبوترے پر لیٹے ہیں۔ اندھیرے میں صورتیں نظر نہ آئیں۔ چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو حضرت مدنی اور حضرت مولانا اعزاز علی صاحب جیسے حضرات تھے۔ حضرت تھانوی نے اچانک انہیں دیکھا تو مسرور بھی ہوئے اور اس بات کا صدمہ بھی ہوا کہ یہاں پہنچ کر اس حالت میں انہوں نے رات گزاری۔ چنانچہ ان سے کہ : ’’حضرت ! آپ یہاں کیوں سو گئے؟ ‘‘ ۔ حضرت مدنی نے فرمایا کہ: ’’ ہمیں معلوم تھا کہ آپ کے یہاں ہر چیز کا نظم مقرر ہے، خانقاہ اپنے مخصوص وقت پر بند ہوجاتی ہے اور پھر نہیں کھلتی۔‘‘ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ: ’’خانقاہ کا تو نظم بلاشبہ یہی ہے، لیکن غریب خانہ تو حاضر تھا اور اس پر تو آپ جیسے حضرات کے لیے کوئی پابندی نہ تھی۔‘‘ حضرت مدنی نے فرمایا کہ: ’’ ہم نے رات گئے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔‘‘
غرض اس طرح یہ حضرات تھانہ بھون گئے اور ایک دو روز رہ کر واپس تشریف لے آئے۔ (ایضا 287/1)
اکابر کی وسعت ظرفی
تاریخ اسلام کے ہر دور میں یہ قابل فخر روایت موجود رہی ہے کہ اکابر نے اپنے اصاغر کے اختلاف رائے کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا ہے۔ اگر ضرورت محسوس کی تو قوی دلائل اور شستہ و متین اسلوب میں علمی مکالمہ سے کام لیا، مگر اصاغر کو دیوار سے لگانا یا انہیں دینی حلقوں میں مطعون ٹھہرانا ان کی سیرت میں بالکل ناپید طرز عمل تھا۔ ماضی قریب میں بھی یہ شاندار علمی روایت بڑی آب و تاب کے ساتھ موجود تھی۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (وفات 16,17 رجب 1362ھ/19,20 جولائی 1943ء کی درمیانی رات) فرماتے ہیں کہ مولوی محمد رشید مرحوم جنہوں نے مجھ سے پڑھا تھا، بڑے حق گو لیکن اس کے ساتھ بڑے باادب تھے۔ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں ریزگاری کی ضرورت پڑی۔ ایک صاحب کے پاس موجود تھی، ان کو روپیہ دے کر میں نے ریزگاری لے لی۔ مولوی بھی اس وقت موجود تھے، وہ آگے بڑھے اور مجھ سے پوچھا کہ یہ معاملہ کیا بیع میں تو داخل نہیں۔ مجھے فوراً تنبہ ہوا، میں نے کہا کہ خیال نہیں رہا، یہ معاملہ واقعی بیع میں داخل ہے جو مسجد میں جائز نہیں۔ پھر میں نے ان صاحب کو جن سے معاملہ ہوا تھا، ریزگاری واپس کرکے کہا کہ میں اب اس معاملہ کو فسخ کرتا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ مسجد سے باہر چلو، وہاں پھر اس معاملہ کو ازسرنو کریں گے۔ چنانچہ مسجد سے باہر آکر اور روپیہ دے کر میں نے ان سے ریزگاری لے لی۔ مولوی رشید مرحوم کی اس بات سے میرا جی بڑا خوش ہوا، کیونکہ ظاہر کرنا تو ضروری ہی تھا، لیکن انہوں نے نہایت ادب سے ظاہر کیا۔ یہ پوچھا کہ کیا یہ بیع میں تو داخل نہیں؟ (آپ بیتی 272/2. شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ)
ایک بار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت حاجی صاحب کے پاس مولود کا بلاوا آیا۔ حضرت نے مولانا سے پوچھا: مولوی صاحب چلو گے؟ مولانا نے فرمایا کہ: ’’نا، حضرت میں نہیں جاتا، کیونکہ میں ہندوستان میں لوگوں کو منع کیا کرتا ہوں۔ اگر میں یہاں شریک ہوگیا تو وہاں کے لوگ کہیں گے، وہاں بھلے شریک ہوگئے تھے۔‘‘ حاجی صاحب نے بجائے برا ماننے کے مولانا کے اس انکار کی بہت تحسین فرمائی اور فرمایا کہ ’’میں تمہارے جانے سے اتنا خوش نہ ہوتا جتنا تمہارے نہ جانے سے خوش ہوں۔‘‘ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اب دیکھئے، پیر سے زیادہ کون محبوب و معظم ہوگا، مگر دین کی حفاظت ان کے اتباع سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے دونوں کے ظاہری تعارض کے وقت اسی کو ترجیح دی۔ واقعی حفاظت دین بڑی نازک خدمت ہے۔ سارے پہلوؤں پر نظر رکھنی پڑتی ہے کہ نہ چھوٹوں کو نقصان پہنچے نہ بڑوں کے ساتھ جو عقیدت ہونی چاہیے، اس میں فرق آئے۔ (ایضا 265/2.)
ذہنی اذیت رسانی سے اجتناب
بسا اوقات اختلاف رائے کے نتیجے میں فریقین بے احتیاطی سے اپنے قول و فعل کے ذریعے ایک دوسرے کی ذہنی کوفت کا سبب بنتے ہیں جسے بدقسمتی سے بعض حلقوں کی طرف سے دینی مصلحت کا تقاضا بھی قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اکابرین امت نے اپنے اختلافات کے عروج میں بھی فریق مخالف کو نیچا دکھانے کے ہر اس عمل سے نہایت سختی سے اجتناب کیا جو اس کے لیے ذہنی اذیت کا ذریعہ بنتا تھا۔
تحریک خلافت کے معاملے میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور آپ کے مایہ ناز شاگرد حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے درمیان رائے کا جو اختلاف تھا، وہ معروف و مشہور ہے,حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس قسم کی تحریکات کو چونکہ مسلمانوں کے لیے مفید نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس سے علیحدہ رہے، لیکن استاد اور شاگرد دونوں کو اپنے اپنے موقف پر پوری طرح ثابت قدم ہونے کے باوجود اس بات کا پورا یقین تھا کہ یہ رائے کا دیانت دارانہ اختلاف ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ تحریک کے بعض کارکنوں نے تھانہ بھون میں جلسہ کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت شیخ الہند کے سامنے یہ تجویز ذکر کی گئی تو حضرت نے سختی سے انکار کیا اور فرمایا کہ: ’’ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اگر میں تھانہ بھون میں جلسہ کروں گا تو مولوی اشرف علی کے لیے بڑی تکلیف کا سامان ہوگا۔ ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ میں تھانہ بھون میں کوئی خطاب کروں اور وہ اس میں موجود نہ ہوں۔ اگر شرکت کریں گے تو یہ ان کے دیانت دارانہ موقف کے خلاف ہوگا، اس لیے یہ کام نہیں کروں گا۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت تحریک کے سلسلہ میں ہندوستان کے مختلف خطوں میں تشریف لے گئے، لیکن تھانہ بھون میں جلسہ نہیں کیا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر 231/1)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اکابر کے نقش قدم کے مطابق اخلاص و دیانت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین.