مکاتیب

ادارہ

(۱) 

ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے راقم نے دسمبر 2015ء کے ’’الشریعہ‘‘ میں دلائل سے ثابت کیا کہ توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کے ہوتے ہوئے، کسی شخص کا توہینِ رسالت کے کسی ملزم کوماورائے عدالت قتل کرنا ،شرعی نقطہ نظرسے غلط ہے؛ لہٰذازیر بحث کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے جواز نہیں۔ اس پر بعض کرم فرماؤں کی جانب سے کچھ اختلافات واعتراضات سامنے آئے ہیں۔ 

کچھ حضرات نے فرمایا ہے کہ آپ جیسے لوگ اس طرح کے دلائل سے یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کی پیروی ہی کیو ں نہیں کر لیتے تاکہ وہ خوش ہو جائیں!؛ لیکن قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ خوش نہیں ہوں گے۔

سچ یہ ہے کہ ہم خود کو ، اس معاملے پر کوئی دلیل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے، اس لیے کہ کس کی کس کو خوش کرنے کی نیت ہے؟ اس کی دریافت اتنا مشکل کام ہے کہ ہمارے کرم فرما ہی اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں! ہم لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کے مسائل اور بیماریوں کی تشخیص کا(اگر کچھ جان بھی سکیں تو ) اتنا فن نہیں جانتے کہ آدمی کو دیکھے، ملے اور جانے بغیر اس کے باطن پر حکم لگا سکیں۔ہاں ! اپنی صفائی کی بات ہو سکتی ہے، لیکن وہ بھی معترضین ایسے مسکت دلائل سے رد کر سکتے ہیں جن کا ہمارے پاس، ہمیں اقرار ہے، کہ کوئی جواب نہیں ہو گا۔ مثلاً وہ کہہ سکتے ہیں: تم اوپر اوپر سے صفائیاں پیش کر رہے ہو، اندر تمھارے وہی کچھ ہے جو ہم عرض کر رہے ہیں۔ سو دوسری اور پہلی بات ہی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہماری بساط میں ہے۔

جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ توہینِ رسالت کا مر تکب، فقہا کے نزدیک مباح الدم ہے جس کے قتل کرنے والے کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ تادیباً کوئی تعزیر ی سزا دی جائے گی؛ لہٰذا ممتاز قادری کو سزاے موت دینا غلط ہے، کوئی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے تو اس کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مقدمے، ثبوت اور عدالتی کاروائی سے متعلق ایک بے مثل عجوبہ ہے۔ یعنی کسی کے جرم کے حق میں دلائل اس کا کام تمام کرنے کے بعد فراہم کیے جا سکتے ہیں ! بعد میں اگر پتہ چلے کہ ملزم مجرم تھا، اور اس کی بنا پر کسی شخص نے اسے قتل کر دیا تھا تو اب قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی! ثبوتِ جرم کا یہ طریقہ عدالتوں کو بہ طورِ رہنما اصول اپنانا چاہیے اور قاتل کو اس وقت تک مہلت دینی چاہیے جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ قاتل، مقتول کو قتل کرنے میں حق بہ جانب تھا؛ اور قاتل کو مقتول کے قتل پر سزا دینے اور سزا کے حق میں دلائل تلاش کرنے کی بجائے ان شواہد پر نظر رکھنی چاہیے جو مقتول کے خلاف مرورِ زمانہ سے مہیا ہوئے ہیں۔ کیا قانون ، عدالت اور مقتول کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ممکن ہے! ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں : بھلا یہ دلیل بھی کوئی دے سکتا ہے!، لیکن یہ دلیل دی گئی ہے ؛ اور ایک مشہور صاحب ’’ ماہنامہ‘‘ کی جانب سے دی گئی ہے۔

اس دلیل کی لغویت کو ایک طرف رکھیں اور صرف اس زمینی حقیقت ہی کو دیکھ لیں کہ زیر نظر کیس میں جب قاتل نے مقتول کو قتل کیا، اس وقت قاتل کے حق میں فضا زیادہ تھی ، یا بعد میں زیادہ ہوئی! ہمارا دعویٰ ہے کہ بعد میں فضا قاتل کے مخالف ہوتی گئی اور ان لوگوں کی طرف سے بھی اس کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا جو واقعے کے ابتدائی دنوں میں اس کے حق میں دلائل دیتے اور نعرے لگاتے تھے۔ راقم ایسے بیسیوں صاحبانِ علم کو جانتا ہے جو ابتدا میں یہ کہتے تھے کہ سلیمان تاثیر کا قتل درست تھا؛ لیکن بعد میں اس کے قائل ہو گئے کہ یہ قتل غلط تھا۔ اس کے بر عکس میں ایک بھی بندے کو نہیں جانتا جو پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو غلط سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس کا جواز پیش کرنے لگا۔ گویا بعد کے حالات نے تو یہ ثابت کیا کہ مقتول کو ایک فرضی اور غیر ثابت شدہ الزام پر، بہت سے دیگر محرکات اور اس کے خلاف ایک خاص فضا پیدا ہوجانے کے نتیجے میں، رد عمل کی نفسیات کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا، نہ کہ ایک صحیح الزام پر قتل کیا گیا!؛ تو اگر بعد کے ثبوتوں پر ہی جانا ہے، تو بھی مذکورہ کیس میں کورٹ کا فیصلہ درست قرار پاتا ہے، نہ کہ اس کے بر عکس۔ 

خود عدالت نے بھی اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ کہا ہے کہ ملزمِ توہین رسالت کو ایک فرضی توہین کے پیش نظر قتل کیا گیا، اس بات کا کوئی تشفی بخش ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مقتول نے واقعی توہین رسالت کی تھی۔ عدالت چاہتی تو صرف اس بنیاد پر بھی سزا سناسکتی تھی کہ قاتل نے قانون ہاتھ میں لیا، لیکن اس نے اس بات کو بہ طورِ خاص پیش نظر رکھا کہ قاتل نے بلا ثبوت اور بے جواز اقدام کیا؛ مقتول کے معاملے میں توہین کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔

اب آئیے مباح الدم کے مسئلے کی طرف۔ مرتد یا گستاخِ رسول کے مرتد اور اس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جانے میں علما کے اختلاف سے قطع نظر، سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ، کسی شرعی امر کے تحت کسی کے مباح الدم ہو جانے کا، بہ طورِ خاص ایک نظمِ ریاست میں ، اور وہ بھی وہاں ، جہاں ایسے مسئلے پر باقاعدہ قانون موجود ہو،یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص قتل کر سکتا ہے اور ایسے قاتل کو عدالت سزاے موت نہیں دے سکتی؟ فقہا کے مطابق تو کسی بھی قانونی وجہ کے تحت مباح الدم قرار پانے والے کسی شخص کو سزائے موت دینے کا اختیار، انفرادی طور پر کسی فرد کے پاس نہیں ہے؛ بلکہ یہ امراسلامی حکومت یا نظم ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔اصولی طور پر ان وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کے تحت مباح الدم ہونے والے کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنا اسی طرح قتلِ نا حق ہے جیسے کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنا۔

اس ضمن میں عہد رسالت کے جس واقعے سے عام طور پر استدلال کیا جا سکتا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی نے بار بار سمجھانے پر نہ سمجھنے والی اپنی ایک باندی کو توہین رسالت پر قتل کیا۔ معاملہ رسول اللہ کی عدالت میں لایا گیا۔ ملزم ڈر تا کانپتا پیش ہوا ( جس سے مترشح ہے کہ اسے حضور کی جانب سے سزا نافذ کیے جانے کا اندیشہ تھا)۔ آپ نے صورتِ حال کے تجزیے سے فیصلہ فرمایا کہ متعلقہ کیس میں باندی کا خون بے بدلہ ہے۔ 

اس واقعے سے یہ کس منطق کے تحت ثابت ہوا کہ قیامت تک جس بھی شخص کے بارے میں بعض لوگ یہ کہیں ، یا کوئی بھی شخص خود سے یہ سمجھے کہ اس نے توہین کی ہے، اور اس کو بلا کسی زجر وتوبیخ اور سمجھانے بجھانے اور یہ تحقیق کرنے کے کہ اس سے متعلق سنی سنائی بات کی کیا حقیقت ہے، توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دے، تو وہ مذکور واقعے کے ذیل میں آتا ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے ہر ایسے مقتول کے خون کو بے بدلہ قرار دینا چاہیے؟ کیا شریعت اور اس کے فلسفہ جرم و سزا اور نفاذِ و حدود و تعزیرات پر اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے؟ اگر ایک یا چند مثالیں قیامت تک کے ہر رنگ کے واقعات پر سزا کے معاملے کو دو اور چار کی طرح طے کر دیتی ہیں تو یہ ثبوت، گواہیاں ، عدالتیں ، قاضی کس مرض کی دوا ہیں؟ 

یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقدامات استثنائی ہیں اور استثنا سے قانون ثابت نہیں ہوتا۔ حضور اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف اعمال کے حوالے سے بہت سی استثنائی مثالیں ملتی ہیں جو محدود تناظر کی حامل ہیں؛ ساری امت اور اس کے تمام افراد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی آفاقی ہیں کہ انہیں قیامت تک ہر شخص کے معاملے تک ممتد قرار دیا جائے۔ ہماری عام مذہبی ذہنیت کا عجیب المیہ ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کو لے کر اس پر ساری شریعت کا مدار رکھ لیتی ہے، لیکن اس کے برعکس شریعت کے عام اور معلوم ومعروف اصول و قانون کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ شریعت کا یہ اصول مسلمہ ہے کہ ملزم کو صفائی اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع ملنا چاہیے اور عدالت کو معاملے کی تحقیق کے بعد ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر اسے سزا دینی چاہیے۔یہ وہ اصول ہے جو قرآن و حدیث سے بھی واضح ہے اور عہدِنبوی و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ملزموں سے متعلق فیصلوں اور عدالت و قضا کی مسلسل اور ان گنت کاروائیوں سے بھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض صحابہ کے انفرادی فیصلے تو ابدی قانون ہیں، لیکن قرآن و حدیث کے بیسیوں فرامین اور نبی اکرم اور خلفائے راشدین کے مسلسل اور ان گنت عملی فیصلے کوئی شرعی ضابطہ ہی نہیں!

فرض کریں، اس واقعے سے کوئی اصول اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہ ہوگا کہ اگر مقتول کا جرم خود عدالت کی نظر میں بھی ثابت ہو جائے تو وہ قاتل کو سزائے موت سے بری کر سکتی ہے۔ زیر بحث کیس میں، قاتل کو ازروئے شرع قصاص میں قتل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ مقتول نے توہین کی بھی تھی یا نہیں؟ جب توہین پر ناقابل تردید ثبوت ہی پیش نہ ہو سکا ہو تو نہ مقتول کا مباح الدم ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی قاتل سے قصاص نہ لینے کے مطالبے کی کوئی حقیقت رہتی ہے۔

یہ بھی غنیمت ہے کہ بعض معترضین ممتاز قادری کے لیے تعزیری سزا کی گنجائش کا ذکر کر رہے ہیں، ورنہ اصل کرم فرماؤں کا موقف تو یہ ہے کہ قاتل نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، اس نے تو اعلیٰ ترین نیکی انجام دی ہے۔ وہ سرے سے کسی سزا کا مستحق ہی نہیں، وہ تو انعام و اکرام کا مستحق ہے۔ 

ڈاکٹر محمد شہباز منج

شعبہ اسلامیات، یونی ورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا

(۲)

ان دنوں ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر سید احمد شہید کی تحریک جہاد، افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اور موجودہ دور کے طالبان کے فکری وعملی اشتراکات وامتیازات کے حوالے سے مختلف اہل قلم اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے ہم بھی چند حقائق کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔

سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا فکری اور سیاسی پس منظر کیا تھا؟ اس کے پیچھے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے بیٹوں کا مضبوط فکری اور سیاسی تسلسل تھا اور وقت کے دو بڑے علماء مولانا عبد الحئی فرنگی محل لکھنویؒ او رشاہ اسماعیل شہیدؒ ، سید احمد شہیدؒ کے نائبین میں سے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی اس دور میں پھیلی ہوئی شرک و بدعت اور فسق و فجور کے خلاف بھی نبرد آزما تھے۔ لوگوں میں تبلیغ کے ذریعے اصلاح رسوم و رواج بھی کرتے رہے اور اسلامی قوانین کو ان جگہوں پر نافذ کرنے کی کوششیں بھی کیں جہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لوگوں کی گردنیں کاٹیں، بلکہ انہوں نے بار بار لوگوں کو معاف کیا جنہوں نے آگے چل کر انہیں سخت نقصان پہنچایا اور تحریک کی ناکامی کا باعث بنے۔ 

جہاں تک یمن کے شافعی اور نجد کے حنبلی علماء کے شاگردوں کا اور ان کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بات ہے تو یہ انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی باتیں تھیں۔ ڈاکٹر صادق حسین اپنی مشہور تحقیقی کتاب میں، جو تقریباً ۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں سید احمد شہیدؒ کے خطوط بھی شامل ہیں، لکھتے ہیں:

’’سید احمد شہیدؒ سے پہلے کئی ایک درد دل رکھنے والے اصحاب نے حالات کو سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ ان کی کوششوں کا رخ دانشوروں اور حاکموں کی طرف ہوتا تھا اور ان سے حمایت کے طلب گار ہوتے تھے یا فوج کو اپنا طرف دار بنا کر مقصد کے حصول کی سعی کرتے تھے۔ لیکن سید احمد شہیدؒ نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی تھی جس کا روئے سخن عوام کی طرف تھا اور وہ ایک ایسی سیاسی اور مذہبی تنظیم کو بروئے کار لائے تھے جو سربر آوردہ لوگوں سے بے نیاز تھی۔ چنانچہ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں سید شہید ہی نے سب سے پہلے ہر دل عزیز سیاسی رہنما کا اعزاز حاصل کیا تھا۔‘‘ ( سید احمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین۔ صفحہ ۱۹)

یہ افواہ بھی انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی تھی کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد وہابیوں کی تحریک سید عبد الوہاب نجدیؒ کی تحریک کے زیر اثر ہے۔ ڈبلیو ہنٹر اپنی کتاب انڈین مسلمانز کے صفحہ ۵۲، ۵۳ پر لکھتا ہے:

’’اس مخالف جماعت نے اپنی تائید میں یہ من گھڑت افسانہ بھی نشر کیا کہ 1823ء اور 1822ء میں جب سید احمدؒ کا قافلہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں مقیم تھا تو اپنے عقائد کی بنا پر جو وہابیوں سے ملتے جلتے تھے حکومت حجاز نے ان سے بڑی سختی سے باز پرس کی تھی اور پھر اسی بنا پر انہیں مکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس سے وہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں جب ہندوستان واپس آئے تو وہ اب بری رسومات کی اصلاح کرنے والے نہ تھے بلکہ محمد بن عبد الوہابؒ کے پکے مریدوں میں سے تھے اور اس وہم میں گرفتار ہوگئے تھے کہ وہ ہندوستان کے ہر قلعے میں ہلالی جھنڈا گاڑ دیں گے اور صلیب کو انگریزوں کی لاشوں کے ساتھ دفن کر دیں گے۔‘‘

سید احمد شہیدؒ کا نجد کے موحدین کی تحریک سے کچھ تعلق نہ تھا۔ مسلمانوں کے اندر جب کوئی اصلاحی تحریک اٹھے گی، اس کا لازمی سر چشمہ کتاب و سنت ہی ہوگا۔ اس لیے ایسی ہر تحریک میں مماثلت کا پایا جانا ضروری ہے۔ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کی کتاب ’’التوحید‘‘ میں ان کے عزائم کی جھلک سامنے آجاتی ہے۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک ’’توحید و اصلاح‘‘ تھی، لیکن سید احمد شہیدؒ کی تحریک تجدید جہاد تھی۔ کتاب توحید کے مطالعہ سے ان دونوں کے مسلک، اہم بنیادی مسئلوں میں بھی اختلاف رائے کی جھلک نظر آتی ہے، طریق کار تو دونوں کا مختلف تھا۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی دعوت میں توحید اور ترکِ بدعات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، اور اس کتاب میں جہاد پر کوئی علیحدہ باب سرے سے موجود نہیں۔ لیکن اس کے برعکس سید احمد شہیدؒ کی کوئی تحریر، مکتوب یا وعظ جہاد کے ذکر سے خالی نہیں۔ اگرچہ سید احمد شہیدؒ کی دعوت میں بھی توحید خالص کی تبلیغ، قبر پرستی کا استیصال اور نکاح بیوگان کی ترویج وغیرہ دعوت کے اہم اجزاء تھے۔ اب تک پاک و ہند میں جو کچھ اصلاح و تجدید ہو سکی، وہ اس جماعت کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ 

ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۷، ۱۸ میں نواب صدیق حسن خان قنوجی لکھتے ہیں:

’’علاوہ ازیں یہ بیان کہ مجاہدین نے ’’جہاد‘‘ کا خیال وہابی تحریک سے حاصل کیا تھا، تاریخی اعتبار سے بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔‘‘

مجاہدین کا جہاد اور وہابیوں کا قتال دو مختلف صورتیں تھیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں تحریکیں بڑی فعال تحریکیں تھیں۔ وہابیوں کی تحریک ’’مرتد مسلمانوں‘‘ کے خلاف قتال تھا اور مجاہدین کی جنگ ’’کفار‘‘ کے خلاف جہاد تھا۔ وہابیوں کا عندیہ، یہ تھا کہ گمراہ مسلمانوں کو اسلام کا ہیرو بن جانے پر مجبور کیا جائے اور ان کو بدعات اور غیر اسلامی رسوم و شعار سے، جن کو وہ اختیار کرتے چلے جا رہے تھے، زبردستی روکا جائے، لیکن مجاہدین کا مقصد اس سے بالکل جدا تھا۔ انہوں نے جہاد کو ایک علیحدہ اسلامی شعار کے طور پر تسلیم کیا تھا اور انہوں نے جس قدر ادب تخلیق کیا، اس میں زیادہ تر جہاد کی فضیلت ہی بیان کی جاتی تھی۔ اس کی بنیاد انہوں نے اس امر اور حالت پر رکھی تھی کہ ہندوستان ’’دار الحرب‘‘ ہے نہ کہ ’’دار الاسلام‘‘۔

اس بحث میں حصہ لینے والے فرنگیوں بالخصوص ہنٹر اور رہتک وغیرہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک ابتدا ہی سے انگریزوں کے خلاف تھی۔ ان کو ۱۸۵۰ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مجاہدین کے خلاف ایسی تباہ کن مہموں سے واسطہ پڑا جن میں مالی اور جانی نقصان کے علاوہ انگریزوں کی قوت، عزت اور آبرو خاک میں مل گئی تھی۔ یہ وہ طاقت تھی جس سے رنجیت سنگھ خائف تھا اورا س طاقت نے سکھوں کو ختم کر دیا تھا۔ یہ وہ قوت تھی جس کا مقابلہ والیان کابل بھی نہ کر سکے، لیکن مجاہدین نے نہ صرف ان کا مقابلہ کیا بلکہ ان کے دانت بھی کھٹے کیے۔ وہ فوجی کارروائیوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاریخ ان کی عزیمت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ 


بعض حلقے روس کو شکست دینے والے مجاہدین کو ہی موجودہ دور کے طالبان سمجھ رہے ہیں اور ان کو منظم گروہ کی شکل میں برسراقتدار لانے کا الزام جنرل ضیاء الحقؒ پر عائد کر رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط نظریہ ہے اور اس میں تاریخی حقائق وواقعات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 

بھٹو دور کے اخبارات نکال لیں، جب ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد سردار داؤد برسر اقتدار ہوئے تو بھٹو افغانستان گئے اور ان سے تعلقات بہتر ہوئے۔ سردار داؤد روس کے چنگل سے نکلنا چاہتے تھے اور بھٹو سے مدد کے طالب تھے۔ انہی دنوں گلبدین حکمت یار اور دوسرے کچھ جہادی لیڈر پاکستان آئے۔ ان دنوں میجر جنرل نصیر اللہ بابر مرحوم انسپکٹر جنرل فرنٹیئر فورس تھے۔ درہ خیبر کے قریب کوئی جگہ تھی جہاں کچھ مجاہدین کو روس کے خلاف جنگ میں تربیت بھی دی گئی تھی۔ جنرل حمید گلؒ ٹی وی کے ایک دو پروگراموں میں تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت ان کے ساتھ شریک قمر الزمان کائرہ بھی تھے۔ وہ سر عام کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی، ضیاء الحق بہت بعد میں شریک ہوئے۔ 

روس نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو اسے (روس کو) نکالنے کے لیے عالم اسلام کی تمام قوتیں متحد تھیں۔ سعودی عرب، ایران، مصر، پاکستان، شیعہ، سنی، حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، شامی، عراقی، تمام قوتوں کا مطالبہ تھا کہ روس افغانستان سے نکل جائے اور یہ تمام علمائے کرام کا فتویٰ تھا۔ عالم اسلام کی جدوجہد جب کامیاب ہوتی نظر آئی تب امریکہ نے امداد دینی شروع کی۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ افغان جہاد کی حامی کوئی جماعت، کوئی مفتی اور ملا شرمندہ نہیں ہے بلکہ اسے اس پر فخر ہے۔ 

آج جن طالبان کو ان جہادی لیڈروں کا تسلسل بتایا جا رہا ہے، یہ دراصل ان کے وہ حریف اور دشمن ہیں جو ان کی نااتفاقی کے سبب افغانستان اور پاکستان میں چھا گئے اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین سات پارٹیوں پر منظم گروہ تھے جن کے سربراہ صبغت اللہ مجددی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مولوی یونس خالصؒ مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ خٹک والوں کے شاگرد تھے۔ عبد الرب سیاف حنبلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعودؒ یہ دونوں انجینئر تھے۔ استاد ربانیؒ کابل یونیورسٹی میں استاد تھے اور ان آخری تینوں کا تعلق مولانا مودودیؒ سے تھا اور اس کا وہ اقرار بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے اور دین اسلام کو بہتر طریقے سے جانتے تھے۔ صبغت اللہ مجددی، استاد ربانیؒ ، انجینئر احمد شاہ مسعودؒ ، اور انجینئر گلبدین حکمت یار دین کا علم رکھنے والے لوگ تھے۔ قرآن مجید اور بائبل کے متعلق گلبدین حکمت یار کی تقریباً ایک ہزار صفحے پر مشتمل کتاب نہایت اعلیٰ تحقیق پر مشتمل ہے اور انہوں نے قرآن مجید کی نہایت اچھی تفسیر بھی لکھی ہے جس کا ترجمہ ادارہ معارف اسلامی نے شائع کیا ہے۔ 

بہرحال صبغت اللہ مجددی افغانستان کے صدر بنائے گئے۔ پھر چھ ماہ بعد استاد ربانیؒ افغانستان کے صدر بن گئے۔ زیادہ تر اختیارات احمد شاہ مسعودؒ کے پاس تھے۔ حکمت یار سے شدید جنگیں ہوئیں۔ آخر کار صلح ہوگئی اور یہ طے ہوا کہ ربانیؒ افغان صدر ہوں گے، گلبدین حکمت یار وزیر اعظم ہوں گے اور احمد شاہ مسعودؒ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم ہوں گے، اور اختیارات بھی تینوں کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ یہ انتظام عارضی تھا۔ اسی دوران جنرل نصیر اللہ بابر نے بے نظیر دور حکومت میں جہادی گروپوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں منظم کیا اور ان کی ہر طرح سے امداد کی۔ یہ لوگ ابھی تک صرف طالب علم تھے، مکمل عالم دین نہیں تھے اور واجبی سا علم رکھتے تھے، لیکن جہادی لیڈروں کی نا اتفاقی کی وجہ سے طالبان افغانستان کے وسیع علاقے پر قابض ہوگئے۔ مولانا سمیع الحق یا مولانا فضل الرحمن نے صرف مشورے کی حد تک ان کی مدد کی۔ بعد میں مولانا فضل الرحمن ان سے الگ تھلگ رہے اور سمیع الحق صرف بیانات کی حد تک ان کے ساتھ رہے۔ انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کبھی مفتی ڈاکٹر شامزئیؒ کو، کبھی مفتی رفیع عثمانیؒ کو، کبھی سمیع الحق صاحب کو بھیجا جاتا، مگر یہ کسی کی مانتے کم ہی تھے۔ ان میں بہت سے غیر ملکی ایجنٹ بھی شامل ہوگئے جن کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا۔ عوام میں ان کی حمایت کم ہوتی چلی گئی۔ 

جماعت اسلامی شروع شروع میں طالبان کے خلاف بیانات دیتی رہی جس کا جواب جمعیۃ العلماء اسلام (فضل الرحمن گروپ اور سمیع الحق گروپ) کی طرف سے آتا رہا۔ پھر اخبارات میں جنرل نصیر اللہ بابرؒ کا بیان موجود ہے کہ افغانستان پر پہلے جماعت اسلامی کے حامیوں کا کنٹرول تھا۔ اب جبکہ طالبان کی صورت میں جمعیۃ علماء اسلام کا کنٹرول ہے تو جماعت اسلامی کو سخت کوفت ہو رہی ہے۔ حکیم اللہ محسود کا ایک سخت بیان قاضی حسین احمدؒ کے خلاف موجود ہے۔ قاضی صاحب کے جلوس پر ایک خودکش حملہ بھی ہوا اور کچھ لوگ شہید بھی ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن جو کہ طالبان کے حامیوں میں تھے بلکہ بانیوں میں سے تھے، جب طالبان سے اپنی باتیں نہ منوا سکے تو ایک فاصلے پر ہوگئے۔ تب جماعت اسلامی کے ذہین و فطین لیڈروں، خاص طور پر منور حسن اور سراج الحق نے یہ بوجھ اپنے سر لے لیا اور طالبان کے ترجمان بن گئے۔ سیکولر اور لبرل حلقوں نے اس پر جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا اور جماعت اسلامی کا گراف مزید گر گیا۔

ایک وقت وہ تھا کہ پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی کا بوجھ سنبھالا ہوا تھا۔ یہ عوام کے لاڈلے تھے، جہادی لیڈر پاکستان میں بھی مقبولیت کی معراج پر تھے۔ نسیم حجازیؒ جیسے عظیم ناول نگار گلبدین حکمت یار کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ مجھے میرے ناولوں کے مجاہد مل گئے ہیں۔ یہ میرے وہ ہی ہیرو ہیں۔ اب ان کی جگہ لینے والے جو طالبان آئے ہیں، عوام ان سے ان کی کاروائیوں کی وجہ سے شدید برہم ہیں۔ 

خواجہ امتیاز احمد

سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ

(۳) 

محترمی ومکرمی مدیر ماہنامہ الشریعہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

جنوری کے الشریعہ میں حافظ طاہر اسلام عسکری کا مکتوب نظر سے گزرا جس میں انھوں نے داعش اور سلفیت کے باہمی تعلق کے حوالے سے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کی تحریر پر تنقید فرمائی ہے۔ راقم نے مولانا ندوی کا مضمون نہیں دیکھا، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کا فکری اور مذہبی بیانیہ صرف اور صرف ’’سلفیت‘‘ سے کیوں ملتا ہے؟ آج کل داعش کھل کر علماء دیوبند کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ داعش کے خراسان ونگ نے ’’رسالۃ الی دیوبند‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا اور اپنے رسالہ DABIQ  میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے اور علماء دیوبند کو گمراہ، کافر اور بے دین قرار دیا ہے۔ علماء دیوبند کی تصوف وسلوک سے وابستگی سمیت دیگر اہم مسائل میں موقف، خصوصاً المہند علی المفند مولفہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔ وہی پرانے گھسے پٹے مسلکی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر علماء دیوبند کی تکفیر کی گئی ہے۔ تمام حوالے اور دلائل پڑھ لیجیے، بات ’’سلفیت‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ 

فقہ الجہاد وغیرہ کے نام سے سب سے زیادہ کام علامہ عبد اللہ عزام مرحوم کا ہے مگر مولانا عزام، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش، سب کا بیانیہ ایک ہے جو سلفیت کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔ القاعدہ نے صرف اور صرف سیاسی اختلافات کی بنا پر خود کو داعش سے الگ رکھا ہوا ہے۔ 

عسکری صاحب نے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کا تعلق دیوبندی فکر سے ہونے کی بات کی جو درست نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدین تو داعش میں شامل ہو گئے ہیں کیونکہ دونوں کی فکری اساس ایک ہی تھی، جبکہ لشکر جھنگوی، جو سپاہ صحابہ سے الگ ہو کر صرف اور صرف شیعہ کے خلاف میدان میں اتری، اس کے پاس کوئی ٹھوس علمی یا فکری بیانیہ نہیں، بلکہ نفرت کے جذبات ہی اس کا اصل سہارا ہیں۔ 

بہرحال داعش اب ہمارے خطے میں بھی باقاعدہ مسلح طور پر میدان میں آ چکی ہے۔ ایسے حالات میں علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کھل کر سامنے آئیں اور داعش کے موقف اور استدلال کے حوالے سے اپنا موقف بیان کریں۔ یقیناًاسلامی خلافت اپنی اصلیت میں ایک بہت اچھی چیز ہے، مگر جس خلافت کا تصور داعش پیش کر رہی ہے، وہ امت مسلمہ کے لیے ایک انتہائی تاریک اور بھیانک تصور ہے۔

ابو حسان مدنی

(۴)

جناب مجاہد کامران، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور

بعد از سلام مسنون عرض یہ ہے کہ میں جناب کی تحریروں کا مداح ہوں۔ آپ گوجرانوالہ میں چند سال پہلے ہماری بار میں تشریف لائے۔ آپ کی ایک کتاب Grand Deception  میں نے خرید کر پڑھی۔ اس سے متاثر ہو کر ایک مضمون لکھ کر فرائیڈے سپیشل میں چھپوایا۔ یہ مضمون مذکورہ جریدے کی ۲۴۔اگست ۲۰۱۲ء میں چھپا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون آپ کے علم میں ہو۔ پھر بھی مضمون کی نقل منسلک ہے۔ اپنے بارے میں میرے احساسات اس مضمون سے واضح ہوتے ہیں۔ ان کا یہاں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے خاندانی پس منظر اور جرات مندانہ کردار کا مجھے کھل کر اعتراف کرنا پڑا۔ مضمون میں، میں نے جو کچھ لکھا تھا، وہ اس سے بڑھ کر تھا۔ فرائڈے سپیشل والوں نے اپنی پالیسی کے لحاظ سے اسے ایڈٹ کیا۔ میں نے عنوان رکھا تھا ’’مجاہد بھی اور کامران بھی‘‘، جب کہ رسالے والوں نے عنون بدل کر اس طرح کر دیا تھا کہ’’ امریکی ضمیر و دانش کی تلاش؟‘‘ میرے لئے وائس چانسلر کے منصب پر فائز شخص کی حیثیت سے امریکہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا، وہ خلاف توقع تھا۔ آپ یونیورسٹی کو جس طرح پر سکون تعلیم کی طرف لائے، اس کا اعتراف صوبائی حکومت کو رہا۔ اسی وجہ سے آپ کو توسیع بھی ملی۔ آپ کا سیکوریٹی کے بغیر کام کرنا بڑا ہی حوصلہ مندانہ طرز عمل ہے۔

میں آپ کے جراتِ کردار کا اب بھی معترف ہوں۔ چند دن پہلے آپ کی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو حساس ادراوں والے رات گئے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کے نام ڈاکٹر غالب عطا اور ڈاکٹر عامر سعید ہیں۔ اس دیدہ دلیری کے نتیجہ میں ڈاکٹر غالب عطا کے کم سن بچے کی جو نفسیاتی حالت ہوئی ہے، اس کا تذکرہ اخبارات میں آ چکا ہے۔ آپ تمام تر صورت حال سے یقیناًآگاہ ہوں گے۔ طلبہ خاموش نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے باقاعدہ قراردادیں پاس کی ہیں۔ میں ایک معمولی شہری کے طور پر آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی ڈومین میں یہ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد آپ کا وائس چانسلر کے طور پر کام کرنا بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو واضح کریں کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اساتذہ آپ سے یہ سوال کریں یا نہ کریں، میں آپ کے ایک مداح کے طور پر ضرور پوچھوں گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے ملک کے حساس ادارے عام شہریوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں اخبارات اور اسکرین میڈیا پر بہت آتا رہا ہے۔ عام مشاہدہ بھی اس پر گواہ ہے۔ پنجاب کی حد تک میں ذاتی طور پر بہت کچھ جانتا ہوں۔ تفصیلات یہاں غیر متعلق ہوں گی۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے لائق فائق اساتذہ بھی اگر حساس اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچ نہ سکیں گے تو پھر کیا بننے والا ہے؟ اس پر اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے میں مقتدر طبقات خاموش رہیں تو پھر یہ بے حسی کی انتہا ہو گی۔

میں تو دکھ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں (بلا کسی استثنا) تو پہلے سپہ سالار فوج کے سامنے سپر انداز ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر لیڈر بک چکے ہیں۔ جو بکے نہیں، وہ جھک گئے ہیں۔ جھکے بھی ایسے کہ کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے چکی ہے۔ بہر حال چند ججوں نے اختلاف کیا مگر سردست انصاف کے سول اداروں کی ناکامی پر جو مہر لگ چکی ہے، اس اختلاف سے اس مہرگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مذہبی طبقات بھی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ میرے لیے یہ امر انتہائی دکھ کا باعث ہے کہ جس ملک میں لاکھوں مساجد موجود ہوں، ان میں کروڑوں درس، خطبات جمعہ اور تقریریں ہوتی ہوں، اس کے باوجود ملک میں قبرستان جیسی بے حسی پائی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ بیکار ہے۔ کرپشن، دہشت گردی، ظلم و بے انصافی اور بد امنی اپنے جوبن پر ہے۔ امن کی راہ پر لے جانے والے اداروں کی بے حکمتی اس سے ظاہر ہے کہ وہ خود خوف کا شکا رہیں۔ امن قائم کرنے والی قوتیں خوف کا شکار ہو کر جو کچھ بھی کریں گی، اس کا نتیجہ امن کا قیام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ایجنسیاں عدم پتہ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہیں، وہ سخت تشویشناک ہے۔ بنیادی حقوق کی انجمنیں بھی کم بیش خاموش ہیں۔ واقعی 

قحط آشفتہ سراں ہے یارو
شہر میں امن و اماں ہے یارو

میری دعا ہے کہ امن وامان ہوجائے، جیسے بھی ہو۔ مگر یہ کام دعاؤں سے ہونے والا نہیں، اصحاب تدبیر کے حسن تدبیر پر منحصر ہے۔ اس بارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقتدر طبقات اور آپ جیسے ذمہ دار لوگوں کو صورت حال میں احساسِ جواں سے کام لینا ہو گا، وگرنہ مظلوموں کا کیا بنے گا! اس کے لیے اللہ کے ہاں ہر ایک کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

راقم کے خط میں اگر کہیں جذباتیت اور رد عمل کا عنصر محسوس ہو تو اسے مہربانی کر کے نظر انداز کر دیں۔ امید ہے کہ آپ کی طرف جواب سے محروم نہیں رہوں گا۔

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مکاتیب

(فروری ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter