روایتی مسلم ذہن میں مسئلہ الحاد کی غلط تفہیم

عاصم بخشی

روایتی مسلم ذہن میں موجود سماج کا تصور چونکہ الہامی روایت کی مختلف تعبیرات سے معاشرتی معیارات اخذ کرتا ہے، لہٰذا ایسے غیرمذہبی ذہن کو بھی الحادی یا ’ نیم الحادی‘ گردانتا ہے جس کے لیے الہامی روایت سماجیات کی ذیل میں اپنے اندر کوئی نظری یا عملی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر تاریخی تناظر میں مسلم سماج کے حال پر ایک نظر ڈالی جائے تو اٹھارویں صدی کے یورپ کی تنویری یا روشن خیال تحریک کی ایک سطحی سی جھلک نظر آتی ہے۔ سطحی اس لئے کہ چاہے بنگلہ دیش میں اپنے شدت پسند مذہبی حریفوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ’فری تھنکر‘ انٹرنیٹ ادیب اور کالم نگار ہوں یا پاکستانی سوشل میڈیا پر برسرپیکار مختلف عقلیت پسند الحادی و نیم الحادی آوازیں، اپنی سیاسی و سماجی تعبیرات کے کوئی ایسے چشمے نہیں رکھتیں جو اسی زمین سے پھوٹیں جس کی سیرابی کے سماجی حق کے لئے وہ جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی مذہبی ذہن اور روشن خیال عقلیت پسند ذہن کی باہمی کشمکش کے لئے ابن سینا یا ابن طفیل کی بجائے گیلیلیو کو استعاراتی ترجیح دینا اس لئے حیرانی کی بات نہیں کہ اٹھارویں صدی کی روشن خیال تحریکوں، صنعتی و سائنسی انقلاب اور دورِ استعماریت کے بعد پوری دنیا سکڑ کر کچھ ایسے ملفوظ یا ناملفوظ سماجی معیارات کو تیزی سے ہمہ گیر تسلیم کر نے کے دور سے گزر رہی ہے جن کی بنیادوں میں سائنس طریقہ استدلال سے جڑی تاریخِ فکر کو بلاشبہ روایتی فلسفیانہ استدلال کے مقابلے میں اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا کشمکش کے اس پورے منظرنامے میں اگر روایتی اور تجدد مخالف مذہبی ذہن کے پاس کچھ ایسی منجمد الہامی تعبیرات کا سہارا ہے جو قرونِ وسطیٰ کی تعبیری روایت سے منسلک ہیں تو غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی پشت پرجدید سائنس کی کم و بیش تین سو سالہ طویل مستحکم روایت کھڑی ہے جو مسلسل اپنے پھیلاؤ کے ذریعے ذہن سازی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

عقلیت پسند ذہن سازی کے اس مسئلے کو کسی مثال سے سمجھنا ہو تو بنگلہ دیشی ’فری تھنکر‘ تحر یک کے ۱۳ سالہ کارکن محی الدین کی ذہنی کشمکش پر ایک نظر دوڑائیے جو مذہبی شدت پسندوں کے متعدد حملوں کے بعد بالآخر جرمنی میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور آج کل وہاں سے بذریعہ انٹرنیٹ سرگرمِ عمل ہیں۔ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونے والے محی الدین کا کہنا ہے کہ انہیں جنت و جہنم کے واقعات سے بھرپور مذہبی’’ قصے کہانیاں ‘‘کسی دیومالا کی طرح مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھیں لہٰذا تیرہ سال کی عمر سے ہی وہ اپنے آپ کو ملحد سمجھنے لگے۔ ان کے بقول اس ردعمل پر ان کے والد بہت شرمسار تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی مشہورِ زمانہ کتاب ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ (اردو ترجمہ: وقت کا سفر) کا مطالعہ کیا جس نے ایک نئے جہان کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ سولہ سال کی عمر میں ان کا تعارف ایک ایسے بنگلہ دیشی مجلے سے ہوا جو نظریہ اضافت اور دوسرے سائنسی اصولوں کی مدد سے قرآن کریم میں موجود معجزوں کی تعبیرات پیش کرتا تھا۔ محی الدین نے اپنے کڑے تنقیدی خطوط میں یہ نکتہ اٹھایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سائنسی طور پر ناممکن تھا کہ کسی گھوڑے پر سوار ہو کر آسمانوں کا سفر کر آتے۔یوں ڈھاکہ سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات میں ان مختلف مذہب پسندوں سے ان کا کڑا مناظرہ جاری رہا۔ ۲۰۰۸ء میں کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کے بعد انہوں نے مستقل طور پر لکھنا شروع کیا اور یوں وہ تحریک برپا ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے چار ساتھی مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور وہ خود بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ 

آپ کے سامنے یہ نہایت مختصر سوانحی منظرنامہ رکھنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ منظرنامہ ہمیں ایک روایتی مذہبی ذہن کا ردعمل سمجھنے میں ناگزیر مدد فراہم کرتا ہے اور دوسرا ایک روایتی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت اور جدید دنیا میں اس کے ارتقاء پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنے ایک اخباری مضمون میں ایک عالم دین کے مشہور مغربی مفکر کارل ساگاں کی کتاب ’کاسموس‘ پر پابندی کے مطالبے کو مثال بنا کر راقم نے روایتی مذہبی ذہن کے ایک مخصوص متشدد ردعمل کی کی جانب نشان دہی کی تو کچھ محترم مذہب پسند دوستوں نے یہ سوال اٹھایا کہ پھر کیا چپ سادھ لی جائے اور سماج کو فکری طور پر آزاد چھوڑ دیا جائے؟ ایک اور مشہور اہلِ علم نے مجھ طالب علم پر یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ ایک خطرناک فکری نراجیت پسندی معلوم ہوتی ہے اور کوئی بھی مذہبی یا غیرمذہبی سماج فکر کو بالکل آزاد کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ 

ذاتی نوعیت کے یہ دونوں اعتراضات پیش کرنے کا مقصد بھی روایتی مذہبی ذہن کے ردعمل کی اس مخصوص جہت ہی کو مزیدواضح کرنا ہے کیوں کہ راقم کی سوچی سمجھی رائے میں فی زمانہ اسلام کی مذہبی سماجی روایت کے سامنے ردعمل کے مباحث ترتیب دینے کا مسئلہ تو سرے سے درپیش ہے ہی نہیں کیوں کہ اس کا تعلق تو بہرحال کسی نہ کسی طرح مسئلے کے حل سے ہے۔ یہاں تو فی الحال مسئلے کے خدوخال پر ہی اتفاق زیرِ التوا ہے۔ جب ایسے سوال ہی سامنے موجود نہ ہوں جن پر ایک سماج میں باہمی اتفاق پایا جاتا ہو تو جواب چہ معنی دارد؟ ظاہر ہے اگر کوئی روایتی مذہبی ذہن مسئلے کے خدوخال ہی یوں مرتب کرتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مذہبی سماج کا مسئلہ اخلاقیات کا جنازہ نکلنا، باہمی محبت و احترام کا ایک سماجی قدر کے طور پر ناپید ہو جانا، اور روشن خیالی و خرد افروزی کو ایک طنز و دشنام کے طور پر رواج دینا نہیں بلکہ فلسفہ و سائنس کے ذریعے بڑھتا ہوا الحاد ہے تو اس کے نزدیک یہ سادہ لوح ردعمل یقیناًمعقول ٹھہرے گا کہ ’کاسموس‘ اور ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ جیسی کتابوں پر سرے سے پابندی ہی لگا دی جائے۔ لیکن اگر پھر بھی ہم جیسے ’نیم ملحدین‘ باز نہ آئیں اور ریاست یہ نیک کام کرنے میں سستی کرے تو پھر ہمارے پیٹ میں خنجر گھونپ دینا بھی یقیناًاسی ردعمل کا اگلا معقول ترین مذہبی قدم ہونا چاہیے جسے تائیدِ غیبی حاصل ہو۔ 

لیکن ہماری رائے میں اس ہولناک سماجی سانحے سے بچنے کی واحد معقول ترین صورت یہی ہے کہ اس روایتی مذہبی ذہن کے مقابل کھڑے ایک غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیا یہ واقعی کوئی مسئلہ بھی ہے یا سادہ طور سے ایک مستقل ذہنی ارتقاء کا ہی تسلسل ہے جس کے ساتھ اب ہماری روایتی مذہبی روایت کو کئی داخلی و خارجی وجوہات کے باعث قدم ملا کر چلنے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مشکل پر قابو پانے کا کوئی دوسرا نفیس طریقہ نہ ہونے کے باعث یہ مخصوص روایتی مذہبی شعوراب اپنی داخلی سماعت کے پردوں سے خدا کی یہ تحکمانہ آواز ٹکراتے سن رہا ہے کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے حریف کو اڑنگا دے کر گرا دیا جائے؟ چونکہ ہماری روایت میں مذہبی کے ساتھ ساتھ غیرمذہبی روایت کے سوتے بھی عرصے سے خشک پڑے ہیں لہٰذا کیوں نہ مغربی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ جہاں روایتی مذہبی ذہن کو اس کی خطرناک سادہ لوحی کا یقین دلایا جا سکے وہی ہمارے ہاں کے عقلیت پسند مقلدین و نیم ملحدین کو بھی واضح ہو سکے کہ وہ اپنے مخصوص تعصبات کے لئے کتنا معقول جواز رکھتے ہیں جس پر ان کو خود بھی غیرمتزلزل یقین ہو۔ 

چونکہ اس مختصر مضمون کو اس حد تک طویل نہیں کیا جا سکتا کہ نظر خراشی کا الزام معقول ٹھہرے لہٰذا کتابوں کے اقتباسات کی بجائے آپ کی توجہ کے لیے ۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں نشر کی جانے والی ایک گھنٹے کی نادر دستاویزی فلم کا انتخاب کیا ہے جس کا عنوان ہے ’خدا، کائنات اور باقی سب کچھ‘۔ یہ وہ سال ہے جب اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ راقم کی رائے میں یہ مکالمہ اس جاری بحث کے تناظر میں اس لیے دلچسپ ترین ہے کہ مکالمے کے تینوں شرکاء یعنی اسٹیفن ہاکنگ، کارل سیگاں اور آرتھر سی کلارک نہ صرف چوٹی کے سائنسی مفکرین تھے بلکہ زمانہ جدید کی تاریخ فکر میں بھی ان کے نام سائنسی تفکر کو عوامی طور پر متعارف کروانے کے لحاظ سے سرفہرست ہی رہیں گے۔ پوری فلم تو انٹرنیٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے اوراپنے آپ کو اب تک مجھ سے متفق پانے والے قاری یقیناًاس کے ذریعے وہ تقابلی نفسیاتی جائزہ لینے کے قابل ہوں گے جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔ اس نفسیاتی جائزے میں تجسس، جستجو، تخیل کی جست، منطقی استدلال کی نوعیت، شعور کی حقیقت مطلق کو جان لینے کی داخلی کشمکش وغیرہ جیسی جہتوں پر تو سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اس کے اختتامی حصے کے کم وبیش دس منٹ کے مکالمے کا ترجمہ پیش کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے سوالات کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھانے والے مشہور صحافی میگن میگنسن تھے۔

’’میگن: پروفیسر ہاکنگ، اپنی کتاب کے بالکل آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ اگر ہم کائنات کا ایک مکمل نظریہ دریافت کر لیں تو پھر آخرکار وہ کچھ وقت میں(عوامی سطح پر) قابلِ فہم مانا جائے گا اور نہ صرف سائنسدانوں بلکہ ہر ایک کو اصولی طور پر متفق کر دے گا۔ اور جب یہ ہو جائے گا تو ہم ’کیسے ‘ کی بجائے ’کیوں‘ کے بارے میں بحث کرنے کے قابل ہوں گے۔ میں آپ کا اقتباس پیش کرتا ہوں کہ ’’اگر ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں تو یہ انسانی عقل کی حتمی فتح ہو گی کیوں کہ پھر ہمیں خدائی ذہن کا علم حاصل ہو جائے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے خیال میں خدا جیسے چاہے کائنات میں دخل دے سکتا ہے؟ یا خدا بھی قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے؟

اسٹیفن ہاکنگ: یہ سوال کہ آیا خدا قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے، اسی قسم کے سوال کی طرح ہے کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ تفکر کچھ خاص مفید ہو سکتا ہے کہ خدا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں بلکہ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ و ہ واقعتا اس کائنات کے ساتھ کیا کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہمارے تمام مشاہدات یہ تجویز کرتے ہیں کہ وہ کچھ اچھی طرح متعین قوانین کے مطابق کام کرتا ہے۔ و ہ قوانین شاید خدا نے خود ہی متعین کیے ہوں، لیکن یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ قوانین توڑنے کے لیے کائنات میں دخل نہیں دیتا، کم از کم جب ایک دفعہ کائنات اپنے راستے پر چل پڑے۔ تاہم اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ تمام قوانین کائنات کے نقطہ آغاز پر ہر صورت ٹوٹ جاتے ہیں جس کا مطلب یہی تھا کہ کائنات کے آغاز کی حد تک خدا کو انتخاب کی مکمل آزادی تھی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہمیں اندازہ ہوا کہ قوانین سائنس وقت کے نقطہ آغاز پر بھی شاید متعین ہی ہیں۔ اس صورت میں تو خدا کو یہ آزادی نہیں ہو گی اور کائنات کا نقطہ آغاز بھی سائنسی قوانین کے ذریعے ہی متعین ہو گا۔

میگن: بہت شکریہ۔ کارل ساگاں، اس کتاب کے تعارف میں آپ نے تبصرہ کیا کہ یہ کتاب خدا کے بارے میں بھی ہے بلکہ شاید خدا کے نہ ہونے کے بارے میں، کیوں کہ ہاکنگ نے خدائی تخلیق کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لیکن ظاہر ہے، خدا مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا ہے۔ جب ہم ذہن خداوندی تک جست کی بات کرتے ہیں تو ہم کس قسم کے خدا کا تصور قائم کر رہے ہوتے ہیں؟

کارل ساگاں: بھئی میرے خیال میں تو یہ ایک اعلیٰ ترین سوال ہے اور میں اسٹیفن ہاکنگ کا جواب جاننا چاہوں گا۔ لیکن صرف حدودِ امکان کا احاطہ کرنے کی خاطر میں دو متبادل قیاسات پر غور کی دعوت دیتا ہوں۔ایک تو مغرب کا مشہور تصورِ خدا ہے جہاں خدا ایک بہت جسیم سفید فام مرد ہے جو اپنی لامبی سفید ریش کے ساتھ تخت آسمانی پر براجمان ہر گرتی چڑیا کے بارے پیشین گوئی کر رہاہے۔ اس کے متبادل وہ تصورِ خدا ہے جو مثال کے طور پر اسپینوزا یا آئن سٹائن کے ذہن میں موجود ہے جو کم از کم کائنات کے کل مجموعہ قوانین کے بہت قریب ہے۔ اب کائنات میں متعین طبیعی قوانین کا انکار کرنا پاگل پن ہی ہو گا اور اگر آپ کی خداسے یہی مراد ہے تو خدا کے نہ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لیکن یہ ایک بہت ہی دوردراز بیٹھا خدا ہے جسے فرانسیسی روایت میں ’ کاہل بادشاہ‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس کے برعکس پہلے والا تصور جو کائناتی مظاہر میں روز مرہ کی بنیاد پر دخل اندازی کرتا ہے، ڈاکٹر ہاکنگ کے بقول اس کے کوئی شواہد نہیں پائے جاتے۔ میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ ان معاملات میں انسان کو ذرا عاجزی کا مظاہرہ ہی کرنا چاہیے کیوں کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اصولی طور پر کچھ ایسے پیچیدہ معاملات کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہ رہے ہیں جو انسانی تجربے سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔اور شاید ہم ان پراسرار رازوں کی جانب ذرا سا رینگنے کے قابل ہی ہو پائیں۔

میگن: شاید پروفیسر ہاکنگ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ:میں خدا کا نام اسی طرح استعمال کرتا ہوں جیسے آئن سٹائن نے کیا کہ وہ کائنات کے اس طرح ہونے کی اولین توجیہ ہے جس طرح کہ وہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے موجود ہونے کی اولین علت بھی وہی ہے۔

میگن: آرتھر کلارک، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا کیا مطلب تھا جب آپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اس میں شدید دلچسپی رکھتا ہوں۔

آرتھر کلارک: (مسکراتے ہوئے) خیر میں نے تو اب تک اپنی شرط ہی نہیں باندھی۔ اسٹیفن اور کارل کے تبصروں سے مجھے نپولین اور لاپلاس کا نظریہ کائنات کے ضمن میں دو سو سال پرانا مکالمہ یاد آ گیا جب نپولین نے اس سے پوچھا کہ ’’اس میں خدا کہاں ہے؟‘‘ تو لاپلاس نے جواب دیا کہ ’’جناب، مجھے اس قیاس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔‘‘ میں اس سلسلے میں پنڈت نہرو کے اس قول کا بہت معترف ہوں کہ سیاست اور مذہب کا زمانہ گزر گیا، یہ زمانہ سائنس اور روحانیت کا ہے۔‘‘

پوری گفتگو ہی نہایت دلچسپ ہے لیکن یہ اقتباس پیش کرنے کا مقصد ایک طرف تو روایتی مذہبی ذہن اور دوسری طرف پچھلی دو دہائیوں سے تیزی سے بڑھتے ایک متشدد سائنس پرست الحادی ذہن کو اپنی ردعمل کی نفسیات پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے۔جہاں اسی گفتگو کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ کا یہ تبصرہ کہ فزکس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمسائے سے کیسے سلوک کرنا ہے، الحادی روایت کے شدت پرست حامیوں کے لیے چشم کشا ہے، وہیں اس میں روایتی مذہبی ذہن کے فہم کے لیے نہایت اہم اشارے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشارہ یہی ہے کہ ایک اعلیٰ ٰجدید عقلیت پسند ذہن کی ماہیت نہایت پیچیدہ طور پر سائنسی استدلال اور سائنسی تاریخ فکر کی روایت سے نہ صرف نظری طور پر مربوط ہے بلکہ عملی میدان میں ایسے نتائج بھی پیدا کرنے کے قابل ہے جن کے لیے کسی نظری استدلال کی ضرورت نہیں۔ یہ پیچیدہ جدید ذہن آج ایک ایسے نئے تناظر میں ایستادہ ہے جہاں عوامی طور پر سائنس پر ایمان لانے کی صورت کم وبیش وہی ہے جو خدا پر ایمان لانے کی ہے۔ یہ انسان خدا کو اس کے تصور کی بجائے اس کی فعالیت سے تو پہچانتا ہی تھا، لیکن آج سائنس پر ایمان لانے کی کیفیت بھی کم وبیش ایسی ہی ہے۔ ایک کسان جہاں سجدے میں بارش کی دعا کرتا ہے اور آسمان سے پانی کے نزول کو خدائی قوت کا مظہر سمجھتا ہے، وہیں اسے یہ ایمان بھی ہوتا ہے کہ موسمی پیشین گوئی کے مطابق اگلے تین دن بارش کے امکانات معدوم ہیں۔ یہ اب نفسیاتی طور پر ایک شدید تجربیت پسند انسانی شعور ہے جسے تجربے سے بہت فاصلے پر موجود حقائق پراسرار معلوم ہوتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہر لمحہ کائنات کے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے، ابدی پیاس سے نڈھال، زمانہ جدید کے اس انسان کی جستجو بھی روایتی مذہبی ذہن میں ایک ہیبت سے بھرپور محبت پیدا کرنے کی بجائے نفرت اور ردعمل پر اکساتی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی مذہبی نفسیات ہے جو ہر لمحہ اپنے خدا کے آگے پردہ تانے کھڑی ہے اور اسی خدا تک پہنچنے کے متلاشی انسان کو حملہ آور سمجھ بیٹھی ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں خدا کو کوئی ’معنی خیز‘ جگہ دینے سے قاصر ہے۔

یہ اب ایک صریح نتائجیت پسندی پر استوار منظر نامہ ہے جس میں ایسی روایتی مذہبی فکر کو جو جدیدیت سے سمجھوتے کے بعد ایک معقول اور جامع تجدیدِ فکر کے نتیجے میں انسانیت کی عالمگیر فکری روایت میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتی، سائنسی تفکر کے خلاف استبدادی محاذ آرائی کی بجائے اخلاقیات و مابعدالطبیعات کے میدان میں اپنے رہے سہے اختیار کو اس طرح قائم رکھنے کی فکر کرنی چاہیے کہ ایک ایسا فرد جسے الٰہامی تعبیرات کی بنیاد پر کھڑے مذہب کے مجموعی اعتقادی ڈھانچے پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے تو وہ اس ایمانیات کوجبرِ محض کی بجائے دنیا میں نوعِ انسانی کی فلاح اور آخرت میں نجات کے ساتھ ایک مربوط فکری و عملی نظام کے طور پر اپنانے کے لیے تیار ہو۔ دوسرے لفظوں میں روایتی مذہبی فکر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استبداد اور جبر سے دورِ جدید کی مذہبی سماجیات میں سوائے مزید ردعمل اور شدت پسند الحادی فکر پیدا کرنے کے کوئی اور خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا جو خدا کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ ٹھہرے اور انسانوں کے لئے بھی کسی مجموعی خیر کا ضامن ہو۔ 

اوپر پیش کی گئی گفتگو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال اٹھانا ہر گز مشکل نہیں کہ ہمارے وقت کے یہ اعلیٰ ترین اذہان جن کی فکر کو ہمارے تیسری دنیا کے مذہبی سماج میں مسئلہ الحاد کی جڑ سمجھا جا رہا ہے، ان سوالات میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں رکھتے جوہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر کا موضوع ہیں۔شاید یہ خدا کوماننے کا نہیں بلکہ ایک مخصوص تصورِ خدا سے ایسا ذاتی تعلق پیدا کرنے کا مسئلہ ہے جو یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ جہاں دو دہائیاں قبل ویٹی کن میں آرتھر کلارک جیسوں کے خطاب کے بعد کیتھولک کلیسا کی روایت اپنی ساڑھے تین سو سالہ پرانی غلطی تسلیم کرنے کے بعد گلیلیو کو بری الذمہ قرار دے چکی ہے، وہاں ہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر ابھی صرف اس پیچیدہ جدید نفسیات کے فہم سے مسئلے کے خدوخال متعین کر نے کی جانب اولین قدم ہی اٹھا سکتی ہے۔ اسے اپنے اوپر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر انسان کو اپنی کامل ابدی تسکین کے لیے خدا کی ضرورت ہے تو اسی روایتی مذہبی ذہن کی تعبیرات کے مطابق خدا بھی تو کمالِ بے نیازی سے اپنے آپ کو مانے جانے کا مطالبہ لیے کھڑا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہبی فکر اپنی اٹل تعبیرات پر ’غیرمعقول‘ پیرایے میں اصرار کی دیوار کے ذریعے بندے اور خدا کے درمیان موجود ہے؟

(مضمون میں مذکورہ دستاویزی فلم کا انگریزی عنوان God, the Universe and Everything Else ہے اور اسے انٹرنیٹ پر بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔)

آراء و افکار

(فروری ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter