دولت اسلامیہ (داعش) کے وابستگان کا یہ کہنا ہے کہ اس کے سربراہ اس وقت شرعی لحاظ سے سارے عالم اسلام کے ’’خلیفہ ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی اطاعت قبول کرنا تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی طرف سے پیش کردہ استدلال کے مقدمات حسب ذیل ہیں:
۱۔ خلافت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس کا اہتمام نہ کرنے کی صورت میں ساری امت گناہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے اب تک عالم اسلام اس فریضے کا تارک تھا، لیکن اب دولت اسلامیہ کی صورت میں اس فریضے کی ادائیگی کا اہتمام کر دیا گیا ہے، اس لیے اس کی اطاعت قبول کرنا مسلمانوں پر شرعاً لازم ہے۔
۲۔ اس خلافت کا قیام شرعی اصول کے تحت یعنی ارباب حل وعقد (جس سے مراد عراق وشام کی جہادی تنظیموں کے ذمہ داران ہیں) کے مشورے سے ہوا ہے اور ان کی بیعت، خلافت کے انعقاد کے لیے کافی ہے، کیونکہ فقہاء کی تصریح کے مطابق ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب پر سارے عالم اسلام کے ارباب حل وعقد کا اتفاق نہ ضروری ہے اور نہ عملاً ممکن ہے۔
۳۔ بالفرض یہ کہا جائے کہ دولت اسلامیہ مشورے کے بجائے طاقت کے زور پر قائم ہوئی ہے تو بھی تغلب اور تسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت جب اپنی رِٹ قائم کر لے اور لوگ اس کی بیعت کر لیں تو شرعی طور پر اس کا اقتدار قائم ہو جاتا اور اس کی اطاعت لازم ٹھہرتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ سارا استدلال سرتا سر کج فہمی اور مغالطوں پر مبنی ہے۔ آئیے، اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلے نکتے کو دیکھیے:
فقہاء نے جس مفہوم میں خلافت کے قیام کو فرض قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کے لیے ایک باقاعدہ نظام حکومت قائم کریں اور اس کے تحت زندگی بسر کریں، کیونکہ شریعت نے بحیثیت جماعت مسلمانوں کو جو احکام دیے ہیں، ان میں سے بہت سے احکام پر عمل درآمد قیام حکومت پر موقوف ہے جبکہ افراد اپنی انفرادی حیثیت میں ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے اگر مسلمان کسی علاقے میں آزاد اور خود مختار ہوں اور اس کے باوجود اپنا کوئی نظم اجتماعی قائم نہ کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی میں شریعت کے بہت سے احکام پر عمل نہیں کر سکیں گے اور یوں ایک شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار قرار پائیں گے۔ فقہاء اسی کو ’’نصب امام‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی مسلمانوں پر اپنا کوئی حکمران منتخب کرنا لازم ہے جو ان کے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کی ذمہ داری ادا کر سکے۔
اگر کسی علاقے کے مسلمان اس کا اہتمام کر لیں تو وہ اس فرض کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور انھیں شریعت کے ایک فرض کا تارک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حکمرانی کے لیے کسی نااہل کا انتخاب کر لیں یا کوئی نااہل ازخود طاقت کے زور پر ان پر مسلط ہو جائے یا ارباب اقتدار اپنے اوپر عائد ہونے والی شرعی ذمہ داریوں کو کماحقہ انجام نہ دیں، لیکن ان سب خامیوں کے باوجود اگر مسلمانوں نے اپنا کوئی نظم حکومت قائم کر لیا ہو اور وہ ایک منظم گروہ کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہوں تو فقہاء کے زاویہ نظر سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ’’نصب امام‘‘ کے شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار ہیں۔ وہ حسب استطاعت نظام حکومت کی اصلاح کے لیے کوشش اور جدوجہد کے تو مکلف ہوں گے، لیکن شریعت اس صورت حال میں انھیں اس بات کا مجرم قرار نہیں دیتی کہ انھوں نے اصل حکم یعنی ’’نصب امام‘‘ پر ہی عمل نہیں کیا۔
عصر حاضر کے معروف فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس نکتے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’تمام فقہاء اور اہل عقائد اس بات پر متفق ہیں کہ امام کا نصب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، یعنی مسلمانوں کی پوری جماعت کے ذمہ داجب ہے کہ وہ کسی کو اپنا امام بنائیں، ایسے شخص کو امام بنائیں جو ان صفات کا حامل ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ نصب الامام ایک طرح سے فرض کفایہ ہوا۔ لیکن یہاں یہ فرق سمجھ لیجیے کہ نصب الامام کا واجب ہونا، اس کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو، یعنی مسلمان بغیر کسی سربراہ کے زندگی گزار رہے ہوں۔ کوئی ان کا حاکم نہ ہو، کوئی ان کا سربراہ نہ ہو۔ اس وقت میں مسلمانوں میں سے کسی ایک کو امام بنانا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کا سربراہ بنا ہوا ہے، خواہ زبردستی یا تغلب سے بنا ہو، اور وہ امام صفات مطلوبہ کا حامل نہ ہو، جیسا کہ اس وقت اسلامی ممالک میں سربراہ موجود ہیں لیکن وہ ان صفات کے حامل نہیں ہیں جو سربراہ کے لیے مطلوب ہیں تو اس وقت میں مسلمانوں کا کیا کام ہونا چاہیے؟ اس کا تعلق اس مسئلے سے ہے کہ موجودہ سربراہ کو معزول کر کے کسی صحیح سربراہ کو لانے کا کیا طریق کار ہونا چاہیے۔‘‘ (’’اسلام اور سیاسی نظریات‘‘، ص ۲۲۶)
اس وضاحت کی روشنی میں دولت اسلامیہ کے اس دعوے کا جائزہ لیجیے کہ ’’دولت اسلامیہ کے قیام سے پہلے تک پورا عالم اسلام ’’نصب امام‘‘ کے فریضے کا اجتماعی طور پر تارک تھا‘‘ تو صاف معلوم ہوگا کہ اس میں ایک حقیقت واقعہ کی نفی کی جا رہی ہے، اس لیے کہ عالم اسلام کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان اپنے آزاد علاقوں میں ’’نصب امام‘‘ یعنی کسی نظم اجتماعی کے قیام کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس دعوے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ان حضرات کو اس کے ساتھ ایک دوسرا مقدمہ شامل کرنا پڑتا ہے، یعنی یہ کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی جائز شرعی حکومت موجود نہیں، کیونکہ تمام مسلمان حکمران فلاں اور فلاں وجوہ سے کافر اور مرتد ہو چکے ہیں۔ اس دوسرے دعوے کا الگ سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ فقہاء کی سند پر یہ دعویٰ کرنا کہ مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ایک بنیادی شرعی فریضے یعنی نصب امام کی تارک ہے، فقہاء کے نقطہ نظر کی بالکل غلط ترجمانی ہے اور اس کی کوئی علمی یا شرعی بنیاد موجود نہیں۔
دوسرے اور تیسرے نکتے کے متعلق گزارش یہ ہے کہ علماء وفقہاء جب انعقادِ خلافت کے لیے بعض ارباب حل وعقد کے اتفاق کو کافی تصور کرتے اور سب کے اتفاق واجماع کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں یا غلبہ وتسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت کو بالفعل ایک قانونی حکومت کا درجہ دیتے ہیں تو ان کے پیش نظر اس اصول کا اطلاق کسی مخصوص مسلم ریاست یا سلطنت کے عملی دائرۂ اختیار کے اندر ہوتا ہے نہ کہ علی الاطلاق سارے عالم اسلام کے مسلمانوں پر۔ اگر عالم اسلام کے سارے مسلمان، بالفرض، کسی وقت ایک ہی مرکزی حکومت کے تحت مجتمع ہوں تو فقہاء کے بیان کردہ مذکورہ اصول کا دائرۂ اطلاق سارا عالم اسلام ہوگا، لیکن اگر کسی وقت سیاسی حالات اس سے مختلف ہوں اور مسلمان مختلف علاقوں میں اپنی اپنی جداگانہ حکومتیں قائم کر کے ان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو پھر اس اصول کا اطلاق ہر حکومت یا سلطنت کے اپنے مخصوص دائرۂ اختیار اور اس کی عمل داری میں واقع علاقوں کے اندر ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر جب اندلس میں مسلمانوں کی ایک مستقل خلافت قائم ہو گئی جس کا مرکزی خلافت کے ساتھ کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا تو اس کے بعد اہل اندلس نے حکمرانی کے تسلسل اور انتقال اقتدار کے لیے اپنا سیاسی نظام بھی الگ وضع کیا اور اس علاقے کے مسلمان آئندہ تاریخ میں مرکزی خلافت سے آزاد رہ کر اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کرتے رہے۔ تاریخ اسلام میں اندلس کے فقہاء نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب بغداد میں ایک خلیفہ پہلے سے موجود ہے تو اس سے ہٹ کر اندلس میں ایک دوسرا خلیفہ کیوں حکومت کر رہا ہے۔ دونوں حکومتوں کے اپنے اپنے دار الحکومت اور اپنے اپنے ارباب حل وعقد تھے اور دونوں سلطنتوں میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے مقامی ارباب حل وعقد کا اتفاق اسی علاقے کے لیے اور انھی جغرافیائی حدود میں موثر مانا جاتا تھا جن میں ان میں سے ہر ایک سلطنت عملاً قائم تھی۔ تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر یہ بحث نہیں اٹھائی گئی کہ بغداد کے ارباب حل وعقد نے جس خلیفہ کے انتخاب پر صاد کیا ہے، اندلس کے مسلمان بھی اسی کی اطاعت قبول کرنے کے پابند ہیں یا اس کے برعکس یہ کہ اندلس میں ارباب حل وعقد نے جس حکمران کی بیعت کر لی ہے، باقی عالم اسلام کے مسلمانوں پر بھی اسی کی بیعت کرنا واجب ہے۔
یہی معاملہ عالم اسلام کے ان دوسرے خطوں کا بھی رہا ہے جہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے مرکزی خلافت سے الگ اپنا نظام حکمرانی قائم کیا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں مختلف مسلمان حکمرانوں کے جوازِ حکمرانی کو کبھی مرکزی خلافت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا گیا اور نہ یہ تصور ہی پیش کیا گیا کہ ہندوستان کی مسلم حکومتوں کو لازمی طور پر بغداد کی مرکزی حکومت کے تابع ہونا چاہیے یا یہاں کے حکمران کا تقرر مرکزی خلافت کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ یہاں یکے بعد دیگرے مختلف مسلمان خاندان آتے رہے اور اپنے زورِ بازو سے جو بھی اپنا اقتدار جن زمینی حدود میں قائم کرنے میں اور مقامی ارباب حل وعقد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، اس کی حکمرانی کو قبول کر لیا گیا۔ یہی صورت حال ہمیں عالم اسلام کے دور دراز خطوں مثلاً انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ کی تاریخ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ فقہاء جب ایک علاقے کے ارباب حل وعقد کے اتفاق، یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر لینے کی بنیاد پر کسی حکمران کی حکومت کو منعقد قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے تمام علاقوں کے ارباب حل وعقد کے اتفاق کو ضروری قرار نہیں دیتے تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ کوئی مسلم ریاست یا سلطنت جن جغرافیائی حدود میں قائم ہے، ان کے اندر یہ فیصلہ نافذ تصور کیا جائے گا اور مرکز حکومت یا دار الخلافہ میں موجود ارباب حل وعقد جس حکمران کے انتخاب پر متفق ہو جائیں، اس کی اطاعت اس سلطنت کے دائرۂ اختیار اور زمینی حدود میں بسنے والے مسلمانوں پر لازم ہو جائے گی۔ اس اصول کو مذکورہ قید سے آزاد کرتے ہوئے علی الاطلاق بیان کرنا نہ تو عقل عام کی رو سے درست ہے اور نہ یہ فقہاء کی مراد اور منشا کی صحیح ترجمانی ہوگی، کیونکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ خود مختار مسلم ریاستوں کے جواز کی نہ تو علماء وفقہاء نے عملاً کبھی نفی کی ہے اور نہ دو الگ الگ سلطنتوں کے سیاسی معاملات کو گڈ مڈ کرتے ہوئے ایک سلطنت کے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر دوسری سلطنت کے سیاسی معاملات میں مداخلت کو سند جواز دی ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں اب دیکھیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام اس وقت ساٹھ کے قریب الگ الگ اور خود مختار مسلم ریاستوں میں تقسیم ہے جن میں سے ہر ملک کے اپنے جغرافیائی حدود متعین ہیں اور ہر ملک کے باشندوں نے اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کا کوئی نہ کوئی نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ تمام مسلمان ملک باہمی معاہدات میں بندھے ہوئے ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے ارباب حل وعقد جو بھی فیصلے کرتے ہیں، ان کا تعلق اسی ملک کے معاملات سے ہوتا ہے اور کوئی بھی ملک اپنے سیاسی دائرۂ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرنے یا ان پر اپنے سیاسی فیصلوں کی پابندی لازم کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے اگر عراق اور شام کے بعض علاقوں میں کسی جماعت نے مفروضہ طور پر وہاں کے ارباب حل وعقد کے مشورے سے یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے، اسے بالفرض ایک جائز حکومت تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کا قانونی جواز اور دائرۂ اختیار اس علاقے تک محدود ہے جہاں اس نے بالفعل اپنی رِٹ قائم کر رکھی ہے۔ اس کی طرف سے یا اس کے وابستگان کی طرف سے عالم اسلام کے باقی مسلمانوں سے یہ مطالبہ کہ وہ اپنی اطاعت اسی کے ساتھ وابستہ کر لیں اور خاص طور پر یہ کہ ایسا کرنا ان کا شرعی اور دینی فریضہ ہے، کسی بھی شرعی یا قانونی یا اخلاقی اصول کی رو سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
عالم اسلام کی سیاسی وحدت اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کا راستہ یہ نہیں کہ موجودہ آزاد اور خود مختار مسلم حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے اور قدیم شہنشاہیت کے طریقے پر پورے عالم اسلام کو کسی ایک حکمران کے زیر حکمرانی متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاریخ وتہذیب کے ارتقا کے اس مرحلے پر ایسی کوششیں پتھر سے سر پھوڑنے کے مترادف تو ہوں گی ہی، اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں اتحاد واتفاق کے بجائے افتراق وانتشار اور باہمی خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا بھی اس سے بڑھ کر تیر بہدف نسخہ کوئی اور نہیں ہوگا۔