عاصم بخشی
کل مضامین:
7
حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن
گوئٹے کا المیہ ناٹک فاؤسٹ1 یوں تو بہت سے دل گرفتہ مناظر کی بُنت سے تخلیق کیا گیا ہے، لیکن گریچن کا قصہ یقیناً اس کا سب سے الم ناک منظر ہے۔ گریچن ایک ایسا معصوم، مخلص اور دلچسپ کردار ہےجو ایک چھوٹی سی محفوظ اور بند مذہبی دنیا سے نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہی ننھی سی دنیا ہے جس میں کبھی فاؤسٹ پلا بڑھا تھا لیکن وہ کب کا اسے کھو بیٹھا ہے۔اب وہ اس کا رخ محض ایک ایسے ناظر کی حیثیت سے کرتا ہے جسے اس پر تبصرہ و تنقید مقصود ہے۔ گریچن کی کہانی بنیادی طور پر لاحاصل محبت کے کرب کی کہانی ہے۔اس کا نسوانی حسن دراصل اس روایتی دنیا کا علامتی حسن ہے جس کی...
ہجرت رسول ﷺ کا بشریاتی مطالعہ
(میاں انعام الرحمٰن کی کتاب ’’سفر ِجمال‘‘ پر ایک تبصرہ) کیا اسلام کا ایک خالص معروضی مطالعہ ممکن ہے1؟ یعنی ویسی ہی معروضیت جو مغربی درس گاہی نظام یعنی ’اکیڈمی‘ میں یہودیت اور عیسائیت کا وہ مطالعہ ممکن بناتی ہے جس کی رو سے ان دونوں کی تعریف ایسے ’مذاہب‘ کے طور پر کی جاتی ہے جن کے ماننے والے خود کو یہودی یا عیسائی کہتے ہیں۔درس گاہی تناظر کی اس تنصیب کے بعد مذہب اور کلچر ایک ہی سکّے کے دو رخ بن جاتے ہیں۔ یہودیت یا عیسائیت کے معنی کم وبیش یہودی اور عیسائی ثقافت واقدار اور عقائد و اعمال کا مجموعہ ٹھہرتے ہیں۔ دوسری طرف روایتی مطالعۂ...
نئی زمینوں کی تلاش
(فلسفہ سائنس، سماجیات اور چارلس پرس کے منتخب مقالات کے اردو ترجمہ ’’نئی زمینوں کی تلاش’’ کا پیش لفظ)۔ مترجم کے تناظر سےترجمہ چاہے ادبی ہو یا تکنیکی دونوں صورتوں میں لازماًقرأتِ متن، تفہیمِ متن اور شرحِ متن کی ایک سہ جہتی سرگرمی ہوتا ہے۔ پہلی جہت ایک زبان کے طرزِ کلام کی دوسری زبان میں منتقلی، دوسری جہت متن کی مخصوص معنوی صورتوں کی مترجم کے پردۂ ذہن پر منتقلی اور تیسری جہت مترجم کی ان صورتوں میں ترجیح و انتخاب سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن یہ تینوں جہتیں ترجمے کے دوران نہ صرف گڈ مڈ ہو جاتی ہیں بلکہ پس منظر میں اتنی مبہم ہو جاتی ہیں کہ عام...
اسلامی ریاست کا خواب: کچھ جدید مباحث
(طلال اسد کے اپنے والد کے ساتھ مکالمے کی روشنی میں)۔ میدانِ صحافت میں روایتی مذہب پسند دوستوں کی رائج تعریفات کے مطابق دایاں بازو مملکت خداداد کو ایک اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتا ہے جبکہ بایاں بازو سیکولرازم کا پرچارک ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر یہاں ایک طرف سے اسلامی فلاحی ریاست کی تعریف پر سوال اٹھتے ہیں تو دوسری طرف سیکولرازم کی تعریف و تعبیر اور اطلاق پر سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں جو حضرات کسی بھی نظریاتی گروہ کو ایک ٹھوس اکائی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہیں درمیان میں ڈولتے رہنے کا نظریہ اپناتے ہوئے کچھ بنیادی اصولوں پر سمجھوتے کے...
مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دوقسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس سے جہاد کا فریضہ انجام دے...
روایتی مسلم ذہن میں مسئلہ الحاد کی غلط تفہیم
روایتی مسلم ذہن میں موجود سماج کا تصور چونکہ الہامی روایت کی مختلف تعبیرات سے معاشرتی معیارات اخذ کرتا ہے، لہٰذا ایسے غیرمذہبی ذہن کو بھی الحادی یا ’ نیم الحادی‘ گردانتا ہے جس کے لیے الہامی روایت سماجیات کی ذیل میں اپنے اندر کوئی نظری یا عملی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر تاریخی تناظر میں مسلم سماج کے حال پر ایک نظر ڈالی جائے تو اٹھارویں صدی کے یورپ کی تنویری یا روشن خیال تحریک کی ایک سطحی سی جھلک نظر آتی ہے۔ سطحی اس لئے کہ چاہے بنگلہ دیش میں اپنے شدت پسند مذہبی حریفوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ’فری تھنکر‘ انٹرنیٹ ادیب اور کالم نگار ہوں یا پاکستانی...
قرآنی مطالبہ تدبر کائنات: حقیقت مطلق تک رسائی کا عالمگیر مذہبی تجربہ یا ایک ناقابل ابلاغ سری کیفیت پر اصرار؟
اگر کسی اہم سوال پر مبنی مضمون کا مقدمہ عقل و شعور کو اپنا مخاطب بنانے کی بجائے مناظرانہ اسلوب میں کیے گئے ان دعوؤں سے شروع ہو کہ بات تو نہایت واضح ہے مگر چوں کہ یہ سائنسی علمیت کا شکار نام نہاد دانشور عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو صراط مستقیم سے بھٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں قلم اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ مکالمہ کی موت ہے اور علمی تنقیدکا کیاکہیے کہ وہ توشاید مکالمہ سے کہیں آگے کا مرحلہ ہے۔ یہ تھا وہ فوری احساس جو مولانا عبداللہ شارق کا مضمون ’’تدبر کائنات کے قرآنی فضائل: روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی‘‘ پڑھ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ مگر یہ تسلیم...
1-7 (7) |