مکاتیب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشریعہ، فروری ۲۰۱۵ء کے مکاتیب میری جنوری ۲۰۱۵ء کے الشریعہ میں شائع ہونے والی گزارشات پر احبابِ گرامی کے شکوے پر مشتمل ہیں۔ سو میرا حق یا فرض ہے کہ اس ضمن میں ضروری وضاحت کروں۔ سنبھلی صاحب نے جناب مولانا زاہدالراشدی سے دو وضاحتی جملے شائع نہ کرنے کا گلہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں شاید انہی جملوں کا نہ ہونا میری تحریر کا محرک تھا، حالانکہ میں نے ان کے الفاظ، جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح تھے، نقل کرکے اپنا موقف پیش کیا تھا۔ بہرحال ان کے انتہائی مختصر تازہ ارشادات پرمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ انہوں نے اپنے من جملہ اربابِ مدارس ہونے کو میرا بے جا مفروضہ قرار دے کر زیر بحث تناظر میں کم از کم اربابِ مدارس سے متعلق میرے گلے کو ( جو مولانا زاہد الراشدی کے مکرر اور بہ کثرت حوالہ جات پر مبنی تھا) درست ثابت کر دیا ہے۔ 

محمد رشید صاحب نے البتہ میری گزارشات پر اپنے ارشادات ذرا تفصیل سے پیش کیے ہیں۔ اس لیے میری وضاحت زیادہ تر انہی سے متعلق ہے۔ رشید صاحب نے میری معروضات کی بنیاد پر بات پر کرنے کی بجائے میرے بعض عمومی تاثرات کو بھی سنبھلی صاحب کی ذات پر طعن وتشنیع سمجھ لیا ہے (کہ سنبھلی صاحب اگر من جملہ اربابِ مدارس نہیں تووہ میری بہت سی باتوں کے مخاطب ہی نہیں تھے)۔ انہوں نے مجھے ایسی ضمنی بحث پر مطعون کیا ہے جس پر میں نے نفیاً یا اثباتاً اپنی کوئی رائے پیش ہی نہیں کی تھی۔ 

محمد رشید صاحب نے سارا زور لونڈیوں کے معاملے میں میرے اوج صاحب کے پیش کردہ موقف کو رد کرنے پر لگایا ہے، حالانکہ مجھے بحث براہِ راست اس سے نہ تھی بلکہ اس سے تھی کہ کیا کسی صاحبِ علم کا کوئی علمی تفرد اسے اس درجہ ناقابلِ اعتنا ٹھہرا دیتا ہے کہ اس کے قتلِ ناحق پر دو حرفِ تعزیت بھی گوارا نہ کیے جائیں؟ وہ اپنے علم وفضل، داد تحقیق کے باوجود ایسی موت پر بھی ناقابل توجہ ٹھہرے جس پر بڑے عامی اور ان پڑھ بھی قابل توجہ ہو جاتے ہیں؟ رشید صاحب پریشان ہیں کہ میں لونڈیوں کے معاملے پر اپنے موقف میں تضاد کا شکار ہوں ، حالانکہ میں نے اس باب میں اپنا کوئی موقف عرض ہی نہیں کیا تھا ، بلکہ اوج صاحب کا موقف اس گزارش کے سا تھ پیش کیا تھا کہ وہ اس کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھتے اور ان سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا اسے ناقابلِ توجہ ٹھہرانے کی بجائے پوری توجہ سے سنا جانا چاہیے، خواہ اس کو رد ہی کرنا مطلوب ہو۔ پھر اگر ناقابلِ توجہ ہی ٹھہرانا ہو تو پوری شخصیت کے بجائے اس ایک خاص موقف کو بھی ٹھہرانے سے کام چل سکتا ہے۔

راقم کو تو مکتوب نگار نے جذباتی تحریر پیش کرنے کا طعنہ دیا ہے مگر خودتحریر کی بجائے صرف جذبات پیش کیے ہیں۔ آپ جذبات سے اتنے مغلوب ہیں کہ الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم  سے سنبھلی صاحب کے استدلال کو یوں محکم کہہ رہے ہیں گویا کوئی محکم آیت قرآنی ہو۔ میں نے تو اوج صاحب کے استدلال کو ان کے استدلال ہی کے طور پر پیش کیا تھا اور اس کو اپنی رائے قرار نہیں دیا تھا (میری اس حوالے سے رائے اگلی سطور میں سامنے آجائے گی) اس لیے یہ میرے ذمے ہی نہیں تھا کہ میں اوج صاحب کے موقف کے حق میں دلائل پیش کرتا۔ ہاں، رشید صاحب چونکہ سنبھلی صاحب کی وکالت کر رہے ہیں، اس لیے یہ ان کا فرض تھا کہ اوج صاحب کے استدلال کا اپنی طرف سے کوئی جواب پیش کرتے ۔ یہ کہنا تو کوئی جواب نہیں کہ ’’سنبھلی صاحب نے قرآن حکیم کی آیت سے محکم استدلال کرتے ہوئے اوج صاحب کا رد فرمایا۔‘‘ نہ یہ کوئی جواب ہے کہ سنبھلی صاحب نے کہا ہے کہ یہ ’’قرآن حکیم کی آیت کا امر منصوص ہے۔‘‘ بہت سے مدعی اپنے ایک دوسرے سے متضاد دعووں کو امر منصوص پر استوار کہتے آرہے ہیں۔ پھر اگر یہی جواب ہے تو سنبھلی صاحب کی جانب سے آچکا، آپ کو اس پر گرہ لگانے کی کیا پڑی تھی ! چار پانچ صفحات پر پھیلی آپ کی گرمئ جذبات اس کے سو اکچھ ہے بھی کہ تم فضول اور جاہلانہ باتیں کیے جا رہے ہو، بھلا زیر بحث مو ضوع پر مولانا سنبھلی کی دلیل کے علاوہ بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے یا اس ضمن میں کوئی ایسی رائے بھی پیش کی جا سکتی ہے جو آپ کی رائے سے مختلف ہو!

رشید صاحب کے مطابق یہ راقم کی تضاد بیانی ہے کہ وہ ایک طرف اوج صاحب کے موقف کو ناقابلِ توجہ نہیں سمجھتا اور دوسری طرف کہتا ہے کہ اس سے اختلاف کیا جا سکتا اوراسے دلائل کی بنا پر رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ گویا کوئی موقف قابلِ توجہ صرف اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جب آپ اس سے کامل اتفاق رکھتے ہوں اور اس سے اختلاف کا مطلب یہ ہے کے آپ اس کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہمارے اہلِ مذہب میں اس وجہ سے در آیا ہے کہ ہمارے نزدیک دین ہر معاملے میں ہمیں کوئی بلیک اینڈ وائٹ قسم کا حکم دیتا، ہر چیز کے حلال وحرام ہونے سے متعلق چٹ فراہم کرتا، زمانے کے تغیرات کو ناقابل اعتنا سمجھتا ہے۔ حالانکہ دین کا معا ملہ اس کے بر عکس ہے۔ اس کے نزدیک اپنے آج کے جذباتی پیروکاروں کی مانند رنگ صرف دو ( سیاہ یا سفید) ہی نہیں بلکہ اس کی بہت سی قسمیں اور شیڈ ہیں۔ مختلف انواع کے رنگوں کی یہ کہکشاں ہی اسلام کا حسن ہے۔وہ میچنگ کی ضروریات اور تقاضوں کے پیش نظر مختلف اور پیارے پیارے شیڈ نکا ل لیتا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ ان رنگوں کے انتخاب اور اپنی زندگی اور معاشروں کو ان رنگوں سے سجانے سے گریزاں ہیں۔

ہم بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کا خاتمہ کیا یا کم ازکم اس کے خاتمے کی راہ ہموار کی اور یہ حقیقت ہے۔ جو مذہب مالکوں کو حکم دیتا ہو اور یہ عملی اہتمام کرتا ہو کہ اس کے ماننے والے اپنے غلا موں کو اپنے بھائی سمجھیں ، جو خود کھائیں ان کو بھی کھلائیں، جو خود پہنیں ان کو بھی پہنائیں،اگر میرٹ کی بنیاد پر کوئی نکٹا حبشی غلام سربراہِ مملکت بن جائے، اس کی اطاعت کریں، اس کے ہاں غلامی کب تک جاری رہ سکتی ہے اور اگر رہ بھی جائے تو آزادی سے کتنی مختلف ہو سکتی ہے! چنانچہ مسلمانوں میں غلاموں اور ان کی نسلوں کوآقا بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اسلام سے اگر غلامی کی اس کی قدیم روح کے مطابق حوصلہ شکنی ہوتی ہے تو عورتوں کو اْسی طرح بھیڑ بکریوں کی طرح لونڈیاں بنا کر رکھنے کی کب اور کہاں حوصلہ افزائی ہوتی ہے! سو لونڈیوں کا سوال اس حوالے سے بھی تو قابل توجہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو غلام بنا بنا کے رکھنا اسلام کی روح کے مطابق نہیں تو عورتوں کو لونڈیاں بنا بنا کے رکھنا اسلام کی روح کے کیونکر موافق ہو سکتا ہے! اگر لونڈیوں کے بالکلیہ خاتمے کا نہیں تو یہ کریڈٹ تو ہم لے ہی سکتے ہیں کہ اسلام نے رفتہ رفتہ اس کی راہ ہموار کی۔ لیکن کیا کریں کہ مرد غلام نہ بھی ہوں تو ہمارا کام چل سکتا ہے، مگر عورتوں کی ’’آزادی‘‘ ہمیں گوارا نہیں۔

آپ کا خیال ہو سکتا ہے کہ ہم کب کہتے ہیں: ابھی تک لونڈیوں کا رواج ہے۔ اسلام آج کے حالات میں کب لونڈیاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ تو پرانے زمانے کی ضروریات کے مطابق تھا ۔ آئندہ جب اس طرح کے حالات پیدا ہو جائیں کہ غلاموں اور لونڈیوں کا رواج ہو جائے یا بین الاقوامی قوانین میں اس صورت کو تسلیم کر لیا جائے تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ اسی دور میں اور انہی حالات میں ذرا عرب شیوخ کے ہاں دیکھیے۔ آپ کو مطلق احساس نہ ہو گا کہ لونڈیوں کا معاملہ قصہ پارینہ ہے۔ انواع و اقسام کی اور لا تعداد لونڈیاں موجود ہیں۔ جو ذرا ’’محتاط‘‘ ہیں اور لونڈیوں سے تھوڑا جھجکتے ہیں، انہوں نے خادماؤں کو لو نڈیوں کے تمام ’’حقوق‘‘ فراہم کر دیے ہیں۔ پرانے زمانے میں بیویاں اور لونڈیاں اپنے شوہروں اور مالکوں کے گھروں میں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔اب وہ جہاں اور جس علاقے اور ملک میں چاہیں، رہ سکتی ہیں۔بس اتنی شرط رکھی جاتی ہے کی شیخ صاحب جب اس ملک میں جائیں، وہ ان کی خدمت کے لیے موجود ہوں۔

اگر روح اور حقیقی تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر صرف ظاہری احکام کے مطابق عمل ہی اسلام کا مطالبہ ہے تو پھر مثال کے طور پر متعہ کیوں حرام ہے! کیا متعہ میں عورت سے نکاح نہیں ہوتا، اسے اس کا حق مہر نہیں دیا جاتا اور پھر اسے طلاق دے کر الگ نہیں کیا جاتا؟ سب کچھ ہوتا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اسلام کی یہ روح متاثر ہوتی ہے کہ وہ میاں بیوی کے تعلق کو محض جنسی تسکین کے ذریعے کے طور پر ہر گز نہیں لیتا، بلکہ اس سے ایک خوبصورت خاندان تشکیل کرنا چاہتا ہے اور وہ اس نوع کے عارضی اور ہوس پرستانہ تعلقات کی بنا پر تشکیل نہیں پا سکتا۔ لیکن لگتا ہے ہم متعہ کے خلاف زور آزمائی اس لیے کرتے ہیں کہ شیعوں کے ہاں اس کا جواز موجود ہے۔ ورنہ صنفی تعلقات کے لیے ہر اس طریقے پر معترض ہو نا چاہیے جو اپنے اندر متعہ کی خصوصیات رکھتا اور والدین اور اولاد کی قربت و محبت کے تعلق کو متاثر کرتا ہے۔ یہ جو عرب شیوخ میں دھڑا دھڑ نکاحِ مسیار ہو رہے ہیں اور ایک ایک شیخ کی بیس بیس تیس تیس شادیاں ہوتی ہیں، کیا اسلام کے مقاصد نکاح سے میل کھاتی ہیں؟ بات بات پر فتوے جاری کرنے والے اور اسلام کے بزعم خویش سب سے بڑے محب کبھی اسلام پر ہونے والے اس ستم پر حرکت میں آتے نہیں دیکھے جاتے کہ شیخ صاحب اہلِ کتاب اور کافروں کی عورتیں خریدخرید کر لونڈیوں کے طور پر رکھتے ہیں،نئی شادی کرنے کے لیے چار میں سے ایک عورت کو طلاق دے دیتے ہیں اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے تا دم مرگ جاری رہتا ہے۔ کوئی بتائے تو بلا کسی شرعی جواز کے آزاد خواتین کو اغوا کرا کے یا ان کے مجبورو مقہور وارثوں سے خرید کر لونڈیاں بنا کے رکھنا،دوسرے ملکوں میں حرم بنانا اور طلاق کی نیت سے نکاح کرنا متعہ سے کتنا مختلف اور اسلام کی روح کے کتنا موافق ہے!کیا متعہ یہاں دوسرے عنوانات سے حلال نہیں ہو گیا، اور اہل تشیع اگر یوں کہیں تو کیا غلط ہو گا کہ

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی

مگر افسوس اپنے ان محبانِ اسلام میں ڈالروں ، ریالوں ،دیناروں کی قدر اسلام کی روح اور سچ سے زیادہ ہے۔ میں نے ایک بڑے معروف عالم دین اور استاد کے حضور ایک شیخ کی ان گنت بیویوں کا ذکر کیا توتڑخ کر بولے: یہ ان سے متعلق اس طرح کی باتیں کرنے والے حقیقت سے ناواقف ہیں۔ وہ لوگ ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرتے، پہلی بیویوں کو طلاق دے کر ایسا کرتے ہیں۔ گویا طلاق طلاق کا یہ کھیل اور آدمی کا درجنوں شادیاں کرنا اسلام کی رو سے قابل گرفت ہی نہیں۔

آپ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ شیوخِ عرب کی حرکتوں کے ہم ذمہ دار نہیں۔ جب آپ غلام اور لونڈی رکھنے کو اسلام کی کوئی ابدی ومستمر خواہش اور تقاضا باور کرانے پر تلے ہوں تو آپ کو شیوخِ عرب کو فائدہ پہنچانے والے نہ سمجھا جائے تو کیا کیا جائے۔ وہ باقاعدہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ پیسوں سے حاصل کی گئی لڑکیاں اور اہل کتاب کی زرخرید عورتیں باندیوں کے حکم میں ہیں۔ آپ ذرا ان کو سمجھا کر دکھائیں کہ زبردست اور مالدار بلا کسی شرعی جواز کے زیر دستوں اور غریبوں کی لڑکیاں خرید کر رکھ لیں تو وہ باندیوں کے حکم میں نہیں کہ یہ نہ کافروں سے شرعی جہاد میں قبضے میں آئیں نہ مجازمسلم سالار و حاکم نے انہیں ان کے حوالے کیا۔

کیا ہم نے کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ غلام اور لونڈیوں کا تصور اور سلسلہ فی الاصل اسلام کے مزاج کے خلاف ہے؟ اسلام اس کو شروع کرنے کا ذمہ دار ہے نہ جاری رکھنے کا۔ اس میں کہیں بھی لوگوں کو غلام لونڈی بنانے کا حکم مذکور ہے اور نہ اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے، بلکہ الٹااسے ناپسند کیا گیا ہے۔ خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن عمرو کے ایک قبطی مصری کو نا حق کوڑے لگوانے پر اسے بدلہ دلواتے ہوئے کہا تھا: مذ کم تعبدتم الناس و قد ولدتھم امھاتھم احرارا  (فتوح مصرلابن عبدالحکیم،ربیع الابرارللزمخشری،اخبار عمر لابن الجوزی) پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تو آئے ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں خداے واحد کا غلام بنانے تھے۔ ویضع عنھم اصر ھم والاغلال التی کانت علیھم۔ اسلام نے پہلے سے موجود سلسلہ غلامی کی تدریجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیااور اس کے فوری خاتمے کو خلافِ حکمت و مصلحت سمجھتے ہوئے ایسے بے بہا اقدامات کر دیے گئے کہ کچھ عرصے میں انسانیت کے خلاف اس جرم کا ارتکاب ختم ہو جائے۔ (جی ہاں جرم !) بخاری کی روایت میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تین لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جن سے آپ قیامت کے روز جھگڑا کریں گے، ایک اس آدمی کا تذکرہ فرمایا جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی: رجل باع حرا فاکل ثمنہ۔ کیا آج عربوں اور بعض دوسری مسلم اقوام میں آزاد انسانوں کو خریدنے بیچنے کا کاروبار نہیں ہو رہا؟ یہ غلاموں اور لونڈیوں سے حالات کے تناظر میں ڈیل کے اسلامی تصور کو ہر قسم کے حالات تک ممتد کرنے کی ذہنیت کا شاخسانہ نہیں تو کیا ہے!

آپ اپنی خود ساختہ غیرت اور عفت و حیاکی بنا پر حضور کے طرزِ عمل سے یکسر مختلف طرز عمل اختیار کرتے ہوئے مثلاً یہ کر سکتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روک دیں، اس پر مکروہ ،حرام وغیرہ کے فتوے لگا دیں، اور اسے سدِّ ذریعہ کے اصول کے موافق قرار دیں۔لیکن کوئی خاندان کے ادارے کو اسلام کی روح کے موافق بنانے کی کوشش کرے، ان گنت اور طلاق دے دے کرشادیاں کرنے کے غیر اسلامی اور بیہودہ رویے پر آواز اٹھائے، لونڈیوں کے خیال کو عارضی طور پر ہی سہی بالائے طاق رکھنے کی بات کرے تو سدِّ ذریعہ کا اصول نہ معلوم کہاں غائب ہو جاتا ہے۔کیا السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما  چور کا ہاتھ کاٹنے میں زیادہ صریح ہے یا الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم  لونڈیوں کے سلسلے کو ہر زمانے اور تاقیامت چلانے میں زیادہ صریح؟ اگر ضرورتِ وقت کے لحاظ سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ قطعِ ید کے صریح قرآنی حکم سے تمام زمانوں اور تمام حالات میں قطع ید کے لازم نہ ہونے کا استدلال کر سکتے ہیں تو لونڈیوں کے تمام زمانوں اور تمام حالات میں لازم ہونے کے خلاف استدلال کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

حضرت عمر کے لیے خاندان کے ادارے کی بقا اور اسے ٹوٹنے سے بچانا اتنا اہم تھا کہ انہوں نے طلاقوں کو روکنے کے لیے ایک وقت کی تین طلاقوں کو پوری طلاق ٹھہرا دیا تھا۔ لیکن ہمارے سدِّ ذریعہ والے اسے وہاں تو نافذ کرنے کو تیار ہیں جہاں علیحدگی کی حقیقی وجوہات موجود ہوں (مثلاً پاکستان ایسے معاشرے کے غریب عوام میں جہاں عیاشی کے لیے پہلی بیویوں سے علیحدہ ہو کر مزید شادیاں کرنے کی صورت کم ہی ہوتی ہے) لیکن وہاں رائج کرنے کے لیے پر عزم دکھائی نہیں دیتے جہاں محض شادی پہ شادی کرنے کے لیے طلاق پہ طلاق دی جاتی ہے۔آپ کو لونڈیوں کے قصہ پارینہ ہو جانے کی فکر ہے، اسلام تو اس سے بھی ابا نہیں کرتا کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی شادیوں کی ایک حد مقرر کر دے، دوسری بیوی کے لیے پہلی بیوی اور اس کے والدین کے جذبات کا لحاظ رکھنے، دوسری شادی کے لیے کوئی معقول وجہ جواز پیش کرنے کی شرط لگا دے۔آخر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں کسی دوسری عورت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں نہ آنے میں اس بات کو بہت دخل تھا نا کہ اس سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے والدِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچے گی۔شادی برائے تسکینِ جذبہ جنس والوں نے کبھی سوچا یا اربابِ فتویٰ نے کبھی ان کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی شادی ایسی نہ تھی جو جذبہ جنس سے مغلوب ہو کر کی گئی ہو اور جس کی کوئی حقیقی وجہ جواز نہ ہو؟

قرآن و حدیث میں لونڈیوں سے نکاح کی واضح ترغیب اور حوصلہ افزائی ملتی ہے۔قرآن کہتا ہے: 

وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ، بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ، فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَھْلِھِنَّ وَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔ (النساء ۴:۲۵) 
’’تم میں سے جو مومن آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ ان مومن لونڈ یوں سے نکاح کرلے جو تمہارے قبضے میں آئیں۔ اللہ تمہارے ایمان کو جانتا ہے۔ تم ایک دوسرے سے ہو، تو ان لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور انہیں دستور کے مطابق ان کا مہر دو۔‘‘

اس ایک آیت میں دو بار لونڈیوں سے نکاح کا ذکر اور ترغیب ہے۔اس سے پہلی آیت میں بھی نکاح کے لیے حلال عورتوں میں لونڈیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے والے کو دہرے اجر کا مستحق قرار دیا۔ آپ کا فرمان ہے: من کانت لہ جاریۃ فعالھا، فاحسن الیھا ثم اعتقھا وتزوجھا، کان لہ اجران۔ (بخاری) ’’جس کی کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے اور پھر اسے آزاد کرے اور اس سے نکاح کر لے، اس کے لیے دہرا اجر ہے‘‘ یہ اور اس نوع کی دیگر بہت سی نصوص بالکل صریح ہیں کہ اسلام لونڈیوں کو لونڈیوں کے سٹیٹس سے اٹھا کر عام آزاد عورتوں کا سٹیٹس دینا چاہتا ہے اور اس بات کا خواہشمند ہے کہ اہل اسلام انہیں بیویوں کا درجہ دیں۔ ہم کو ہو تو ہو، اسلام کو قطعاً اندیشہ نہیں کہ نکاح کے باوجود (اور وہ بھی متعدد شادیوں کی اجازت کے ساتھ ) لونڈیاں رکھے بغیر دین کا کوئی ’’ تقاضا اور حکمت‘‘ فوت ہو جائے گی۔

بات ختم کرتے ہیں، سنجیدگی سے نکلیے اور ذرا مسکرا لیجیے:اسلام کو فکر لاحق تھی کہ لوگ کہیں ہمیشہ لونڈیاں اور غلام ہی نہ بنے رہیں، آزاد ہو جائیں اور ہم اس فکر میں گھلے جا رہے ہیں کہ لونڈیاں کہیں معدوم نہ ہو جائیں۔ 

ڈاکٹر محمد شہباز منج

شعبہ علوم اسلامیہ

سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا

drshahbazuos@hotmail.com

مکاتیب

(مارچ ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter