اب سے کوئی سات دہائی پہلے لبنان کے ایک مسلمان ادیب اورمصنف امیرشکیب ارسلان نے ایک مختصرسی کتاب لکھی تھی : لماذاتأخرالمسلمون وتقدم غیرہم (مسلمانوں کے زوال اوردوسروں کے عروج کے اسباب)۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سوال آج تک مسلمانان عالم کے تعاقب میں ہے اوران کے پڑھے لکھے حلقہ کے زیرغور ہے مگراس کے جوابات جو مختلف علماء نے دیے ہیں، ان میں جواب کم اور مزیدسوال زیادہ کھڑے ہوتے ہیں۔ راشد شازنے اس مسئلہ کو بہت گہرائی سے لیاہے اوران کی اکثر تحریروں میں یہ تجزیہ راہ پاجاتاہے۔ راشدشاز ہمارے زمانہ کے ایک عہدساز مفکرومصنف ہیں۔ عربی ،انگریزی اوراردومیں ان کی متعددفکرانگیزکتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ فقہ ظاہر (فقہ ) اور فقہ باطن (تصوف)،روایت پرستی، ملوکیت ،مشائخیت اور استبدادفکر کے حجابات میں حقیقتِ اسلام کچھ چھپ سی گئی ہے کہ اس کی تہ بہ تہ گردکوجھاڑنے اوراس کی بازیافت کے عمل میں پوری پوری زندگیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تفصیل سے ان اسباب کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جن کے باعث اسلام وقت کی غالب تہذیب بن گیا اورپھریہ کہ وہ کیااسباب وعوامل ہیں جن کے باعث آج امت مسلمہ یوں لگتاہے جیسے معزول ہوکررہ گئی ہو۔
راشدشاز کی تازہ بتازہ کتاب اسی ضرورت کوپوراکرتی ہے۔کتاب العروج کو بجاطورپر تہذیب کے قرآنی سفرکا ایک چشم کشاتذکرہ قراردیاجاسکتاہے ۔ یہ کتاب محض ایک تاریخی بیانیہ نہیں، گواس میں ایک عظیم تاریخ کا پورالوازمہ موجودہے۔ اس کے پہلے باب میں مصنف نے بیان کیاہے کہ الٰہی تصورحیات کے جلومیں جو تحریک اکتشاف قرآن کے دیے ہوئے علمی منہج سے برپاہوئی ،جووحی ربانی اورانفس وآفاق میں غوروفکرسے عبارت تھا، اس نے انسانی ذہن کو استقرائی طریقہ نکال کراسے استخراجی منہج سے آشنا کیااورانسانی عقل کوتجربہ ومشاہدہ اورتحلیل وتجزیہ کی راہ پر ڈال دیاجس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے روم اورہندویونان کے قدیم علوم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ یوں کہیے کہ انسانی تہذیب کی کل جمع پونجی تحلیل وتجزیہ کی میز پر لے آئی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کا وسیع وعریض خطہ اکتشافی تمدن کی ضیا باریوں سے جگمگا اٹھا ۔
الکندی ،ابن سینا، ابوبکر زکریا رازی ،ابن الہیثم ،عباس بن فرناس ،الخوارزمی ،جابربن حیان ،البتانی ،ابوریحان البیرونی،ابن رشد،ابن نفیس، نصیر الدین طوسی ،قطب الدین شیرازی ،ابوعبیدالجوزجانی ،عبدالرحمن ،الخازنی ،کمال الدین الفارسی ،ابوالقاسم الزہراوی ،یحییٰ المغربی، جمشید الکاش، ابوالحسن الطبری، یاقوت الحموی، ابن جبیر، ابن بطوطہ، ابن خلدون، عمرخیام، قاضی زادہ الرومی، ابن شاطر، محمدعلی السمرقندی، ابوجعفرالبطروجی، ابن الجزری، شریف الادریسی، ابن العوام ،ابن بطلان ،ابن مسکویہ اور تقی الدین اوران جیسے سیکڑوں علماء،دانشور،تحقیق کاراوراساطین اسلامی تہذیب کے نمائندے تھے کہ آج کی ساری سائنسی ترقی اورچمک دمک جن کی کاوشوں کی رہین منت ہے۔ ان میں سے کتنے تھے جوقرآن وحدیث اورفقہ جیسے علوم کے بھی ماہرتھے کہ تب علم دین اورعلم دنیاکی ثنویت قائم نہ ہوئی تھی اور یہ علماء علمِ دنیابھی دینی جزبہ اورضرورت کے تحت ہی حاصل کرتے تھے۔غیروں کو توچھوڑیے، آج خودمسلمانوں کی نئی نسلیں بھی ان کے نام اورکام سے واقف نہیں ۔ ان اصحاب علم وفکرواختراع کے کتنے ہی کارنامے تومغربی علماء وسائنس دانوں کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام اورسائنس میں دنیاکو تضادنظرآتاہے کہ ر وایتی علماء اسلام کے اجارہ دار بن کررہ گئے ہیں۔ راشدشازلکھتے ہیں:
’’آج کسے اس با ت پر یقین آئے گاکہ تہذیب کا سائنسی قالب جس کے دم سے جدیددنیاکی چمک دمک قائم ہے، ہمارے اکتشافی طرزفکرکی پیداوارہے جس کی جڑیں کہیں اورنہیں بلکہ عین وحی ربانی کے صفحات میں پائی جاتی ہیں‘‘ (صفحہ ۱۱)
اس باب کے اخیر میں مصنف نے ان تما م اسباب کا احاطہ بھی کیاہے جن کے سبب اکتشافی ذہن نے عالم اسلام سے مراجعت کرلی اور اساطیری ذہن اس پرمسلط ہوگیا،جس کا نقطہ عروج یہ تھا کہ جب 1580میں استنبول کے اندرتقی الدین کی بنائی ہوئی رصدگاہ جامدعلماء کے زیر اثر خودمسلمانوں نے مسمارکردی اورر اس کے کچھ دنوں بعد 1675 میں برطانیہ میں گرین وچ کے ٹیلہ پر رصدقائم ہوئی توگویااس بات کا اشارہ تھی کہ اب وقت کی زمام مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلاچاہتی ہے۔ اوریوں تحریک اکتشاف مغرب کومنتقل ہوگئی ۔
کتاب کے دوسرے حصہ میں مصنف نے اکتشافی تحریک کی عالم اسلام سے مغرب کو ہجرت اوراس کے اسباب ومحرکات پر روشنی ڈالی ہے ۔قرطبہ وطلیطلہ ،استنبول وصقلیہ کے ذریعہ عرب علوم کے وسیع پیمانہ پر ترجموں نے یورپ والوں کے آگے علم وآگہی اوراکتشاف واختراع کی ایک نئی دنیاکے دروازے واکردیے اوریوں سولہویں وسترہویں صدیوں میں پورامغرب علوم عرب کے سہارے ایک نئی دنیاکی تعمیرمیں جوش وخروش سے لگ گیا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب عالم اسلام رجعت قہقریٰ کے باعث اساطیری اورمتصوفانہ طرزفکرکا اسیرہوچکاتھا اورتحریک اکتشاف کے غلغلے ماندپڑچکے تھے۔ وہ علمی وفنی زوال کے ساتھ اقتصادی ابتری کابھی شکار ہوگیا اور بالآخراٹھارویں صدی کے آتے آتے اس کی سیاسی وعسکری قوت بھی ڈانواڈول ہوچکی تھی۔ اب مغرب نئی ٹیکنالوجی سے سرشارہوکرمسلم دنیاکو یکے بعددیگرے تہ وبالاکرنے لگا اور انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک وہ مسلم دنیاکے حصے بخرے کرچکاتھا۔ کتاب میں مصنف نے بڑی جامعیت سے نہ صرف اسلامی تہذیب کے محیرالعقول کارناموں کو قاری کے سامنے مجسم کردیاہے بلکہ اسلامی تہذیب اورتاریخ اسلام سے متعلق مغرب کے پھیلائے ہوئے بعض مغالطوں اورکذب بیانیوں کا ناقدانہ جائزہ بھی لیاہے۔
کہاجاتاہے کہ چوتھی صدی ہجری کے بعدمسلمان ہمہ جہتی زوال سے دوچار ہوچکے تھے، مگرحقیقت تویہ ہے کہ عثمانی ترکوں کی فوجیں تو 1782 میں ویاناکے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں اورتین تین اسلامی قوتوں مغل تہذیب ،صفوی ایران اورعثمانی ترکوں کا دبدبہ پوری دنیاپرقائم تھا۔یہ الگ حقیقت ہے کہ جب اساطیری ذہن مسلم فکرپر چھا گیا اور اکتشافی ذہن نے مات کھائی تومسلمانان عالم کے زوال کی رفتاربڑی تیز ترہوگئی۔ بہرحال مشرق (اسلام )کا سقوط اور مغرب کا عروج ابھی دو صدیوں قبل کا سانحہ ہے۔ نشأۃ ثانیہ ،تحریک اصلاح وغیرہ کی آڑ میں ۵،۶صدیوں سے چلے آرہے مغرب کے فکری اور پھر عملی عروج کی کہانی ایک اسطورہ سے زیادہ نہیں ہے۔اس اسطورہ کے پردے میں مغرب نے ترجمہ کے نام پر مسلمان علما ء کی کتابوں کے سرقے کیے ،ان کی تحقیقات کو اپنے علماء کی طرف بڑی دھاندلی سے منسوب کرلیااوریوں زوروشورسے مغربی ذہن کی برتری کا راگ الاپا گیااورمغرب کے علاوہ جو اقوام ہیں، ان کو دوسرے درجہ کے انسان بنادیا گیا ۔ یہ پروپیگنڈاکیاگیاکہ مسلمانوں نے اپنی ترجمہ کی تحریک میں دانش یونانی کے ترجمہ اورچربہ پیش کرنے کے سوااورکیاکیاہے ۔بڑے طمطراق سے دعویٰ کیاگیاکہ سائنس کواصل فروغ اہل مغرب نے دیاہے ۔ راشد شازلکھتے ہیں:
’’جب تک اکتشافی علوم کے لیے ’’العلوم العربیہ ‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، یہ تاثرعام تھا کہ سائنسی تہذیب کا عربوںیامسلمانوں سے رشتہ گہراہے البتہ جب اکتشافی علماء کے لیے سائنٹسٹ یاسائنس داں کی اصطلاح چل نکلی توہمارے لیے یہ یقین کرنامشکل ہوگیاکہ ہماری فکروتہذیب سے اس نئی مخلوق سائنٹسٹ کا بھی کبھی کوئی تعلق رہاہے‘‘۔ (صفحہ ۱۱)
کتاب العروج میں اس پوری بحث کو دل چسپ جامع اورمختصرانداز میں سمیٹ دیاگیاہے ۔کتا ب کے شروع میں ظہورنبوت محمدی کے نتیجہ میں ہمہ گیراسلامی انقلاب اوردنیاکے اوپراس کے خوشگورتہذیبی وتمدنی اثرات کو بیان کیاگیاہے۔ یہ بیان مختصرمگرجامع بھی ہے ۔ فکر انگیز اور انبساط بخشنے والاہے مگراس پرہیروورشپ کا ذرابھی گمان نہیں ہوتا۔ راشدشازکی ناقدانہ بصیرت قاری کو اس گمراہی میں پڑنے سے روکتی رہتی ہے اورطربناک ماضی کی جھلکیاں دکھانے کے ساتھ ہی وہ قدم قدم پر اس کواپنے تاریک حال اوراس کے اسباب سے روشناس کراتی اورکچوکے لگاتی رہتی ہے۔ ان کی رائے اس بارے میں یہ ہے:
’’قرآن مجیدتوآج بھی ہمارے درمیان موجودہے لیکن تقدیس وتکریم کے لبادے میں ہم نے اس کی معطلی کا پختہ انتظام کررکھاہے،ہمارے اردگردمذہبی زندگی کی بساط کچھ اس طرح سجائی گئی ہے کہ اس نے عملامذہب کے لبادے میں دین کی نفی اورقرآن کے انکارکا ماحول قائم کر رکھاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی زندگی کی چہل پہل اور تجدیدواصلاح کے فلک شگاف نعروں کے باوجودہم پر ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوتی ‘‘ ۔ (صفحہ ۲۱)
زیرنظر’’کتاب العروج ‘‘( ایک جلداوردوحصوں پر مشتمل ) کے پہلے باب میں راشدشاز نے ایک الہامی جملہ لکھاہے کہ ’’خداکا تجربہ اگر خلاقانہ ہوتووہ انسان کو تسخیر کائنات کے فریضہ پر آمادہ کرتاہے،اوراگرمقلدانہ ہوتوانسانی ذہن وجدنا آباء نا کذلک یفعلون کے پیداکردہ توہمات کا شکارہوجاتاہے اوریہی تجربہ اگرتکبروغرورکے آمیزہ سے تشکیل پائے توبغاوت وسرکشی کو جنم دیتاہے ‘‘۔ چنانچہ قرون اولیٰ کی مسلمان نسلوں کو اگرپہلے کی مثال میں پیش کیاجاسکتاہے تودورزوال کے مسلم معاشرے دوسرے رویہ کی نمائندگی کرتے ہیں اورآج کاترقی یافتہ لبرل مغرب ٹھیٹھ تیسرے رویہ کا ترجمان بناہواہے۔
کتاب اپنے بیش قیمت مندرجات کی طرح ظاہرحسن سے بھی آراستہ ہے اوراعلیٰ درجہ کی کتابت وطباعت سے مزین ہے۔ کتاب کا مصوراوررنگین ہونابھی قاری کے اندراعتمادپیداکرنے کا بڑاذریعہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ قارئین اس پوری کتاب کوسانس روکے اورمسلسل نشستوں میں پڑھتے چلے جائیں گے اورنئے نئے انکشافات اور تاریخی حقائق سے دوچارہوں گے ۔توقع ہے کہ کتا ب پڑھنے والوں کے دل میں جہاں امیدکی نئی جوت جگائے گی، وہیں ان کو انقلابی شعور اورولولہ انگیز نشاط وعمل کی کیفیت سے آشناکرے گی ۔
300سے زاید صفحات پر مشتمل یہ کتاب ملی پبلی کیشنز ملی ٹائمز بلڈنگ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگرنئی دہلی 110025 نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت پانچ سو روپے ہے۔