مرتب: عرفان احمد بھٹی / عبد الرؤف
اللہ تعالیٰ کا میرے اوپر یہ بڑا فضل رہا ہے کہ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ دینی اور علمی دونوں اعتبار سے ایک اچھا گھرانا تھا۔ میرے والد مرحوم علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سیاسی زندگی میں تحریک خلافت مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے لیے جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ والد محترم کے دینی، سیاسی اور ادبی شخصیات سے گہرے روابط تھے اور ایسے سربرآوردہ حضرات کا ہمارے ہاں آنا جانا تھا، اس لیے بچپن ہی میں دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی سے استفادے کا موقع ملا۔ بچوں کی ایک انجمن دلی میں تھی جس کا میں سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا۔ جامعہ ملیہ میں سپورٹس‘ مباحثوں اور بیت بازی میں شرکت کی۔ گھر کی فضا میں مجھے اقبال، حالی، غالب کے کلام کو پڑھنے کا موقع ملا۔ بیت بازی میں شرکت کرنے کے لیے سینکڑوں اشعار یاد کرنے کا موقع ملا۔ اس پہلو سے ایک ایسی فضا تھی جس سے مجھے اوائل عمر ہی سے علمی اور ادبی ذوق سے مناسبت پیدا ہوئی۔ اس وقت یہ ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ میں نے پہلی کتاب کون سی پڑھی، لیکن اس دور میں چونکہ اشعار بہت یاد کیے تھے، اس لیے ممکن ہے حالی کی مسدس اور اقبال کی بانگ درا بہت چھوٹی عمر میں پڑھی ہو اور اشعار بھی یاد کیے ہوں۔ باقاعدہ کتابی مطالعہ میں نے اپنے کالج کے دنوں میں شروع کیا، لیکن انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مجھے پرائمری اور سیکنڈری میں ہی لکھنے اور بولنے کا شوق پیدا ہوا۔ چناں چہ محمد علی ٹرافی نو یا دس سال کی عمر میں حاصل کی۔
جن لوگوں سے میں پہلے پہل متاثر ہوا، ان میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، جواہر لال نہرو، مولانا حسرت موہانی تھے اور اتفاق کی بات ہے کہ نہرو کی دو کتابیں میں نے میٹرک کی عمر میں پڑھ لی تھیں‘ ایک (Glimpes of History )اور دوسری (Letters of Father to Daughter)۔ یہ دونوں دراصل خطوط ہیں جو اندرا گاندھی کو نہرو نے لکھے تھے۔ ان میں بہت خوب صورت انداز میں تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ جواہر لال نہرو کو میں نے پڑھا، اس لیے میرا تھوڑا سا رجحان اشتراکیت کی طرف ہوا لیکن سا تھ ساتھ چونکہ تحریک پاکستان میں میرے والد سرگرم تھے‘ اس لیے میں ’’بچہ مسلم لیگ‘‘ میں بھی شامل تھا۔ یہ بڑا دلچسپ معاملہ تھا جس کے تحت اسلام‘ پاکستان‘ مسلمانوں کی آزادی اور قومی تشخص کی طرف جھکاؤ تھا۔ اس لیے میں جب پاکستان آیا تو یہاں مجھے پہلی مرتبہ مولانا مودودیؒ سے ملنے اور ان کے لٹریچر کو پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کو میں نے بچپن میں دیکھا ہوا تھا۔ 1938یا 1939کی بات ہے جب مولانا ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میرے والد صاحب کے ان سے دوستانہ مراسم تھے اور میں نے ان کو اس زمانے میں ایک انقلابی غزل سنائی تھی۔ اس کے بعد میں نے جب مولانا مودودی صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کیا تو بالکل ایک دوسری دنیا مجھ پر کھلی۔ مولانا کی جن دو کتابوں نے جو مجھے بہت متاثر کیا وہ خطبات اور تنقیحات ہیں۔ تنقیحات اگرچہ ذرا مشکل کتاب ہے، لیکن چونکہ میرا ذہنی رشتہ اشتراکیت سے تھا اس لیے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ بالخصوص اس کے دو مضامین ’’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘‘ اور ’’ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط‘‘۔ اس زمانے میں، میں نے نو مسلم علامہ محمد اسد کی تحریروں کو پڑھا۔ پاکستان بننے کے بعد 1947 تک ان کے رسالے عرفات کے 6یا 7 شمارے شائع ہوئے تھے جو میں نے بڑی تلاش کے بعد حاصل کیے۔
اقبال، مولانا مودودی اور علامہ محمد اسد، یہ تین ایسے لوگ ہیں جو مجھے زندگی کے اس موڑ پر کہ جب میرا جھکاؤ اشتراکیت کی طرف تھا، مجھے اسلام کی طرف لانے کا ذریعہ بنے۔ بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شریک ہوا اور بہت جلد اس کی اہم ذمہ داریوں کا سزاوار ٹھہرا۔
جمعیت کے زمانے میں انگریزی ہفت روزہstudents voice نکالا جو پاکستان میں طلبہ کا پہلا رسالہ تھا۔ اس پلیٹ فارم نے مجھے بہت اچھے مواقع دیے۔ مباحثوں میں حصہ لینا، اسلام کی دعوت پیش کرنا اور پھر اس وقت کی غیر اسلامی تحریکوں کو سمجھنا اور ان یک مقابلے میں اسلام کی بالادستی کو پیش کرنے کی کوشش کرنا۔ مغرب کے لکھنے والوں میں سب سے پہلے میں جس سے متاثر ہوا، وہ پروفیسر سی ایم جوڈ تھے۔ ان کی ایک کتاب تھی Modern Thought، اگرچہ یہ بہت اونچے درجے کے فلسفی نہیں تھے، لیکن ان کا اہم کارنامہ مغرب کی فکر کو بڑے صاف ستھرے انداز میں اور آسان انداز میں پیش کرنا ہے۔ پھر وہیں سے برٹرینڈرسل سے متعارف ہوا، اس کو پڑھا اور اس سے تاثر بھی لیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ برٹرینڈرسل بیسویں صدی کے فلسفیوں میں بہت ہی نمایاں نام ہے۔ اس دوران میں معاشیات میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اللہ کا فضل تھا کہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی وجہ سے مغربی فکر کو پڑھنے اور مغرب کو سمجھنے کے باوجود اس کے حملے سے میں بچ گیا۔ میرے پاس ایک معیار تھا، اپنے دین کا اسلامی فکر کا جس پر میں چیزوں کو جانچتا تھا، اس لیے کبھی میں ان چیزوں سے مرعوب نہیں ہوا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن کریم سے میرا رشتہ استوار کیا۔ دینی تعلیم میں اہم کردار ماسٹر محمد اکرم مرحوم و مغفور کا ہے جو حافظ قرآن بھی تھے اور خوش الحان قاری بھی۔ ان کی حیثیت ہمارے لیے ایک اتالیق کی تھی۔ قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے میں پہلے محمد اکرم صاحب اور پھر مولانا کی تفہیم القرآن نے ایک کلید کا کام سرانجام دیا۔
قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی تفاسیر جن میں کلاسیکل اور جدید دونوں شامل ہیں، پڑھی ہیں تاہم مولانا کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن نے متاثر کیا۔ تفہیم القرآن کے علاوہ مجھے جس تفسیر نے متاثر کیا وہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی ’’تدبر قرآن‘‘ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بھی بڑے شوق سے پڑھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن کی تین جلدوں میں سب سے اہم پہلی ہے جو سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے، دوسری میں دیگر مباحث ہیں اور تیسری جلد کو غلام رسول مہر نے مرتب کیا ہے۔ کلاسیکل کتب کے جو ترجمے ہیں، ان میں تفسیر ابن کثیر کو میں نے بڑی اچھی طرح مطالعہ کیا۔ امام رازی کی تفسیرکبیر کو مکمل نہیں پڑھا، لیکن اس کے کچھ حصے ترجمے کی شکل میں پڑھے ہیں۔ ابن تیمیہؒ میرے بہت ہی محبوب مفکر ہیں۔ ان کی قرآن فہمی کا مطالعہ کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے مجھے خاندانی نسبت ملی۔ میرے والد صاحب سے ان کے تعلقات تھے۔ ان کی سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ ’’غبار خاطر‘‘ اور پھر ’’تذکرہ‘‘ ہے‘ غبار خاطر سیاسی خطوط کے بجائے زیادہ علمی اور ادبی موضوعات کو لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے مجدد الف ثانی کی تحریک کا جو تذکرہ کیا ہے، اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اسی طرح مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کا میں نے مطالعہ کیا۔ شبلی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ خاص کر مسلم تاریخ، مسلم شخصیات اور ان کے کارنامہ زندگی سے واقفیت اور وابستگی میں شبلی کی تحریروں نے گہرا اثر ڈالا۔
سیرت النبیﷺ میں سب سے زیادہ سید سلیمان ندوی کی کتاب سے متاثر ہوا۔ سیرت کا دوسرا حصہ انہوں نے مکمل کیا، اس میں شبلی کا انداز اور لہجہ پوری طرح پایا جاتا ہے اس کے علاوہ Wistoron, History of the worldاور مختلف انسائیکلوپیڈیا جن میں سے ان سے مجھے مختلف علوم کو سمجھنے اور ان کے متعلق ایک دروازہ کھولنے کا موقع ملا۔ ان کے علاوہ امین حسن اصلاحی، صدرالدین اصلاحی، سید قطب شہید، پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور نعیم صدیقی کو میں نے دل کی آنکھوں سے پڑھا۔ تصوف کے سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھیں۔ تاہم تصوف میرے لیے دلچسپی کا موضوع نہیں رہا، اس کے باوجود امام غزالی ’’احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ان کتابوں میں سماجی، نفسیاتی اور متصوفانہ امور کا امتزاج بڑے توازن سے جلوہ افروز ہے۔ شاہ ولی اللہ کی حجتہ اللہ البالغہ کی پہلی جلد باعث کشش شاہ کار ہے اور اس میں اللہ اور رسولﷺ کے دین کے دعوت ہے۔
میں نے تاریخ میں سید ابوالحسن علی ندوی کی کتابوں کے علاوہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی اور مولانا احمد سعید اکبر آبادی کی کتابیں پڑھی ہیں۔ مغربی فکر میں جن لوگوں کا بڑا نام ہے، تقریباً سب کو پڑھا ہے بالخصوص ول ڈیورانٹ اور ایچ جی ویلز کی کتب اور مسلمانوں میں خاص طور پر ابن خلدون اور پھر شاہ ولی کی ازالۃ الخفاء، اس میں اسلامی تاریخ کا بڑا ذکر آتا ہے۔ اس کے علاوہ آرنلڈ ٹوائن بی کی A Study of History تو 12 جلدوں کو میں نے پڑھا ہے، لیکن اس کی دو جلدیں جو کہ تلخیص ہیں انھیں میں نے خاص طور پر دیکھا ہے۔
ول ڈیورانٹ کی A Story of Civilization میرے خیال میں تاریخ پر سب سے اچھی کتاب ہے۔ اس میں پرانی تہذیبوں سے لے کر بیسویں صدی تک پوری تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک اور جرمن مورخ ہے اس کی ایک کتاب جس نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ The clashes of our age ہے۔ اس میں اس نے 36تہذیبوں کے بارے میں گفت گو کی ہے۔ وہ بہت ہی سود مند ثابت ہوئی۔ اس مطالعے سے مجھے مغرب کو سمجھنے میں بہت مدد ملی اور پھر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں سہولت ہوئی کہ مغرب کی تہذیبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی ترقی کس طرح ہوئی۔
یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ میری ابتدائی تربیت تو شاعری سے ہوئی ہے مگر میں شعر نہیں کہتا بلکہ بہت سے اشعار اور نظمیں یاد ہیں۔ پھر اردو نثر اور انگریزی ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں میں نے سب سے زیادہ فیض نسیم حجازی کے ناولوں سے اٹھایا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی تحریروں میں لمبی لمبی تقریروں کی بھرمار ہے، لیکن بحیثیت مجموعی جو جذبہ محرکہ ان ناولوں سے ملا ہے، وہ کہیں اور سے ملنا مشکل ہے اور جو انسانیت انسان کے اندر دبی ہوتی ہے وہ اسے نکھار دیتے ہیں۔ داستان مجاہد، یوسف بن تاشفین، آخری چٹان ، شاہین، ادب کے مقصد اور پیغام کے حوالے سے شاہ کار ناول ہیں۔ یہ ناول زبان کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ تاریخی عوامل اور علم و تہذیب کو سمجھنے میں مدد گار ہیں۔ مزاح میں شوکت تھانوی کا میں نے بڑے شوق سے مطالعہ کیا ہے۔ رشید احمد صدیقی، اسٹیفن لی کاک اور پطرس بخاری بھی بہت پسند ہیں۔ اسی طرح طالب علمی کے زمانے میں جاسوسی ناول بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ اس ذوق کا آغاز ہواتھا شرلاک ہومز سے۔ کوئی ایک آدھا ہی ناول بچا ہو گا ان کا۔ پھر اردو میں ابن صفی کو بھی پڑھتا رہا۔
ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی سے میں نے زبان سیکھی۔ انگریزی شاعری میں خاص طور پر ملٹن اور ایذار پاؤنڈ کو میں نے بہت شوق سے پڑھا۔ کارلائل کی چیزیں بھی میں نے دیکھی ہیں، انگریزی لٹریچر پر تنقید بھی پڑھی، لیکن انگریزی میں ادب سے زیادہ سنجیدہ اور علمی چیزوں کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رہی ہے۔
اقبال میری روح میں ہے۔ اقبال کے ساتھ حالی، میر تقی میر، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی کا مطالعہ میں نے شوق سے کیا ہے۔ میں انہیں مسلم ثقافت کا بہت قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ غالب، مومن کا بھی مطالعہ کیا ہے۔
افسانہ اور افسانوی ادب بہت کم زیر مطالعہ رہا ہے، البتہ منٹو کے کچھ افسانے پڑھے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ کے علاوہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کو شوق سے پڑھا۔ ٹالسٹائی، پریم چند، جیلانی بی اے اورم نسیم میرے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔
اہم رسائل و جرائد کو باقاعدگی سے پڑھا، شروع ہی سے The Economistاور Encounter وغیرہ کو میں باقاعدگی سے پڑھتا رہا ہوں۔
روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے میرا تعلق اس کی اشاعت کے پہلے روز سے ہے اور جب میں محمد علی جوہر کی تحریر کا عاشق ہوا تو کامریڈ کی ساری فائلیں بڑی محنت کر کے حاصل کیں۔
اسی طریقے سے جب بھی مجھے موقع ملا میں نے ’’لندن ٹائمز‘‘ کو پڑھا ہے۔ رسائل میں مجھے علی گڑھ میگزین کا علی گڑھ نمبر اور غالب نمبر، نقوش کا شخصیات نمبر، نگار کی خصوصی اشاعتیں اور الفرقان کا شاہ ولی اللہ نمبر بہت پسند آئے۔ ذاتی چیزوں میں مجھے اپنے ہی مرتب کردہ چراغ راہ کے ’’اسلامی قانون نمبر‘‘ اور ’’نظریہ پاکستان نمبر‘‘ بہت پسند آئے تھے۔
میٹرک میں، میں نے اختیاری مضمون کے طور پر عربی پڑھی ہے، تاہم میری ابتدائی تعلیم عربی میں نہیں ہوئی اور فارسی کی بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ باقی تھوڑی بہت فارسی میں نے اپنی ذاتی کاوش سے سیکھی لیکن استفادے کی حد تک میرے لیے زیادہ بڑا ذریعہ اردو، اور انگلش ہی ہیں۔
میں ہر وقت پڑھ سکتا ہوں اور جب بھی موقع ملے پڑھ سکتا ہوں، ایک عرصہ تک تو صبح کا تمام وقت مطالعے میں ہی گزرتا تھا، اب دوسری مصروفیات میں کم ہی ایسا موقع ملتا ہے، اس لیے اب رات کے اوقات میں کتابوں کے ساتھ بسر کرتا ہوں۔ عموماً کرسی، میز یا پھر صوفے پر بیٹھ کر پڑھتا ہوں۔ رات کو تین تکیے سر کے نیچے رکھ کر نیم دراز حالت میں پڑھنے کی عادت بھی رہی ہے۔ رفتار مطالعہ اچھی ہے، اس لیے کم وقت میں زیادہ مطالعہ ہوتا ہے۔ شروع میں بڑی محنت کے ساتھ میں نے کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، اور اس میں ایک طریقہ یہ استعمال کیا ہے کہ ہر اہم علم کی ایک دو بنیادی کتب اس طرح پڑھی جائیں کہ ایک باب پڑھنے کے بعد آنکھ بند کر کے اور کتاب بند کر کے سوچا جائے کہ کیا پڑھا؟ شروع ہی سے ذہن کو اخذ اکتساب و حفاظت کی عادت پڑ گئی، اس طرح تیز مطالعہ اور ضروری باتوں کو اخذ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
مطالعے کے لیے تنہائی اور خاموشی مطلوب ہے، لیکن شور و شغب میں بھی پڑھ لیتا ہوں۔ ماحول کی ناسازگاری سے طبیعت مکدر ہوتی ہے۔ اگر مطالعے کے وقت دنیا مجھے نہیں چھوڑتی تو میں اس کو چھوڑ دیتا ہوں، ذہن کو سب سے کاٹ کر کتاب سے جوڑ لیتا ہوں۔ سفر میں برابر پڑھتا ہوں، بالعموم لائٹ لٹریچر، سفر نامہ، ناول، افسانہ اور نظمیں وغیرہ۔
پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی لائبریری میں اچھی کتب جمع کرنے کا شوق بھی مجھے شروع سے رہا ہے اور طالب علمی کے زمانے ہی سے میرے پاس اچھی خاصی لائبریری رہی ہے۔ میں جب کراچی میں تھا 1965میں، میرے پاس 20ہزار کتابیں ہوں گی جن میں سے کچھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کو عطیہ کیں۔ لندن میں بھی میرے پاس 7یا 8ہزار کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ میں نے اسلامک سنٹر فاؤنڈیشن کو عطیہ کیا ہے اور یہاں بہت سی کتب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز اسلام آباد کے سپرد کی ہیں۔
جن لوگوں کو پڑھا، اللہ کے فضل و کرم سے سب لوگوں سے میرا رابطہ رہا، ملاقاتیں رہیں اور ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ بہت ساروں کے ساتھ میرے تعلقات ذاتی بھی رہے اور خط و کتابت بھی رہی۔ ان میں علامہ یوسف القرضاوی، مصطفی احمد زرقا سے لے کر آرنلڈ ٹوائن بی جیسے دراز قامت لوگ شامل ہیں۔ پھر خدا کا شکر ہے کہ علمی کانفرنسوں کے مواقع پر سینکڑوں شخصیات سے ملا ہوں۔
باقی زندگی کے لیے اگر تین کتابیں ساتھ رکھنے کی بات کی جائے تو سیرت پاکﷺ اور تاریخ پر کوئی کتاب رکھنے کے ساتھ کلیات اقبال رکھنا چاہوں گا۔
سینکڑوں ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن کے مطالعے سے خون کھولتا ہے اور ان کے جوابات بھی لکھے ہیں۔ ایسی تحریریں جو بدی اور گناہ کی طرف ترغیب دیں، ہمیشہ ناپسند رہی ہیں۔