(۱۷ جون ۲۰۱۴ء کو علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی نشست سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! یہ میرے لیے خوشی اور افتخار کی بات ہے کہ علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرز کے اس کورس میں ارباب فہم و دانش سے گفتگو کا موقع مل رہا ہے اور اس پر میں یونیورسٹی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں۔ میں آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی علوم میں تحقیق کا ذوق رکھنے والے احباب کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے حوالہ سے تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں ہم ایک عرصہ سے تحفظات اور دفاع کے دائرے میں محصور چلے آرہے ہیں۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان کے جوابات میں مصروف ہوگئے اور تحقیق کے میدان مین ابھی تک ہمارا رخ وہی ہے۔ کم و بیش تین صدیاں گزر گئی ہیں کہ ہماری علمی کاوشوں کی جولانگاہ کم و بیش یہی ہے۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس دائرے سے باہر نکل کر اقدام اور پیش قدمی کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور defense سے offence کی طرف بڑھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کے اس فلسفہ کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد اب مغرب کو اس سے واپسی کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی جھلکیاں وقتاً فوقتاً دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس لیے ہمیں عالمی سطح پر دکھائی دینے والی اس فکری تبدیلی پر نظر رکھتے ہوئے تحقیق اور ریسرچ کے نئے موضوعات تلاش کرنا ہوں گے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔
اس سلسلہ میں دو تین میدانوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جن کو علمی و فکری جدوجہد کی جولانگاہ بنایا جا سکتا ہے اور جن کے مختلف پہلو مسلم محققین اور مفکرین کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً معاشیات کے شعبہ میں سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں معاشی طور پر توازن اور انصاف قائم کرنے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کی طرف رجوع ضروری ہے اور یہ بات صرف کمیٹی کی رپورٹ تک محدود نہیں رہی، بلکہ آج کی عملی صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں اسلامی یا غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں لندن میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ پیرس کے بارے میں معلومات یہ ہیں کہ فرانس کی حکومت نے غیر سودی بینکاری کی مرکزیت کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اپنے معاشی قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ یہ تحقیق و تجزیہ کا ایک بڑا موضوع اور میدان ہے اور ہمارے اسکالرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس تبدیلی کا جائزہ لیں اور دنیا کو بتائیں کہ مغرب کو اتنی بڑی تبدیلی تک لے جانے کے عوامل کیا ہیں اور کون سے اسباب نے مغربی دنیا کو غیر سودی بینکاری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے؟
اسی طرح خاندانی نظام کے منتشر ہوجانے کے حوالہ سے بھی مغرب کی پریشانی قابل دید ہے اور بہت سے مغربی دانش ور مسلسل اس بات پر اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے خاندانی نظام کی بحالی کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ روسی دانش ور میخائیل گوربا چوف نے اب سے ربع صدی قبل اپنی کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں کہا تھا کہ ہم نے جنگ عظیم اول میں لاکھوں افراد کے قتل سے پیدا ہونے والے افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو گھر سے نکال کر فیکٹری اور دفتر کی زینت بنایا تھا۔ اس سے ہم نے افرادی قوت کے خلا کو تو کسی حد تک پر کر لیا مگر ہمارا گھریلو نظام تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے، اور اب ہمیں عورت کو گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، جبکہ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم جان میجر باقاعدہ ’’Back to Basics‘‘ کے نعرے کے ساتھ فیملی سسٹم کی بحالی اور خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دینے کی طرف راغب کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ یہ بھی تحقیق اور ریسرچ کا ایک بڑا دائرہ ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کے بکھرنے کے اسباب کیا ہیں اور خاندانی رشتوں اور نظام کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسلام دنیا کی کیا راہ نمائی کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی زندگی کے بارے میں اسوۂ حسنہ آج بھی نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے کافی ہیں، لیکن اسے دنیا کے سامنے آج کی زبان و نفسیات کے مطابق پیش کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ مگر ہمیں اس کے لیے اپنے کردار اور طرز عمل کی نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔
میڈیا اور ذرائع ابلاغ ایک مستقل موضوع بحث کی حیثیت رکھتے ہیں کہ میڈیا کے مختلف شعبوں کی کارکردگی نے انسانی سوسائٹی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ مثال کے طور پر اس کے ایک جزوی پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی صوبہ ہریانہ کی ایک سکھ خاتون نے طلاق کی شرح میں مسلسل اضافے کو پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع بنایا اور اس کے مختلف اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے موبائل فون کو طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافے کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ شادی سے ایک سال قبل اور ایک سال بعد تک لڑکی کے پاس موبائل فون نہیں ہونا چاہیے، جبکہ چند ماہ قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریوں کی یہ کہہ کر دھائی دی ہے کہ ہماری نئی نسل برباد اور ناکارہ ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں نیٹ اور موبائل کے بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سے ہٹ کر فحاشی اور عریانی کے فروغ اور اسلامی اور مشرقی اقدار و روایات کو کمزور کرنے میں میڈیا کا کردار سب کے سامنے ہے۔ ہمارے دانش وروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور موبائل، نیٹ، چینل اور دیگر ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کی مختلف صورتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی میں ان بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس وقت دنیا کے عملاً حکمران ہیں۔ میں یہ بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ دنیا پر آج حکومتوں کی حکومت نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکمرانی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ طاقت ور اور دولت مند ملک اپنے لیے راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر کمزور ممالک خود کو ان کے سامنے بے بس پاتے ہیں اور معاہدات کی پابندی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی رو سے جائزہ لینا ضروری ہے اور ہمارے اسکالرز کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی معاہدات کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کریں۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر ایک بات عرض کروں گا کہ مجھے گزشتہ چند سالوں کے دوران ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے زیر اہتمام مختلف سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جنگی متاثرین کی امداد کے سلسلہ میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مسلم علاقوں میں ریڈ کراس کو دشواریاں پیش آرہی ہیں اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی ان دشواریوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس سلسلہ کے ایک سیمینار میں عرض کیا کہ اگر ریڈ کراس کی تشکیل اور اس کے قوانین اور طریق کار کی تدوین کے وقت اسلام کو ایک زندہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کے نمائندوں کو بھی شامل کر لیا جاتا تو آج یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔ اس وقت یہ سمجھ لیا گیا کہ مسیحی دنیا کی طرح مسلمان بھی اسلام کے معاشرتی کردار سے بالآخر دست بردار ہو جائیں گے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کی تشکیل و تدوین میں مذہب کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا، اس لیے کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسلام آج بھی انسانی معاشرہ کی ایک زندہ اور متحرک قوت و حقیقت ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کا حل آج بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی میں اسلام کو ایک زندہ حقیقت اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کے راہ نما کے طور پر تسلیم کیا جائے اور آج کے زمینی حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مسلم محققین اور دانش ور حضرات اسی ایک میدان کو اپنی علمی تگ و تاز کا مرکز بنا لیں تو تحقیق و تجزیہ کے سینکڑوں موضوعات ان کی توجہ کے طالب دکھائی دیتے ہیں۔ ان گزارشات کا مقصد اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے دفاع کے ساتھ ساتھ اب اقدام اور پیش رفت کو بھی موضوع بنانا چاہیے اور مغربی فلسفہ و نظام کی ناکامی کے اسباب و عوامل کو بے نقاب کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی افادیت و ضرورت کو واضح کرنے کی علمی و فکری محنت کرنی چاہیے کہ یہ آج کی اہم ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت محنت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔