مؤرخہ 7 اور 8 جولائی (2013) کے روزنامہ ’’امت‘‘ میں ’’ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی ‘‘صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت معاویہؓ اور قدیم مؤرخین اور محدثین‘‘ شائع ہوا ، جس میں ڈاکٹر صاحب نے ’’ اہلسنت والجماعت ‘‘ کے مؤقف سے انحراف کر کے بزعمِ خویش حضرت سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ’’صحیح حالات ‘‘پر ’’تاریخی حقائق ‘‘اور ’’قدیم مؤرخین و محدثین ‘‘ کی آراء کی مدد سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کرنے کی نا کام کو شش کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زبان زد عام مشہور فضائل و مناقب من گھڑت ہیں ،قدیم مؤرخین و محدثین میں سے کسی نے انہیں ذکر نہیں کیا، اس ضمن میں ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘نے مولانا اورنگزیب صاحب کے مضمون ( یا بالفاظ دیگر حضرت امیرمعاویہؓ ) پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
(۱) سیدنا امیر معاویہ ایک عام صحابی تھے، ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ نہیں تھے۔
(۲) وہ آپ ﷺ کے خطوط و معاہدات لکھا کرتے تھے، البتہ ’’کاتبِ وحی‘‘ نہیں تھے۔
(۳) وہ ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ اور ’’طُلَقآء‘‘ میں سے تھے اور فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔
(۴) وہ ’’اول الملوک‘‘ تھے، ’’خلیفہ‘‘ نہیں تھے۔
(۵) حضور اکرم ﷺ سے ان کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔
نوٹ: اعتراضات کا جواب دینے سے قبل قارئین کے لیے ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ ہماری یہ تحریر ڈاکٹر رضوان علی ندوی صاحب کے مضمون کے جواب میں لکھی گئی تحریر کا خلاصہ، تلخیص، بلکہ اُس کا اجمالی خاکہ ہے، اصل تحقیقی وتفصیلی جواب میں ہم نے ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے گئے اعتراضات کو تفصیل سے ذکر کرنے، پھر ان کا تجزیہ وتحلیل کرنے، مولانا اورنگزیب صاحب کے مضمون سے ان کا موازنہ کرنے، ان کے درمیان محاکمہ کرنے کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے ذکر کردہ اقتباسات کی اصل کتاب کی طرف مراجعت کرکے سیاق وسباق سے انہیں مکمل دیکھ کر ان کے صحیح مفاہیم ومطالب بیان کرنے کا کام کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے تسامحات کی نشاندہی کی ہے جب کہ موجودہ تلخیص خالص علمی انداز میں اُس تفصیلی جواب کا خلاصہ اور لب لباب ہے، جسے اہلِ علم اور اسی طرح وہ حضرات جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر بغور پڑھی ہو اور ان کے ذہنوں میں اس کا مفہوم باقی ہو، وہ تو قدرے آسانی سے سمجھ جائیں گے، البتہ جن حضرات نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر نہیں پڑھی، یا ان کے ذہنوں میں اس کا مفہوم محفوظ نہ ہو، تو وہ حضرات شاید ہماری اس تحریر میں کچھ تشنگی (جو بوجہ تلخیص کے پائی جائے گی) محسوس کریں گے، اس کے لیے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں،لیکن اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی تحریر بھی سامنے رکھ کر مطالعہ کریں گے، تو انشاء اللہ وہ تشنگی بھی باقی نہیں رہے گی۔
پہلے اعتراض کا جواب
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ،سو اس سلسلے میں ’’ڈاکٹرصاحب‘‘ دلیل تو کوئی بھی پیش نہ کر سکے، البتہ اپنے اندر کے غصہ و کینہ کا خوب اظہار کر کے ایک صحابی رسول ﷺکی شان میں زبان درازی کی ہے، جس سے ان کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ یہ دونوں صیغہ صفت ہیں اور کلی مشکک کے طور پر ان کا اطلاق اپنے تمام افراد پر اولیت و اولویت (کمی و زیادتی) کے اختلاف سے ہوتا ہے اور اس بات پر تمام اہلسنت متقدمین و متأخرین کا اتفاق واجماع ہے کہ خود ’’صحابیت‘‘ ایک ایسا بلند مقام ہے کہ نبوت کے بعد اس سے اونچا کوئی مقام نہیں۔ اور یہی معنیٰ ہے ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہو نے کا۔
تمام انبیاء علیھم السلام اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے زیادہ مقرب لوگ ہیں، لیکن ان کے درجات میں پھر بھی تفاوت ہے اور یہ تفاوت ’’تقرب‘‘ کے اس مقام کے منافی ہرگز نہیں، لہذا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہیں اور کسی صحابی کے ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہونے سے دوسرے کسی صحابی کی’’جلالتِ قدر‘‘ اور ’’علو مرتبت‘‘ کی نفی پر استدلال کرنا ایک ’’مضحکہ خیز‘‘ بات ہے۔
اب ذرا ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی عبارت ملاحظہ فرمایئے:
’’اگر حضرت معاویہؓ ہی ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ خلیفہ تھے تو پھر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے لیے کون سے الفاظِ مدح باقی رہ گئے‘‘؟!
لفظ ’’ہی‘‘ سے حصر کا مفہوم بیان کرنا مولانا اورنگزیب صاحب پر غلط الزام ہے، جس سے وہ بری ہیں اس پر مزید تبصرہ اہلِ علم حضرات کی خدمت میں چھوڑ دیا جاتا ہے،
سورۃ الحدید آیت ۱۰ کا مفہوم یہی ہے کہ فتح مکہ سے قبل قتال و انفاق کرنے والوں کا مقام فتح مکہ کے بعد قتال و انفاق کرنے والوں سے زیادہ ہے اور یہی مسلّم بھی ہے ۔ مولانا اورنگزیب صاحب نے بھی اس سے انکار نہیں کیا، مگر اس سے حضرت امیر معاویہؓ کی ’’جلالتِ قدر‘‘ اور ’’علو مرتبت‘‘ کی نفی پر وجہ استدلال کیا ہے؟
جہاں تک سورۃ التوبۃ آیۃ نمبر ۱۰۰ کا تعلق ہے تو اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ’’السابقون الأولون‘‘ کا مصداق نہیں تو ’’والذین اتبعوھم‘‘ میں شامل ہو کر ’’رضی اللہ عنھم‘‘ کا مصداق ہو نے میں تو کسی بھی قدیم و جدید مفسر کو کوئی کلام نہیں۔
’’اتباع بالإحسان‘‘ کی تفسیر ’’اتباع قبل از فتح مکہ‘‘ سے کرنا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس خوشنودی (رضی اللہ عنہ) سے خارج قرار دینا یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی ’’خانہ زاد تفسیر‘‘، ’’انوکھی تحقیق‘‘،بلکہ آیت کے مفہوم میں واضح ’’تحریف ‘‘ ہے، جس سے چودہ (۱۴) صدیوں کے تمام مفسرین (جدیدو قدیم )علماء بری ہیں ۔
آیت کی تفسیر میں قدیم و جدید مفسرین کرام نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ :
(۱) ’’السابقون الأولون‘‘ کے مصداق میں چھ(۶) مختلف اقوال ہیں: ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے مراد تمام صحابہ کرامؓ ہیں۔
(۲) سابقہ قول کے مطابق تمام صحابہ مراد لینے کی صورت میں ’’والذین اتبعوھم‘‘ سے مراد تابعین ہیں اور جنہوں نے اول الذکر (السابقون الأولون) سے مراد قدماء صحابہ لیے ہیں، ان کے نزدیک آخر الذکر (والذین اتبعوھم )سے مراد وہ صحابہؓ ہیں جنہوں نے قسمِ اوّل کے افعال میں ان کی اچھی پیروی کی ۔
(۳) ’’والذین اتبعوھم‘‘ کا مصداق ’’السابقون الأولون‘‘ کے بعد ایمان لانے والے تمام صحابہ کرامؓسمیت قیامت تک آنے والے تمام مسلمان ہیں ،جو ایمان لاکر ان کی اچھی پیروی کریں۔
(۴) ’’اتباع بالإحسان‘‘ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں قسمِ اول (السابقون الأولون)کی پیر وی کی جائے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ قسمِ اول کے بارے میں اچھی رائے و اعتقاد رکھا جائے ،ان پر طعن و تشنیع نہ کی جائے ۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ قسمِ اوّل کے محاسن ذکر کیے جائیں اور ان کے لیے رحمت وغیرہ کی دعا کی جائے۔
اب اس کا حاصل یہ ہے کہ :
(الف) ’’والذین اتبعوھم‘‘ سے مراد ’’ سابقین اولین ‘‘ کے بعد والے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔
(ب) یا اس سے مراد صحابہ کرامؓ سمیت قیامت تک آنے والے تمام وہ مسلمان ہیں، جو ایمان لاکر سابقین اولین کے طریقے پر چلیں اور ان کی پیروی کریں ۔
تفصیلی اقوال کے لیے مذکورہ آیت کے تحت ملاحظہ فرمائیں : التفسیر الکبیر(۱۶؍۱۳۷)،روح المعانی(۶؍۹)،فتح القدیر (۲؍۵۰۷،۵۰۸)،زادالمسیر (۳؍۳۷۰،۳۷۱)، الصاوی علی الجلالین (۲؍ ۶۷)،تفسیر جلالین ،تفسیر سمر قندی ،تفسیر المنار ،تفسیر أبی السعود،الکشف والبیان المعروف بہ ’’تفسیر ثعلبی ‘‘ ،الجامع لاحکام القرآن للامام القرطبی ، تفسیر عثمانی ،بیان القرآن ، معار ف القرآن للکاندھلوی ،مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ رحمۃ اللہ (۴؍۲۳۵۔ ۲۴۹)
علاوہ ازیں ’’رضی اللہ عنہم ‘‘کا پروانہ مذکورہ آیت کے علاوہ قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی ہے:
ایک سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸ہے ، جس میں یہ خوشنودی ’’اہل بیعت رضوان ‘‘کے لیے ہے ۔(ڈاکٹر صاحب کہیں گے کہ حضرت معاویہؓ ان میں سے نہیں ،ٹھیک ہے ،ہمیں بھی اس پر اصرار نہیں )
لیکن یہی خوشنودی سورۃ المائدۃآیت نمبر ۱۱۹،سورۃ المجادلۃ آیت نمبر ۲۲،اور سورۃ البینۃ آیت نمبر ۸میں بھی مذکور ہے، جو تمام صحابہ کرام کے لیے عام ہے۔ اب ہم ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کا مبلَغِ علم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں وہ کون سی نئی اور’’ انوکھی تحقیق‘‘پیش کر کے ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کواس خوشنودی کے زمرے سے خارج قرار دیتے ہیں، جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ۔
دوسرے اعتراض کا جواب
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے لیے دیگر خطو ط و معاہدات کی کتابت تو کیا کر تے تھے ،البتہ ’’کاتبِ وحی ‘‘ نہیں تھے ۔
یہاں بھی ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ نے کسی بھی معتبر یا غیر معتبر قدیم یا جدید مؤرخ و محدث کے حوالے سے کوئی ایک حوالہ بھی ایسا پیش نہیں کیا،جس میں کتابتِ وحی کی نفی ہو ، خواہ صراحۃًیا دلالۃً یا کنایۃً یا اشارۃً،البتہ ایسی عبارات ضرور ذکر کی ہیں، جو اس حوالے سے مجمل تھیں، جن میں نفسِ کتابت کا تذکرہ تھا،البتہ کتابتِ وحی کی نفی یا اثبات سے وہ عبارات ساکت تھیں ۔
’’ڈاکٹرصاحب‘‘نے سارا زور الفاظ و تعبیرات پرَ صرف کیا ہے، مثلاً:
’’ قدیم ترین مؤرخ المدائنی (وفات ۲۰۵ھ )‘‘ اور’’ امام ذہبیؒ جو انتہائی ثقہ محدث اور وسیع الا طلاع قدیم مؤرخ ہیں (وفات ۷۴۸ھ)‘‘ وغیرہ۔
ہم ’’غیر جانبدارانہ ‘‘انداز میں اس سے متعلق تمام عبارات کا مفہوم یہاں اختصار سے پیش کریں گے ،چنانچہ کتابتِ وحی سے متعلق دو طرح کی عبارات ہیں :
پہلی قسم کی وہ عبارتیں ہیں جو مجمل ہیں، جن میں اثبات و نفی کا ذکر نہیں،البتہ نفسِ کتابت کا ذکر ہے، جو کتابتِ وحی و غیر وحی دونوں کو محتمل و شامل ہیں ، جن کا حاصل یہ ہے کہ :
(الف) آپﷺ کے جملہ کا تبین میں حضرت معاویہ ر ضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔
(ب) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خطوط و معاہدات و دیگر امور کی کتابت کیا کرتے تھے ۔
(ج) کتابتِ وحی کے بارے میں مذکورہ تمام عبارات مجمل ہیں ۔
حوالہ جات کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
الإصابۃ (۳؍۴۳۳)،فتح الباری(۷؍۱۰۴)، مجمع الزوائد (۹؍۳۵۷)، زاد المعاد (۱؍ ۱۱۷)،سیر الأعلام النبلاء (۳؍۱۲۰)، تاریخ الاسلام الذہبي( ۲؍ ۳۴۲)، الکامل في التاریخ (۲؍ ۱۷۹)، تاریخ بغداد (۱ ؍۲۲۲)،الاستیعاب (۳؍ ۳۵۹)، تاریخ الطبري(۲؍ ۲۱۸)، مسند أحمد (۱؍ ۴۷۹،۸۴۴) اور الطبقات الکبریٰ (۷؍ ۴۰۶)
دوسری قسم کی وہ عبارات ہیں،جن میں کتابتِ وحی کی تصریح ہے۔
آٹھویں صدی ہجری کے امام ذہبیؒ کا حوالہ
چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے ’’انتہائی ثقہ محدث اور وسیع الاطلاع قدیم مؤرخ ‘‘ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (وفات۷۴۸ھ) اپنی مشہور کتاب ’’تاریخ الإسلام ‘‘ میں اس عبارت سے بالکل متصل جو ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘ نے اپنے مضمون میں نقل کی ہے ، کہتے ہیں :
وقد صح عن ابنِ عباس ، قال: کنت ألعب، فدعاني رسول ﷺ وقال: ’’أدع لی معاویۃ‘‘ وکان یکتب الوحي‘‘.
کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے صحت کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ جاؤ معاویہ کو بلاؤ ، حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ معاویہ آپ ﷺ کے لیے وحی کتابت کیا کر تے تھے (۲؍ ۳۴۲)
یہی روایت امام ذہبی ؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’سیر الأعلام ‘‘میں ’’ڈاکٹرصاحب ‘‘ کی نقل کردہ عبارت سے دو سطر بعد ذکر کی ہے ۔پھر امام ذہبی نے مذکورہ روایت نقل کرکے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’رواہ أحمد في مسندہ‘‘۔اور امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں یہ روایت چار مقامات پر ذکر کی ہے ۔(حدیث:۲۱۵۰،۲۶۵۱،۳۱۰۴،اور ۳۱۳۱) جن میں دو مقامات پر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ’’وکان کاتبہ‘‘.
حافظ ذہبی ؒ کی تصریح سے یہ بھی معلوم ہو گیاکہ مسند احمد میں کتابت سے’’ کتابت وحی ‘‘مراد ہے ،اس لیے کہ روایت ایک ہی ہے ۔ نیز اس کی تائید پانچویں صدی ہجری کے مشہورمحدث امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی :۴۵۸ھ سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی اسی روایت کو اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ، جس میں یہ صراحت ہے :’’وکان یکتب الوحي‘‘. (دلائل النبوۃ :۶؍ ۲۴۳)
قارئین یقیناً’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کی اس ’’دیانت‘‘ پر انہیں داد دینا چاہیں گے کہ کتنی جرأت کے ساتھ انہوں نے کہا کہ’’حافظ ذہبیؒ نے کہیں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی کتابت وحی کا ذکر نہیں کیا ‘‘ حالانکہ ہم نے امام ذہبی ؒ کی دونوں کتابوں سے دکھایا کہ انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ کتا بتِ وحی کا اثبات کیا ہے ،اگر فاضلِ موصوف کو اس پر اعتماد نہیں تھا ،تو تب بھی دیانۃًان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس کو ذکر کرتے ،پھر اصولی و فنی اعتبار سے اس پر نقد و جرح کر کے اس کی تضعیف و تردید (اگر ہوتی،تو)کر تے ۔
اگر یہ کہاجائے کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘مذکورہ عبارت پر نظر نہیں پڑی تو
اولاً :یہ عرض ہے کہ وہ عبارت توآ نجناب کی ذکر کردہ عبارت سے بالکل متصل ہے۔
ثانیاً: پھر اس سے ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی پوری تحریر مشکوک ٹھہرادی جا ئے گی کہ انہوں نے سیاق و سباق اور بحث کی پوری تفصیل سے صرَفِ نظر کرتے ہو ئے ’’جانبدارانہ ‘‘ انداز میں صرف اپنے مطلب کی بات لی ہے ،بہر کیف !واقعہ جو بھی ہے ڈاکٹر صاحب نے یہاں ’’زبر دست علمی خیانت ‘‘کا ارتکاب کیا ہے، جس کی مناسب و معقول تو جیہ کرنا خود انہی کے ذمہ ہے، ’’ہم کچھ عرض کریں گے ، تو شکایت ہو گی ‘‘۔
نویں صدی ہجری کے نامور محدث شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ
امام ذہبی ؒ کے بعد نویں صدی ہجری کے نامور محدث شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ (وفات :۸۵۲ھ)نے بھی ’’تقریب التہذیب‘‘میں یہ تصریح کی ہے :
’’معاویہ بن أبي سفیان رضي اللہ عنہ صخر بن حرب بن أمیہ الأموي ،أبو عبد الرحمن، الخلیفۃ، صحابي، أسلم قبل الفتح وکتب الوحی‘‘
کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنھما ایک صحابی اور خلیفہ ہیں،فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہوئے اور کتابت وحی کے فرائض انجام دئیے ہیں ۔
حافظ ابنِ حجر کے بارے میں ڈاکٹر صاحب خود فر ما چکے تھے :’’ وہ ابنِ کثیر سے زیادہ وسیع العلم اور حافظ حدیث و مؤرخ ہیں ‘‘ اس لیے حافظ صاحب رحمہ اللہ کا مذکورہ حوالہ دیکھنے کے بعد وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر مذکورہ حوالے کا بڑی صراحت و جرأت کے ساتھ انکار ہی کر دیا ، فر ماتے ہیں :
’’ مضمون نگار (مولانا اورنگزیب صاحب)نے یہ غلط لکھا ہے کہ ’’شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجرؒ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان ایک صحابی اور خلیفہ راشد ہیں ،فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہو ئے ،یہ نہ ان کی بڑی کتاب ’’ الإصابۃ في تمیز الصحابہ‘‘میں ہے اورنہ چھوٹی مختصر کتاب’’تقریب التہذیب ‘‘میں ہے، مضمون نگار (مولانا اورنگزیب صاحب)کا حوالہ غلط ہے۔‘‘
خدا گواہ ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی اس تحقیق کو’’صریح جھوٹ ‘‘تحریر کرتے ہوئے، ان کا مقام و منصب ملحوظِ خاطر رکھ کر دل اجازت نہیں دیتا ، نہ ہی قلم ساتھ دیتا ہے ، مگر اس کی تو جیہ کریں توپھر کیا کریں ؟
حافظ ابن حجر کی وہ بات جو ’’ الإصابۃ ‘‘اور ’’ فتح الباري ‘‘ میں مجمل تھی، یہاں ’’ التقریب‘‘ میں اس کی وضاحت بھی ہو گئی، جس سے معلوم ہوا کہ ’’ الإصابہ‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘کی مجمل عبارت سے ڈاکٹر صاحب کا نفی کتابتِ وحی پر استدلال کرنا سراسر غلط ہے ، یہاں ڈاکٹر صاحب نے ’’ الإصابہ‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘کی عبارت نقل کرکے آخر میں کہا کہ
’’انہوں نے یہ قطعاً نہیں لکھا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وحی کی کتابت کی ‘‘اس طرح ابنِ حجر کا بیان ’’الاصابہ‘‘ اور ’’فتح الباری‘‘ دونوں میں یکساں ہے ،یعنی صرف ’’ کتابت ‘‘ کا ذکر ہے ،کتابتِ وحی کا ذکر سرے سے نہیں ‘‘ ۔
ڈا کٹر صاحب سے کوئی پو چھے کہ ا گر حافظ ابنِ حجر نے ’’قطعاً نہیں لکھا ‘‘اور’’ کتابت وحی کا ذکر سرے سے نہیں کیا‘‘ تو پھر ’’ التقریب‘‘ میں کس نے لکھا ؟ اور یہ کہ ’’التقریب‘‘ کس کی تصنیف ہے؟ہمارا خیال ہے کہ اسے بھی بلا تبصرہ قارئین کی خدمت میں چھوڑ دینا ہی بہتر ہو گا۔
یہاں یہ بات بھی قارئین پر خوب واضح ہونی چاہیے کہ مذکورہ بالا دونو ں حوالے ان قدیم ’’انتہائی ثقہ،وسیع الاطلاع ، حافظ حدیث و مؤرخ‘‘ کے ہیں، جن سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری تحریر میں جابجا تائید حاصل کی ہے، جب کہ ان دو نو ں بزرگوں کا مؤقف اس کے بالکل بر خلاف ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی طرف منسوب کیا ہے ۔
آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز مفسر ،محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ کا حوالہ
اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز مفسر ،محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ( وفات : ۷۷۴ھ)نے بھی ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں کتابتِ وحی کی تصریح اور وضاحت سے اثبات کیا ہے، فرماتے ہیں :
’’وکاتب وحي رب العالمین‘‘. (۸؍۲۲)
ڈاکٹر صاحب سے اس کا جواب نہ بن سکا تویہ کہہ کر چل دیئے:
’’افسوس کی بات ہے کہ حافظ ابن کثیرؒ بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں ‘‘۔
اس پر تبصرہ کے حقوق بھی اہلِ علم کے لیے محفوظ ہیں ۔
پانچویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ اور محدث علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کا حوالہ
پانچویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ، اصولی اور محدث علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ ( وفات : ۴۵۶ھ) آپﷺ کے کاتبین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علي ابن أبي طالب و عثمان و عمر و أبو بکر و معاویۃ بن أبي سفیان، وکان زید ابن ثابت من ألزم الناس لذالک، ثم تلاہ معاویۃ بعد الفتح ، فکانا ملازمین للکتابۃ بین یدیہ ﷺفي الوحي وغیر ذلک، لا عمل لھماغیر ذلک ‘‘. (جوامع السیر ۃ :ص:۲۷،دار المعارف)
مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ:
(الف) دیگر کاتبین کی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیئے ہیں ۔
(ب) یہ دونو ں حضرات (زید بن ثابت اور معاویہ رضی اللہ عنھما )ہر وقت آپ ﷺ کی خدمت میں کتابت کے لیے حاضر رہا کرتے تھے۔
(ج) ان دونوں حضرات نے وحی اور غیر وحی دونوں کی کتابت کی ہے۔
(د) ان دونوں حضرات کا وحی وغیر وحی کی کتابت کے علاوہ دوسرا کام نہ تھا ۔
یہی بات علی بن برھان الدین ، علامہ حلبی ؒ نے سیرت کی مشہور کتاب ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں ذکر کی ہے ۔(۳؍ ۳۲۷)
یہ عبارت مکمل مع مفہوم کے ذکر کر نے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ نے مولانا اورنگزیب ’’مظلوم‘‘ کو اس عبارت کے حوالے سے ’’قطع وبرید و اضافے ‘‘ کا بے بنیاد اور غلط الزام دیا ہے ، ورنہ مولانا نے اپنی تحریر میں وہی بات ذکر کی ہے، جو ہم ابھی اصل مراجع سے ذکر کر آئے ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور لغوی مفسر اور محدث امام ابو بکر الخلال رحمہ اللہ کا حوالہ
تیسری صدی ہجری کے مشہور لغوی مفسر اور محدث امام ابو بکر الخلال رحمہ اللہ( متوفی: ۳۱۱ھ) نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ ابو الحارث کہتے ہیں:
’’ ہم نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’کاتبِ وحی ‘‘ اور ’’ خال المؤمنین‘‘نہ کہتا ہو ،تو انہوں نے فرمایا ’’یہ بُری اور بے کار (بلا سند ) بات ہے، ایسی بات کر نے والوں سے دور رہا جائے گا ، ان کی ہم نشینی اختیار نہیں کی جائے گی ، اور ہم ان کا حکم لوگوں کو بتا ئیں گے‘‘۔ (السنۃ :۲؍ ۴۳۴)
کتاب کے محقق دکتور عطیہ الزھرانی نے اسناد کی توثیق اور متن کی تائید میں لکھا کہ
’’ اس کی اسناد صحیح ہے اور اس میں کسی بھی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ، کاتبِ وحی اور ام المؤمنین امِ حبیبہؓ کے بھائی ہیں ‘‘۔
اگر یہی بات ہم کہہ دیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی با ت بُری، بیکار، بلا سنداور رد ی میں پھینکنے کے قابل ہے اور ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے، توشاید ’’ڈاکٹر صاحب‘‘اس کی تاب نہ لا کرآپے سے باہر ہو جائیں ،مگر الحمد للہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے ابتدائے تیسری ہجری کے ایک ایسے امام مجتہد اور محدث سے کہلوائی ہوئی ہے ،جن کی جلالتِ شان بلا استثناء تمام مسلمانوں کے علاوہ خود ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کو بھی مسلَم ہے ۔
ان مذکورہ حوالوں کے بعد طوالت کے خوف سے مزید عبارات ذکر کرنے اور ان پرتجزیہ کرنے کے بجائے صرف حوالہ جات پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
مذکورہ بالا جلیل القدر قدیم محدثین و مؤرخین کے علاوہ
آٹھویں صدی ہجری کے مؤرخ و ادیب علی بن محمد خزاعی رحمہ اللہ علیہ(متوفی : ۷۸۹ھ) نے ’’تخریج الدلالات الشرعیۃ‘‘ (ص: ۶۳)میں
آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز متکلم ،فقیہ اور محدث شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ علیہ (وفات: ۷۲۸ھ) نے’’مجموع الفتاویٰ‘‘(۴؍ ۲۴۵)میں،
ساتویں صدی ہجری کے مشہورمفسر و فقیہ امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ (وفات:۶۷۱ھ)نے ’’الجامع للأحکام القرآن‘‘ میں،
چھٹی صدی ہجری کے مشہور فقیہ و محدث ابن العربی مالکی رحمہ اللہ علیہ (وفات:۵۴۳ھ)نے ’’أحکام القرآن‘‘ میں،
پانچویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ و مفسر قاضی محمد بن سلامۃ قضاعی رحمہ اللہ علیہ (وفات ۴۶۴ھ) نے ’’الأنباء بأنباء الأنبیاء و تواریخ الخلفاء و ولایات الأمراء (ص:۱۴۱) میں،
تیسری صدی ہجری کے اواخر اور چوتھی صدی کے ربع اول کے مشہور فقیہ و ادیب ابن عبد ربہ اندلسی رحمہ اللہ علیہ (وفات : ۳۲۸ھ) نے اپنی عربی ادب کی مشہور کتاب ’’العقد الفرید‘‘ (۵؍۸) میں،
ابنِ حجر ہیثمی مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تطہیر الجنان واللسان‘‘ (ص:۳۸؍ ۳۹)میں
مرکز الاسانید ، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’إزالۃ الخفاء‘‘ (۱؍۴۷۲)میں ،
ماضی قریب کے فنِ رجال کے ماہر مشہور محدث عبد الحئی کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’التراتیب الإداریۃ‘‘ (۱؍۱۵۱) میں،
دکتور اکرم ضیاء العمری رحمہ اللہ علیہ نے ’’عصر الخلافۃ الراشدۃ‘‘ میں
شیخ عبد العظیم الزرقانی رحمہ اللہ علیہ نے ’’مناھل العرفان في علوم القرآن‘‘ (ص:۲۳۹)میں،
مولانا ابو الحسن الاعظمی نے ’’کاتبینِ وحی‘‘(ص:۱۳)میں
دکتورعلاء بکر نے ’’عقیدۃ أہل ا لسنۃ والجماعۃ‘‘ (۱؍ ۹۴)میں
اور مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ نے ’’علوم القرآن‘‘(ص:۱۷۹)میں حضر ت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے کتابت وحی کا اثبات کیا ہے ۔
یہ نا قابل تردیدصحیح ،صریح اور واضح بائیس حوالہ جات ہیں جو ہم نے ماضی قریب کے علاوہ آٹھویں صدی سے لیکر اوائل تیسری صدی ہجری کے قدیم ترین مؤرخین ،محدثین، فقہاء اور جلیل القدر ائمہ کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے ذکر کیے ہیں، جن سے یہ بات بخوبی ثابت ہوئی کہ حضرت امیر معاویہؓ نہ صرف یہ کہ کاتبِ وحی تھے، بلکہ انہوں نے اسلام قبول کر نے کے بعد بڑے لزوم ،مواظبت اور انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اس فریضہ کو انجام دیا اور ہمیشہ اس خدمت کی انجام دہی کی فکر میں رہے۔اور آپﷺ کو بھی انکی دیانت وامانت پر کامل اعتماد تھا۔
علاوہ ازیں وہ’’یار لوگ‘‘جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’مسلمان ‘‘ بھی سمجھنے کو تیار نہیں ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرات خلفاء ثلاثہ، امہات المؤمنین اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر اور ان پرلعن و طعن کو اپنے ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں، وہ بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکے ،چنانچہ شیعوں کے مشہور ترین اور قدیم ثقہ مؤرخ احمد بن أبی یعقوب(وفات:۲۵۷ھ)الکاتب العباسی نے ’’تاریخ یعقوبی‘‘(۱؍ ۴۰۱،۴۰۲) میں اس بات کا بر ملا اعتراف کیا ہے کہ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے ‘‘۔
شیخ محب الدین الخطیب نے ’’العواصم من القواصم ‘‘کی تعلیق میں وضاحت کی ہے کہ
حضرات صحابہ کرامؓ اور بالخصوص بنو امیہ سے بغض و کینہ رکھنے والوں سے جب اس بات کا انکار نہ ہو سکا کہ آپﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتابت پر مامور کیا تھا، تو انہوں نے یہ فرق اپنی طرف سے گھڑ لیاکہ انہوں نے خطوط و معاہدات کی کتابت کی ہے، نہ کہ وحی کی ،یہ فرق ان کی ذہنی اختراع ،خبثِ باطن کا نتیجہ اور شیطانی القاء ہے، اس پر ان کے پاس کوئی بھی مستند دلیل نہیں ، اگر یہ تفریق آپ ﷺ کی طرف سے ہوتی، تو ناقلین اسے تواتر کے ساتھ ذکر کرتے، جیسا کہ دیگر امور میں اس طرح ہوا ہے ۔(ص:۵۸؍ ۵۹)
ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو چیز عقلاً ممکن ہو ،اگر اس کے اثبات میں کوئی دلیل نقلی صحیح آجائے تو اس کے اثبات کا قائل ہو نا واجب اور ضروری ہے۔ ( الانتباہات المفیدۃ،ص:۵۷)
اور حضرت معاویہؓ کا کاتبِ وحی ہونا ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کے ہاں بھی عقلاً ممکن ہے اور اثبات پر ہم نا قابلِ تردید ٹھوس دلائل پیش کر چکے ، جبکہ نفی پر’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کے پاس کو ئی دلیل نہیں ،لہذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’کاتب وحی ‘‘ قرار دینا واجب اور لازم ہے۔
رہی بات ڈاکٹر مصطفی الاعظمی کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتبینِ وحی میں ذکر نہ کر نے کی ،سو ’’عدم ذکر الشئ لا یستلزم عدم وجودہ‘‘ یہ ایک مسلمہ اصول ہے ، ہاں ’’ذکر عدم الشء‘‘ اور چیز ہے جس کا اثبات ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ نہ کر سکے ۔
اس کے علاوہ ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘نے آخر میں ایک عقلی دلیل یہ دی کہ
’’حضرت معاویہ ؓ ظہورِ اسلام کے اکیس سال بعد اسلام لائے اور ان اکیس برسوں میں بہت زیادہ قرآن لکھا جا چکا تھا ،یہ کون لکھتا رہا؟ آخر کے دو برسوں میں تو بہت کم قرآن لکھا گیا ‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کا یہ ’’واویلا‘‘اس وقت کار آمد ہوگا، جب مولانا اورنگزیب ’’فقیر ‘‘ نے یہ دعویٰ کیا ہوتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے یا اکثرِ قرآن کی کتابت کی ہے ، جب کہ ان کا مدعا تو یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تبِ وحی تھے ، بس ،ڈاکٹر صاحب اس بات سے تو بخوبی واقف ہوں گے ہی کہ سالبہ جزئیہ موجبہ کلیہ کی نقیض بنتی ہے ، جب کہ موجبہ جزئیہ کی تردید سالبہ جزئیہ سے نہیں ہوتی ۔
اب اصولی طور پر ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کا مدعا دو باتوں میں سے کسی ایک کے ثبوت سے ثابت ہو گا :
یا تو ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کریں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔
یا وحی تو نازل ہوئی مگرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی کتابت نہیں کی ۔
ڈاکٹر صاحب قیامت تک ان میں سے کوئی بھی ایک بات ثابت نہیں کر سکتے ، اور اس کے بغیر صفحات کے سا تھ اپنا ’’ نامہ اعمال‘‘ بھی سیاہ کر نے سے کچھ حا صل نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں ’’ڈاکٹر صاحب کی آخری دلیل جو ان کے زعم میں بہت مضبوط ہے ( جبکہ حقیقت میں اس کی حیثیت تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ نہیں ، جو صرف ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘‘کے مترادف ہے ) وہ یہ کہ
’’حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں ’’جمع قرآن ‘‘ کی خدمت انجام دینے والے حضرت زید بن ثابت ،عبد اللہ بن زبیر ،سعید بن ابی العاص اور عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنھم ہیں ، اگر حضرت معاویہؓ بھی کاتبِ وحی ہو تے ،تو وہ بھی اس مہم میں شریک ہو تے ‘‘۔
عوامی سطح کے لحاظ سے تویہ یقیناً مضبوط دلیل ہو گی، جب کہ علمی و تحقیقی نقطہ نظر سے یہ نہ صرف یہ کہ کوئی کمزور دلیل ہے ، بلکہ اس سے استدلال کر نا بھی انتہائی مضحکہ خیز بات ہے ،جس کی وضاحت یہ ہے کہ ’’ڈاکٹرصاحب ‘‘ نے یہاں ’’تلبیس ابلیس‘‘اور ’’خلط بحث ‘‘ کا ارتکاب کیا ہے کہ ہماری بحث تو ’’ کتابتِ وحی ‘‘کے اثبات اور نفی سے ہے اور استدلال جس واقعہ سے کیا جا رہا ہے اس کا تعلق ’’جمع قرآن ‘‘ سے ہے ۔
ہمیں حیرت ہے کہ ’’ عربی زبان اور دیگر علوم پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے ’’ڈاکٹر صاحب اتنی موٹی با ت بھی سمجھنے سے قاصر ہیں !! کہاں کی بات کہاں سے جوڑرہے ہیں !! اگر جمع قرآن کی مہم میں عدمِ شرکت دلیل ہے، عدمِ کتابتِ وحی پر، تو پھر ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ تھوڑی سی مزید جرأت کرکے حضرت علی ، عثمان ، ابو بکر ، عمر ، ابی بن کعب ،حنظلہ بن الربیع ، جابر بن سعید بن العاص ، خالد بن سعید ،ابان بن سعید،العلاء بن الحضرمی، عبد اللہ بن سعد بن ابی السرح ،زبیر بن العوام ،معیقیب بن ابی فاطمہ ،عبد اللہ بن الارقم الزہری،شرحبیل بن الحسنہ اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بھی بیک جنبشِ قلم ’’ کاتبینِ وحی ‘‘کی فہرست سے خارج فرمادیں،اس لیے کہ یہ تمام حضرات بھی اس مہم میں شریک نہیں تھے ، جبکہ قدیم ترین محدثین و مؤرخین نے ان تمام اصحاب کو ’’کاتبینِ وحی ‘‘ میں شمار کیا ہے ۔
تیسرے اعتراض کاجواب
تیسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ۸ ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور وہ مؤ لفۃ القلوب اور طلقاء میں سے تھے ۔
اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی تحریر’’جانبدارانہ‘‘ ہے، جس کااندازہ آگے آنے والی تفصیل سے بخوبی ہو جائے گا ۔
بحث کی ’’غیر جانبدارانہ ‘‘تفصیل یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے سَن کی تعیین میں مؤرخین میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ’’ البدایۃ والنھایۃ ‘‘ (۸؍۲۲)میں ، ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۵)میں اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۱۰؍۲۰۷)میں دو قول ذکر کیے ہیں :
پہلا یہ کہ وہ ۸ھ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ۔
اور دوسرا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا بیا ن کہ میں عمرۃ القضاء کے موقع پر اسلام لایا اور آپﷺ سے اسلام کی حالت میں ملا،لیکن فتح مکہ تک اپنے اسلام کو والد سے چھپائے رکھا ۔
حافظ مزی رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الکمال ‘‘ (۲۸؍ ۱۷۷)میں ایک تیسرا قول بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ’’ صلح حدیبیہ‘‘ کے موقع پر اسلام لائے۔
ان تینوں حضرات نے فتح مکہ والے قول کو پہلے ذکر کیا ہے ،اس صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ یہی قول ان کا پسندیدہ اور مختار ہے ۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ’’ الإصابۃ‘‘ میں ابن سعد کا قول ’’قبل عمرۃ القضیہ‘‘ اور واقدی کا قول’’بعد الحدیبیہ‘‘ ذکر کیا ہے اور یہ صرف تعبیر کا فرق ہے ، جبکہ مصداق دونو ں کا ایک ہی ہے ۔
ڈاکٹرصاحب نے اس ضمن میں لکھا کہ :
’’پھر یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات الاصابہ میں ہیں وہی لائقِ اعتبار ہیں ‘‘۔
اس اصرار سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ۸ھ کے قول کو اختیار کیا ہو ، جب کہ اختیار کر نا اور راجح قراردینا تو دور کی بات ہے، یہا ں تو حافظ صاحب نے ۸ھ کے قول کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ، پھر یہی نہیں بلکہ ’’تقریب التہذیب‘‘ میں حافظ صاحب نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے :
’’صحابي،أسلم قبل الفتح وکتب الوحی‘‘. (ص:۵۳۷)
اس سے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک راجح یہی ہے کہ وہ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے ، جبکہ’’ تہذیب التہذیب ‘‘ میں تصریح کے ساتھ کسی قول کی ترجیح نہیں، صرف صنیع سے استیناس کیا گیا تھا ۔
’’الإصابۃ‘‘ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت سے جو تعارض حافظ صاحب نے بیان کیا تھا ،آگے بخاری و مسند احمد کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا ہے ، جو ڈاکٹر صاحب کی ’’ دیانت ‘‘ کی نذر ہو گیا ۔
علاوہ ازیں پانچویں صدی ہجری کے مشہور ثقہ مؤر خ حا فظ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ (وفات : ۴۳۰ھ)نے ’’ معرفۃ الصحابۃ ‘‘ (۴؍ ۲۲۳) میں ،
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ سیر الأعلام النبلاء ‘‘( ۳؍ ۱۲۰)میں ،
خطیبِ بغدادی رحمہ اللہ نے ’’ تاریخِ بغداد ‘‘(۱؍ ۲۲۲) میں ،
امام ذہبی رحمہ اللہ نے دوسری تصنیف ’’ تاریخ الإسلام ‘‘ (۲؍ ۳۴۱) میں
اور تیسری صدی ہجری کے مشہور مؤرخ ابنِ سعد رحمہ اللہ نے ’’الطبقات الکبری‘‘(۷؍ ۴۰۶)میں ۷ھ عمرۃ القضاء والے قول کو اختیار کیا ہے اور اسے ترجیح دی ہے
اب ان تمام حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہوا کہ :
(۱) حافظ ابنِ کثیر،حافظ مزی اور ابن عبد البر رحمہم اللہ نے ۸ھ کے قول کو لیا ہے ۔
(۲) مذکورہ حضرات نے اس اختیار پر کوئی تصریح نہیں کی، بلکہ یہ ان کے صنیع کا مفہوم ہے ، جبکہ ساتھ ہی ان حضرات نے قبل الفتح والے قول کو بھی ذکر کیا ہے ۔
(۳) حافظ ابنِ حجر ،امام ذہبی ، خطیبِ بغدادی ،ابو نعیم اصفہانی اور ابن سعد رحمہم اللہ ان تمام حضرات نے الفاظ و تعبیر کے تھوڑے سے فرق سے ۷ھ والے قول کو لیا ہے ۔
(۴) ان حضرات نے اس اختیار و ترجیح کی تصریح بھی کی ہے ، جس کی دلیل یہ ہے کہ فتح مکہ والے قول کو سوائے ’’ تہذیب التہذیب‘‘ کے، انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا، نیز اس کے راجح ہو نے کی ایک وجہ راوی کااپنا بیا ن ہو نا ہے ۔
علاوہ ازیں ترجیح کی بات بھی اس صورت میں ہو گی ، جب کہ تعارض ہو اور تطبیق کی صورت ممکن نہ ہو، جب کہ مذکورہ عبارات میں ادنی تأمل (بشرطِ انصاف) سے بھی تطبیق بالکل آسانی سے سمجھ آجاتی ہے اور وہ یہ کہ عمرۃ القضاء ۷ھ میں حقیقت اسلام کا اعتبار ہے ، جب کہ فتح مکہ ۸ھ میں اظہارِ اسلام کا ،پس دونوں میں کوئی منافات نہیں، پھر یہ بھی واضح رہے کہ انھیں ’’متأخر الاسلام ‘‘ثابت کر نے کا اصل مقصد کتابتِ وحی اورجلالتِ قدر کا انکار ہے، جس کی تردید ہم سابق میں کر چکے ہیں۔
اگر چہ’’ متأخر الاسلام ‘‘ ہو نا بھی فی نفسہ کوئی عیب کی بات نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ’’متأخر الاسلام ‘‘ قدیم الاسلام سے رتبہ میں آگے بڑھ جاتا ہے ، جیسا کہ حضرت ’’عمر فاروق ‘‘حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ،زبیر ، سعد اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنھم سے بڑھ گئے ،صرح بہ شیخ الإسلام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ. (مجموع الفتاوی : ۴؍ ۲۴۰)
اب انہیں ’’ طُلَقاء ‘‘ میں سے شمار کرنا عبث ہے، رہی بات ’’ مؤلفۃ القلوب ‘‘ میں سے ہونے کی ،سو اس سلسلے میں ڈاکٹرصاحب نے ’’حسبِ عادت‘‘ جانبدارانہ انداز میں بحث کی پوری تفصیل سے صرَف نظر کرتے ہوئے ’’مؤلفۃ القلوب ‘‘ کا ذہنی اختراع سے ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ جس سے قارئین کے ذہن پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے ،بہر حال ! ڈاکٹرصاحب کااپنا ’’تحقیقی معیار ‘‘ ہے۔ ہم انہیں اس میں معذور سمجھتے ہیں ۔ اب ہم اس بحث کے جملہ متعلقات اختصاراً ذکر کرتے ہیں۔
ابن العربی المالکی رحمہ اللہ (أحکام القرآن:۲؍ ۵۲۹)اور امام قرطبی رحمہ اللہ (تفسیر القرطبي: ۸؍۱۴۶)نے ان کا’’مؤلفۃ القلوب‘‘میں سے ہونے سے انکار کیا ہے، اس کے بر عکس کئی مؤرخین واصحاب السیرنے ان میں شمار کیا ہے ،ساتھ ہی یہ تصریح بھی کی ہے کہ ’’مولفۃ القلوب‘‘اپنی قوم کے سردار اور معزز ترین لوگوں میں سے تھے ،انہیں عطایا دینے سے انہیں اور ان کے ذریعے ان کی قومو ں کو مانو س کر ناہوتا تھا۔
ابن ہشام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’وأعطی رسول اللہ ﷺ المؤلفۃ قلوبھم وکانو أشرافا من أشراف الناس ،یتألفھم و یتألف بھم قومھم ،فأعطی أبا سفیان بن حرب ماءۃبغیر، وأعطی ابنہ معاویہ ماءۃ بعیر .......(السیرۃ النبویۃ: ۴؍۴۹۲،۴۹۳)
اسی طرح ابنِ کثیر نے ’’البدایۃ والنہایۃ ‘‘.(۴؍ ۳۸۸)،طبری نے اپنی تاریخ (۲؍ ۱۷۵)، امام ذہبی نے ’’سیرالأعلام‘‘(۳؍۱۲۲)،ابن خلدون نے اپنی تاریخ(۲؍ ۴۴۹)،ابنِ سعد نے ’’ الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍۴۰۶)، ابن الاثیر نے’’الکامل في التاریخ ‘‘(۲؍۱۴۳)، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاوی ‘‘ (۴؍۲۳۵) اور ابن عبد البر نے ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۵)میں ذکر کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کی ’’دیانت ‘‘ نے اس تذکرہ کی اجازت نہیں دی ۔
نیز مفسرین نے یہاں مؤلفۃ القلوب کی چار مختلف اقسام ذکر کی ہیں :
پہلی قسم: وہ لوگ جو کفار تھے اور انہیں عطایا دینا اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے تھا۔
دوسری قسم :وہ جو حدیث العہد بالإسلام ،تھے انہیں عطایا دینا اس غرض سے تھا کہ اسلام ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے ۔
تیسری قسم : جو اپنی قوم و قبیلے میں سردار ، معزز ترین لوگ ، اثر ورسوخ رکھنے والے تھے اور اسلام لا چکے تھے ، اپنی قوم میں ان کی بات کو ماناجاتا تھا ،انہیں عطایا دینے کی غرض یہ تھی کہ ان کے دیگر ساتھی ،قوم و قبیلے والے اپنے معززلو گوں کے ساتھ اکرام و تکریم کے معاملے سے متأثر ہوکر اسلام لے آئیں ۔
چوتھی قسم : وہ لوگ جنہیں عطایا اس غرض سے دئیے جاتے تھے کہ وہ کفار سے قتال کر کے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھیں ۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:’’تفسیر أبي سعود ‘‘سورۃ التوبۃ :آیت نمبر ۶۰،(۳؍ ۱۶۱،۱۶۲)۔’’تفسیر القرطبي ‘‘(۸؍ ۱۴۵)۔ ’’تفسیر الجلالین ‘‘، ’’ تفسیر الصاوي ‘‘(۲؍ ۵۳)۔ ’’تفسیر بیضاوي‘‘ (۴؍۵۸۷)۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں صرف دوسری قسم کا تذکرہ کیا ہے اور یہ تأثر دیا ہے کہ تمام مؤلفۃ القلوب اسی قبیل سے تھے ، یہ مذکورہ تصریحات کے خلاف ہے،اب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قسم اول میں سے نہ ہو ناتو یقینی اور متفق علیہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی انہیں ’’ کفار ‘‘ میں سے نہیں گردانتے اور قسمِ ثانی بھی مراد نہیں کہ ہم سابق میں یہ ثابت کر چکے کہ تحقیقی اور راجح قول کے مطابق وہ ۷ھ عمرۃ القضاء کے موقع پر اسلام لائے ، لہذا وہ ان نو مسلموں میں سے بھی نہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ، جہاں تک تیسری اور چوتھی قسم کا تعلق ہے، سو اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات پر گہری نظر ڈالی جائے، تو قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ تیسری قسم سے تھے، اس لیے کہ وہ اور ان کے والد ماجد اپنی قوم کے سردار، معزز ترین اور خواندہ لوگوں میں سے تھے ۔
لہٰذا انہیں عطایا دینا ان کی قوم کو مانوس کر نے کی غرض سے تھا، نہ کہ انہیں اسلام پر بر قرار رکھنے کی غرض سے، اس تقدیر پر کہ ان کا اسلام کمزوریا ا س پر بر قرار رہنامشکوک تھا ، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے اور اس کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے بعد اور مؤلفۃ القلوب میں غنائم تقسیم ہو نے سے پہلے ’’غزوہ حنین ‘‘ اور ’’ غزوہ طائف‘‘ پیش آیا،اور ثقہ مؤرخین کی تصریحات کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان دونو ں غزوات میں بنفسِ نفیس شریک تھے ،یہ شرکت بتلاتی ہے کہ وہ ضعیف الایمان ،متردد فی الاسلام یا ان لو گو ں میں سے نہیں تھے، جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کی شوکت سے مرعوب ہو کر مجبوراً اسلام قبول کیا ، بلکہ وہ پہلے ہی اسلام لا چکے تھے ، کما حققناہ، دیکھیے: ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍ ۴۰۶)،’’ تاریخ الخلفاء ‘‘للسیوطي (ص:۱۵۵)،’’سیر الأعلام ‘‘( ۳؍ ۱۲۲)،’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ (۸؍ ۱۲۴)اور’’ مجموع الفتاوی‘‘(۴؍ ۲۳۷)۔
چوتھے اعتراض کا جواب
چوتھا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ’’ اول الملوک‘‘ ( اسلام کے پہلے بادشاہ) تھے ، خلیفہ نہیں تھے ، استدلال حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے کہ ’’ خلافت میرے بعد تیس سال رہے گی، پھر بادشاہت ہو گی‘‘۔
یہاں بھی ڈاکٹرصاحب نے انتہائی ’’جانبداری ‘‘ کا مظاہرہ کر کے خلافت کے مو ضوع پر اپنی پسند کی ایک روایت ذکر کر لی اور اس کے مقابل دیگر بہت سی صحیح احادیث چھوڑ دیں ، جن میں سے چند ہم ذکر کرتے ہیں تاکہ مسئلہ کے دوسرے پہلو پر بھی ’’غیر جانبدارانہ ‘‘ ا ورتحقیقی طور پر غور کیا جا سکے ۔
(۱) بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں ان کے امور کے متولی انبیا ء علیہم السلام ہوتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا دوسرا آجا تا اور یقین میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، البتہ خلفاء ہو ں گے اور کثرت سے ہو ں گے ‘‘۔ (بخاري :۱؍ ۴۹۱) و( مسلم: ۲؍۱۲۶)و(شرح السنۃ :۱۰؍ ۵۵)و ( مشکوۃ:ص: ۳۱۰) و(المصنف لابن شیبہ:۱۵؍ ۵۸)
سماک بن حرب ،جابر بن سمرۃ،اور ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :
’’دین اسلام بارہ ’’خلفاء‘‘تک غالب رہے گااور یہ تمام قریش سے ہوں گے ‘‘. دیکھیے( مسلم ،رقم الحدیث: ۴۷۰۸،۴۷۰۹)و( مجمع الزوائد :۵؍ ۱۹۰) و ( مسند احمد :۲؍۸۲)
ان دونوں قسم کی احادیث میں ظاہری تعارض کو رفع کر نے کے لیے کبا ر علماء محدثین نے تطبیق کی راہ اختیا ر کی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے ’’فتح الباري‘‘ (۱۳؍۲۶۲)،محقق عینی نے ’’ عمدۃ القاري ‘‘(۲۴؍ ۴۱۹)،علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے ’’ عون المعبود ‘‘ ( ۱۲؍ ۳۹۸)،علامہ تفتازانی نے ’’شرح العقائد ‘‘( ص : ۳۰۹) اور علامہ احمد بن اسماعیل کو رانی نے ’’ الکو ثر الجاري‘‘(۴؍ ۱۱۰) میں جو تطبیق بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیثِ سفینہ میں ’’ خلافتِ نبوت اور ’خلافتِ کاملہ‘‘مراد ہے اور یہ پانچ خلفا ء تک جا ری رہی ،جبکہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ و دیگر کی حدیث میں ’’ مطلق خلافت‘‘ مراد ہے، جو ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ ‘‘سے کم درجے کی ہے، لیکن وہ بھی ’’ خلافت ‘‘ہی کا فرد ہے، اب تعارض باقی نہ رہا ، اس لیے کہ خلافتِ کاملہ اخص ہے، جس کی نفی سے اعم ( مطلق خلافت) کی نفی لازم نہیں آتی ۔
ہمارا دعویٰ ’’ مطلق خلافت ‘‘کا ہے، جو ’’ امارت ‘‘ ،’’ ولایت ‘‘اور ’’ ملک ‘‘ کے منافی نہیں، ایک شخص ’’والی ‘‘،’’ ملک‘‘ اور ’’خلیفہ‘‘ ہو سکتا ہے ، لہذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خود کو ’’ اول الملوک ‘‘ کہنا، ابن حزم کا ان کے عہدِ حکومت کو ’’ ولایت ‘‘ سے تعبیر کرنا ، امام ذہبی کا ان کو ’’ خیر الملوک ‘‘ کہنا اور ان کا شان و شوکت کے ساتھ رہنا ’’ خلافت‘‘ کے منافی نہیں، ان میں سے کسی بات سے بھی ڈاکٹر صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا، اس کے لیے داکٹر صاحب کو پہلے ’’ مطلق خلافت ‘‘ اور ’’ ولایت و امارت ‘‘ میں منافات ثابت کر نا ہو گا،صرف الفاظ و تعبیرات کے زور سے بات نہیں بنتی ۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ
’’ بیالیس صفحا ت میں ان کے حالا ت لکھنے کے بعد ذہبی کا آخری فیصلہ ہے ‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’ملحوظ رہے کہ امام ذہبی نے انہیں خلیفہ نہیں، ’’ خیر الملوک ‘‘ کہا ہے ‘‘
ان دونو ں عبارات کا حقیقت سے کوئی مجازی تعلق بھی نہیں ، یہ صرف الفاظ کی بازی گری ہے ، اس لیے کہ امام ذہبی نے نہ تو خلافت وولایت کے موضوع پر بحث کر کے ولایت کو ترجیحاً ذکر کیا ہے ، نہ ہی اس موضوع پر مؤرخین کا اختلاف ذکر کر کے ان کے ما بین محاکمہ کیا ہے اور نہ ہی ’’ ولایت ‘‘ کا اثبات کر کے ’’ خلافت ‘‘ کی نفی کی ہے کہ اسے ان کا ’’ فیصلہ ‘‘ قرارا دیا جائے۔ اور یہ تأثر بھی حقیقت کے بالکل بر عکس ہے کہ انہوں نے ’’ ملک ‘‘ کا اثبات اور خلافت کی نفی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ذہبی نے جا بجا اور دیگر مؤرخین نے بھی ان کے عہدِ حکومت پر ’’خلافت‘‘ کا اطلاق کیا ہے جس سے ہمارا یہ مدعا واضح ہو جا تا ہے کہ ان تمام مؤرخین کے نزدیک ’’مطلق خلافت‘‘ اور ’’ولایت و امارت‘‘میں کوئی منافات نہیں۔
ہم ذیل چند عبارات مختصراً ذکر کرتے ہیں :
امام ذہبی نے ’’سیر الأعلام‘‘ میں لکھا :
’’بایعہ أھل الشام بالخلافۃ‘‘ (۳؍ ۱۳۷)
اس کے چھ صفحات بعد لکھتے ہیں:
’’وأقبلو بعد بیعۃ معاویۃ بالخلافۃ‘‘ (۳؍۱۴۳)
اس کے تین صفحات بعد لکھتے ہیں:
’’وتسلم معاویۃ الخلافہ في آخر ربیع الآخر‘‘ (۳؍ ۱۴۶)
اسی کے ایک سطر بعد لکھتے ہیں:
’’وقال ابن اسحاق: ’’یویع معاویۃ بالخلافۃ‘‘ (۳؍ ۱۴۶)
بلکہ امام ذہبی کا جو ’’حقیقی فیصلہ ‘‘ ہے، جو انہوں نے ’’ قلتُ ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس میں بھی ’’ خلافت ‘‘ کا ذکر ہے، جو ایک طویل اقتباس ہے، جسے امام ذہبی نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدح و منقبت میں ذکر کیاہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں قطع و برید کر کے اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا ہے۔ امام ذہبی نے لکھا ہے:
’’قُلتُ‘‘حسبک بمن یؤمرہ عمر ......عمل نیابۃ الشام عشرین سنۃ، والخلافۃ عشرین سنۃ‘‘ (۳؍ ۱۲۳،۱۳۳)
خلافت کے اثبات کے لیے مزید دیکھیے:’’تقریب التہذیب ‘‘(ص:۵۳۷)، ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍۴۰۶)، ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۱۰؍ ۲۰۷)، ’’تہذیب الکمال‘‘ (۲۸؍ ۱۷۹)، ’’ الإصابہ‘‘ (۳؍۴۳۳)، ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۸)، ’’تاریخ بغداد‘‘(۱؍ ۲۲۲،۲۲۴) اور’’ الکامل في التاریخ ‘‘ (۳؍ ۳۷۲،۳۷۴).
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’وأما إسلام معاویۃ وولایتہ علی المسلمین والإمارۃ والخلافۃ، فأمر یعرفہ جماھیر الخلق‘‘.(مجموع الفتاوی،۴؍ ۲۴۷)
ابن تیمیہ کے اس آخری حوالے سے نہ صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہو تی ہے بلکہ اس سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ ولایت ‘‘، ’’امارت‘‘اور’’ خلافت ‘‘میں کوئی منا فات نہیں ۔
آٹھویں صدی ہجری کے عظیم مؤرخ ابن خلدون (وفات :۸۰۸ھ)کے تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ ’’حق یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلفاء کی جماعت میں شامل ہیں ،البتہ مؤرخین نے ان کا تذکرہ خلفائے سابقین کے تذکرے سے دو وجوہات کی بنا پرمؤخر رکھا :
ایک یہ کہ ان کی خلافت بطریق تغلب وجود میں آئی تھی، جب کہ سابقہ خلفاء کی خلافت اختیاری واجتماعی طریقے سے آئی تھی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نسب ہو نے کی وجہ سے خلفائے بنو امیہ کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا گیا اور حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کوخلفائے سابقہ کے ساتھ اس لیے رکھا گیا کہ و ہ فضیلت میں ان کے قریب تھے‘‘۔
ابن خلدون کے اس تاریخی ،تحقیقی اور مبنی بر اعتدال تجزیہ کے بعد’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی یہ شکایت بھی دور ہو جاتی ہے کہ ابن حزم نے اپنے رسالے میں تمام اموی حکمرانوں کا تذکرہ ’’ولا یت ‘‘ کے ساتھ کیا ہے اور ان سے سابقین کا تذکرہ ’’خلافت ‘‘ کے ساتھ۔
(جاری)