اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

مساواتِ عامہ اور آزادی

لبرل جمہوریت میں ریاست کے تمام باشندے جنسی،مذہبی،سیاسی اور معاشرتی ہر اعتبار سے مساوی سمجھے جاتے ہیں اور ہر ایک کو ہر قسم کے افعال،اعمال اور نظریات اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے ،بشرطیکہ یہ آزادی امنِ عامہ اور ریاست کے نظم و نسق میں رکاوٹ نہ بنے۔جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں درج ذیل ترامیم کرنی ہوں گی:

1۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی علاقہ،رنگ و نسل اور زبان کے اعتبار سے انسان مساوی حیثیت رکھتے ہیں،البتہ اسلام انسانوں کو مومن اور کافر دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اسلامی ریاست میں کفاراور غیر مسلموں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور دنیا کا کوئی نظام اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق فراہم نہیں کرتا ،جیسا کہ اسلام نے فراہم کیے۔البتہ اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد میں سے دین اسلام کی حفاظت،اشاعت اور اس کا دفاع ہے ، اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر نہیں ہوں گے ،بلکہ اسلامی اقدارکازیادہ سے زیادہ فروغ اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے اسلامی معاشرے کو پاک کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ دریوں میں شامل ہوگا۔

2۔دوسرے مذاہب والوں کو تو انفرادی طور پر اپنے مذہب پر عمل کی مکمل اجازت ہو گی ،لیکن اپنے مذہب کی تشہیر،تبلیغ اور معاشرے میں اپنی ثقافت کی ترویج ممنوع ہوگی۔اسلامی ریاست میں مذاہبِ باطلہ کی ترویج کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلم معاشرے میں مذاہبِ باطلہ کو تبلیغ کی اجازت ہے۔

3۔لبرل مغربی جمہوریت میں جنسی مساوات یعنی مرد و زن کو ہر طرح سے مساوی درجہ دیا گیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت ووٹ دینے ،رکنِ پارلیمنٹ بننے ،کرسی اقتدار پر بیٹھنے اور سیاسی جماعت کی سربراہ بننے میں مر د کے بالکل مساوی ہے ،اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں اور کاموں میں عورت اور مرد برابر ہیں ،جو کام مرد کر سکتاہے، جمہوری نظام میں مساوات کی خاطر عورت بھی اسے سرانجام دے سکتی ہے ۔جبکہ اسلام مردو زن میں مساوات کی بجائے حفظِ مراتب اور دائرہ کار کی تقسیم پر زور دیتا ہے اس لیے اسلامی جمہوریت میں عورتوں کے لیے ایسا مناصب قطعاً ممنوع ہوں گے ،جو شریعت کی رو سے صرف مرد کے ساتھ خاص ہیں ۔اسی طرح عورت کو ایسے کاموں کی بھی اجازت نہیں ہو گی جو اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہ ہوں ۔

4۔لبرل مغربی جمہوریت میں ملکی باشندے ہر فعل،قول،نظریہ اور رائے کے اظہار میں مکمل آزاد ہوتے ہیں ،لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت مطلق آزادی کے حدود طے کرنے ہوں گے۔حدود و قیود کی تعیین قابلِ بحث ہو سکتی ہے ،لیکن مکمل آزادی اسلامی تعلیمات سے کسی طرح سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔

اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت

اسلامی نظامِ خلافت میں اگرچہ اختیارات کا منبع اور مرکز خلیفہ کی ذات ہوتی ہے ،لیکن اختیارات کی تقسیم کے خلاف بھی نص نہیں ہے ،اس لیے اباحتِ اصلیہ کے اصول پر اس کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ اختیارات انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوں ،کیونکہ اختیارات کا منبع ایک ذات ہو یا الگ الگ ،مقاصدِ شریعت پر خاص فرق نہیں پڑتا ،اس میں اصل مسئلہ اختیارات کا شریعت کی روشنی میں صحیح استعمال ہے ،خواہ سارے اختیارات ایک شخص کے پاس ہوں یا اشخاص اور اداروں میں تقسیم ہوں۔

البتہ حکومت کی خاص مدت مقرر کرنا قابلِ بحث ہے۔ اس سلسلہ میں درجہ ذیل گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔

1۔ سیاستِ شرعیہ اور اسلامی ریاست پر لکھنے والے فقھاء اور سیاسی مفکرین مثلاً علامہ ماوردی ،قاضی ابو یعلیٰ ،امام جوینی،امام ابن تیمیہ،شاہ ولی اللہ اور دیگر فقھاء نے عزل الامام کے ممکنہ طریقوں پرتفصیل سے بحث کی،لیکن کسی ایک مفکر اور فقیہ نے اختتامِ مدت کوعزل کے طرق میں شمار نہیں کیا۔اور نہ ہی پوری اسلامی تاریخ میں کبھی خلیفہ کی مدتِ حکومت مقرر ہوئی ہے ،کہ اس کے بعد امام خود بخود معزول ہو،گویا حکومت کی مدت کا تقرر ایسا مسئلہ ہے ،جس کی نظیر ہماری علمی،فکری اور سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس لیے اس کے جواز کے لیے شاید محض اتنی بات کا فی نہ ہو کہ نصوص اس بارے میں ساکت ہیں،کیونکہ پوری اسلامی تاریخ اور قدیم فقہی ذخیرے کو یکسر نظر انداز کرنا دقیق غور وفکر اور طویل سوچ بچار کا متقاضی ہے۔اگر مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائز لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔

۱۔جب ایک امیر اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت چلا رہا ہے، تو صرف مخصوص مدت کے گزرنے پر اسے معزول کرنا محلِ نظر ہے ،خصوصاً جب اس کے عزل کی صورت میں اثارتِ فتنہ اور نا اہل افراد کی امارت کا خدشہ ہو۔

2۔حکومت کی مدت مقرر کرنے کی صورت میں ریاست میں ایک قسم کا اضطراب سا رہتا ہے ،کیونکہ سازشی عناصر، کرپٹ طبقہ اور غیروں کے آلہ کار کسی نہ کسی طریقے سے اگلی مدت میں برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں جس کے لیے خفیہ منصوبے اور موجودہ حکومت کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔لیکن جب حکومت کی باقاعدہ مدت مقرر نہیں ہو گی تو یہ طبقہ مایوس ہو گا اور اسلامی ریاست میں حصولِ حکومت کی خاطر انارکی پھیلانے سے گریز کرے گا۔

3۔حکومت کی مدت مقرر کرنے میں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سرکردہ افراد اور کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے اہل اشخاص کے دوران اندرونِ خانہ رسہ کشی اور سرد جنگ جاری رہتی ہے اور ہر کوئی اگلی مدت میں حکومت کے حصول کے لیے سرگرم رہتا ہے اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں رسہ کشی کھلم کھلا نفرت اور عداوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی مدت کا تقرر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا موجودہ حالات ،عالمی تناظر، اسلامی ریاست کی مخصوص ساخت اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں دقت اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ جمہوریت کی اسلام کاری میں لبرل مغربی جمہوریت کی اتباع میں تمام خدشات و عواقب سے بے پرواہ ہو کر حکومت کی چاریا پانچ سال کی مدت کا تقرر نہیں ہوگا،بلکہ نفسِ مدت کے تقرر اور تحدیدِ مدت دونوں مسئلوں کے بارے میں مقاصدِ شریعت کو سامنے رکھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔

جمہوریت کی اسلام کاری کی بحث کا خلاصہ

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا تمام اصول اسلامی تعلیمات سے یا تو کلی طور پر متصادم ہیں یا مقاصدِ شریعت، اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی ساخت اور مزاج سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں تمام اصولوں پر نظرثانی کرنی ہو گی اور اس کے تمام اصولوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ترمیم کرنی ہو گی۔ پیچھے ذکر کردہ ترمیمات و اصلاحات کا مقصد ان کی حتمیت بتانا نہیں ،کہ اس کے علاوہ اور طریقے سے تبدیلی نہیں کر سکتے، بلکہ صرف لبرل مغربی جمہوریت کے اصولوں کا قابلِ ترمیم و تبدیل دکھانا مقصود تھا۔ اب چاہے ان ترمیمات سے لبرل جمہوریت کا اصل چہرہ ہی کیوں نہ مسخ ہو جائے جیسا کہ مذکورہ ترامیم سے واضح ہو تا ہے۔جو لوگ جمہوریت کی اسلام کاری کو ناممکن کہتے ہیں، ان کا مقصد و مدعا بھی شاید یہی ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کی اساسی اور بنیادی اصولوں کو باقی رکھتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانا اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ کرنا ناممکن ہے۔

اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں رائج جمہوریت

جمہوریت کی اسلام کاری پر بحث کے بعد کے یہ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اسلامی ممالک نے لبرل مغربی جمہوریت کو کن تبدیلیوں اور ترمیمات کے ساتھ قبول کیا؟اور ان ترمیمات سے کیا لبرل مغربی جمہوریت’’ اسلامی‘‘ بن گئی؟ کیاسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہے؟ خصوصا پاکستان کے حوالے سے اس کا ایک جائزہ لینا مقصود ہے۔

امتِ مسلمہ کا المیہ

امتِ مسلمہ کو عصرِ حاضر میں جو بڑے دہچکے لگے، ان میں ایک بہت بڑا دھچکہ ادارہ خلافت کا غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سادگی سے شکست و ریخت کا شکارہوناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافتکا ادارہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجودمسلم امت کے سر پر ایک سائبان کا کردار ادا کر رہا تھا،جس سے امت مجموعی طور پر زوال کے تھپیڑوں سے کافی حد تک محفوظ تھی۔اور اسلامی تعلیمات اپنی اجتماعی شکل میں بڑی حد تک نافذ تھیں ۔خلافت کے ختم ہونے سے دیگر نقصانات کے علاوہ امت نے ایک بڑا خسارہ یہ اٹھایاکہ تقریبا تمام اسلامی ممالک بشمول پاکستان نے لبرل مغربی جمہوریت کو اس کے بنیادی اصولوں میں ترمیم کیے بغیر نظامِ حکومت کے طور پر قبول کیا ۔اگر کسی جگہ اسلام پسندوں اور علماء کی کوششوں سے اربابِ اقتدار ترمیم پر آمادہ ہوئے تو اتنی معمولی ترمیم کی کہ اس سے لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول ،ڈھانچہ اور طریقہ کار با لکل متاثر نہیں ہوااور اس پر مستزاد یہ کہ جدت پسند اور مغرب سے انتہائی مرعوب مفکرین نے اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام کو اسلامی جمہوریت کے نام سے موسوم کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو اسلامی ممالک میں رائج جمہوریت پر شرعی حیثیت سے گفتگو کا دروازہ تقریبا بند ہوااور دوسرا یہ کہ اسلام کا آئیڈیل نظامِ حکومت ’خلافت ‘کے قیام کے لیے کما حقہ کوششیں نہیں ہو سکیں اورنظامِِ خلافت علمی،فکری اور عملی طور پر معدوم ہوتا گیا۔اور آج اسلامی ممالک کا منظر نامہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت اپنے تمام آثارِ سیۂ کے ساتھ قائم ہے اور دردمندانِ ملت اور غمخوارانِ امت اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔

رائج جمہوری نظام پر بحث کے دو مرحلے 

پاکستان میں رائج جمہوریت پر بحث کے دو مرحلے ہیں : ایک یہ کہ رائج جمہوری نظام اور لبرل مغربی جمہوریت میں کتنی چیزوں میں اشتراک و موافقت ہے ؟ دوسرا یہ کہ اس نظام کو اسلامی بنانے کے لیے اس میں کیا کیا ترمیم ہوئی ہے ا ور کیا یہ ترمیمات اس کی اسلامکاری کے لیے کافی ہیں؟ اور ان ترمیمات سے یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ شریعت اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہو گئی؟

لبرل مغربی جمہوریت اور رائج جمہوری نظام میں اشتراکات

لبرل مغربی جمہوریت اور پاکستان میں رائج ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں درج ذیل باتوں اور اصولوں میں اشتراک و موافقت ہے۔

پارلیمنٹ کے اختیارات

لبرل مغربی جمہوریت میں پارلیمنٹ دو تھائی اکثریت سے کوئی بھی قانون پاس کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی پر کوئی بھی پابندی و تحدید نہیں ہوتی ۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں بھی پارلیمنٹ کو قانون سازی کے بلا کسی تحدید کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ آئین کے آرٹیکل 70 میں قانون سازی کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی جب بل دو تہائی اکثریت سے پاس کرے تو اسے دوسرے ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائیگا،سینٹ نے بھی اگر اسے اکثریت سے منظور کیا تو قانون کو صدر کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جائیگا ۔ صدر کی منظوری کے بعد وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔( یہ صرف خلاصہ ہے اس میں ایوانوں اور صدر کے اشکالات اور دیگرضمنی مباحث کاذکر نہیں ہے) اب قانون سازی کے عمل پر نہ کوئی پابندی لگائی گئی ہے اور نہ تحدید۔جو بھی بل مذکورہ طریقے سے منظور ہوجائیگا وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔خواہ شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔

البتہ اگر اس پر یہ اشکال ہو کہ قردادِ مقاصد اور آرٹیکل 270 کے تحت تو یہ صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ دستور کی ترمیم سے متعلق آرٹیکل 239 کے دفعات کے الفاظ یہ ہیں:

’’ دستور میں ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چاہے جو کچھ ہو اعتراض نہیں کیا جائیگا ۔ ازالہ شک کے لیے بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلسِ شوری کے اختیارات پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے‘‘(آئینِ پاکستان صفحہ155)

لہٰذا اب اگر پارلیمان کی دوتہائی اکثریت قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق ختم کرے ،پھر اس کے بعد کثرت سے جو قانون بنائے تو ان کی یہ ساری کاروائی آئین و قانون کے بالکل مطابق ہو گی۔ خلاصہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ ہر حال میں سپریم قرار پائی کہ پہلے پارلیمنٹ نے یہ پابندی لگائی ، پھر خود یہ پابندی ختم کی ۔ قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی وجہ اس کی تقدیس و بالادستی نہیں ،بلکہ اس کے آئینی شق ہو نے کی وجہ سے ہے ۔ جب دو تہائی اکثریت نے یہ شق ختم کر دی تو اس کی بالادستی خود بخود ختم ہوگئی۔ اس کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے ان الفاظ میں بیان کیا:

’’ سیکولر جمہوریت میں پارلیمنٹ پرقا نون سازی کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی سوائے اس پابندی کے جو دستور یا آئین نے خود اس پر لگائی ہو اور یہ دستوری پابندی بھی کسی پارلیمنٹ یا دستور ساز ادارے نے عائد کی ہو تی ہے اور پارلیمنٹ جب چاہے اس پابندی کو دستوری ترمیم کے ذریعے اٹھا بھی سکتی ہے ،لہذا مالِ کار پارلیمنٹ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی‘‘(272)

اسی طرح یہ اشکال نہ کیاجائے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل اس قسم کی ترمیمات کے روک تھام کے لیے قائم کئے گئے ہیں ، کیونکہ دستور کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ،چناچہ آرٹیکل 203 کے تحت اس قانون کی تشریح کی گئی ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

’’قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کااثر رکھتا ہو، مگر اس میں دستور ،مسلم شخصی قانون ، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس بات کے آغازِ نفاذ سے دس سال مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے ، بنکاری یا بیمہ کے تعامل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے‘‘(آئین پاکستان صفحہ116 )

اسلامی نظریاتی کونسل بھی محض سفارش اور مشورہ تک محدود ہے اور وہ بھی اس وقت جب صدر یا اسمبلی از خود کسی قانون کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کے بارے میں استفسار کرے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کو از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے۔( ملاحظہ فرمائیے آرٹیکل 229 ،230 کے دفعات) 

الغرض ایسا طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور اس کو قانون سازی کے مکمل اختیارات کسی طرح بھی متاثر نہیں ہیں ۔

آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس

لبرل مغربی جمہوریت میں آئین و دستور ہر صورت میں بالا دست اور مقدس ہو تا ہے ۔پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں بھی آئین و دستور کوہر صورت میں تقدس اور بالا دستی حاصل ہے۔ چناچہ آئین کی ابتدا ئیہ میں بنیادوں اصولوں کے تحت درج ہے۔

’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شخص خوہ جو بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب التعمیل ذمہ داری ہے‘‘

کیا اس کے اندر یہ قید ہے کہ دستور اور قانون اسی وقت تک بالادست اور واجب التعمیل رہے گا ،جب تک وہ قران و سنت کے خلاف نہ ہو۔نیز تمام مناصب کے لیے جو حلف آئین میں درج ہیں ،ان سب میں علی الاطلاق دستور کی ہر صورت میں اطاعت اور اس کادفاع شامل ہے ۔ پاکستان کی تمام عدالتیں بھی دستور کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں ،خواہ دستور شریعت سے متعارض ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ ملک کے تمام افراد ، تمام ادارے، آئین کی رو سے صرف دستور اور قانون کی پابند ہیں ۔ دستور اور قانون کی بالا دستی کی یہی شکل لبرل مغربی جمہوریت میں ہوتی ہے ۔اس اصول میں مغربی جمہوریت اور رائج’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

بالغ رائے دہی کا تصور اور سیاسی مساوت

لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہمارے ہاں رائج جمہوری نظام میں بھی ملک کے تما م افرادوو ٹنگ کے عمل میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کا فیصلہ صرف کثرت کی بنیاد پر ہو تا ہے۔اسی طرح ملک کا ہر فرد پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے ۔ اگرچہ آرٹیکل 62,63 کے تحت کچھ شرائط لگائی گئیں ہیں ، لیکن جیسا کہ پہلے اس پر بحث ہو چکی ہے کہ جب پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے، تو اس کی رکنیت کے لیے اسلامی علوم سے مکمل واقفیت کی شرط لگانا ہو گی اور ہر خاص عام پارلیمان کا ممبر بننے کا اہل نہیں ہو گا ۔ لیکن ہمارا دستور اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگاتا۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ اس قسم کے لوگ بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن جاتے ہیں جو شاید کلمہ طیبہ کے درست تلفظ اور ترجمہ پر قادر نہ ہو،چناچہ اس قسم کے لوگ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کے مسلم عوام کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس اصول میں بھی لبرل مغربی جمہوریت اور رائج ’’اسلامی جمہوریت ‘‘ میں موافقت ہے ۔

کثرتِ رائے کی حتمیت

کثرتِ رائے چونکہ جمہوریت کا بنیادی اور اساسی اصول ہے ، اس لیے اس اصول کو بھی ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں جوں کا توں رکھا گیا ہے اور کثرتِ راے آئینی و قانونی طور پر لازمی و حتمی ہے۔ ووٹنگ کا عمل ہو یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کا معاملہ ، ہر مسئلے میں کثرتِ راے کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔

سیاسی جماعتیں اور حزبِ اختلاف

لبرل مغربی جمہوریت کی طرح رائج جمہوری نظام میں رنگ، نسل ،علاقہ،زبان،ثقافت غرض ہر اعتبار سیا سی جماعتیں بنانے کی مکمل اجازت ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور طے کرنے کے کلی اختیارات حاصل ہیں ،خواہ وہ منشور سیکولر ہو یا اسلامی ، صرف ایک شرط اور قید ہے کہ کہ منشور آئین و دستور نامی ’’مقدس صحیفے‘‘ کے خلاف نہ ہو ۔اس اجازت اور آزادی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر’’ اسلامی جمہوری‘‘ ملکوں میں ایک اللہ اور رسول کو ماننے والے رنگ ، نسل ،قومیت ، زبان اور طبقات کے اعتبارسے سیاسی جماعتوں کی صورت میں آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کا ادارہ مکمل مغربی تصور کے ساتھ قائم ہے ۔ اس مخالف شریعت اصول کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ہا ں رائج جمہوریت کی ’’اسلامیت‘‘ مکمل طور پر برقرار ہے۔

مساواتِ عامہ اور آزادی

ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں دینی طبقات کے پر زور اسرار اور طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جو ’’اسلامیت ‘‘ کی کچھ جھلک موجود ہے ، اس میں مساوات اور آزادی کے حوالے سے تمہید میں یہ جملہ شامل ہے :

’’جمہوریت ، آزادی ،مساوات ،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا‘‘

اس سے قطع نظر کہ اسلام نے واقعی جمہوریت کی کوئی تشریح کی ہے یا نہیں؟ یہ جملہ امید افزا ہے ،لیکن آگے دستور کی دفعات خود اس تمہید کی مخالف ہیں کہ اس میں آزادی اور مساوات کی اسلام مخالف تشریح شامل ہے۔

۱ ۔اس تمہید کے ساتھ ایک دو جملوں کے بعد یہ جملہ شامل ہے:

’’جس میں قرارِ واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذہب و عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں‘‘ 

کیا شریعت کی رو سے دیگر مذاہب کو اسلامی ریاست میں اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے ،اسے بڑھانے کی اجازت ہے ؟کیا ثقافت کے لفظ میں خاص طور پر ان کے دینی شعائر نہیں آتے ؟ تو ایک اسلامی ریاست میں اہلِ کفر کے شعائر کے اظہار ہی نہیں بلکہ ترقی شرعی طور پر درست ہے؟ثقافت اور دینی شعائر کے اظہار اور اس کی حدود میں یقیناًفقہاء کے مختلف اقوال ہو سکتے ہیں لیکن ہر حد اور پابندی سے عاری اہل کفرکی کھلی آزادی کسی فقیہ کا قول نہیں ہے۔

2۔اقلیتوں کو مذہب کی نشر واشاعت ، تبلیغ اور مذہب کے نام پر انجمن سازی کی مکمل آزادی دستور میں فراہم کی گئی ہے ۔چنانچہ آرٹیکل 20 کے تحت دفعہ یوں ہے:

’’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کاحق ہو گا‘‘

کیا یہ شق اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے؟ یہاں تبلیغ کے جواز و عدمِ جواز کا فتوی دینا مقصود نہیں ،بلکہ اصل اس بات کی نشاندہی کرنا مقصد ہے کہ اقلیتوں سے متعلق اسلام نے جتنے حقوق دیے ہیں، سب میں حدود ، قیود اور مخصوص شرائط لگائی ہیں ۔ ان حدود اور شرائط میں فقہاء کااختلاف ہے ،لیکن بغیر کسی قید کے مکمل آزادی کسی طرح سے بھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مساواتِ عامہ اور آزادی جو لبرل جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ، ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں تقریبا وہی ہے ۔ اس اصول میں اگرچہ کچھ ترمیم کی گئی ہے ،لیکن وہ اسلامی تعلیمات کے مکمل مطابق نہیں ہے۔گویا اس اصول میں بھی رائج جمہوریت لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا مماثل ہے۔

اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت

ہم یہ بحث پہلے کر چکے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت کے منافی معلوم نہیں ہوتی۔ البتہ حکومت کی مدت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ اس مسئلے کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا ،لیکن ہما رے جمہوری نظام میں محض لبرل جمہوریت کی اتباع میں حکومت کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔ 

رائج جمہوریت میں ’’اسلامیت‘‘ کا عنصر

اب بحث یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کونسی ترمیمات ہیں ؟جن کی بنیاد پر اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کے جمہوری نظام کو اسلامی کہا جاتا ہے اور ان ترمیمات سے یہ رائج نظام واقعی اسلامی بن گیا ہے؟ ان ترمیمات پر بحث سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پچھلے ذکر کردہ تمام اصولوں میں ہمارا جمہوری نظام لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل موافق و مماثل ہے اور وہ اصول اکثر اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے ان ذکر کردہ اصولوں میں موافقت رائج نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے کا فی ہے، کیونکہ ایک بھی غیر اسلامی اور شریعت سے متصادم اصول کی شمولیت کسی کسی نظام کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے ،خصوصاً جبکہ وہ اصول اس نظام کے ان اساسی اور بنیادی اصولوں اور تصورات میں سے ہوجس پر اس کی پوری عمارت کھڑی ہو۔لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی اسلام کاری کے حوالے سے کی گئی ترمیمات اور تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی حقیقت مزید منقح اور واضح ہو جائے۔

لبرل مغربی جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری درجہ ذیل نکات کی شکل میں کی گئی ہے:

1۔آئین و دستور میں قراردادِ مقاصد کو شامل کیا گیا ہے ، جس میں حاکمیتِ اعلی اور اقتدارِ اعلی کواللہ تعا لی کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔

2۔آئین و دستور میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنا یاجائیگااور شریعت سے متصادم قوانین کو اسلامیانے کی کوشش کی جائیگی اور اس مقصد کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنائے گئے ہیں۔

3۔اسلام کو مملکتی مذہب قرار دیا گیا ہے۔

4۔ملک کے کلیدی عہدے جیسے صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے ۔

5۔وزارتِ مذہبی امور کا باقا عدہ محکمہ بنا یا گیا ہے جو اوقاف ، حج ،زکوۃ ، روئیتِ ہلال اور دیگر مذہبی معاملات سر انجام دیتا ہے۔

کیا ان نکا ت سے جمہوریت اسلامی بن سکتی ہے؟

ان پانچ نکات میں سے آخری دو نکات تو کسی نظام کے اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی نظام کے سربراہ کا مسلمان اور بات ہے اور اس نظام کا اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا ایک الگ بحث ہے۔اسی طرح وزارتِ مذہبی امور بنانے سے بھی کوئی نظام اسلامی نہیں بن سکتا ، کیونکہ مذہب سے متعلق معاملات کو چلانے کے لیے تو لبرل جمہوری ملکوں میں بھی وزارتیں اور محکمے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات چونکہ ایک قسم کی بدیہی ہے اس لیے پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب بقیہ تین نکات کے بارے میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔

حاکمیتِ اعلیٰ اور اس کا مفہوم

ہمارے ہاں عمومی طور پر جمہوریت کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ جمہوریت عوام کی حاکمیت اور اقتدارِ اعلی کا نام ہے ،جبکہ اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں آئینی طور پر اقتدارِ اعلی اللہ تعالی کے لیے مانا گیا ہے ،اس لیے رائج جمہوریت آئینی و قانونی طور پر ’’اسلامی ‘‘ہے اور مقتدر اور ذی فہم حلقے بھی عام طور پر یہ بات دہراتے ہیں کہ پاکستان کا نظام اور قانون تو اسلامی ہے ، افراد ٹھیک نہیں ہے ،اس لیے جدو جہد کا نکتہ تبدیلی نظام کی بجائے تبدیلی افراد ہو تا ہے اور عمومی طور پر دینی قوتوں کی پوری طاقت افراد کے بدلنے اور صالح سے صالح قیادت لانے پر صرف ہو تی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ لبرل جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کا پورا ڈھانچہ اور اس کے بنیادی اصول عوام کی حاکمیت اور کلی اختیار کو فرض کر کے طے کئے گئے ہیں۔مغربی جمہوریت کا ایک ایک اصول ،پورا طریقہ کار، ووٹنگ کے عمل سے لیکر حکومت تک پہنچنے کے تمام مراحل اور حکومتی نظم و نسق چلانے کے جملہ طریقے ،سب میں عوام کی حاکمیتِ اعلی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔عوام کی حاکمیت محض خالی نظریہ اور مفرو ضہ نہیں ہے ،جس کا جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ڈھانچے سے تعلق نہ ہو۔بلکہ جمہوریت کا پورا نقشہ عوم کی حاکمیت کا مظہر اتم ہے،اس لیے جب یہ کہا جائے کہ ہم عوم کی حاکمیت کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے قائل ہیں، تو لبرل مغربی جمہوریت کے اس پورے ڈھانچے میں ترمیم کرنی ہو گی، وہ تمام طریقے تبدیل کرنے ہو ں گے ،جو عوام کی حاکمیت کے غماز ہیں ۔اگر صرف آئین میں یہ جملہ درج ہو کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے ،جبکہ ڈھانچہ اور بنیادی اصول لبرل جمہوریت کے باقی رکھے گئے، جیسا کہ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں لبرل جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ،اساسی اصول اور پورا طریقہ کار جوں کا توں ہے،تو اس نظام کو عوام کی حاکمیت پر بنی نظام ہی کہا جائیگا، کیونکہ صرف نام کے بدلنے سے شئی کی حقیقت اور ماہیت نہیں تبدیل نہیں ہو جاتی۔

شریعت کی اصطلاح میں منافق اسی کو تو کہتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار زبان سے کرنے کے باوجود اپنی سوچ، بنیادی تصورات اور ان بنیادی افعال کو ترک نہیں کرتا جس سے ا س کے موحد ہونے کی بجائے مشرک ہونے کا اظہار ہو تا ہے۔تو شریعت زبان پر حکم لگانے کی بجائے اس کی حقیقت پر حکم لگا کر اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود کافر قرار دیتی ہے۔ لہذا شرعی اصطلاح میں ہمارے ہاں رائج جمہوریت کومنافق جمہوریت کہا جائے ،تو شاید تقریبِ فہم کے لیے یہ تعبیر مناسب ہو گی ،کہ اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرنے کے باوجود اس کا بنیادی ڈھانچہ بالکل لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے۔

اس کو دوسرے لفظوں میں یو ں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لبرل جمہوری ملکوں میں آئین و دستور میں عوام کو ہر قسم کی حاکمیت کا سرچشمہ لفظا تسلیم کیا گیا ہے ، لہذا جمہوریت کی اسلام کاری میں آئین و دستور میں عوام کی حاکمیت کے الفاظ کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے الفاظ لکھ لیے جائیں ۔بلکہ عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول اور پورا ڈھانچہ عوام کی حاکمیت پر مشتمل ہے ،اس لیے اس پورے ڈھانچے کو مختصراً عوام کی حا کمیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ا ور

یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی کلی حاکمیت کا نام ہے ۔اگر وہی اصول اور ڈھانچہ ہمارے ہاں بھی برقررار ہے، تو محض نام کے بدلنے یا آئین میں کچھ الفاظ بڑھانے سے عوام کی حاکمیت کا عنصر تبدیل نہیں ہو گا۔اور نام خواہ جو بھی رکھ لیں اس کی ماھیت اور حقیقت جب لبرل جمہوریت والی ہے ،تو اس پر حکم بھی لبرل جمہوریت کا لگے گا۔اور یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ عوام کی حا کمیت کا نام ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ جب اس کی حقیقت، ماہیت، بنیادی اصول ، طریقہ کار لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے ،تو صرف آئین میں قرار دادِ مقاصد یا اللہ کی حاکمیت کے الفاظ بڑہا دینے سے یہ نظام اسلامی نہیں بنے گا،خصوصاً جبکہ وہ الفاظ بھی عوامی نمائندوں نے دو تہائی اکثریت سے پاس کئے ہوں اور انہیں اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیاربھی ہو۔

قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق

رائج جمہوریت کو اسلامی کہنے کے لیے دوسرا استدلال اس سے کیا جاتا ہے کہ چونکہ آئین میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنیا جائیگااور موجودہ غیر اسلامی قونین کو بھی جلد از جلد اسلامی قالب میں ڈھالا جائیگا۔لہذا جب دستور میں قانون سازی اور پارلیمنٹ کے اختیارات کی حدود طے کی گئی ہیں، تو لبرل اور رائج جمہوری نظام میں خود بخود فرق ہو گیاکہ لبرل جمہوریت میں اس طرح کی کوئی قید و پابندی نہیں ہوتی۔

اس نکتے اور استدلال کے بارے میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں:

1۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مامورات قانوناً لاگو ہو نگے اور منہیات قانوناً ممنوع ہو ں گے ۔جبکہ مباحات اور انتظامی امور میں مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ قانون سازی کی جائی گی۔تو کیا ہمارے آئین کی رو سے شریعت کے مامورات قانونا نافذ ہیں ؟کیا شریعت کی منہیات قانوناً ممنوع ہیں؟کیا ہماری عدالتیں محض اس وجہ سے ایک کام پر پابندی لگانے کی مجاز ہیں کہ وہ شریعت میں ممنوع ہیں ،خواہ دستور میں اسے صراحۃً منع نہ کیا گیا ہو۔کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی چیز لاگو اور ناافذ کرنے کا اختیار ہے جس کونافذ کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے؟اگر ان کو آئینی شقوں کے علاوہ باقی کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے تو گویا قرآن وسنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کے باوجود ملک میں قرآن وسنت کے خلاف قونین موجود ہیں۔اور ملک میں عملاً قرآن و سنت کی بجائے آئین و دستور کو بالادستی حاصل ہے۔

2۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کی خود کیا حیثیت ہے؟کیا پارلیمنٹ اسے اکثریت سے تبدیل کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر ارکانِ پارلیمنٹ کو اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیار ہے ،تو انجامِ کار کے اعتبار سے عوامی نمائندوں کی بالادستی ہوئی ،نہ کہ قرآن وسنت کی بالادستی ۔

3۔قرآن و سنت کے خلاف اگر پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کر لے، تو اس قانون کی آئینی حیثیت کیا ہو گی؟کیا صرف اس وجہ سے کہ شریعت کے خلاف ہے ،وہ آئینی شق خود بخود کالعدم ہوجائے گی ؟ یا کیا پارلیمنٹ سے بالادست ملک میں ایسا ادارہ موجود ہے جس کے پاس پارلیمنٹ کی غیر اسلامی قانون سازی کو منسوخ کرنے کا مکمل اختیار ہو؟اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا صرف آئین میں اس قسم کے الفاظ لکھنے سے یہ جمہوریت’’ اسلامی ‘‘بن جائی گی ؟ جبکہ عملاً پارلیمنٹ اسی طرح ملک کا سپریم ادارہ ہے ،جس طرح لبرل جمہوریت میں پارلیمنٹ ملک کا خود مختار ادارہ ہوتا ہے۔

4۔قرآن و سنت کو بالا دست رکھنے کا اصل طریقہ تو یوں تھا، کہ آئین میں دفعہ کی عبارت اس قسم کی ہوتی:

’’تمام قوانین دلائلِ شریعہ یعنی قرآن وسنت ، اجماع قیاس اور دیگر ماخذِ شریعہ سے اخذ کیے جائیں گے ۔اگر کوئی قانون غیر شرعی ماخذ سے لیا گیا اور وہ شریعت کے منافی ہو تو وہ کالعدم شمار ہو گا ،اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا اور آئین کی یہ شق ان بنیادی شقوں میں شامل ہے جو ہر صورت میں لاگوں ہوں گے اور ناقابلِ تبدیل ہیں‘‘ یا پارلیمنٹ سے اوپر ایک ایک ایسا سپریم ادارہ ہوتا ،جس کو پارلیمنٹ کے خلافِ شریعت قانون کا لعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہوتا۔ لہٰذا محض ایک بے جان قسم کی دفعہ شامل کرنے سے یہ پورانظام کیسے اسلامی بن سکتا ہے۔

5۔ اگر با لفرض مان بھی لیں کہ یہ دفعہ اپنی تمام تر ابہامات اور ضعف کے باوجود دستور کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کے لیے کا فی ہے تو کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟تعجب کی بات یہ کہ دستور میں صرف ایک حصہ (نہم) چند اسلامی احکام کے لیے مختص کیا گیا ہے، اس کے علاوہ باقی پورے دستور کی دفعات میں اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگی سرے سے مفقود ہے۔ دستور کی ساری دفعات دنیا میں رائج پارلیمانی نظام کو سامنے رکھ کر طے کی گئی ہیں ۔ اگر یہ اشکال ہو کہ وہ دفعات مباحات اور انتظامی امور کے ذیل میں آتی ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو یہ تسلیم ہی نہیں ہے کہ وہ سارے قوانین اس دائرے سے متعلق ہیں، کیونکہ اس میں حکمرانوں کے انتخاب، عزل ،رکنیت کی شرائط، مالیاتی امور اور دیگر بے شمار ایسے احکامات ہیں، جن میں قدم قدم پر شریعت کی رہنمائی کی ضرورت ہے ،لیکن ان تمام امور میں اسلامی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔اور اگر تسلیم کر لیں کہ یہ ساری دفعات مباحات اور انتظامی امور سے متعلق ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر شریعت کی منصوصات اور متفقہ مسائل کے بارے میں دستور کیو ں خاموش ہے ؟ اس کی خاموشی اگر اجازت ہے تو گویا شریعت کی منہیات قانوناً جائز ہیں؟ اور اگر خاموشی منع کے زمرے میں آتی ہے تو مامورات قانوناً ممنوع ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں فیصلہ کرتے وقت صرف دستور کو سامنے رکھتی ہیں یا شریعت کو؟کیا عدالتوں کا دائرہ اختیار ، طریقہ کار اور فیصلہ کرنے کے اصول دستور میں درج نہیں ہیں ؟ کیا ہماری عدالتیں آج بھی ہندوستانی عدالتوں کے لیے برطانیہ کے جاری کردہ ایکٹ کے تحت کام نہیں کر ہی ہیں ؟کیا عدالتوں کا سارا نظام شریعت کے مطابق ہے؟ کیا ان سب غیر شرعی امور کے باوجود ہمارا دستور ’’اسلامی‘‘ ہے؟

6۔آخر میں اگر مان بھی لیں کہ دستور با لکل’’ اسلامی ‘‘ہے تو دستور جمہوریت کے اجزا ء میں سے ایک جز ہے، تو صرف اس جز کے اسلامی بننے سے رائج پورا جمہوری نظام اسلامی بن جائیگا ؟جبکہ بقیہ اکثر اصولوں اور ڈھانچے میں یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل مطابق ہے اور لبرل جمہوریت کے ان اصولوں کا غیر اسلامی ہونا بالکل واضح ہے۔

اسلام مملکتی مذہب ہوگا

اس جملے کا مطلب اگر یہ ہے کہ حکومت کے افراد مسلمان ہو ں گے تو ظاہر ہے کہ محض افراد کے اسلام سے نظام اسلامی نہیں بنتا۔اور اگر یہ ہے کہ اسلام کو بالادستی حاصل ہو گی تو وہی سوالات اور ابحاث لوٹ کر آئیں گے جو دوسرے نکتے کے ذیل میں گزر چکے۔خلاصہ یہ کہ یہ جملہ بھی رائج جمہوریت کو اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

آخری گزارش: کرنے کا اصل کام

موجودہ نظام میں شامل ہو کر اس کے اصولوں کے اند ر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی کوشش کرنا ، کثرتِ رائے سے زیادہ سے زیادہ اسلامی شقوں کا دستور میں اضافہ کرنا اور صالح سے صالح قیادت لانے کی جدو جہد کرنا یقیناًایک عظیم کام ہے اور اس میں ہر دینی ، مذہبی جماعت نے اپنی بساط کے مطابق، اثر و رسوخ اور اپنی حکمتِ عملی کے تحت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور آج جو اس ملک کے نظام میں اسلام کی کچھ’’ آمیزش ‘‘نظر آرہی ہے ،وہ انہی رجالِ باصفا کی انتھک کو ششوں کا نتیجہ ہے ،لیکن ہمیں اس پہلو پر بھی غور و فکر اور سوچ و بچار کرنا ہو گا کہ کہیں یہ کوششیں ، یہ جدو جہد اور تگ و دو اس لحا ظ سے عا رضی تو نہیں ہے کہ اگر کہیں (اللہ نہ کرے)سیکولر اور دین بیزار قسم کے لو گوں کو کثرت اور قوت حاصل ہو اوروہ ایک قررارداد سے ان ساری اسلامی شقوں کو یکسر ختم کر دے ،تو ان کا یہ عمل موجودہ نظام اور آئین کے بالکل مطابق ہو گا، کیونکہ موجودہ نظام انہیں اس بات کا مکمل اختیار دیتا ہے ۔ نیز جب اس نظام کی بنیادیں اور اساسی اصول لبرل مغربی جمہوریت کے تقریباً مطابق ہیں اور یہ نظام اسی لبرل مغربی جمہوریت ہی کا دوسرا رخ ہے ،تو کہیں اہلِ دین کی شرکت اور اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کی یہ کو شش اس نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ پر مہر نہ ثبت کر دے اور یہ شرکت اہلِ دین کی خاموش موافقت اور تائید نہ سمجھی جائے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی خاموشی ااور اس نظام کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کی کوششوں کے فقدان سے اب عمومی طور پر یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا ملک آئینی اور قانونی طور پر ایک مکمل اسلامی ریاست ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کو صحیح صالح قیادت میسر نہیں آسکی جو اس ’’اسلامی ‘‘ دستور کو نافذ کرے۔ خدا نخواستہ اگر یہ فکر و سوچ عمومی طور پر راسخ ہوگئی تو اس سے اس ملک کے نظام کی اسلام کاری کا باب مکمل بند ہو جائیگا اور اس نظام کو اسلامی سمجھنے کی وجہ سے خلافت کے احیا کی کوششیں بھی رفتہ رفتہ معدوم ہو جائیں گی۔ حالانکہ خلافت کے فریضے کو ترک کرنے کی پاداش میں در در کی ٹھو کریں امت کا مقدر ہیں اور اسلامی تحریکوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود امتِ مسلمہ دینی، اخلاقی ،سیاسی ،عسکری ، علمی اور فکری غرض ہر اعتبار جانبِ زوال ہی گامزن ہے اور خلافت کی صورت میں ایک مرکز نہ ہونے کی وجہ سے ان کوششوں اور قربانیوں کے کما حقہ اثرات ظاہر نہیں ہو رہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو ہر سطح پر مکمل طور پر نافذ کرنے کی قوت اور حکمت و بصیرت سے نوازے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم۔

آراء و افکار

(جنوری ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter