نیلسن منڈیلا کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نیلسن منڈیلا تحریک آزادی کے عالمی لیڈروں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف جنوبی افریقہ کی آزادی کے لیے طویل جنگ لڑی بلکہ دنیا کے نقشے پر دکھائی دینے والی نسلی امتیاز کی دو آخری نشانیوں میں سے ایک کے خاتمہ کی راہ ہموار کی۔ نیلسن منڈیلا سے قبل جنوبی افریقہ سفید فام، سیاہ فام اور انڈین کہلانے والے باشندوں کے درمیان تقسیم تھا۔ تینوں کی آبادیاں الگ الگ تھیں، رہن سہن الگ الگ تھا اور حقوق و مفادات کے معیارات الگ الگ تھے۔ گوروں کی حکومت تھی اور سیاہ فام اکثریت غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھی۔ انڈین کہلانے والی آبادی جو مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مشتمل تھی اور جس میں انڈونیشیا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے، اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ انڈین کمیونٹی تجارت و سیاست میں قدرے بیدار و متحرک ہونے کی وجہ سے سیاہ فاموں سے کسی حد تک مختلف معیار کی حامل تھی۔ اس نسلی تفریق و امتیاز اور گوروں کی اقلیتی حکومت کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آزادی کا پرچم بلند کیا، زندگی کے کم و بیش تین عشرے جیل میں گزارے اور عدم تشدد پر مبنی پر اَمن جدوجہد کے نتیجے میں اپنی قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔ 

میں جنوبی افریقہ کے حالیہ سفر کے دوران اس جیل کے سامنے سے گزرا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی سلاخوں کے پیچھے بسر کیا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمہ کے لیے گزشتہ صدی کے دو بڑے لیڈروں کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا۔ دونوں کی جدوجہد میں یہ بات قدرِ مشترک تھی کہ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کی بالاتری اور بالادستی سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی اور دونوں کی جدوجہد تشدد سے ہٹ کر خالصتاً پر اَمن سیاسی تحریک پر مبنی تھی۔ البتہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی دستور اور حکومت کے تحت رہتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کے لیے برابر کے سیاسی و شہری حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کی، جبکہ نیلسن منڈیلا گوری اقلیت کی حکومت کے خاتمہ اور جمہوری بنیادوں پر ملک میں اکثریتی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم عمل رہے، دونوں نے نسلی امتیاز کے خاتمہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دونوں کے ملکوں میں ان کی جدوجہد سے پہلے دور کے نسلی امتیاز کی نشانیاں اور آثار کچھ نہ کچھ اب بھی پائے جاتے ہیں، میں نے امریکہ اور جنوبی افریقہ دونوں جگہ گھوم پھر کر ان آثار کا مشاہدہ کیا ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کی غمازی کرتے ہیں، اور انہیں دیکھ کر ان دونوں لیڈروں کی عزیمت و استقامت اور صبر و حوصلہ کی بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ 

میں 5 دسمبر جمعرات کو جوہانسبرگ سے سعودیہ ایئر لائن کے ذریعہ جدہ کی طرف روانہ ہوا تو اس وقت تک مجھے کوئی خبر نہیں تھی، مگر ایک رات جدہ ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعد جمعہ کی شام کو لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ایک عظیم حریت پسند راہ نما اور عوام دوست لیڈر کی وفات پر صدمہ ہوا اور دل جنوبی افریقہ کے عوام کے غم میں شریک ہوگیا۔ 

اخبار و آثار

(جنوری ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter