(گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ایم فل علوم اسلامیہ کے طلبہ سے گفتگو۔)
میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے آپ حضرات سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ہے۔ مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، وہ ہے ’’پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘۔ یعنی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے اندر اس وقت قرآن کریم کے مطالعہ کے حوالے سے جو نصابات موجود ہیں اور جو اس مطالعے کے نتائج ہیں، میں نے ان پر اظہار خیال کرنا ہے۔ لیکن موضوع پر گفتگو سے قبل ایک دو باتیں میں چاہوں گا کہ آپ کے سامنے عرض کر دوں۔
ما شاء اللہ آپ لوگ ایم فل کی سطح پر آ گئے ہیں۔ آپ شعوری طور پر اس چیز کا ادراک کریں اور اپنے دل میں یہ احساس پیدا کریں کہ اب آپ بی اے، ایم اے سے اوپر ایک ایسی اسٹیج پر پہنچ گئے ہیں جہاں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اب آپ ہائیر اسٹڈی میں آگئے ہیں۔ اب آپ کا مطالعہ اور علمی ذخیرہ اس سے پہلے کا جو دور تھا، اس سے کہیں بہتر ہونا چاہیے اور کہیں زیادہ بلند ہونا چاہیے، آپ کی سوچ کا معیار پہلے سے کہیں بہتر ہونا چاہیے۔ اب آپ اپنے مطالعے اور اپنی سوچ کے اندر اور سوچ کی نہج کے اندر تبدیلی لائیں۔ پہلے آپ ایک چیز سنتے تھے اور سن کر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتے تھے، لیکن اب آپ کے اندر یہ رجحان طبع پیدا ہونا چاہیے، اپنی طبیعت میں یہ رجحان پیدا کریں کہ اب آپ نے محض سنی ہوئی اور پڑھی ہوئی باتوں کو اپنے حافظے کے اندر محفوظ نہیں کرنا، بلکہ جو چیز بھی پڑھیں اور سنیں، اس کے متعلق کیا، کیوں اور کیسے، یہ سوالات بھی اٹھائیں۔ پہلے آپ کی نظر کسی بات کے استناد کا حوالہ یہ تھا کہ یہ فلاں کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اب آپ کی نگاہ فوری طور پر اس بات پر آنی چاہیے کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے؟ اس نے یہ روایت کس سے لی ہے؟ جس سے یہ روایت لی ہے، اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور جو بات یہ کر رہا ہے، یہ عقل میں بھی آتی ہے کہ نہیں؟ جو بات یہ کر رہا ہے، وہ ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا ہے کہ یہ چیز صحیح بھی ہے یا نہیں تو آپ اس کے صحیح ہونے کا کھوج لگائیں گے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کن بنیادوں پر صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو کس بنیاد پر غلط ہے۔ اگر آپ کہیں پڑھیں کہ فلاں بزرگ نے ایک رات میں تین مرتبہ قرآن پاک ختم کر لیا تو آپ کے ذہن میں یہ چیز پیدا ہونی چاہیے کہ کیا عملاً اور عقلاً ایسا ممکن ہے؟ آپ کو غور و فکر کرنا ہے۔ تو اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کریں۔ اگر آپ اسی ذہنی لحاظ سے اسی اسٹیج پر رہے جس پر آپ اس سے پہلے ایم اے کے درجے میں تھے تو پھر آپ نے کچھ بھی نہیں پایا، پھر آپ کی شخصیت اور علم کے اندر اور ذہن میں کوئی ارتقا اور improvement نہیں ہوئی۔
میں وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی اہلیہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند جو کہ تنگ دست ہیں، کیا میں ان کو زکوٰۃ دے سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، دے دیا کرو۔ یہ بات ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں اس روایت کو پڑھ کر کئی طرح کے سوالات پیدا ہونے چاہییں۔ مثلاً یہ کہ کیا بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟ اگر دے سکتی ہے تو کیوں دے سکتی ہے؟ اور کیا خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں دے سکتا؟ وہ اسے زکوٰۃ دے سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں دے سکتا؟ یہ سوال اٹھائیں۔ پھر اس کے جواب آئیں گے۔ پھر یہ بات ذہن میں آئے گی کہ عورت بھی مال کی ملکیت کا حق رکھتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عبد اللہ ابن مسعودؓ کی بیوی ہے تو ان کی دولت بیوی کی ہوگئی اور بیوی کی دولت خاوند کی ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے معاشی حقوق کو تسلیم کیا ہے۔ جب اس کے حقوق کو تسلیم کیا ہے تو ظاہر بات ہے، اس پر زکوٰۃ بھی آئے گی۔ آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آنی چاہیے کہ اس دور میں معاشی تفاوت موجود تھا۔ کوئی امیر تھا، کوئی غریب تھا۔ اور آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آنا چاہیے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ غربت کا کیوں شکار تھے؟ بیوی کے پاس جو دولت آئی، وہ کہاں سے آئی؟ کیا ان کو جہیز میں ملی؟ کیا کسی نے ہبہ کر دی؟ یا ان کا کوئی کاروبار تھا؟ تو ان ساری باتوں کا جواب آپ تلاش کریں گے تو آپ کے ذہن کا ارتقا ہوگا اور آپ کی سوچ پختہ اور گہری ہوگی۔
ہمارے نظام تعلیم کی ایک بہت بڑی کمی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اندر تخلیقی استعداد پیدا نہیں کرتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چیزیں رٹتے اور یاد کرتے جاتے ہیں۔ بہرحال اب آپ تخلیقی رجحان پیدا کریں اور جس اسٹیج پر آپ آئے ہیں، اس کے تقاضوں کا ادراک اپنے اندر پیدا کریں اور مطالعے کا شوق پیدا کریں۔ ایک مطالعہ ہوتا ہے بندش کا یعنی مجبوری کا مطالعہ۔ وہ اتنے اثرات مرتب نہیں کرتا جتنا شوق سے کیا گیا مطالعہ اثرات کرتا ہے۔ دیکھیں، مکان بنانے کے لیے بہت سی چیزیں پہلے ضروری ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین ہموار ہو۔ ایسا نہیں کہ کسی جوہڑ میں آپ مٹی ڈال کر اس کو ہموار کر لیں اور اس پر مکان بنانا شروع کر دیں۔ اگر ایسی زمین پر مکان بنائیں گے تو اس کی دیواریں بہت جلد بیٹھ جائیں گی، اس کا فرش بیٹھ جائے گا۔ عمارت کے لیے پہلے بنیاد ضروری ہے۔ اور بھی بہت سی ضروریات پوری کریں گے، ورنہ اس کے اندر سے سیم نکل آئے گی اور وہ مکان کو لے ڈوبے گی۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کی عمارت تعمیر کرنی ہے تو اس کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ اپنا مطالعہ وسیع کریں، اپنے اساتذہ سے پوچھیں۔ اگر آپ کا محدود مطالعہ ہے اور آپ کسی سے معلوم نہ کریں تو یہ جہالت کی ایک شکل ہے۔ اس لیے پوچھنے میں کوئی شرم نہیں۔ ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ’’ماں کی گود سے لے کر قبر تک پڑھتے رہیں‘‘۔ تو پوچھنے میں بالکل بھی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں۔ اگر تلاوت صحیح نہیں کر سکتے تو کسی سے پڑھ لیجیے۔ اس کی تلاوت صحیح کریں۔ پھر اگر آپ کو قرآن مجید کا ترجمہ نہیں آتا تو کسی کے پاس بیٹھ کر ترجمہ پڑھیے۔ اگر آپ خود پڑھیں گے تو اس کا اتنا زیادہ اچھا امپیکٹ نہیں ہوگا۔ یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، ضروری بنیادی باتیں ہیں جن کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا اپنا یہ تجزیہ ہے کہ دینی علوم مثلاً قرآن، حدیث اور فقہ اور سیرت طیبہ، ان کا اپنا ایک مزاج ہے۔ کسی نے مجھے کہا تھا کہ یہ قرآن و حدیث اور عربی کرسیوں پر بیٹھ کر نہیں آتی اور انگریزی صفوں پر بیٹھ کر نہیں آتی۔ اس کے لیے ماحول اپنانا پڑتا ہے۔ تو دینی علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جب تک استاد کے سامنے بیٹھ کر نہ پڑھے جائیں، یہ دل میں نہیں اترتے۔ بنیادی ضرورت عربی جاننا اور اس پر دسترس حاصل کرنا ہے اور یہ ناگزیر ہے۔ آج تک جو وقت گزر گیا، سو گزر گیا۔ جن کو گزارے کی عربی آتی تھی، ان کا کام چل رہا تھا۔ اب اگلا دور بہت کمپی ٹیشن کا دور ہے۔ اب جس کو عربی نہیں آتی، وہ سمجھے کہ وہ بالکل خالی خالی ہے اور اردو مآخذ سے اسلامیات پڑھنے کے بعد وہ اسلامیات کا اسکالر نہیں کہلا سکتا۔ آپ ایم فل میں آئے ہیں اور ایم فل کی بنیادیں تبھی مضبوط ہوں گی جب آپ عربی زبان میں مہارت پیدا کریں گے۔ اگر عربی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، اس کو ابھی سے سیکھنا شروع کر دیں۔ قرآن حکیم کا ترجمہ اور عربی زبان کو ملا کر اپنے آپ کو تیار کریں۔ کچھ محنت کرنے سے جب آپ کو عربی آنا شروع ہو جائے گی تو آپ کے اندر ایک کانفیڈنس ابھرے گا، انشاء اللہ۔ جن کو عربی آتی ہے، ان میں کانفیڈنس ڈیولپ ہو جاتا ہے، اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے جو عربی نہیں جانتے، وہ عربی سیکھ جائیں۔ بعد میں ذرا اپنا جائزہ لیں کہ اگر مجھے عربی نہ آتی ہوتی تو کیا میں عربی کے ان مآخذ سے فیض یاب ہو سکتا تھا؟
مجھے بقدر ضرورت عربی آتی ہے، میں اتنا ماہر نہیں ہوں لیکن میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے دو چیزوں کی بڑی حسرت ہے۔ ایک یہ کہ میں نے کسی استاد کے سامنے بیٹھ کر حدیث نہیں پڑھی اور دوسرا مجھے ’’فتح الباری‘‘ (شرح صحیح البخاری) کا بہت اشتیاق ہے کہ مجھے یہ ایسے پڑھنی آجائے جیسے میرے ذہن میں ہر چیز مستحضر ہو۔ آپ جب بنیادی مآخذ سے علوم کو پڑھیں گے تو اعتماد پیدا ہوگا۔ قرآن مجید، عربی کے ساتھ ساتھ حدیث کا مطالعہ بھی شروع کریں، اگرچہ آپ ’’معارف الحدیث‘‘ سے ہی آغاز کر لیں۔ ’’بلوغ المرام‘‘ اور ’’الترغیب والترہیب‘‘ سے شروع کردیں۔ ’’مشکوٰۃ‘‘ سے شروع کردیں۔ ان کتابوں کے تراجم موجود ہیں۔ اب تو ان غیر معروف کتابوں کے بھی تراجم موجود ہیں جو پہلے اردو میں دستیاب نہیں تھیں۔ ایک وقت مختص کر لیں کہ کچھ وقت میں نے قرآن مجید اور حدیث نبوی کے مطالعے پر صرف کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصاب بھی رکھ لیں۔ کیونکہ سیرت قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے، اس میں صاحب قرآن کی زندگی ہے۔ ان تین چیزوں کو سامنے رکھ کر ابھی سے مطالعہ شروع کر دیں تو انشاء اللہ العزیز آپ کو کوئی دقت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کے بغیر چلیں گے تو پھر خالی خالی ہی رہیں گے اور اعتماد، کانفیڈنس ڈویلپ نہیں ہوگا۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ’’پاکستان کی یونیورسٹیوں میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘ کس انداز میں ہو رہا ہے۔ اس وقت ہماری جامعات میں قرآن کا جو مطالعہ کیا جا رہا ہے، عموماً ہر یونیورسٹی کے اندر نصاب یکساں ہے اور اس کے نصاب میں اصول تفسیر اور قرآنیات یا تفسیر اور متن تفسیر شامل ہیں۔ اصول تفسیر میں جو مرکزی کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ شاہ ولی اللہؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے بغیر اصول تفسیر کا حصہ cover ہی نہیں ہوتا۔ کتاب ایسی ہے کہ لوگ کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہوا ہے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے بڑی جامعیت کے ساتھ اس رسالے میں اصول تفسیر کو جمع کیا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے علماء نے بیان نہیں کیں، انہوں نے اس رسالہ میں جمع کر دی ہیں۔ ایک جامع کتاب اور اصول تفسیر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ہمارا جو طریقہ تدریس ہے، اس میں کہیں بھی ایسا نہیں کہ ’’الفوز الکبیر‘‘ کو سبقًا سبقًاپڑھا جاتا ہو یا پڑھایا جاتا ہو۔ کتاب اتنی اہم ہے، لیکن ہمارے ہاں تدریس کا جو دورانیہ ہے، اس کے مختصر ہونے کی وجہ سے ’’الفوز الکبیر‘‘ سبقًا سبقًا نہیں پڑھائی جاتی۔ آخر میں طلبہ اس کے نوٹس کی مدد سے تیاری کر کے ایم اے پاس کر جاتے ہیں۔ ہمارا اصول تفسیر کا نصاب الفوز الکبیر کے گرد ہی گھومتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں چند سالوں سے ہم نے اس کے ساتھ امام ابن تیمیہؒ کا رسالہ اصول تفسیر بھی شامل کیا ہے۔ اسی طرح علوم القرآن پر مولانا گوہر رحمن کی کتاب بھی شامل کر دی ہے تاکہ الفوز الکبیر کے مباحث سمجھنے میں آسانی ہو۔
تاریخ تفسیر میں بھی جامعات کا نصاب تقریباً ایک جیسا ہے اور اس میں ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور پشاور یونیورسٹیز کا نصاب ایسا ہی ہے۔ جن کتب تفاسیر کا تعارف کروایا جاتا ہے، وہ بھی ایک ہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں چونکہ دورانیہ تھوڑا ہوتا ہے، اس لیے تاریخ تفسیر کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ اصولی باتیں پڑھا دی جاتی ہیں اور باقی چیزیں طلبہ خود ہی تیار کرتے ہیں۔ ان کو نوٹس دے دیے جاتے ہیں یا طلبہ کہیں سے نوٹس حاصل کر لیتے ہیں۔ گویا ان دونوں دائروں، اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کی تدریس میں یونیورسٹیز کے نصاب اور طریقہ تدریس میں زیادہ گہرائی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہمارے اسلامیات کے پیپرز کے انچارج کہہ رہے تھے کہ طلبہ کے اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کے حصے بہت کمزور ہیں۔ اس لیے کمزور ہیں کہ سارا وقت متن میں گزر جاتا ہے اور معاملہ مطالعے کے لحاظ سے اتنا گہرائی تک نہیں پہنچتا۔
متن قرآن مجید کی تدریس کے سلسلے میں، میں معافی چاہتے ہوئے تھوڑا سا تقابل کرنا چاہوں گا۔ دینی مدارس کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ یونیورسٹیز میں جو اسٹڈی ہوتی ہے، اس میں مطالعہ متن کے ساتھ قرآن مجید کا موضوعاتی مطالعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بہرحال تسلی اور اطمینان کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آیت کی تشریح مانگی جائے یا ٹاپیکل اسٹڈی کی جائے تو دونوں صورتوں میں مطالعہ گہرا ہوتا ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس میں قدیم اور جدید تمام مکاتب فکر سے طلبہ کو واقفیت حاصل ہو۔ یہاں بنیادی طور پر یہ بات آڑے آجاتی ہے کہ ہمارے اکثر طلبہ کو عربی نہیں آتی۔ اب ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ساتھ ہی عربی کا ڈپلومہ بھی شروع کر دیا ہے اور طلبہ کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ عربی سیکھیں۔ ایم کے سال اول میں سو نمبر کا ایک پرچہ عربی کا پہلے ہی موجود ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی تو امید ہے کہ اس حوالے سے کچھ بہتری آئے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تدریج کے ساتھ ہم بچوں میں عربی پڑھنے کی صلاحیت پیدا کریں اور عربی پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ عادت ڈالنے کا ایک طریقہ ہم نے یہ اختیار کیا ہے کہ امتحانی پرچہ اس انداز سے سیٹ کیا جائے کہ بچوں کو مجبورًا عربی پڑھنی پڑے۔ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ خط کشیدہ الفاظ کی تشریح دے دی جاتی تھی۔ اس میں مضمون کے اعتبار سے خط کشیدہ حصے کی تشریح تو ہو جاتی تھی لیکن عربی گریمر میں مہارت نہیں جانچی جاتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اگر بیس نمبر کا سوال ہے تو اس میں پانچ نمبر خط کشیدہ حصوں کی صرف ونحو کے اعتبار سے تشریح کے لیے مختص ہیں۔ مثلاً اس لفظ کا باب کون سا ہے، کون سا صیغہ اور مادہ ہے۔ ماضی، مضارع، امر یا نہی ہے۔ طالب علم نے یہ سب کچھ بیان کرنا ہے۔ گویا ایم اے میں اگر ساٹھ نمبر کا پرچہ ہے اور چار سوال ہیں تو ہر سوال میں عربی گریمر کے پانچ نمبر ہیں اور یہ لازم ہوگیا ہے۔ اگر بچے نے عربی گریمر کو حل نہیں کیا تو اس نے پانچ نمبر ضائع کر دیے۔ باقی پندرہ نمبروں میں ا س کی مارکنگ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں یہ کیا ہے کہ علامہ وہبہ الزحیلی کی ’’التفسیر المنیر‘‘ کا منتخب متن (دو رکوع) ایم اے کے نصاب میں شامل کر دیا ہے۔ دو رکوع کے تقریباً ساٹھ ستر صفحات بن جاتے ہیں۔ اسی طرح حدیث کے پرچہ میں فتح الملہم (شرح صحیح مسلم) کی کتاب الایمان اور فتح الباری (شرح صحیح بخاری) کا منتخب حصہ بھی شامل کر دیا ہے جنھیں طلبہ عربی میں ہی پڑھیں گے اور عربی ہی میں جواب دیں گے۔ تو یہ ہم نے ایک قدم اٹھایا ہے تاکہ بچوں کو عربی پڑھنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔
ڈاکٹر حمید اللہؒ عالم اسلام کے بہت بڑے اسکالر تھے۔ میرے علم کے مطابق وہ سات آٹھ زبانوں کے ماہر تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ایک اسلامی اسکالر کو کم از کم بنیادی طور پر عربی اور اس کے ساتھ کم از کم ایک یورپین لینگویج آنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس انگریزی ہی بچتی ہے۔ لاہور میں تو چینی زبان سیکھنے کا رجحان بھی کافی ہے۔ لوگ چینی سیکھنے کی طرف بہت جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ نے جرمنی میں جا کر جرمن زبان میں تقریر کی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جرمن زبان کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے۔ وہاں سے ہمارے استاد وزیر اعلیٰ صاحب کو پڑھانے آتے ہیں۔ ان میں اتنی استعداد پیدا ہوگئی ہے کہ انہوں نے جرمن میں گفتگو کی ہے، یہ اچھی بات ہے۔ تو انگریزی آنی چاہیے اور جب ہم انگریزی پڑھاتے ہیں یا پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادھر سے جواب آتا ہے کہ مومنوں کو انگریزی نہیں آتی۔ یہ آنی چاہیے، اس کے بغیر ہم نہیں چل سکتے۔ ہم نے اس حوالے سے بندوبست کیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کا بھی کچھ حصہ شامل کر دیا ہے جس کا امتحان پاس کرنا طلبہ کے لیے ضروری ہوگا، لیکن ہوگا نان کریڈٹ، یعنی رزلٹ میں شامل نہیں ہوگا۔
ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کا جو مطالعہ ہو رہا ہے، وہ ایک حوالے سے ہمارے لیے اطمینان بخش ہے اور ایک اعتبار سے پریشان کن ہے۔ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ہمارا ٹیچر جب کلاس کے اندر لیکچر دیتا ہے تو وہ پانچ سات تفسیریں پڑھ کر آتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ عربی گریمر کا حصہ ہم نے ہر سوال کے اندر لازم کر دیا ہے۔ اسی طرح پہلے ہمارے ہاں موضوعاتی مطالعے پر مبنی سوالات ہوتے تھے۔ اب ہم نے لازم کر دیا ہے کہ ٹاپیکل اسٹڈی والا سوال نہیں آیا کرے گا۔ مثلاً ’’سورہ نحل کی روشنی میں توحید کے دلائل بیان کیجیے‘‘، یہ سوال نہیں آئے گا بلکہ آیت دی جائے گی اور طالب علم نے یہ تلاش کرنا ہے کہ اس آیت کے اندر کون کون سے سوال ہیں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آیت میں ایک سے زیادہ موضوعات ہوں۔ بہرحال ہمارے سسٹم میں بظاہر جو اطمینان کا پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا استاد اگر ایک آیت کی تفسیر کرتا ہے تو پانچ چھ تفسیریں اس نے پڑھی ہوتی ہیں اور اس کے مطابق وہ طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ بچوں سے نوٹس بھی تیار کرواتا ہے اور بعض اوقات بچوں کے پاس پہلے سے نوٹس موجود ہوتے ہیں۔ تو اس حوالے سے متن والا سوال خاصا وزنی ہو جاتا ہے۔ اگر میں موازنہ کروں دینی مدارس سے تو ان کا اپنا ایک انداز ہے، ہمارا اپنا انداز ہے۔ یہاں طالب علم کو چار پانچ تفسیروں کا بہرحال علم ہوجاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے آیت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ بلکہ جب پیپر مارکنگ ہوتی ہے تو اس کے اندر ایک طالب علم جو ترجیحی نمبر حاصل کرتا ہے تو اس میں ایک پوائنٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علم نے کتنی تفاسیر کے ریفرنس دیے ہیں۔ مثلاً مولانا مودودیؒ اس آیت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں۔ مفتی محمد شفیعؒ (مصنف معارف القرآن) یہ لکھتے ہیں۔ پیر کرم شاہ (مصنف تفسیر ضیاء القرآن) یہ لکھتے ہیں۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ تقریباً تمام جامعات کے اندر یہ بات موجود ہے اور مجھے اس بات کا مشاہدہ ہے کہ مطالعہ قرآن میں کسی مسلکی رجحان کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ایسے ساتھی موجود ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ کر آئے۔ وہ جہاں مولانا مودودیؒ کے حوالے دیتے ہیں، وہاں وہ مفتی محمد شفیعؒ کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ جہاں پیر کرم شاہ صاحبؒ کے حوالے ہوتے ہیں، وہاں مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے حوالے بھی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے ہاں مسلکی رجحانات سے بالاتر ہو کر جو چیز جہاں سے بھی ملتی ہے اور جس صحیح لٹریچر میں سے ہمیں کوئی چیز ملتی ہے، ہم طلبہ کو اس کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں متن قرآن کے حوالے سے یہ بڑی حوصلہ افزا چیز ہے کہ اللہ کے فضل سے بڑی مفید اسٹڈی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں بحث و تمحیص تو نہیں ہوتی، مثلاً یہ مسئلہ کیسے پیدا ہوا، فلاں نے کیا کہا، فلاں نے کیا کہا، اور ان کے کیا دلائل ہیں۔ ایم اے کی سطح پر یہ بات نہیں ہو پاتی، بلکہ کسی کی رائے کا حوالہ دینے اور بیان کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ دلائل کی سطح پر تقابل کرنا، یہ ایم اے کی سطح پر نہیں ہو پاتا۔ اس حوالے سے یہ ہمارے مطالعہ قرآن کا بہت مثبت پہلو ہے۔ وسیع المشربی کا مطلب ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی مفید بات ملتی ہے، ہر ایک سے استفادہ کرنا۔ آپ دیکھیے کہ بظاہر کتنا فرق ہے کہ ایک طرف پیر کرم شاہ بریلوی مکتبہ فکر کے ہیں، مولانا مفتی شفیع دیوبندی مسلک کے ہیں، مولانا امین احسن اصلاحی، ان کا الگ تفسیری مکتبہ فکر ہے، لیکن ہمارے ہاں ان سب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
ایک دفعہ میں نے کلاس میں طلبہ کو ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے سے منع کیا کہ ان کو نہ پڑھنا۔ فوراً ایک طالب علم بولا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے میری وضاحت سن لیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا تفسیر کا اپنا ایک انداز ہے اور ان کا اپنا تفسیری مسلک ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے اپنے اسلاف کا نقطہ نگاہ پڑھ لیجیے! کوئی بندہ عالم نہیں بن سکتا جب تک ’’تدبر قرآن‘‘ نہ پڑھ لے، لیکن ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے کے لیے ایک علمی سطح چاہیے۔ اگر ہر بندہ اسے براہ راست پڑھے گا تو ہو سکتا ہے، کئی چیزیں اس کے ذہن میں نہ آسکیں۔ لیکن جب آپ تھوڑا سا علمی سطح پر اوپر چلے جائیں گے تو پھر آپ کہیں گے کہ اس تفسیر کے بغیر میں عالم بن ہی نہیں سکتا۔ اس تفسیر کا اپنا ایک مقام ہے۔ تو یونیورسٹی میں ان تمام مکاتب فکر کی تفسیر سے استفادہ کیا جاتا ہے اور کھلے دل سے لوگوں کو سب کچھ سمجھایا جاتا ہے، بشرطیکہ راست فکر کاحامل ہو۔
بہرحال ہم نے یہ کیا ہے کہ کچھ تفسیریں مختص کر دی ہیں کہ فلاں سورت اس تفسیر کی روشنی میں اور فلاں اس تفسیر کی روشنی میں پڑھنی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ بچے کو سوال دیا جائے کہ فلاں آیت کی تفسیر ’’التفسیر المنیر‘‘ کی روشنی میں یا معارف القرآن کی روشنی میں کرو۔ اس طرح طالب علم متعلقہ تفسیر پڑھنے پر مجبور ہوگا۔ ایک قدم ہم نے یہ اٹھایا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے اندر چار شعبے اسپیشلائزیشن کے رکھے ہیں۔ ان میں قرآن میں سپیشلائزیشن کا شعبہ ہے۔ اسی طرح فقہ، مطالعہ مذاہب عالم اور حدیث اور سیرت کے شعبے ہیں۔ ایم اے کے دس پرچے ہیں۔ طالب علم کو مذکورہ مضامین میں سے کسی ایک مضمون میں اسپیشلائزیشن کے تین پرچے پڑھنے پڑیں گے۔ اس طرح ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کی تعلیم مزید پروموٹ ہوگی اور مزید بہتری آئے گی۔ اسی طرح کئی اور پہلووں سے بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حال ہی میں ہم نے چھ دن کی ورکشاپ کی ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں سامنے آئی ہیں۔ اساتذہ مل بیٹھ کر قرآن مجید کے نصابات میں جو عصری تقاضے ہیں، سب سے پہلے ان کا تعین کریں کہ ہم نے بچوں کے سامنے کیا کیا چیزیں لانی ہیں، کن کن چیزوں سے بچوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ اساتذہ پہلے بیٹھیں، نکات متعین کریں، پھر اس پر ڈسکس کریں کہ بچوں کو ان موضوعات پر کیسے علم دینا ہے اور اس پر فیڈ بیک دیں اور جب تک ہم فیڈ بیک کا نظام نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ ہم اچھے نتائج حاصل کر سکیں۔
مثبت پہلووں کے ساتھ ہمیںیونیورسٹیز میں کچھ مسائل کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑا مسئلہ طلبہ کے اندر علمی استعداد و صلاحیت پیدا کرنے اور جو وہ پڑھیں، اسے ان کے دماغ میں محفوظ کرنے کا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ایم اے پاس طالب علم کی لیاقت میں کیا اضافہ ہوتا ہے؟ یہ ہمارے لیے ایک سوال ہے کہ آخر وہ علم جو ہم یونیورسٹیز کے اندر انہیں پڑھاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں محفوظ کیوں نہیں ہوتا؟ دینی مدارس میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بچے پہلے سے مطالعہ کر کے جاتے ہیں۔ پھر استاد سبق دیتا ہے، پھر وہ سبق کا آپس میں مذاکرہ یعنی تکرار کرتے ہیں تو اس سے چیزیں ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے سے سنتے ہیں، میں پڑھ رہا ہوں باقی سن رہے ہیں تو اس سے بھی ذہنوں میں چیز محفوظ ہوتی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے اندر یہ چیز موجود نہیں۔ اگر قرآن مجید پکڑا ہے تو وضو کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اگر وضو کے چکر میں پڑے تو کلاس رہ جائے گی۔ ادب و احترام ملحوظ نہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ صفوں پر بیٹھ کر دین آتا ہے اور دین سیکھنے کے کچھ ضروری آداب بھی ہیں۔ یہ سب چیزیں ہوں گی، تب دین کا علم آئے گا ورنہ یہ ساری باتیں اوپر سے گزر جائیں گی۔ یونیورسٹی میں وہ ماحول ہی نہیں ہوتا جو دین کا علم سیکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں مطالعہ کا مقصد صرف یہی ہے کہ امتحان میں نمبر کیسے لینے ہیں۔ ہم ہدایت لینے یا علم کے حصول کے لیے نہیں پڑھتے۔ ایک چیز ادھر سے سنی اور ادھر سے نکال دی۔ تو نہ ماحول ہوتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ طلبہ میں قرآنیات اور دیگر علوم کے حوالے سے خود مطالعہ کرنے کا ذوق نہیں ہوتا۔ نوٹس نہیں بنا سکتے، پرانے نوٹس سالہا سال سے چل رہے ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس کس سال کے نوٹس ہیں؟ چونکہ طلبہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اور انہیں بہت سے کام ہوتے ہیں، لہٰذا زیادہ تر طالبات کے تیار کردہ نوٹس ہی چلتے ہیں۔ ہم اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان نوٹس کی کتنے سال عمر ہوگئی ہے، وہی چلتے رہتے ہیں۔ اصل کتابوں اور مآخذ سے پڑھنا مشکل ہے۔
ایم فل، پی ایچ ڈی میں یوں سمجھنا چاہیے کہ طالب علموں کے پاس موضوع سے متعلق علم موجود ہے اور اب انھوں نے اس علم کا عملی انطباق کرنا ہے۔ میں ایم فل کو علوم القرآن پڑھاتا ہوں اور میرا اپنا پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ میں ’’الفوز الکبیر‘‘ کو بنیاد بنا لیتا ہوں۔ ایک تو یہ بڑی بنیادی کتاب ہے، دوسرا ان بچوں نے ایم اے میں اس کو پڑھا بھی ہوا ہے۔ اسی طرح مولانا گوہر الرحمن کی کتاب علوم القرآن بھی آگئی ہے، اس کے اندر بہت زیادہ معلومات ہیں۔ اسی طرح علوم القران پر مولانا مالک کاندھلویؒ اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتابیں ہیں تو میں نے ان کتابوں کو سامنے رکھ کر تیاری کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر اسباب نزول کی جو بحث ہے، اس میں ایک تو روایتی انداز ہے کہ ان لوگوں نے اسباب نزول بیان کیے ہیں۔ اسباب نزول کی اہمیت کیا ہے؟ ان کی اہمیت تفسیر قرآن میں کیا ہے؟ یہ تو ایک روایتی سوال ہے۔ میں اس میں یوں سوال کرتا ہوں کہ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ بہت سارے تفسیری اختلافات محض اس لیے پیدا ہوگئے ہیں کہ لوگوں نے اسباب نزول کا التزام کیا، لہٰذا کمزور اور ضعیف روایتیں لے لیں۔ مفسرین نے ہر آیت کی تفسیر میں اس کے شان نزول کی روایتیں لانا شروع کر دیں، لہٰذا کمزور روایتیں بھی شان نزول میں شامل ہوگئیں۔ تو میں طلبہ کو یہ اسائنمنٹ دیتا ہوں کہ آپ وہ مقامات تلاش کریں جہاں کمزور روایتیں داخل ہونے کی وجہ سے تفسیری اختلافات پیدا ہوگئے۔ ساتھ ہی مولانا اصلاحیؒ یہ فرماتے ہیں اور بہت سے مقامات پر مولانا نے صحیح فرمایا ہے کہ اگر نظم قرآن کو بنیاد بنایا جائے تو بہت سے تفسیری اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ میں طلبہ میں یہ کام تقسیم کر دیتا ہوں کہ پانچ، پانچ مقامات تلاش کر کے لائیں جہاں تفسیری اختلافات تھے اور نظم قرآن کی وجہ سے وہ اختلافات ختم ہوگئے۔
اسی طرح نسخ کی بحث ہے۔ طلبہ نے اس پر بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ اس کو بھی مستحضر رکھیں، لیکن اس سطح پر اپنے مطالعہ میں نئے پہلووں کو بھی شامل کریں۔ نئی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے موجودہ نسخہ میں کوئی ناسخ ہے، نہ منسوخ ہے، یہ قرآن مجید بالکل سُچا ہے۔ یہ کس کا نقطہ نگاہ ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں؟ میں نے ایک جگہ یہ بات کی کہ اس موجودہ قرآن میں نہ کوئی ناسخ ہے اور نہ ہی منسوخ ہے تو مجھے کہا گیا کہ یہ تو معتزلہ کا نظریہ ہے۔ پوری امت میں واحد شخص ابو مسلم اصفہانی ہے جس نے یہ نقطہ نگاہ اختیار کیا۔ میں نے کہا کہ مجھے معتزلی نہ بنا دینا، میں اپنی بات کی وضاحت کردوں گا۔ تو علمی مباحث میں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے فلاں موقف اختیار کیا تو مجھ پر کوئی فتویٰ نہ لگ جائے۔ میں نے طلبہ کو مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب فہم قرآن اور اسی طرح دوسری کتابیں پڑھائیں تو ان کا ذہن کھلا اور وہ اس سوال کو وسعت نظری کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہوئے۔ بہرحال طلبہ کو اپنا مطالعہ وسیع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جب تک آپ خود مطالعہ نہیں کریں گے، کوئی قابل سے قابل استاد بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
آخر میں، میں آپ کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع اور اعزاز دیا۔