دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ

مفتی سید سیاح الدین قافلہ محدثین کی ایک فراموش شدہ شخصیت کا نام ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فیصل آباد میں گزرا۔ وہ کم و بیش نصف صدی تک اسی شہر میں قال اللہ و قال رسول کی علمی روایت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ موجودہ فیصل آباد ہمیشہ سے فیصل آباد نہ تھا بلکہ پہلے لائل پور کہلاتا تھا۔ لائل پور سے فیصل آباد کا سفر تقریباً پون صدی میں طے ہوا۔ 

لائل پور کی ابتدا چناب کینال کالونی کے نام سے ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈوڈ لائل تھے۔ انہی کے نام پر اس کا نام لائلپور رکھا گیا۔ پہلے یہ ضلع جھنگ کی تحصیل تھی۔ ۱۹۰۴ء میں اس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ لائل پور کے بعض لوگوں کی خواہش پر یکم ستمبر ۱۹۷۷ء کو لائلپور کا نام فیصل آباد رکھا گیا۔ لائل پور میں بھی رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ فرامین کی صدائیں قیام لائل پور ہی سے گونجنے لگی تھیں۔ کیونکہ اس شہر کے آباد ہوتے ہی یہاں پہلا دینی مدرسہ اشاعت العلوم کے نام سے قائم ہوا۔ 

محدث جلیل مفتی سید سیاح الدین کی پیدائش ۸ شوال ۱۳۳۴ھ مطابق ۸ اگست ۱۹۱۶ء کو ہوئی۔ آپ کے والد حکیم حافظ محمد سعد گل تھے۔ آپ کے نانا کا نام محمد مطہر ہے۔ دونوں جید عالم تھے۔ ننہال اور ددھال دونوں طرف سے موصوف کو علمی ماحول ملا۔ 

سید سیاح الدین کو علم حدیث سے خاص مناسبت تھی۔ یہ مناسبت ان عظیم اور اجلہ اساتذہ کی وجہ سے پیدا ہوئی جو علم حدیث میں آپ کے براہ راست استاد رہ چکے تھے۔ ان حضرات کا مختصر تذکرہ اس جگہ ضروری ہے تاکہ موصوف کے دل میں علم حدیث کی جوت جگانے والے اکابر کا علم ہو سکے۔ ان میں پہلا نام مولانا عبدالحق نافع ؒ کا ہے جودارالعلوم دیوبند کے اجلہ اساتذہ میں سے تھے۔ ان کا تقرر ۱۹۳۳ء میں بحثیت مدرس اعلیٰ دارالعلوم دیوبند میں ہوا۔ موصوف سید سیاح الدینؒ کے بزرگ رشتہ داروں میں سے تھے۔ ان کی علمی کشش مولانا سیاح الدین کو دارالعلوم دیوبند لے گئی۔ چنانچہ آپ جنوری ۱۹۳۴ء مطابق شوال ۱۳۵۲ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ نے مطول شرح عقائد نسفیہ مولانا نافع سے دیوان متبنّی مولانا اعزاز علی اور ہدایہ اولین کا درس مفتی ریاض الدین صاحب سے لیا۔ آپ شعبان ۱۳۵۳ھ نومبر ۱۹۳۴ء میں امتحان دے کر اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوئے۔ تعطیلات میں گھر واپس آگئے۔ 

۱۳۵۳ھ ہی میں آپ دوبارہ دارالعلوم دیوبند آئے اور دیوان حماسہ مولانا اعزاز علی توضیح و تلوبح مولانا ابراہیم علیبادیؒ سے، تیسر زاہد اورغلام یحیٰی مولانا عبدالسمیع سے اور جلالین مفتی ریاض الدین سے پڑھیں۔ ۱۳۵۵ھ میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دورۂ حدیث میں آپ کے اساتذہ شیخ الاسلام و شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علیؒ ، مولانا میاں اصغرؒ ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، استاد مفتی ریاض الدین اور مولانا شمس الحق افغانی جیسے اکابر شامل تھے۔ 

۱۳۵۶ھ مطابق اکتوبر ۱۹۳۷ء میں آپ نے امتحان دیا اور تمام پرچے عربی زبان میں حل کئے اور ایک سو پچاس طلباء میں اوّل آئے۔ یہاں ایک لطیفہ کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس زمانے میں دارالعلوم دیو بند میں ہر کتاب کے نمبر پچاس ہوتے تھے۔ اگر ممتحن کسی پرچے کو بہت عمدہ خیال کرتا تو پچاس نمبر دینے کے بعد ایک دو نمبر مزید بھی دے دیا کرتا۔ جو طالب علم کے لیے بڑا اعزاز ہوتا۔ مولانا سید سیاح الدین کو آٹھ کتابوں میں پچاس کی بجائے باون باون نمبرملے اور مؤطا امام مالک اور نسائی میں تریپن تریپن نمبر دیئے گئے۔ 

راقم الحروف پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ ہمارے استاد پروفیسر امان اللہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا امتحان ہوا۔ ہمارے ممتحن محدث عصر مولانا محمد ادریس کاندھلوی مقرر ہوئے۔ انہوں نے بعض طلباء کی اچھی استعداد کو دیکھ کر دارالعلوم دیوبند کی طرز پر کل نمبروں سے دو تین نمبر زیادہ دیے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک پرچے کے نمبر سو ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک سو تین ایک سو دو تک دے دیئے۔ جب نتیجہ کا کاغذ جسے ایوارڈ لسٹ کہا جاتا ہے متعلقہ لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے سخت اعتراض کیا اور مولانا سے باز پرس بھی کی۔ مولانا نے جواب دیا میں صدر ممتحن ہوں کیا، مجھے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنی طرف سے کچھ نمبر دے دوں۔ میں کاہے کا ممتحن؟ یہ کہہ کر آپ نے آئندہ پنجاب یونیورسٹی کا ممتحن بننے سے انکار کر دیا۔ 

۱۳۵۷ھ میں جب دارالعلوم دیوبند کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا تو مولانا حسین احمد مدنیؒ نے سید سیاح الدینؒ کے نمبر تعریف کے ساتھ سنائے اور ساتھ ہی فرمایا: ’’سیاح الدین دارالعلوم دیوبند کے استاد مولانا عبدالحق نافع کے عزیز ہیں۔ ان کے انعامات میں حضرت نافع ہی کو دے رہا ہوں‘‘ اور بہت سی قیمتی کتب بطور انعامات اپنے دست مبارک سے عطا فرمائیں۔ راقم نے مولانا سید سیاح الدین کے ایک ہم عصر سے خود یہ بات سنی کہ شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنیؒ نے اپنے ہونہار شاگرد سید سیاح الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے چلتا پھرتا ولی دیکھنا ہو، وہ سید سیاح الدین کو دیکھ لے۔ برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیائے اسلام کی اس عظیم شخصیت کی طرف سے ان اعزازی الفاظ کا ملنا موصوف کے لیے ایسا اعزاز ہے جس کی نظیر پیش کرنے میں بڑی سے بڑی سند بھی ہیچ ہے۔ 

۱۹۴۳ء میں آپ کو پیشکش ہوئی کہ آپ دارالعلوم دیوبند میں تدریسی ذمہ داری سنبھالیں۔ آپ نے یہ پیشکش قبول کی اور آپ نے دارالعلوم دیو بند میں ہدایہ اولین، عقائد نسفیہ، مرئاۃ المنطق وغیرہ پڑھائیں۔ ۱۹۴۶ء میں آپ مدرسہ اشاعت العلوم لائل پور بطور صدر مدرس تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری لائلپور ہی کے ایک عالم مولانا عبدالغنی ؒ فاضل دیوبند کی کوششوں سے ہوئی۔ مدرسہ اشاعت العلوم لائلپور آنے سے قبل آپ دارالعلوم دارالعلوم بھرہ میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بھیرہ کا دارالعلوم وہی ہے جہاں سے قطب الاقتاب عارف ربانی حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ نے بھی کسب فیض کیا۔ آپ نے مدرسہ اشاعت العلوم میں ترمذی شریف، مشکوٰ ۃ ، مؤطا امام مالک کے علاوہ دیگر کتب بھی مدۃ العمر پڑھائیں۔ 

مولانا محمد ادریس میرٹھی وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ انہوں نے مولانا سیاح الدینؒ کی میدان حدیث میں صلاحیت کو بھانپ لیا اور انتظامیہ مدرسہ اشاعت العلوم سے کہا کہ مدرسہ میں دورۂ حدیث کا اجراء کیا جائے اور مفتی سیاح الدین کی فن حدیث میں مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اگر اشاعت العلوم کی انتظامیہ کسی وجہ سے ایسا نہ کرسکے تو مفتی سیاح الدین کو اجازت دی جائے کہ وہ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لے آئیں اور حدیث کی کتب پڑھائیں۔ چنانچہ ۱۹۶۶ء میں انجمن اشاعت العلوم نے دورۂ حدیث کے اجراء کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۱۹۶۷ء میں اشاعت العلوم میں دورۂ حدیث کا آغاز ہوا۔ اس کے افتتاح کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع کراچی سے اور مولانا خیر محمد ملتان سے بطور خاص تشریف لائے۔ 

اس طرح موصوف ترمذی شریف اور بخاری شریف ہر سال اوّل تا آخر پڑھاتے رہے۔ اگرچہ مدرسہ کے طلباء تو آپ سے درس حدیث لیتے ہی تھے لیکن اس کے علاوہ آپ باذوق لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے اور مدرسہ کے اوقات کے بعد ان کو سبقاً سبقاً مشکوٰۃ پڑھاتے تھے۔ اس کلاس میں عموماًکالجوں کے پروفیسر، لیکچرر، سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ شریک ہوتے تھے۔ ایک کلاس میں پاکستان ماڈل ہائی سکول فیصل آباد کے ہیڈ ماسٹر چودھری عبدالحق، فیصل آباد کی معروف علمی شخصیت مولانا محمد امین، پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد نواز، پروفیسر آغا سلیم اور اس طرح کے دیگر بہت سے حضرات نے آپ سے مشکوٰۃ شریف کا تکمیلی درس لیا۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ مرحوم انتہائی ذوق سے مشکوٰۃ پڑھاتے۔ عموماً یہ کلاس بعد از نماز عصر جامع مسجد کلاں کے ہال میں لگتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے آپ ادب و احترام کا بہت اہتمام فرماتے۔ الفاظ کا استعمال بھی بہت محتاط ہوتا تھا۔ 

حدیث شریف میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک گدھا رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ کے سامنے اپنا سر رکھ دیا۔ یعنی سجدہ کیا اور کچھ بڑبڑایا۔ پھر اٹھا اور چلا گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ گدھا مجھے یہ کہہ کر گیا ہے کہ اے اللہ کے نبی آپ سلسلہ نبوت کے آخری نبی ہیں۔ میرے ساتھ کے سارے گدھے مر چکے ہیں۔ میں ان میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنی سواری کے لیے قبول فرمالیں۔ میری بڑی خوش بختی ہوگی۔ قرائن بتلاتے ہیں کہ آپ نے یہ سعادت اسے عطا کی۔ اس کا نام یعفور رکھا گیا۔ 

مفتی سیاح الدین جب یہ حدیث پڑھانے لگے تو آپ کی زبان رک گئی۔ آپ حضور ﷺ کی خدمت میں آنے والے جانور کے لیے لفظ گدھا استعمال نہ کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد آپ نے فرمایا: ایک دراز گوش آپ کی خدمت میں آیا۔ حضور ﷺ کی سواری کے لیے جہاں بھی یہ ذکر آتا آپ ہمیشہ دراز گوش کا لفظ ہی استعمال فرمایا کرتے۔ روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو یعفور مدینہ کی گلیوں میں اداس پھرتا رہتا۔ نہ کچھ کھاتا نہ پیتااور تین دن اسی طرح گزر گئے۔ بالآخر اسی غم میں مر گیا۔ 

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں علم غیب کا مسئلہ بریلوی علماء اور غیر بریلوی علماء میں مابہ النزاع رہا ہے۔ بریلوی حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا، جبکہ بقیہ حضرات اس کے قائل نہیں۔ ایک زمانے میں اس موضوع پر بڑے مناظرے ہوتے تھے۔ مناظرے نہ بھی ہوں تو ایک دوسرے کو مناظرے کا چیلنج دیا جانا معمول بن گیا تھا۔ غیر بریلوی حضرات علاوہ دیگر دلائل کے یہ دلیل بھی دیتے کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران حضرت عائشہ قافلہ سے پیچھے رہ گئیں۔ بعد میں ایک صحابی ان کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر لائے۔ کفار نے اس واقعے کو خوب اچھالا۔ حضور ﷺ کو اس پر بہت قلق ہوا۔ پھر اللہ نے حضرت عائشہؓ کی براۃ کے لیے قرآن میں آیات نازل فرمائیں۔ غیر بریلوی علماء کا کہنا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو علم غیب ہوتا تو آپ اپنی زوجہ کے بارے میں کم از کم مسلمانوں کو تو بتلاتے۔ لیکن آپ تو حضرت عائشہؓ سے بھی کبیدہ خاطر رہنے لگے تھے۔ مولانا سید سیاح الدین اس دلیل کو ہرگز پسند نہ کرتے اور دوران تدریس برملا فرماتے، آج کے دور میں بھی کوئی اپنی والدہ کے بارے میں ایسی بات سننا پسند نہیں کرتا۔ اپنے استاد کے بارے میں بھی غلط تذکرہ کسی کو اچھا نہیں لگتا تو اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اماں عائشہؑ کے اس واقعہ کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے جبکہ ان کی برأۃ قرآن مجید میں بھی آچکی ہے۔ یہ بے ادبی کی بات ہے۔

ایک مرتبہ دوران تدریس صلح حدیبیہ کا تذکرہ آیا کہ جب صلح نامے پر نام لکھا جانے لگا تو حضرت علیؓ نے لکھا محمد رسول اللہ۔ اس پر کفار کے نمائندے نے اعتراض کیا کہ محمد ﷺ کے ساتھ ہم رسول اللہ نہیں لکھنے دیں گے۔ کیونکہ ہمارے اور تمہارے درمیان جھگڑا تو محمد کے رسول ہونے پر ہی ہے۔ محمد ابن عبد اللہ تو مابہ النزاع ہے ہی نہیں۔ حضرت علیؓ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے بتاؤ وہ لفظ کہاں ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یہ لفظ قلم زن کیا۔ ایک طالب علم بول اٹھا، کہنے لگا، کیا رسول اللہ ﷺ کو اتنا علم بھی نہیں تھا۔ یہ سنتے ہی مفتی صاحب ناراض ہوئے۔ بولے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے الفاظ ادا کرتے ہوئے بہت ہی احتیاط برتنی چاہئے۔ اگر تمہارے سامنے کوئی شخص میرے بارے میں کہے کہ تمہارے استاد کو تو اتنا بھی پتہ نہیں تو تمہیں غصہ آجائے گا۔ چہ جائیکہ یہ لفظ ہادی عالم جناب محمد ﷺ کے بارے میں استعمال کیا جائے۔ 

آپ کو وفاق المدارس کی طرف سے حدیث کا ممتحن مقرر کیا جاتا اور ترمذی کا امتحان لینے کے لیے عموماً سابقہ صوبہ سرحد میں تشریف لے جاتے۔ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی صلاحیتوں کا علم ہوا تو آپ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن نامزد کیا۔ اس حوالے سے آپ کی خدمات مثالی ہیں اور کونسل کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مفتی صاحب نے بعض اصولی علمی اختلافات کے باعث کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنے استعفیٰ میں ان وجوہات کا ذکر بھی کیا جو استعفیٰ کا سبب بنی لیکن ضیاء الحق مرحوم نے مفتی صاحب کو دوبارہ رکن بنایا۔ 

سید سیاح الدین کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ مولانا مفتی محمد شفیع (صاحب معارف القرآن)سید سیاح الدین کے استاد تھے۔ آپ نے ان سے دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی کتاب ابو داؤد جلد ثانی اور مؤطا امام مالکؒ کا اکثر حصہ پڑھا تھا۔ (تفہیم الاحکام ، ص ۲۲)

اللہ تعالیٰ نے سید سیاح الدین کو یہ علمی مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ ان کے استاد مفتی محمد شفیع بھی ان کی تفقہ فی الدین کا اعتراف کرتے۔ صرف اعتراف ہی نہیں بلکہ آپ بعض امور میں سید سیاح الدین کی رائے کو پیش نظر رکھ کر اپنی رائے سے بھی رجوع کیا اور اپنے اس رجوع کا باقاعدہ تحریری اعلان بھی فرماتے۔ ہم آپ کے اعلان کو اس جگہ نقل کر رہے ہیں۔ 

’’۴ ذی الحجہ ۱۳۸۵ھ کو دارالعلوم میں ایک سوال یہ آیا تھا کہ زید نے چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے شادی کر لی اور اس سے اولاد بھی ہوگئی۔ اب زید کا انتقال ہوگیا تو پانچویں سے پیدا ہونے والی اولادزید کے ترکہ میں سے حصہ وراثت کی مستحق ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں تحفۃ الفقہاء وغیرہ کتب فقہ کی عبارات، جن میں بطلان نکاح کے الفاظ مذکور ہیں اور نکاح باطل کا مشہور حکم یہی ہے کہ نسب اور وراثت نہیں ہوتی، اس پر نظر کرتے ہوئے یہ جواب دے دیا گیا کہ پانچویں بیوی کی اولاد ثابت النسب نہیں ہے اس لیے ترکہ میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ مگر مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیل صاحب نے لائل پور (فیصل آباد) سے اس پر تفصیلی تنقید لکھی جس کو دیکھنے کے بعد احقر نے بھی کوشش کی کہ کوئی صریح جزئیہ اس کا مل جائے، وہ تو نہیں ملا، مگر مجموعی حیثیت سے مولانا موصوف کی تحقیق اس کے نظائر و اضحہ کی بنا پر درست معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے میں اپنے مذکورہ سابق فتویٰ سے رجوع کرتا ہوں۔ اب میرے نزدیک بھی صحیح یہی ہے کہ نسب اور وراثت ہوگی۔ پانچویں بیوی کی اولاد بھی حسب حصہ شریعہ زید کے ترکہ سے حصہ پائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم!‘‘

ہمارے نزدیک رجوع نامے سے جہاں مفتی سید سیاح الدین کے تیجر علمی اور تلاش گہر، وسعت مطالعہ اور صلابت رائے کا اظہار ہوتا ہے وہاں مفتی محمد شفیع ؒ کے عظمت اور علومرتبہ کا پتہ بھی چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی طالب علم کی رائے کو صحیح محسوس کیا توا پنی رائے کو تبدیل کر لیا۔ حالانکہ سید سیاح الدین علمی میدان میں مفتی شفیعؒ کے خوشہ چین تھے اور ان سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے بھی رہے تھے۔ 

مفتی سید سیاح الدین امر بالمعروف کا فریضہ تو سرانجام دیتے ہی تھے لیکن برسوں کی خدمت حدیث نے آپ کے اندر نھی عن المنکر کا جذبہ بدرجہ اتم پیدا کر دیا تھا۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ آپ مستعد رہتے اور اپنی عزت تک کو بھی داؤ پر لگا نے سے دریغ نہ کرتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ شہر کی جامع مسجد کلاں کچہری بازار سے چند قدم کے فاصلے پر چنیوٹ بازار میں بازار حسن بھی موجود تھا۔ سارا دن ویران رہتا لیکن عین سر شام اس کی رونقیں لوٹ آتیں اور رات کے بھیگتے ہی عروج پر پہنچ جاتیں۔ شہر کے اوباش ہوس کے پجاری جنس کے بیوپاری رات ہوتے ہی ادھر کا رخ کرتے۔ عصمتوں کے سودے ہوتے، کسی کی بہو کسی کی بیٹی اور بہن کا جسم اور حسن دونوں شو کیس میں سجا دیئے جاتے۔ قصاب آتے گردوں کپوروں کاجائزہ لیتے۔ کتنے جسموں کو پیسے کے بل بوتے پر پہلے سونگھتے پھر بھنبھوڑتے۔ جب ہو س کی تسکین ہو جاتی تو صبح دم اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ حوا کی بیٹیاں چند ٹکوں کی خاطر اپنی اصل متاع لٹا دیتیں ا ور اگلی رات پھر کسی دوسرے کے انتظار میں رہتی تھیں۔ 

مدرسہ اشاعت العلوم اور بازارحسن کا فاصلہ چند گز ہی کا تھا۔ اسی مدرسہ کی چھت پر فرمودات رسول ﷺ کے امین مفتی سید سیاح الدین کا گھر بھی تھا۔ آپ کے دل کو جانے کب سے ٹھیس پہنچی، ضمیر نے کچوکا دیا۔ سید سیاح الدین اللہ کو قیامت کے روز کیا جواب دے گا۔ چند قدم پر مسلمان بیٹیاں عصمتوں کے سودے کرتی رہیں تو نے مسجد میں پناہ لیے رکھی، تو مطمئن رہا، ’’میں نے تو آج کی نمازیں ادا کر لیں، طلباء کو دین کا درس بھی دے دیا، کیا ہوا سب فرض ادا ہو گئے‘‘؟

اسی جذبہ نے آپ کا چین چھین لیا۔ نور الدین زندگی کی طرح بستر سے اٹھ بیٹھے۔ ایک طالب علم کو ساتھ لیا، تانگے پر لاؤڈ سپیکرنصب کیا۔ بازارِ حسن کے بیچ پہنچ گئے، کچھ خیال نہ کیا کہ ستھری عبا داغ دار ہوگی، شفاف جبے پر چھینٹے اڑیں گے، دستار کے پیچ و خم نکل جائیں گے، لوگ انگلیاں اٹھائیں گے، جو بھی کہیں ، انہیں کچھ پروا نہ تھی۔ 

پکارے، تم مسلمان گھرانوں کی آبرو ہو، تمہیں کیا ہوگیا؟ تمہاری پاک باز ماؤں نے تمہیں جنم دیا، ہر گرم و سرد سے تمہیں بچایا، تمہاری حفاظت کی۔ آج تم کس غلاظت میں غوطہ زن ہو، اپنی متاع اصلی کو بازار کی جنس خیال کرتی ہو اور بازار میں بکنے پر لگاتی ہو اور ہر روز نئے خریدار کے انتظار میں رہتی ہو۔ بے غیرت تم نہیں یہ مرد ہیں جو اچھے اور سستے مال کی تلاش میں تم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔میری مانو، میری نہیں پیارے نبی کی مانو جس نے عورت کے سر پر حیا کی چادردی، غیرت کا غازہ بخشا۔ اس دھندے کو چھوڑو، محل عفت میں رہو۔اسی میں آبرو ہے اسی میں عزت ہے۔

عورتوں نے ان کی باتوں کو سنا، بیشتر نے اپنے کواڑ بند کر لیے۔ حکومت کان کھلے رکھتی ہے۔ ہرکاروں نے یہ واقعہ اعلیٰ حکام تک پہنچایا۔ اس وقت کے مغربی پاکستان کے غیرت مند گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی۔ فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ پورے مغربی پاکستان کے تمام بازار حسن بند کر دیئے جائیں۔ عورتوں کو باعزت روزگار مہیا کیا جائے۔ پورا مغربی پاکستان یعنی آج کا پورا پاکستان اس غلاظت سے پاک ہوا۔ اس اہم اقدام میں مفتی سید سیاح الدین کی مساعی شامل ہیں یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ انسان نھی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے کا پختہ ارادہ کرے تو الہٰی مدد ضرور آتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ پاکستان میں زنا کاری کی لعنت کو ختم کرنے میں مفتی سید سیاح الدین کی جرأت مندانہ کوشش کا بڑا دخل ہے۔ جو ان کی حسنات میں ہمیشہ اضافہ کا سبب بنے گا۔

۲۳ اپریل ۱۹۸۷ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا پریشان کن دن ثابت ہوا۔ موصوف نے ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ صبح پانچ بجے پشاور سے بذریعہ کار اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ حسن ابدال کے قریب آپ کی کار کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں سرزمین فیصل آباد کا یہ عظیم فقیہ، عظیم محدث واصل بحق ہوگیا۔ ان کے انتقال پر ان کے شاگردوں نے آنسو بہائے لیکن قومی سطح پر اس عظیم نقصان کا ملال کسی کو نہ ہوا۔ اگر کوئی فنکار دنیا سے رخصت ہو جائے تو ذرائع ابلاغ سال ہا سال اس کے یوم وفات پر پروگرم کرتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے فلاں فنکار کو ہم سے بچھڑے ۲۰ برس ہو گئے۔ لیکن یہ عظیم محدث ، عظیم فتیہ کسی کی یادوں کا حصہ نہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک ہونہار شاگرد نے تفہیم الاحکام کے نام سے کتاب لکھی جس میں مفتی صاحب کے فتاویٰ کو جمع کیا گیا۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور مفتی سید سیاح الدین کے لیے صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتی ہے۔ 

مفتی سیدسیاح الدین کے وہ مضامین جو آپ نے دارالعلوم بھیرہ کے رسالہ شمس الاسلام می تحریر کئے بڑا علمی سرمایہ ہیں۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل میں آپ کی تحقیقات بھی بڑا علمی شاہکار ہیں۔ کاش کوئی قلم کا دھنی اس طرف توجہ کرے اور اس علمی سرمایہ کو جمع کرے تاکہ اس سرمایہ سے اہل علم مزید روشنی کا سامان مہیا کر سکیں۔ 


مفتی جعفر حسین مرحوم

ڈاکیہ آیا،اگست کا ’’پیام‘‘ لایا۔ ایک مضمون مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تھا۔ عنوان تھا ’’مفتی جعفر حسین‘‘۔ یہ مضمون اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ’بزم ارجمندان‘ سے مقتبس تھا۔ بزم ارجمندان ہم نے پہلے بھی دیکھ رکھی تھی لیکن تکراری لذت کا اپنا ہی مزا ہے۔ لوگ صحافتی زبان میں اسے قند مکرر کا نام دیتے ہیں۔ بھٹی صاحب متعدل فکر، معتدل سوچ رکھنے والے عالم ہیں۔ قلم کے ساتھ ان کا رشتہ کافی مضبوط ہے۔ یہ رشتہ آج کا نہیں نصف صدی پرانا ہے۔ کئی کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔ مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن ذہن میں سختی اور تشبّخ نہیں۔ کھرے کو کھرا کہنے میں باک نہیں رکھتے۔ مجال نہیں کہ کھوٹے کو کھرا کہہ دیں لیکن کھوٹے کو کھوٹا کہنے کا سلیقہ ضرور رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں حکمت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ 

مفتی جعفر حسین کے بارے میں ان کا مضمون پڑھا تو ماضی کے مضراب پر ضرب لگی اور بہت سے خیالی ساز وآواز نے ذہن کی تاروں کو چھیڑ دیا۔ مفتی جعفر حسین کے حوالے سے یہ چند سطریں یاد ماضی کا حصہ ہیں۔ ۱۹۶۲ء یعنی ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ میں ملکی فضا میں فرقہ واریت نے ارتعاش کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ تمام اکابر اس لگی کو بجھانے، ٹھنڈا کرنے کی فکر میں تھے۔ ہمارے استاد علامہ علاء الدین صدیقی پنجاب یوینورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے بانی صدر تھے۔ انہوں نے لاہور موچی درازہ میں تین روزہ سیرت النبی کانفرنس منعقد کرائی۔ جس میں شیعہ ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء کو دعوت بیان دی گئی۔ مقصد اتحاد بین المسلمین کی فضا پیدا کرنا تھا۔ 

علامہ علاء الدین صدیقی مولانا احمد علی لاہوری کے شاگرد رشید اور راست فکر عالم تھے۔ ماضی میں بازار سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما چکے تھے۔ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے راہ نما تھے۔ میاں ممتاز دولتانہ کے مقابلہ میں پنجاب مسلم لیگ کا الیکشن بھی لڑا۔ آپ بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ پھر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے ان کو اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ مقرر کیا۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے نقیب تھے۔ 

مذکورہ کانفرنس انہوں نے سلگتی پر پانی ڈالنے کے لیے منعقد کرائی۔ کانفرس بڑی بھرپور تھی۔ راقم نے مفتی جعفر حسین کو پہلی مرتبہ اس کانفرنس میں دیکھا اور ملاقات کی بھی کی۔ آپ انتہائی دھیمے انداز میں شستہ گفتگو کرتے تھے۔ کہنے کو گوجرانوالہ کے تھے لیکن اردو لہجہ میں لکھنوی انداز کا غلبہ تھا۔ ہم نے ان کو اہل زبان ہی خیال کیا۔ لیکن بھٹی صاحب کے مضمون سے معلوم ہوا کہ ان کا جم پل پنجابی زبان کے گڑھ گوجرانوالہ کا تھا۔ لیکن ان کی گفتگو میں گوجرانوالہ کی ٹکسالی زبان کا دور دور تک نشان نہ ملا۔ زبان کی چاشنی اسی جمال ہم نشین در من اثر کرد کا نتیجہ تھی۔ آپ تحصیل علم کی غرض سے کافی عرصہ لکھنو میں رہے۔ 

ان کی تقریر سے قبل جناب آغا شورش کاشمیری کی تقریر تھی۔ آغا صاحب شہنشاہ خطابت تھے۔ تحریر و تقریر میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ ہفت روزہ چٹان کے ایڈیٹر تھے۔ تقریر کرتے مجمع باندھ دیتے۔ تقریر میں گھن گرج کے علاوہ بر محل اشعار سے تقریر کو مزین کرنا ان کا کمال تھا۔ نادر الفاظ اور تراکیب کے استعمال میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ کی مالا ان کے گرد ہالہ کئے دست بستہ کھڑی ہے۔ ان کی تقریر کے دوران پورے مجمع پر سناٹا طاری ہوگیا۔ عموماً ان کی تقریر آخر میں ہوتی، کیونکہ لوگ ان کی تقریر کے بعد کسی اور مقرر کو سننا پسند ہی نہ کرتے۔ اتفاق سے ان کی تقریر کے دوران ہلکی سی آندھی آئی اور شامیانے ہوا کے دباؤ سے اڑنے لگے۔ 

شورش مرحوم کی تقریر کے بعد سٹیج سے مفتی جعفر حسینؒ کا نام پکارا گیا لیکن مجمع ہل گیا۔ لوگ جانے لگے۔ مفتی صاحب مرحوم سٹیج پر آئے۔ خطبہ مسنونہ اہل تشیع کے انداز میں پڑھا۔ لوگ کہاں ٹھہرتے۔ مفتی صاحب نے پر اعتماد انداز میں تقریر شروع کی۔ کہنے لگے، ابھی میرے بھائی آغا شورش کاشمیری تقریر کر رہے تھے تو سائبان ہلنے لگے تھے۔ میری باری آئی ہے تو صاحبان بھی ہلنے لگے۔ بس اس ادبی جملے نے جادو کا اثر کیا۔ لوگ جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے۔ مفتی صاحب نے قریباًآدھا گھنٹہ تقریر کی۔ سیرت کے حوالے سے انتہائی نادر نکات پیش کئے۔ ان کی تقریر کے کچھ حصے اب تک ذہن میں محفوظ ہیں۔ فرمانے لگے، اللہ نے دنیا سجائی تھی۔ اپنے نائب آدم ؑ کو پیدا کیا۔ جنت میں بھیجا۔ فرمایا یہ میری جنت ہے یہاں رہو مزے کرو۔ جہاں چاہو گھومو پھرو۔ بس ایک پابندی ہے۔ اس درخت کے قریب نہ پھٹکنا۔ شیطان آدم کا ازلی دشمن تھا۔ اس نے ورغلایا اور ان کو ممنوعہ درخت کا پھل کھلا دیا، پھل نے تاثیر دکھلا دی۔ جنت کا لباس فاخرہ تار تار ہوگیا۔ اللہ نے فرمایا، تم جنت میں رہنے کی صلاحیت کو کھو بیٹھے ہو۔ لہٰذا اب یہاں نہیں رہ سکتے، زمین پر جاؤ۔ زمین پر آئے تو آدم کے بیٹے نے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا۔ ناحق خون سے زمین ناپاک ہوگئی۔ خون کے چھینٹوں نے زمین گندی کردی۔ اللہ نے نوحؑ کو بھیجا۔ جاؤ زمین کو دھو کر پاک کراؤ۔ نوحؑ کے سیلاب نے زمین دھو کر صاف کر دیا۔ زمین پاک ہوگئی۔ پھر اللہ نے ابراہیم ؑ کو زمین پر بھیجا۔ زمین کو پھلواری گھاس کے ذریعے خوبصورت بناؤ۔ 

قلنا یا نار کونی بردًا وسلاماً علی ابراہیم 

بس پھر کیا تھا، زمین گل و گلزار ہو گئی۔ اب خطرہ تھا کوئی موذی کوئی دشمن گھاس اور باغیچہ میں چھپا نہ بیٹھا ہو کہ گزند پہنچائے۔ اللہ نے موسٰی ؑ کو بھیجا۔ ایک ہاتھ میں ڈنڈا تھا دوسرے ہاتھ میں ٹارچ تھما دی۔ تاکہ اچھی طرح کونے کھدرے میں دیکھیں کوئی چھپا نہ بیٹھا ہو۔ ایک موذی فرعون پایا گیا۔ موسٰی ؑ نے مار بھگایا۔ پھر رب نے عیسٰی ؑ کو بھیجا کہ اچھی طرح جائزہ لیں اور واپس آکر خبر دیں کہ سب ٹھیک ہے۔ یہ سارا اہتمام بس ایک شخصیت کی تشریف آوری کے لیے تھا۔ طوفان نوح سے زمین کا پاک کروانا، زمین کو گل و گلزار بنانا۔ موسٰی ؑ کے ذریعے سارا جائزہ لینا، یہ سب اہتمام محمد ﷺ کی تشریف آوری کے لیے تھا۔ جب سب بندوبست ہوگیا تو اللہ نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیج دیا۔ ساتھ ہی قرآن بھی اتارا اور اعلان کر دیا، قرآن میرا آخری پیغام ہے۔ محمد ﷺ میرا آخری نبی ہے۔ قرآن کے بعد کوئی کتاب نہیں، محمد ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔

یہ تقریر جادو اثر ثابت ہوئی۔ لوگ مبہوت دم بخود بیٹھے رہے۔ اس کانفرنس کو منعقد کرانے والے، تقاریر کرنے والے سب کردار زمین بوس ہو گئے۔ منوں مٹی کے نیچے جا چکے۔ وہاں جاچکے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہ آیا۔ اللھم اغفرلھم وارحمھم

اخبار و آثار

(اکتوبر ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter