اکتوبر ۲۰۱۳ء
برصغیر کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۱۸۵۷ء کے معرکہ حریت میں جب مجاہدین آزادی کی پسپائی نے جنوبی ایشیا کی سیاسی تقدیر کو برٹش حکمرانوں کے سپرد کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے براہ راست اس خطے کی زمام اقتدار سنبھال لی تو یہ خطہ زمین زندگی کے تمام شعبوں میں ہمہ گیر اور انقلابی تبدیلیوں سے دوچار ہوا اور برصغیر کے مسلمانوں کے فقہی رجحانات بھی ان تبدیلیوں کی زدمیں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ تغیر وتبدل کا یہ عمل تاج برطانیہ کے نوے سالہ دور اقتدار میں مسلسل جاری رہا، مگر اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے ۱۸۵۷ء سے قبل کے فقہی دائروں اور رجحانات پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔...
اخلاقیات کی غیر الہامی بنیادوں کا داخلی محاکمہ
― محمد زاہد صدیق مغل
جدید زمانے کے مذہب مخالفین، خود کو عقل پرست کہنے والے اور چند سیکولر لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اخلاقیات (خیرو شر، اہم و غیر اہم)یعنی قدر کا منبع الہامی کتاب نہیں ہونا چاھئے (کیوں؟ بعض کے نزدیک اس لیے کہ مذہبی اخلاقیات ڈاگمیٹک ہوتی ہیں، بعض کے نزدیک اس لیے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک اس لیے کہ وہ سرے سے وحی کو علم ہی نہیں مانتے، مگر یہ ’کیوں‘ فی الحال ہمارے لیے اہم نہیں )۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پھر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے تو انکے مختلف لوگ مختلف دعوے کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم اخلاقیات کی انہی معروف غیر...
مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت / قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار
― محمد عمار خان ناصر
مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں مغربی اہل علم اور محققین اپنی مسلسل اور اَن تھک کوششوں کے نتیجے میں اسلام، اسلامی تاریخ اور مسلم تہذیب ومعاشرت کے مطالعہ وتجزیہ کے ضمن میں ایک مستقل علمی روایت کو تشکیل دینے میں کامیاب رہے ہیں جو اہل مغرب کے اپنے تہذیبی وفکری پس منظر اور ان کے مخصوص زاویہ نگاہ کی عکاسی کرتی ہے اور جسے نہایت بنیادی حوالوں سے خود مسلمانوں کی اپنی علمی روایت کے بالمقابل ایک متوازی علمی روایت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب اور مذہب وثقافت سے متعلق جملہ دائروں کا احاطہ کرتی ہے اور...
دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہ
― ڈاکٹر قاری محمد طاہر
مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ۔ مفتی سید سیاح الدین قافلہ محدثین کی ایک فراموش شدہ شخصیت کا نام ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فیصل آباد میں گزرا۔ وہ کم و بیش نصف صدی تک اسی شہر میں قال اﷲ و قال رسول کی علمی روایت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ موجودہ فیصل آباد ہمیشہ سے فیصل آباد نہ تھا بلکہ پہلے لائل پور کہلاتا تھا۔ لائل پور سے فیصل آباد کا سفر تقریباً پون صدی میں طے ہوا۔ لائل پور کی ابتدا چناب کینال کالونی کے نام سے ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈوڈ لائل تھے۔ انہی کے نام پر اس...
سزائے موت۔ ایک نئی بحث
― خورشید احمد ندیم
شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔ معاملہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں، تہذیب کا بھی ہے۔ عالمگیریت ایک سمندر ہے اور اس میں جزیرے نہیں بن سکتے۔ آنکھ کھول کے دیکھیے! ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے؟ چند روز پہلے یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر تھا۔ آنے والے ایک ایسے ادارے سے متعلق تھے جس کا موضوع ’’ انسانی حقوق‘‘ ہیں۔ اس وقت دنیا کی غالب آبادی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ وفد ہمیں باور کرانے آیا تھا کہ اگر ہم یورپی یونین سے تجارتی مراعات(GSP_Plus status) چاہتے ہیں تو ہمیں سزائے موت کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر...
عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۲)
― مولانا محمد عبد اللہ شارق
برزخ میں زندگی؟ عذابِ قبر اور قرآن میں تضاد دکھانے کے لیے منکرین نے جو سوال اٹھایا ہے کہ قرآن سے تو انسان کی صرف دو زندگیاں ثابت ہوتی ہیں جبکہ عذابِ قبر سے ایک تیسری زندگی کا اثبات ہوتا ہے ، آئیے اب ذرا ایک نظر اس کو دیکھتے ہیں۔ منکرینِ برزخ کی اس بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف دو ہی زندگیاں عطا فرمائی ہیں جن کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت۲۸ اور سورۃ المومن کی آیت ۱۱ میں ہے۔ اس سے بظاہر کسی تیسری زندگی کی نفی ہوتی ہے اور یہی بات درست ہے۔ اہلِ سنت جو منکرین کے مقابلہ میں ہمیشہ عذابِ قبر کے قائل رہے ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ...
برصغیر میں برداشت کا عنصر ۔ دو وضاحتیں
― مولانا مفتی محمد زاہد
’’بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر‘‘ کے عنوان سے میرا ایک مضمون دو قسطوں میں الشریعہ میں شائع ہوا جو در حقیقت پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی طرف سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ابتدائی حصے کے علاوہ باقی حصہ تھا۔ الحمد للہ اس کتابچے اور مضمون کو بہت پذیرائی ملی، بلکہ اتنی پذیرائی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں نے ایک فضول کام کیا ہے۔ اس لیے کہ جس بات کو سب مان رہے ہیں، اسے ثابت کرنا تحصیل حاصل کی طرح ہے۔ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے والے تمام حضرات کا شکریہ۔ تاہم بہت جلد اس وقت یہ احساس ہوا کہ واقعی یہ باتیں عرض کرنے کی ضرورت تھی...
مکاتیب
― ادارہ
(۱) محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟ میں ایک عرصہ سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا قاری اور آپ کا عقیدت مند ہوں ۔ دینی موضوعات پر ’’الشریعہ‘‘ نے بحث ومذاکرہ کی لائق تحسین روایت قائم کی۔ اللہ کرے یہ جاری وساری رہے۔ البتہ گزشتہ کچھ شماروں میں حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا چراغ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جس طرح بلا جواز تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس سے سخت دلی صدمہ ہوا۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کی یادداشتوں پر جس طرح محمد یوسف صاحب ایڈووکیٹ نے خامہ فرسائی کرتے ہوئے...
شہوانی جذبات میں اضافے کی وجوہات
― حکیم محمد عمران مغل
کچھ عرصہ قبل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے نیک دل ڈاکٹر صاحبان یہ دیکھ کر تڑپ کر رہ گئے کہ ہمارے معاشرے میں نئی نسل کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اسے کیسی خوراک کھلائی جا رہی ہے۔ انھوں نے دنیا بھر سے چیدہ چیدہ ڈاکٹر صاحبان کو اکٹھا کر کے اس پر غور وخوض کیا۔ ان کی کوشش رنگ لائی اور شہید صدر ضیاء الحق کو دنیا بھر کے ان ڈاکٹر صاحبان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ جنرل صاحب کو بتایا گیا کہ گوالے چوپایوں کا دودھ دوہنے سے پہلے اسے ایک انجکشن لگاتے ہیں جس سے جانور فوراً سارا دودھ پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے ضیاء مرحوم کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا...
اکتوبر ۲۰۱۳ء
جلد ۲۴ ۔ شمارہ ۱۰
برصغیر کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اخلاقیات کی غیر الہامی بنیادوں کا داخلی محاکمہ
محمد زاہد صدیق مغل
مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت / قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار
محمد عمار خان ناصر
دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہ
ڈاکٹر قاری محمد طاہر
سزائے موت۔ ایک نئی بحث
خورشید احمد ندیم
عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۲)
مولانا محمد عبد اللہ شارق
برصغیر میں برداشت کا عنصر ۔ دو وضاحتیں
مولانا مفتی محمد زاہد
مکاتیب
ادارہ
شہوانی جذبات میں اضافے کی وجوہات
حکیم محمد عمران مغل