مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟

میں ایک عرصہ سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا قاری اور آپ کا عقیدت مند ہوں ۔ دینی موضوعات پر ’’الشریعہ‘‘ نے بحث ومذاکرہ کی لائق تحسین روایت قائم کی۔ اللہ کرے یہ جاری وساری رہے۔ البتہ گزشتہ کچھ شماروں میں حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا چراغ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جس طرح بلا جواز تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس سے سخت دلی صدمہ ہوا۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کی یادداشتوں پر جس طرح محمد یوسف صاحب ایڈووکیٹ نے خامہ فرسائی کرتے ہوئے تحقیقی مجلہ کے ۵۶ میں سے ۱۸ صفحات سیاہ کیے ہیں، وہ بھی لائق توجہ اور ’’الشریعہ‘‘ کے شعار ’’و حدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علمبردار‘‘ کے قطعاً مغائر ہے۔

علمی بحث سوچ اور فکر کے دروازے کھولتی ہے۔ یقیناًاس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، لیکن شخصیات اور جماعتوں کے حوالے سے ذاتی عناد کج بحثی کی شکل اختیار کرے اور ’’الشریعہ‘‘ جیسا تحقیقی مجلہ اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرے تو بہرحال اسے ’’الشریعہ‘‘ کے شایان شان نہ سمجھا جائے گا۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

عبد الرشید ترابی

امیر جماعت اسلامی، آزاد جموں وکشمیر

(۲)

محترمی ابو عمار زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم

یہ حقیقت ہے کہ ایسے دینی، علمی اور ادبی رسائل کی تعداد بہت کم ہے جن کا ہر مہینے کے آغاز ہی سے انتظار کی صبر آزما گھڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان جرائد میں آپ کا شائع کردہ ’’الشریعۃ‘‘ بھی شامل ہے جو کچھ عرصے سے باقاعدگی سے پہنچ رہا ہے۔ 

’’الشریعۃ‘‘ کے تازہ شمارہ بابت اگست ۲۰۱۳ء میں ڈاکٹر محمد تمطریف شہباز ندوی (ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی) کا مضمون بعنوان ’’علامہ محمد اسد اور ان کی دینی و علمی خدمات‘‘ شائع ہوا ہے، جس کی نوعیت تعارفی ہے۔ ممکن ہے، عام قارئین کے لیے یہ مفید ہو، لیکن اس میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیاگیا ہے، جو وضاحت طلب ، تصحیح طلب یا سیاق و سباق کے بغیر ان کی تفہیم قدرے مشکل ہے۔ سطور ذیل میں انہی چند امور کی جانب بالاختصار نشاندہی کی گئی ہے۔ 

سب سے پہلے چند طباعتی اغلاط، یعنی ان کا سال ولادت ۱۹۹۰ء نہیں بلکہ ۱۹۰۰ء ہے اور ان کی قومیت آسٹریلیائی نہیں بلکہ آسٹریائی ہے۔ ان کے علاوہ چند اور اغلاط بھی پائی جاتی ہیں، لیکن ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتاہے، کیونکہ بالعموم ان کا ذمہ دار ناشرہی کو ٹھہرایا جاتاہے۔ 

۱) مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ’’علامہ محمد اسد پر اب تک تھوڑا بہت تحقیقی کام سامنے آ چکا ہے۔‘‘ اس کے ذیل میں انہوں نے راقم کی دو جلدوں پر مشتمل انگریزی کتاب کا حوالہ دیاہے، جو ۲۰۰۶ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ حیرت ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے والی سوسائٹی کا تو ذکر کر دیا ہے، لیکن اس کے مرتب کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ محمد اسد کی ایک جرمن سوانح کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ سوانح نہیں بلکہ محمد اسد کی ولادت سے سعودی عرب میں ورود (۱۹۲۷ء) تک کے حالات و واقعات کو مستند دستاویزات اور اساسی منابع کی بنیاد پر قلمبند کیاگیاہے۔ مزید برآں اسد پر ڈاکٹریٹ کے مقالہ خصوصی کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن اس کے مؤلف اور متعلقہ دانشگاہ کا نام تک نہیں لکھا گیا۔ اسی طرح محمد اسد کی حیات، خدمات پر ایک مختصر سی انگریزی کتاب اور نو مسلم جرمن اسکالر مراد ہافمان کے روزنامچہ کا حوالہ دیا ہے، لیکن قاری کی سہولت کے لیے ان کے ناشرین وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

متذکرہ بالا فقرے میں دو لفظ ’’تھوڑ ا بہت‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ اول تو یہ الفاظ کسی سنجیدہ تحریر میں بری طرح کھٹکتے ہیں پھر بھی مضمون نگار نے ’’تھوڑا‘‘ ذکر تو کر دیا ہے۔ ’’بہت‘‘ کا تذکرہ اجمالاً راقم پیش کر دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محمد اسد کی بیشتر انگریزی کتب بالخصوص ’’شاہراہ مکہ‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ و تفسیر متعدد بار اشاعت پذیر ہو چکا ہے اور اب تو دنیا کی تقریباً سبھی بڑی زبانوں میں ان کے تراجم بھی چھپ چکے ہیں۔ محمد اسد اپنی تقریباً تمام کتب کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ناشر بھی تھے۔ تقسیم سے قبل انہوں نے ’عرفات‘ کے نام سے اپنا مطبع قائم کیا تھا اور یہیں سے ’’صحیح بخاری‘‘ کے انگریزی ترجمہ و تشریح کے پانچ حصے طبع ہوئے تھے۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر انہوں نے ڈلہوزی میں قائم کردہ اسی نام کے مطبع سے ’’عرفات‘‘ کے نام سے سہ ماہی مجلہ کے نو شمارے شائع کیے۔ بعد میں انہوں نے دارالجبرالٹر کے نام سے اشاعت گھر کی بنیاد رکھی اور اپنی وفات تک ان کی تمام کتابوں کے نئے ایڈیشن اسی مطبع کی جانب سے شائع ہوتے رہے (مع ترامیم و اضافات)۔ ان کی رحلت کے بعد بالخصوص برصغیر میں ان کی مقبول ترین کتابوں کی بلا اجازت طباعتوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اور یہ غیر قانونی دھندا کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ صورت حال قابل مذمت تو ہے، لیکن یہ ان کی کتابوں کی مقبولیت کا ایک ناقابل تردید ثبوت بھی ہے۔ محمد اسد کی کتابوں کی مسلسل اشاعت اور ان کے تراجم تو تواتر سے چھپ ہی رہے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سوانح حیات اور ان کی علمی ، دینی اور سیاسی خدمات کا محققانہ اور ناقدانہ تجزیہ اور غیر جانبدارانہ محاکمہ پر کوئی ڈھب کی تحریر نظر نہیں آتی۔ ثقہ قارئین بھی اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے پرزور اصرار پر محمد اسد کی حیات و تصانیف پر ایک منصوبے کا آگاز ہوا، جس کے تحت اب تک راقم کی چھ کتابیں (چار انگریزی اور دو اردو) زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ ایک کا ذکر تو مضمون نگار نے کر دیاہے۔ اس کے علاوہ ’’محمد اسد۔ایک یورپین بدوی‘‘ (مشتمل بر متفرق مقالات )، ’’محمد اسد۔بندۂ صحرائی‘‘ چھپ چکی ہیں۔ محمد اسد کی ’’شاہراہ مکہ‘‘ ابتدا سے سعودی عرب سے روانگی (۱۹۳۲ء) تک کے حالات پر مبنی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ، جو برصغیر میں ان کی آمد (۱۹۳۲ء) سے لے کر وفات تک کے انتہائی اہم حالات پر مشتمل ہے، پہلی بار Home-coming of the Heartکے عنوان کے تحت شائع ہواہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی، تشکیل پاکستان اور اس نئی مملکت کے ابتدائی چند برسوں کی سیاسی اتار چڑھاؤ پر ایک مستند دستاویز ہے۔ پانچویں کتاب محمد اسد کے ترجمہ قرآن اور ان کے تفسیری حواشی پر نقد و تبصرہ پر مشتمل ہے (انگریزی) اور آخری یعنی چھٹی کتاب میں مختلف اسلامی موضوعات پر ان کے تحریر کردہ جرمن مقالات کے انگریزی ترجمہ اور ان کی بعض انتہائی نایاب تحریروں کو یکجا کیاگیاہے۔ ان کتابوں کے علاوہ محمد اسد کی زندگی اور ان کی علمی خدمات پر راقم کے انگریزی اور اردو مقالات برصغیر کے مؤقر جرائد اور اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں۔ 

یورپی ممالک میں محمد اسد کو موضوع تحقیق و تدقیق بنانے کے حوالے سے آسٹریا سرفہرست ہے۔ ان دنوں اسد کی جائے ولادت یوکرین میں ہے، لیکن ان کی پیدائش کے وقت یہ علاقہ آسٹروہنگیرین ایمپائر کا حصہ تھا۔ انہوں نے ویانا یونیورسٹی ہی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ یوں ان کی ابتدائی زندگی، خاندانی حالات اور مکمل تعلیمی کوائف یہیں کے نوادر خانوں میں محفوظ ہیں۔ انہی کی بنیاد پر آسٹریا ہی کے ایک اسکالر گیونتر ونڈہاگرنے وہ کتاب سپرد قلم کی (۲۰۰۲ء) جس کا مضمون نگار نے حوالہ دیا ہے۔ اب اسی اسکالر نے اپنا مقالہ خصوصی برائے ڈاکٹریٹ مکمل کیا ہے، جس کا موضوع محمد اسد ، ایک ولندیزی اخبار کے نامہ نگار کی حیثیت سے ہے (بزبان جرمن، ۲۰۰۵ء)۔ دو سال قبل اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے شائع کیا ہے (۲۰۱۱ء)۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ چند سال قبل آسٹریا کی حکومت نے محمد اسد کی زندگی پر دستاویزی فلم بنوانے کے لیے کثیر رقم مختص کی اور اس فلم کی تیاری کی ذمہ داری ویانا ہی کی ایک معروف کمپنی کو سونپی۔ نوے منٹ پر محیط یہ فلم چار سال میں مکمل ہوئی اور سات ممالک بشمول پاکستان میں اس کی شوٹنگ ہوئی۔ ۲۰۰۸ء میں یہ دستاویزی فلم یورپ کے تقریباً سبھی بڑے سینما گھروں میں دکھائی گئی۔ اس فلم کی زبان جرمن ہے، لیکن اب یہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی دستیاب ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس دستاویزی فلم کی رونمائی کے موقع پر ان کے بیٹے طلال اسد آسٹریا کی حکومت کی خصوصی دعوت پر ویانا تشریف لائے۔ اس شہر کے میئر نے یو این او سٹی کے مقابل گزرنے والی سڑک کو محمد اسد کے نام سے موسوم کیا۔

عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں محمد اسد کی بعض مقبول کتب خاص طور پر ’’شاہراہ مکہ‘‘ کے عربی تارجم شائع ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں سعودی عرب کو دیگر تمام ممالک پر فوقیت حاصل ہے۔ اس ملک کے اولین فرمانروا عبدالعزیز ابن سعود اور شاہی خاندان کے سبھی مقتدر شخصیات سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ پانچ سالہ قیام (۱۹۲۷ء۔۱۹۳۲ء) کے دوران محمد اسد نے یہاں کے تاریخی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر بیسیوں مضامین (بزبان جرمن) لکھے۔ ایک معروف قبیلہ کی خاتون سے شادی کی۔ دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر قبائل میں رہ کر قدیم عربی بول چال سے شناسائی پیدا کی۔ بالآخر یہیں سے ان کے ترجمۂ قرآن کا ایک حصہ جو ابتدائی نو سورتوں پر مشتمل تھا، شائع ہوا (۱۹۶۶ء)، لیکن بعض علمائے دین کی آراء کی روشنی میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن اب یہ صورت حال خاصی تبدیل ہو گئی ہے ۔ اس کابیّن ثبوت وہ بین الاقوامی سیمینار تھا، جو ۱۲ اپریل ۲۰۱۱ء میں فیصل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ریاض میں منعقد ہوا۔ اس علمی اجتماع کا موضوع محمد اسد اور ان کی دینی خدمات تھا۔ راقم کے علاوہ محمد اسد کے آسٹروی سوانح نگار ونڈہاکر اور معروف نو مسلم جرمن اسکالر مراد ہافمان بھی شریک ہوئے۔ محمد اسد کے واحد فرزند طلال اسد اپنی مصروفیات کے باعث خود تشریف نہ لا سکے، البتہ انہوں نے اپنا مقالہ ارسال کر دیا، جو ان کی اہم یادداشتوں اور معلومات پر مشتمل ہے۔ 

۲) محمد اسد طبعاً سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا اور ان کے لیے کہیں جم کر بیٹھنا ناممکن تھا۔ مقالہ نگار نے مشرق وسطیٰ کے جن ممالک کے اسفار کاذکرکیا ہے، وہ ان کے سیاحتی ذو ق و شوق سے زیادہ ان کی صحافتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا تھا۔ انہوں نے ویانا یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فرینکفرٹ کے معروف روزنامہ ’’فرانکفورٹر تسائی تونگ‘‘ (جو اب بھی نام کے ایک لفظ کے ساتھ شائع ہو رہاہے) میں بطور نامہ نگار برائے ممالک مشرق وسطیٰ ملازمت اختیار کر لی اور اس حیثیت سے انہوں نے بیروت سے افغانستان تک دو بار سفر کیے۔ پہلے ۱۹۲۲ء ۔۱۹۲۳ء اور پھر ۱۹۲۴ء۔۱۹۲۶ء میں اور ہر ملک سے ارسال کردہ رپورٹیں اسی اخبار میں شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کی پہلی جرمن کتاب ’’غیر رومانوی مشرق‘‘ کی بنیاد یہی روزنامہ ہے(مطبوعہ ۱۹۲۴ء)۔ جس کا چند سال قبل انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے (لاہور/کوالالمپور ۲۰۰۴ء)

۳) مضمون نگار کے مطابق محمد اسد نے ’’قبول اسلام کے بعد حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور قاہرہ میں رشتۂ ازدواج ]میں[ منسلک ہوئے۔ ‘‘ یہ دونوں باتیں مصدقہ ہیں، لیکن ان میں انتہائی اختصار سے کام لیاگیا ہے اور دوسرے ان کو آگے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ ان کے متذکرہ بالا آسٹروی سوانح نگار کی تحقیق کے مطابق وہ پہلے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی پہلی بیوی جرمن تھی نام ایلسا شیمان تھا اور جانی پہچانی مصورہ تھی۔ سال ولادت ۱۸۷۸ء یعنی محمد اسد سے اس کی عمر بائیس سال زیادہ تھی۔ طلاق یافتہ تھی اور پہلے شوہر سے اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو اس کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ محمد اسد نے پہلے برلین میں عبدالستار خیری کی موجودگی میں اسلام قبول کرنے کا اقرار کیا اور وہیں ان کا اسلامی نام رکھا گیا۔ ان کی زوجہ یعنی ایلسا اور سوتیلے بیٹے ایک ہفتہ بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ان کے بالترتیب عزیزہ اور رکھے گئے (سابقہ نام ہائنرخ شیمان تھا)۔ کچھ دنوں بعد اس نو مسلم جوڑے نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی اسلامی ملک میں جا کر اپنے قبول اسلام کا بھی اعلان کریں۔ چنانچہ وہ اپنے سوتیلے بیٹے سمیت قاہرہ پہنچے اور یہاں جامعہ الازہر کے سربراہ دیگر علماء اور حاضرین کی کثیر تعداد کی موجودگی میں اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا۔ جب قاہرہ کے اخباروں میں اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تو اس کو پڑھ کر سعودی عرب کے بانی فرمانروا عبدالعزیز ابن سعود نے انہیں فریضہ حج ادا کرنے کی خصوصی دعوت دی۔ یوں وہ قاہرہ سے سعودی عرب پہنچے اور پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ عزیزہ یعنی محمد اسد کی بیوی یہاں کی شدید گرمی برداشت نہ کر سکی اور مکہ میں انتقال کر گئیں اور یہیں انہیں دفن کر دیاگیا (۱۹۲۷ء) ۔ اس کے بعد محمد اسد اور اس کا نوعمر سوتیلا بیٹا چند ماہ اکٹھے رہے، پھر احمد کو بھی واپس آسٹریابھجوا دیا گیا۔ 

۴) محمد اسد نے برصغیر آنے کے بعد لاہور میں مختلف اسلامی موضوعات پر لیکچر دیئے اور پھر انہیں مناسب اضافوں اود تبدیلیوں کے ساتھ کتابی صورت میں ’’اسلام دوراہے پر‘‘ (بزبان انگریزی) کے عنوان کے تحت شائع کرایا (۱۹۳۴ء)۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی (م۔۹۹۹ء) اس کتاب کے معترف تھے اور انہیں کی خواہش پر اس کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا۔ بلاشبہ محمد اسد کی اس پہلی کتاب کے اب تک متعدد تراجم منظر عام پر آ چکے ہیں، لیکن مولانا موصوف کی فرمائش پر محمد اسد کی جس کتاب کو اردو میں منتقل کیا گیا، وہ ’’اسلام دوراہے پر‘‘نہیں، وہ ’’شاہراہ مکہ ‘‘ تھی۔ یہ ملخص اردو ترجمہ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ کے زیر عنوان ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے طبع ہوا اور دو تین بار پاکستان سے بھی چھپا۔ اس کا پیش لفظ مولانا موصوف کا تحریر کردہ ہے اور اس کے مطالعہ سے ان کی نظر میں محمد اسد کی علمی و دینی خدمات کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہو جاتاہے۔ مولانا علی میاں کا یہ اہم مضمون راقم کی کتاب ’’محمد اسد۔ایک یورپین بدوی‘‘ (طبع دوم، ۲۰۱۲ء) میں شامل ہے۔ 

۵)پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام عالمی اسلامی کلوکیم منعقد ہوا (۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۸ جنوری ۱۹۵۸ء)۔ اس کے انعقاد اور دیگر انتظامات کے لیے وزارت خزانہ نے مالی اعانت کی ۔ صدر پاکستان نے اس کا افتتاح کیا۔ برصغیر کے ممتاز علمائے دین کے علاوہ مشرق وسطیٰ ، یورپ اور امریکہ کے اسکالروں نے شرکت کی۔ ۱۹۵۷ء کے اوائل میں اس پُروقار علمی اجتماع کے لیے محمد اسد کو خصوصی طور پر بلایا گیا اور وہ اپنی امریکی نومسلم بیوی پولا کے ہمراہ تقریباً سات آٹھ ماہ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں شبانہ روز مصروف رہے۔ پنجاب یونیورسٹی ہی میں ان کے لیے الگ دفتر قائم کیا گیا، جہاں ان کی بیگم بلامعاوضہ سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ جب تمام انتظامات خوش اسلوبی سے طے پا گئے، حتیٰ کہ مندوبین کو ہوائی ٹکٹ بھی ارسال کر دیئے گئے کہ بعض ناگزیر وجوہ کے باعث محمد اسد اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ حیرت ہے کہ جب اس کانفرنس کی کارروائی پر مشتمل جلد شائع ہوئی (۱۹۶۰ء) تو اس میں محمد اسد کا نام تک موجود نہیں۔ تعجب ہے کہ مضمون نگار کے مطابق یہ کلوکیم ۱۹۸۰ء کے بعد منعقد ہوا۔ نیز اس سے متعلق بہت سی معلومات میں گڈ مڈ کردیاگیاہے۔ 

۶) محمد اسد نے اپنی زندگی کا آخری حصہ سپین کے شہر میخاس میں گزارا اور یہیں ۱۹۹۲ء میں وفات پائی، لیکن انہیں غرناطہ کے مسلمانوں کے قدیم قبرستان میں دفنایا گیا۔ محمد اسد کی حیات و تصانیف کے اولیں محقق اور معروف اسکالر جناب مظفر اقبال (حال مقیم کینیڈا) ان کی امریکی رفیقہ حیات پولا حمیدہ اسد (سنہ وفات ۲۰۰۷ء) سے ملنے کے بعد دعائے مغفرت کے لیے محمد اسد کی قبر پر پہنچے اور اس کی تصویر بھی کھینچی۔ راقم نے یہی تصویر اپنی انگریزی کتاب کے جلد دوم میں ان کے شکریے کے ساتھ شائع کی۔ حیرت ہے، اس کے باوجود مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ ’’تدفین کے لیے محمد اسد کو فلسطین لایاگیا ۔ اب وہ غزہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔‘‘

۷) درجہ بالا تسامحات، مصدقہ روایات کی تقدیم و تاخیر اور واقعاتی فروگذاشتوں کے علی الرغم مقالہ نگار نے بعض مصنفین کی دریافت کردہ دستاویزات اور ان کی بنیاد پر تحقیقی نتائج کو بغیر حوالہ دیئے بیان کر دیاہے۔ اس کی واضح ترین مثال محمد اسد کا پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے اولیں سربراہ کی تقرری ہے۔ محمداسد کی زندگی کے اس مخفی گوشے پر سب سے پہلے ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے روشنی ڈالی اور یونیورسٹی ریکارڈ کی قلمی دستاویزوں سے استفادہ کیا۔ حیرت ہے کہ مقالہ نگار نے ان تمام تفصیلات کو ڈاکٹر موصوف کا نام لکھے بغیر من و عن اپنے مضمون کا حصہ بنا لیا، حالانکہ ان کا یہ معلوماتی مقالہ ان کے مجموعہ مقالات بعنوان ’’چلچراغ‘‘ (لاہور، ۲۰۰۷ء، صفحہ ۱۴۱۔۱۷۰) میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں اس مقالے کے بیشتر عبارات کو جوں کا توں نقل کر دیاہے۔ مقالہ نگار کا یہ ’’وسیع استفادہ‘‘ علمی دیانتداری کے مسلمہ تقاضوں کے منافی ہے۔ رہی سہی کسر انہوں نے راقم کی انگریزی کتاب (مشتمل بر دو جلد) سے پوری کر دی ہے، جس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ع ناطقہ گریباں ہے کیا کہیے۔

محمد اکرام چغتائی 

لاہور

(۳)

بخدمت گرامی مولانا حافظ محمد عمار خان صاحب ناصر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ !

اگست اور ستمبر کے شماروں میں راقم الحروف کا دو قسطوں میں تکفیرِ شیعہ پر مقالہ شائع کرنے کا نہایت شکریہ ۔ 

ستمبر کے شمارہ میں محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنے مکتوب میں ہمارے موقف کو دینی حمیت اور ایمانی غیرت قرار دیا ہے، اس لیے ان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب نے ہمارے مضمون میں شائع ہونے والی چند بر سبیلِ تذکرہ باتوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں: ’’دین پر عمل کرنے کے لیے تقلید شخصی ضروری نہیں ۔ صرف علمائے دین کی طرف مراجعت ضروری ہے اور یہ عوام کے لیے ناگزیر ہے اور اہل حدیث عوام فَاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون کے تحت علماء سے دینی معلومات حاصل کر کے دین پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ محترم حافظ صاحب نے اس اقتباس میں تقلید کی ضرورت خود بیان کر دی ہے۔ علمائے دین کی طرف مراجعت ، لاعلمی کی حالت میں اہل علم سے سوال کرنے کے حکم الٰہی سے استدلال اور اہل دین سے راہنمائی حاصل کرنے کو عوام کے لیے ناگزیر کہنا تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟ 

مکتوب نگار نے مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور ان کے نظریہ سے متعلق ہمارے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بلاشبہ حیات برزخی پر امت کا اجماع ہے، لیکن راقم کی معلومات کے مطابق سید عنا یت اللہ شاہ بخاری اور ان کے ہم نوا حیاتِ برزخی کے منکر قطعاً نہیں ہیں۔‘‘ 

اس کے متعلق عرض ہے کہ علمائے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے جسم اطہر کے ساتھ روح مبارکہ کو ایک خاص تعلق حاصل ہے اور اسی تعلق کی بنا پر آپ اپنے روضہ انور پر پڑھا جانے والا صلوٰ ۃ و سلام سماعت فرماتے ہیں اور بالکل یہی بات اہل حدیث عالم مولانا نذیر حسین دہلویؒ نے لکھی ہے کہ ’’حضراتِ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں خصوصاً آنحضرت ﷺ کہ فرماتے ہیں جو کوئی عند القبر درود بھیجتا ہے میں سنتا ہوں‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد ۳صفحہ ۵۵) جب کہ مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری ؒ آنحضرت ﷺ کے جسد اطہر کو تو روضہ مبارک میں صحیح و سالم تسلیم کرتے تھے، مگر روح کے تعلق کے منکر تھے اور اسی انکار کی بنا پر صلوٰۃ و سلام کے سماع کا بھی انکار کرتے رہے اور زور و شور سے تقریریں کرتے تھے ۔ 

شاہ صاحب کے نظریے کے متعلق آج سے تقریباً پچاس سال پہلے مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ کوجو مغالطہ ہوا تھا، وہ آج بھی اہل حدیث علماء کو اپنے چکمے میں لیے ہوئے ہے ۔مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم نے شاہ صاحب کے موقف کو صحیح اور باقی علمائے دیوبند کے مسلک کو کمزور قرار دیا تھا جس کے جواب میں مولانا سید امین الحق شاہ ؒ (شاگردِ رشید علامہ انور شاہ کاشمیریؒ ) نے ایک مستقل کتاب ’’تنبیہ الا غبیاء علیٰ حیاتِ الانبیاء ‘‘تصنیف فرمائی تھی ۔ اب تو اس موضوع پر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کتب وجود میں آچکی ہیں، اس لیے مولانا اسماعیل سلفی مرحوم والے مغالطے کا آج بھی اہل حدیث دوستوں میں موجود رہنا قابل تعجب ہے۔ 

باقی مکتوب نگار کا یہ کہنا کہ ’’دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد اہل حدیث پر کرم فرمائیاں شدت سے ہونے لگیں‘‘ تو یہ ایک ایسا افسوسناک الزام ہے جس کی ایک عالم دین سے ہمیں توقع نہیں تھی۔ اس بات میں چونکہ سنجیدگی کم اور مسلکی جانب داری زیادہ جھلک رہی ہے، اس لیے ہم اس کو موضوعِ سخن نہیں بناتے۔

حافظ عبد الجبار سلفی

ادارہ مظہر التحقیق ملتان روڈ ‘لاہور

(۴)

تقریبا دوسال قبل ایک دوست کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ علماء کرام کی زیرنگرانی حلال اور پاکیزہ کاروبار مضاربت میں اپنی رقم انویسٹ کریں اور ماہانہ چار سے پانچ ہزار روپے منافع حاصل کریں۔ یہ بات میرے لیے بہت حیران کن بھی تھی اور باعث مسرت بھی میں نے اس دوست سے رابطہ کیا اور مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو پہلے سے زیادہ عجیب اور حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئیں۔ اس دوست نے کہا کہ اگر تمہارے پاس اپنے پیسے نہیں تو اپنے جاننے والوں سے کم از کم ایک ایک لاکھ روپے اکٹھے کرکے ہمارے ساتھ کاروبار میں لگوا دو، اس طرح انہیں بھی پورا پورا منافع ملے گا اور تمہیں بھی ہرمہینے ایک لاکھ پر تین سو روپے کمیشن ملے گا۔ اس نے بتایا کہ میں نے اب تک تقریبا نوے لاکھ روپے لوگوں کے اس کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کاروبار کیا ہے؟ اس نے کہا اسکریپ اور ہول سیل کا کاروبار ہے۔

چونکہ اس دوست نے علماء کی زیر نگرانی کاروبار کی بات کی تھی، اس لیے میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام۔ چنانچہ میں نے وقتی طور پر فیصلہ کرلیا کہ لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے اس کاروبار میں لگانی چاہیے،لیکن صرف چند ہی دنوں بعد ایک اور پرانے جاننے والے سے ملاقات ہوئی تو اس نے بھی اسی طرح کی آفر کی کہ اپنے زیورات، زمین وغیرہ بیچ کر رقم انویسٹ کرو یا لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے ہمیں دو۔ اس صورت میں ایک لاکھ پر پانچ سو روپے کمیشن دوں گا۔ چنانچہ میں نے پہلے والے دوست کو چھوڑ کراس کے پاس لوگوں کی رقم انویسٹ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسی دوران میری ملاقات ایک تیسرے دوست سے ہوئی۔ اس نے بھی اسی طرح کی آفر کی۔ میں نے پوچھا آپ کا کیا کاروبار ہے ؟ اس نے کہا ہم شہد،زیتون کا تیل اور جوس تیار کرکے انگلینڈ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ شکر ہے پاکستانی تاجر اس قابل ہوگئے کہ اب ان کا تیار کردہ جوس گورے نوش کریں گے۔

چونکہ یہ بہت حیران کن انکشافات تھے، اس لیے میں نے اس میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے معلومات اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ انھی دنوں مختلف شہروں میں ’’میزبان‘‘ نام کے اسٹور کھلنا شروع ہوگئے۔ دوست نے بتایا کہ یہ ہمارے سٹور ہیں۔ یہی ہمارا کاروبار ہے اور اسی سے کما کر ہم ہر مہینے لوگوں کو منافع دیتے ہیں، چنانچہ میں نے تحقیقات اور معلومات اکھٹی کرنے کا دائرہ وسیع کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد اطلاع ملی کے کراچی میں کچھ ایسے لوگ جن کے نام کے ساتھ مفتی اور عالم کے سابقے لاحقے لگے ہوئے ہیں، وہ ہر مہینے بیس ہزار منافع دے رہے ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے میری تحقیقات کا رُخ دوسری طرف ہوگیا، کیونکہ یہ بات ناقابل یقین تھی کہ ایک لاکھ پر ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ بیس ہزار کی آمدن کیسے ہوسکتی ہے۔ تقریبا پانچ چھ ماہ کی محنت اور معلومات اکٹھی کرنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا، اسے میں نے ایک سال قبل اپنے ایک اخباری مضمون میں لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ایک بہت بڑی گیم ہے جس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی ذہین ترین سٹہ باز ہیں۔ چونکہ ائمہ کرام پر لوگ اعتماد کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے ان کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے رقم اکٹھی کرنا شروع کردی ہے۔ یہ لوگ نئی جمع ہونے والی رقم میں سے ہی کچھ منافع کے نام پر واپس لوٹا دیتے ہیں اور باقی اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کردیتے ہیں، چنانچہ ائمہ کرام کو دست بستہ اپیل کی کہ خدا را اس گھناؤنے کھیل سے باہر آجائیں۔ یہ کھیل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک نئے نئے لوگ پیسے جمع کروا رہے ہیں۔ جس دن نئے جمع کروانے والے کم ہوئے، اس دن یہ گیم ختم ہو جائے گئی، چنانچہ ٹھیک ایک سال بعد ایسا ہی ہوا۔

آج جو صورت حال ہے، وہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔ بڑے سٹہ باز بھاگ چکے ہیں، جبکہ دوسری کیٹگری کے کچھ روپوش ہیں اور کچھ گرفتار ہیں، جب کہ تیسری کیٹگری کے ائمہ اور علماء کرام عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ کئی مدرسوں کو تالے لگا کر بھاگ گئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح کے ایک شخص کو ایبٹ آباد میں لوگوں نے سرعام مارا پیٹا اور پھر سر،داڑھی،بھنویں مونڈ کر سڑکوں پر گھمایا۔ اس سارے معاملے میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کھربوں روپے کے اس سکینڈل میں حکومت اور عدالتیں بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اور اصل کردار ایک ایک کرکے ملک سے فرار ہورہے ہیں۔ اگرچہ اکثر علمائے کرام اپنی ناسمجھی اور بیوقوفی کی وجہ سے اس گیم میں پھنسے ہیں، لیکن کراچی کے ایک جامعہ سے تعلق رکھنے والے بعض ایسے ناخلف مفتی بھی ہیں جن کو پہلے دبئی کی سیر کرائی گئی۔ پھر واپس آکر انہوں نے نہ صرف اس ناجائز کام کے حق میں فتوے دیے بلکہ مخالفت کرنے والے جید علمائے کرام (بنوری ٹاؤن، وفاق المدارس)پر کڑی تنقید بھی کی اور پھر اس مسند پر بیٹھ کرجہاں ان کو دین اسلام کی ترجمانی اور تشریح کے لیے بٹھایا گیا تھا، اس ناجائز کاروبار کا لین دین بھی کرتے رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوراً تمام مجرموں کو نہ صرف گرفتار کیا کرے بلکہ قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی رقم بھی وصول کرے۔

سید عبد الوہاب شیرازی

mymedia.pk@gmail.com

(۵)

استاد محترم مولانا عمار صاحب نے الشریعہ کے گزشتہ شمارے کے ’’خاطرات‘‘ میں امام شامل‘ کو امیر عبد القادر الجزائری کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام شاملؒ روس کے وظیفہ خوار تھے اور وہ اپنے اہل وطن کو ترک جہاد کا مشورہ دیتے رہے۔ بادی النظر میں استادمحترم سے یہاں بھول ہوئی ہے۔ امام شاملؒ اور امیر عبد القادر کی جہاد کے بعد والی زندگی کا اگر ہم موازنہ کریں تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام شاملؒ اپنی جہادی زندگی کو سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں اور بعد والی زندگی میں انھوں نے اس پر کسی پشیمانی کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ ہی سابقہ جہاد کی تلافی کے سلسلے میں امت کو جہاد سے روکنے کی کوششیں کیں۔ امام نے اپنے ساتھیوں کو جہاد چھوڑنے کی دعوت دی، اس کا ثبوت بہرحال امام کے کردار سے نہیں ملتا۔ ممکن ہے یہ بات دشمن نے امام کی طرف منسوب کی ہو اور دوران جنگ میں اس طرح کی افواہیں پھیلانا دشمن کا پرانا وتیرہ ہے۔ بالفرض اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیں، پھر بھی یہ بات زندگی میں صرف ایک بار ہوئی۔ امام نے اس بات کو امیر عبد القادر کی طرح زندگی کا مشن نہیں بنا لیا تھا اور قید کے دوران قیدی اگر دشمن کے حق میں کوئی بات کہہ دے تو اس کو اس کے ضمیر کی آواز نہیں کہا جاتا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے کردار وعمل سے اپنے دل اور زبان سے اپنے دشمن کا ہم نوا ہو جائے تو وہ اصلی زیاں کار اور بد نصیب ہوتا ہے۔ امیر عبد القادر کے ساتھ یہی المیہ پیش آیا۔

امیر عبد القادر کی حیات کو سامنے رکھیں تو واضح پتہ چلتا ہے کہ وہ سابقہ جہاد کی تلافی کے سلسلے میں تاحیات امت کو ترک جہاد کا سبق پڑھاتے رہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعد میں امیر عبد القادر کے بیٹے نے اگراپنے طورپر جہاد کرنا شروع کیا تو امیر نے اس کو عاق کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف امام شامل جب سلطان عبد العزیز کے پاس پہنچے تو وہاں جا کر سب سے پہلی بات ہی جہاد کے سلسلے میں کہی اور سلطان کو ڈانٹا کہ تم نے جہاد میں ہمارا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے آج مسلمانوں کو شکست کے یہ دن دیکھنے پڑے۔

امیر عبد القادر ترک جہاد کے بعد آزادانہ ہر طرف گھومتے پھرتے تھے، حتیٰ کہ دشمن کی مجلسوں میں آنا جانا اور وہاں نامحرم عورتوں سے دوستیاں لگانا اور امام شامل جتنا عرصہ جہاد کے بعد زندہ رہے، حج پر جانے تک مسلسل نظر بند رہے۔ یہ بات سچ ہے کہ نظر بندی کے دوران کچھ عرصہ تک امام شامل کو دشمن نے اچھی خوراک اور رہائش مہیا کی، لیکن نظر بند کو اچھی خوراک سے کیا لینا دینا؟وہ تو نظر بندی کے دکھ سہہ رہا ہے۔ امام کو حج پر جانے کے لیے جو اجازت ملی، وہ اس شرط پر ملی کہ وہ اپنے بیٹوں کو دشمن کی تحویل میں دے کر جائیں گے۔

امام شامل کو دشمن کا وظیفہ خوار ہونے کا جو طعنہ دیا جاتا ہے، وہ بھی بالکل غلط ہے۔ امام جب خیوا میں نظر بند تھے تو مرکزی حکومت شہری حکام کو رقم دیتی تھی۔ شہری حکام اس رقم سے جہاں امام کی ضروریات کو پورا کرتے تھے، وہاں وہ اس رقم سے امام کے اوپر مخبر بھی مسلط کرتے تھے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قیدیوں اور نظر بند افراد پر حکومتیں جو اخراجات کرتی ہیں، اس کو وظیفہ خواری نہیں کہا جاتا۔ دوسری طرف امیر عبد القادرکو فرانس گورنمنٹ کی طرف سے سالانہ ایک لاکھ فرانک ملتا تھا جو کہ عیسائی شدت پسندوں کی حفاظت کرنے کے صلے میں ڈیڑھ لاکھ فرانک ہو گیا تھا۔ اس کو وظیفہ، صلہ اور انعام کہتے ہیں۔

امام شاملؒ اور امیر عبد القادر کے درمیان فرق اس لحاظ سے بھی بڑا واضح ہے کہ امام شامل کے جانشین آج بھی کوہ قاف کے پہاڑوں پر روسی فوج کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں او راپنے گرم ومشک بار لہو سے شجاعتوں کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور امیر عبد القادر کو آج چند غیر مسلموں اور ذہنی طور پر پریشان لوگوں کے سوا کوئی جانتا بھی نہیں۔

محمد شفیع (فاضل جامعہ عبیدیہ، فیصل آباد)

مکاتیب

(اکتوبر ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter