مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت / قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار

محمد عمار خان ناصر

مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت

گزشتہ دو تین صدیوں میں مغربی اہل علم اور محققین اپنی مسلسل اور اَن تھک کوششوں کے نتیجے میں اسلام، اسلامی تاریخ اور مسلم تہذیب ومعاشرت کے مطالعہ وتجزیہ کے ضمن میں ایک مستقل علمی روایت کو تشکیل دینے میں کامیاب رہے ہیں جو اہل مغرب کے اپنے تہذیبی وفکری پس منظر اور ان کے مخصوص زاویہ نگاہ کی عکاسی کرتی ہے اور جسے نہایت بنیادی حوالوں سے خود مسلمانوں کی اپنی علمی روایت کے بالمقابل ایک متوازی علمی روایت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب اور مذہب وثقافت سے متعلق جملہ دائروں کا احاطہ کرتی ہے اور خالص مذہبی موضوعات (قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ ، فلسفہ وکلام وغیرہ) سے لے کر مسلمانوں کی سیاست، مسلم ممالک کی معاشرتی وثقافتی خصوصیات اور فکری وذہنی رجحانات تک کوئی بھی چیز مغربی محققین کے مطالعہ وتحقیق اور تجزیہ کے دائرے سے باہر نہیں رہی۔ اپنے مخصوص علمی اسالیب، تجزیہ وتحقیق کے بظاہر معروضی وسائل اور اہل مغرب کے سیاسی ومعاشی غلبہ جیسے عوامل کے تحت مطالعہ اسلام کی یہ مغربی روایت معاصر دنیا میں اپنے غیرمعمولی فکری اثرات رکھتی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج بین الاقوامی سطح پر اسلام، اسلامی تاریخ اور معاصر مسلم معاشروں کا مطالعہ جس علمی فریم ورک میں کیا جا رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مغربی مطالعات کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔ 

معاصر علمی دنیا پر مطالعہ اسلام کی مغربی روایت کے اثرات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ خود عالم اسلام کے اہل علم اور تحقیقی ادارے بھی مطالعہ اسلام کے ا س خاص تناظر کو ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور خاص طور پر اہل مغرب نے معاشرتی وتاریخی موضوعات کے مطالعہ کے لیے جو مخصوص تجزیاتی اسالیب فراہم کیے ہیں، وہ بہرحال مستند اور راسخ الاعتقاد مسلمان اہل علم کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم نے مشہور مستشرق منٹگمری واٹ کی کتاب ’’محمد اَیٹ مکہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مصنف کے نتائج فکر سے اختلاف کی پور ی پوری گنجائش کے باوجود اس کتاب سے مطالعہ سیرت کے ایسے ایسے زاویے سامنے آتے ہیں جو شاید کسی مسلمان سیرت نگار کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے، جبکہ انڈیا کے بزرگ عالم دین مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے دیوبندی تحریک سے متعلق معاصر مغربی اسکالر باربرا مٹکاف کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصنفہ نے ایسے ایسے پہلوؤں سے دیوبندی تحریک کا جائزہ لیا ہے کہ ہم جیسے پشتینی دیوبندیوں کے لیے بھی اس میں سیکھنے کا بہت سا سامان موجود ہے۔

مغرب میں مطالعہ اسلام کی یہ روایت خاصی وسیع اور رنگا رنگ ہے اور ہر علمی روایت کی طرح اس میں بھی متنوع اور متضاد رجحانات موجود ہیں۔ چنانچہ جہاں اسلام کے متعصب ناقدین موجود ہیں جن کا واحد مطمح نظر مسلمانوں کی پوری علمی روایت اور اس کے حاصلات کی نفی کرنا یا اس کی قدر وقیمت کو گھٹانا ہے، وہاں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ زاویہ نگاہ رکھنے والے حلقے بھی موجود ہیں، اگرچہ بدیہی طور پر انھیں پوری طرح مسلمانوں کے نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ کا ترجمان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اہل مغرب کے سامنے علم ودانش اور مطالعہ وتحقیق کی سطح پر اسلام اور ملت اسلامیہ کے مقدمہ کو پیش کرنا مقصود ہو تو مذکورہ دونوں طرح کے رجحانات اور زاویہ ہائے فکر کا مطالعہ وتجزیہ یکساں اہمیت اور افادیت کا حامل ہے، کیونکہ اس روایت میں پیدا ہونے والی ہر ذہنی رَو بہرحال ان مخصوص ذہنی مقدمات اور تہذیبی رجحانات کی لازماً عکاسی کرتی ہے جن کے زیر اثر اہل مغرب مطالعہ وتحقیق کا عمل انجام دیتے ہیں۔ یوں نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے، ان تمام رجحانات کا سنجیدہ تجزیہ اہل مغرب کی نفسیات اور تہذیبی فکر کے ساتھ ساتھ مطالعہ وتحقیق کے ان فکری سانچوں سے واقفیت حاصل کرنے میں بھی مدد دیتا ہے جن میں اس پوری روایت نے تشکیل پائی ہے اور جن کو سامنے رکھ کر ہی علم ودانش کی سطح پر مغربی روایت کی متبادل علمی روایت وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ 

دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مغرب کے علمی حاصلات اور زاویہ ہائے نظر کا سنجیدہ علمی وتحقیقی مطالعہ کرنے اور معروضی انداز میں اس کا تجزیہ وتنقید کرنے کی روایت ہمارے ہاں علمی حلقوں میں ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی جس کے نتیجے میں مسلمان اہل علم خود اپنے مذہب اور اپنی ہی تاریخ وتہذیب کے حوالے سے علم وتحقیق کے میدان میں اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ اس بے اعتنائی اور بے توجہی کی ایک بڑی وجہ مطالعہ اسلام کی مغربی روایت سے براہ راست آشنائی کا فقدان اور مغربی اہل علم کے ہاں جاری علمی مباحثات اور علمی دنیا پر ان سے مرتب ہونے والے اثرات پر نظر نہ ہونا ہے۔ یوں مطالعہ اسلام کی ایک مستقل اور متوازی علمی روایت، جو ایک طرف اپنے اندر مثبت استفادہ کے بہت سے امکانات رکھتی ہے اور دوسری طرف اپنے اٹھائے ہوئے تنقیدی سوالات کا جواب چاہتی ہے، مسلمان اہل علم کی کماحقہ علمی وفکری توجہ حاصل کرنے سے ابھی تک قاصر ہے۔

اس پس منظر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مطالعہ اسلام کے ضمن میں اہل مغرب کی تشکیل کردہ علمی روایت کے سنجیدہ اور معروضی مطالعہ کے لیے ایک علمی مجلہ کا اجرا اس وقت کی اہم ترین علمی ضروریات میں سے ایک ہے جس میں اسلام، اسلامی علوم وفنون، تاریخ وتہذیب، معاشرہ وثقافت اور سیاست ومعیشت کے حوالے سے اہل مغرب کے علمی رجحانات اور نتائج فکر کے تعارف وتلخیص پر مبنی مقالات ومضامین پیش کیے جائیں اور مطالعہ اسلام کی مغربی روایت کے حاصلات کو ایک تسلسل کے ساتھ علمی انداز میں تجزیہ وتنقید کا موضوع بھی بنایا جائے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ہماری جامعات اور علمی وتحقیقی ادارے اس ضرورت کا احساس کریں گے اور اس کی تکمیل کے لیے حتی الوسع کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی۔

قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار

شرعی نصوص میں اولیائے مقتول کے لیے اسقاط قصاص کے حق کا ذکر جس تناظر میں ہوا ہے، وہ اصلاً عمومی حالات میں قتل کی سادہ صورت ہے جس میں کسی دوسرے پہلو سے شناعت یا سنگینی کا کوئی اضافی پہلو نہ پایا جاتا ہو اور جس میں قاتل کو معافی دینا قانون کے عمومی اصولوں اور معاشرتی مصلحتوں کے منافی نہ ہو۔ اگر کوئی بھی ایسی اضافی وجہ پائی جائے جو قاتل کو معافی کی اس رعایت سے محروم کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یقیناًاولیا کی دی گئی معافی کو غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

مثال کے طور پر ورثا کسی دباؤ، جبر یا خوف کی بنا پر قصاص کے حق سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کریں تو ان کی معافی کو غیر موثر قرار دینا چاہیے۔ یہ بات کہ عدالت کو اولیا کے اعلان معافی کے بارے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی دباؤ یا جبر کے تحت تو نہیں کیا گیا، نہ صرف معقول ہے، بلکہ بعض آثار سے بھی ثابت ہے۔ سیدنا علی نے ایک ذمی کے قتل کے مقدمے میں مسلمان قاتل کو قتل کرنے کا حکم دیا تو مقتول کے بھائی نے حاضر ہو کر ان سے کہا کہ میں نے اس کو معاف کر دیا ہے۔ امیر المومنین نے کہا کہ شاید ان لوگوں نے تمھیں ڈرایا دھمکایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ قاتل کو قتل کر دینے سے میرا بھائی واپس نہیں آ جائے گا، جبکہ ان لوگوں نے مجھے دیت دینے کی پیش کش کی ہے جس پر میں راضی ہوں۔ سیدنا علی نے فرمایا: اچھا پھر تم جانو۔ ۱؂ 

ورثااگر سرے سے مقتول کے معاملے میں دلچسپی ہی نہ رکھتے ہوں یا ان کی ہمدردی الٹا قاتل کے ساتھ وابستہ ہو جائے، جیسا کہ جاگیردارانہ نظام میں کاروکاری اور قتل غیرت کے معاملات میں بالعموم ہوتا ہے تو انھیں حق قصاص سے محروم کر دینا بھی فقہی اصولوں کے خلاف نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی غلط نہیں ہوگا کہ قتل کی جن صورتوں مثلاً، کاروکاری وغیرہ میں رسم و رواج ورثا کے مدعی بننے کی راہ میں حائل ہوں یا قاتل کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ورثا کے دباؤ میں آ کر صلح کر لینے کی عمومی صورت حال پائی جاتی ہو، ان کو سد ذریعہ کے اصول پر ناقابل صلح ( non-compoundable) قرار دے دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ ضابطہ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ قتل کے ہر مقدمے میں عدالت اس امر کا جائزہ لے گی کہ آیا معافی کا فیصلہ ورثا کی آزادانہ رضامندی سے کیا گیا ہے؟ اور یہ کہ کہیں اس معافی کو قبول کرنے سے انصاف کے تقاضے اور معاشرے میں جان کے تحفظ کا حق تو مجروح نہیں ہوگا؟

عدالت جرم کی سنگینی اور شناعت کے پیش نظر بھی مجرم کو معافی کی صورت میں ملنے والی رعایت دینے سے انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو وارث اپنے مقتول کی دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا، اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ۲؂ آپ سے بعض ایسے واقعات بھی منقول ہیں جن میں آپ نے، اپنے عام معمول کے برعکس، جرم کی سنگینی کے پیش نظر قاتل سے قصاص لینا ہی پسند کیا اور اولیاے مقتول سے رسماً بھی نہیں پوچھا کہ آیا وہ قاتل کو معاف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر حارث بن سوید نے زمانۂ جاہلیت میں قتل ہونے والے اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے غزوۂ احد کے موقع پر دھوکے سے اپنے والد کے قاتل مجذر بن زیاد کو قتل کر دیا جو اس وقت مسلمان ہو چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حارث کی آہ وزاری اور فریاد اور عذر معذرت کے باوجود اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر مجذر کے اولیا موجود تھے، لیکن آپ نے اس معاملے میں ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ ۳؂ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر جن اشخاص کے بارے میں متعین طورپر یہ حکم دیا تھا کہ وہ اگر کعبے کے غلاف کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے ہوں تو انھیں قتل کر دیا جائے، ان میں ایک مقیس بن صبابہ بھی تھا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبے پر اسے اس کے مقتول بھائی کی دیت دلوائی، لیکن اس نے اپنے بھائی کے قاتل سے دیت وصول کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ مکرمہ چلا آیا۔ ۴؂ قرائن سے واضح ہے کہ مقیس کو ان افراد میں شمار کرنے کی وجہ محض اس کا مرتد ہو جانا نہیں، بلکہ اس کا مذکورہ جرم تھا۔ قتادہ اور عکرمہ سے منقول ہے کہ وہ قاتل سے دیت لینے کے بعد اسے قتل کرنے والے کے لیے معافی کے قائل نہیں تھے، ۵؂ جبکہ ابن جریج اور عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جارح سے قصاص یا دیت لے لینے کے بعد اس پر زیادتی کرے تو اسے معاف کرنے کا حتمی اختیار صاحب حق یا اس کے اولیا کو نہیں، بلکہ حکمران کو ہوگا۔ ۶؂ 

امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گلا گھونٹ کر کسی کو قتل کرنے کا بار بار مرتکب ہو تو اس کے لیے معافی کی گنجایش ختم ہو جائے گی اور اسے قتل کرنا لازم ہوگا۔ ۷؂ اسحاق بن راہویہ اور فقہاے مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو دھوکے سے کسی ویران جگہ پر لے جا کر قتل کر دے تو اس صورت کے حرابہ کے تحت آ جانے کی وجہ سے حق قصاص ریاست سے متعلق ہو جائے گا اور ورثا کو معافی کا اختیار نہیں ہوگا۔ ۸؂ فقہاے شافعیہ یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے حکمران کو قتل کر دے تو اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں اور اسے لازماً قتل کیا جائے گا۔۹؂

مذکورہ تمام آرا جرم کی سنگینی کے تناظر میں معافی کے امکان کو کالعدم قرار دینے کی مثال ہیں۔ ہماری راے میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی شخص کی جان لے لینا، جتھے کی صورت میں کسی آدمی پر حملہ آور ہو کر اسے قتل کر ڈالنا، آگ لگا کر یا تیزاب ڈال کر ہلاک کرنا، خونخوار درندے کو کسی شخص پر چھوڑ دینا، اذیت دے دے کر کسی کی جان لینا، معصوم بچے کو درندگی کا نشانہ بنانا، کوئی ناجائز مطالبہ پورا نہ کرنے یا اپنے جائز حق کو استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کسی کی زندگی چھین لینا، بہت سے افراد کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دینا یا قتل کی کوئی بھی دوسری پر تشدد شکلیں اختیارکرنا، سب اسی دائرے میں آنی چاہییں۔ اسی طرح ایک سے زیادہ مرتبہ قتل کے مرتکب کے لیے بھی یہی قانون بنایا جا سکتا ہے۔

امام شافعی نے بعض اہل علم کا یہ موقف نقل کیا ہے کہ اگر قاتل اور مقتول کے مابین کوئی ذاتی مخاصمت نہ پائی جاتی ہو اور قاتل نے کسی اور محرک کے تحت قتل کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں حق قصاص مقتول کے ولی کے بجاے حکومت کو حاصل ہوگا۔ ۱۰؂ ہمارے نزدیک اجرتی قاتلوں یا کسی دوسرے کے ترغیب یا اشتعال دلانے پر کسی کو قتل کرنے والوں کے معاملے میں بھی اولیا کے حق معافی کو اسی اصول پر غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

اس ضمن میں یہ نکتہ بالخصوص ملحوظ رہنا چاہیے کہ قبائلی طرز زندگی کے خاتمے سے قرابت اور مراحمت کے اس تعلق میں جو قدیم معاشرت کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے، بدیہی طور پر رخنہ پڑا ہے اور جدید معاشرے میں گوناگوں عوامل کے تحت قصاص اور انتقام کا جذبۂ محرکہ نسبتاً کمزور پڑ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ریاست کے تصور کے ارتقا کے ساتھ اس کے قانونی اختیارات بھی بڑھ گئے ہیں اور اسی تناسب سے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس صورت حال میں قصاص کے قانون کو زندہ رکھنے کے لیے افراد کے بجاے ریاست کو زیادہ بنیادی کردار سونپنا اگر کوئی مفید اور نتیجہ خیز اقدام ثابت ہو سکتا ہے تو ایسا کرنا قانون کی علت یا حکمت کے منافی نہیں ہوگا، تاہم اس سارے معاملے میں حالات کی عملی صورت کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں ریاست کو کوئی اختیار سونپنے سے پہلے اس امر کا اطمینان حاصل کرنا ضروری ہے کہ ریاستی مشینری اپنے اخلاص اور خدمت معاشرہ کے جذبے کے لحاظ سے اس ذمہ داری کو اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتی ہے اور اس میں نظام انصاف قابل اعتماد صورت میں موجود ہے۔ بصورت دیگر ریاست کا حق قصاص الٹا بے گناہوں یا رعایت کے مستحق خطا کاروں پر زیادتی اور ان کی حق تلفی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔


حوالہ جات

۱؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۷۱۲۔

۲؂ ابوداؤد، رقم ۳۹۰۸۔

۳؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۸۳۰۔

۴؂ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ۴/۲۵۶۔ ۲۵۷، ۵/۷۱۔

۵؂ جصاص، احکام القرآن ۱/۱۱۵۱۔ طبری، جامع البیان۲/۱۱۲۔

۶؂ مصنف عبد الرزاق، رقم۱۸۲۰۴۔ طبری، جامع البیان۲/۱۱۳۔

۷؂ الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/۳۸۔

۸؂ مسائل الامام احمد بن حنبل واسحاق بن راہویہ ۲/۲۳۰، ۲۷۲۔ حاشیہ الدسوقی ۴/۲۳۸۔وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۲۷۲۔

۹؂ الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/۱۰۳۔

۱۰؂ الشافعی، الام ۴/۳۱۷۔

(’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ سے اقتباس)


آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter