برصغیر میں برداشت کا عنصر ۔ دو وضاحتیں

مولانا مفتی محمد زاہد

’’بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر‘‘ کے عنوان سے میرا ایک مضمون دو قسطوں میں الشریعہ میں شائع ہوا جو در حقیقت پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی طرف سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ابتدائی حصے کے علاوہ باقی حصہ تھا۔ الحمد للہ اس کتابچے اور مضمون کو بہت پذیرائی ملی، بلکہ اتنی پذیرائی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں نے ایک فضول کام کیا ہے۔ اس لیے کہ جس بات کو سب مان رہے ہیں، اسے ثابت کرنا تحصیل حاصل کی طرح ہے۔ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے والے تمام حضرات کا شکریہ۔ تاہم بہت جلد اس وقت یہ احساس ہوا کہ واقعی یہ باتیں عرض کرنے کی ضرورت تھی جب یک دم اس پر ایک خاص مہم شروع ہوگئی اور موبائل اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے ناقابلِ بیان قسم کے پی ٹی آئیٍ ٹائپ پیغامات آنے لگے۔ مجھے ان سے بھی کوئی گِلا نہیں، اس لیے کہ جس طرح کی ان نوجونوں کی ذہنی تربیت ہوئی ہے، اس کے مطابق یہ سب کچھ دینی حمیت کے تقاضے سمجھ کر ہی کررہے ہوتے ہیں اور کان إثمہ علی من أفتاہ کے مطابق معذور ہوتے ہیں۔ اس میں میرے لیے یہ پہلو اطمینان کا ہے کہ ایک بے عمل انسان کو مفت میں ان کی حسناتِ مقبولہ حاصل ہوگئیں۔ اللہ تعالی مزید نیکیاں عافیت ہی کے راستے سے عطا فرمائیں۔ 

اسی سلسلے کی ایک کڑی ایک نوجوان اور جوشیلے عالم اور لکھاری کی وہ تحریر ہے جو دیگر ماہناموں کے علاوہ الشریعۃ میں بھی شائع ہوئی ہے۔ مجھے اس طرح کی تحریروں کا جواب لکھنے کی عادت نہیں ہے، اس لیے کہ جہاں اپنی ذات کے دفاع کا تاثر بھی پیدا ہوجائے وہاں کچھ عرض کرنا اچھا نہیں لگتا۔ دوسرے میری کمزوری یہ ہے کہ میں نے قلم میں روشنائی بھرنا ہی سیکھا ہے، بارود نہیں ۔ اس سے پہلے بھی میرے ساتھ اس طرح کی ’’وارداتیں‘‘ ہوچکی ہیں۔چند سال پہلے جب تصویر کی حرمت کا ’’متفقہ فتویٰ‘‘ آیا تو میں نے صرف یہ عرض کرنے کا گناہ کرلیا تھا کہ تصویر کے کئی پہلو صحابہ و تابعین کے زمانے سے مختلف فیہ چلے آرہے ہیں اور اب تک ہیں، اس لیے ترجیح جسے چاہیں دیں ، تمام آراء کا احترام ملحوظ رہے۔ اس پر اسی طرح کا ایک جوابی مضمون متعدد مجلات میں شائع ہوا تھا ، بلکہ ایک مجلے کے مدیر نے تو فون پر معذرت بھی کی ہم آپ کی بات سے متفق ہیں، لیکن فلاں بڑی شخصیت کے دباؤ کی وجہ سے یہ شائع کرنا پڑا۔ اس وقت بھی میں نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، اب بھی حالیہ تردیدی مضمون کا جواب دینے کا ارادہ نہیں ۔ ایسی تحریروں کے لیے میرا مختصر جواب یہی ہوتا ہے کہ میرے اصل مضمون کو دوبارہ توجہ اور غور سے پڑھ لیا جائے ۔البتہ جو ایشوز اس تردیدی مضمون میں اٹھائے گئے ہیں اگرچہ وہ یہاں غیر متعلقہ ہیں تاہم کسی اور فرصت میں اگر ارادہ بنا اور ضرورت محسوس ہوئی تو ان پر بھی اپنی طالب علمانہ گذارشات مستقل طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ اصل میں مسئلے کا ایک پہلو مناظرانہ ہے۔ اس کے تحت کئی بزرگ خاصا کام فرما چکے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان حضرات نے تقیہ کی چادر اتار کر پھینک دی ہے۔ دوسرا فقہی ، اصولی اور کلامی ہے کہ اس مواد کے سامنے کی بعد کیا تکفیر کے لیے درکار شرائط پوری ہوجاتی ہیں، اس دوسرے پہلو پر تفصیلی کام نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بذاتِ خود کئی یہ موضوع توجہ طلب تو ہے لیکن میرے مذکورہ مضمون کا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔ یہ توقع بھی نہ رکھی جائے کہ ایک شعلہ افگن مضمون کے جواب میں میں کسی بحث میں پڑ جاؤں گا۔

البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ سلفی صاحب نے یہ کہا ہے کہ مولانا شمس الحق افغانیؒ نے علوم القرآن میں لکھی گئی اپنی بات سے رجوع کرلیا ہے۔ لیکن اس کے ثبوت کے لیے جس مکتوب کا مختصر سا اقتباس پیش کیا ہے اس میں صرف تصحیح کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تصحیح کے ارادے ، عملاً تصحیح کرنے اور رجوع میں فرق کے علاوہ یہاں یہ بات اہم ہے کہ حضرت افغانیؒ نے اس سلسلے میں اپنی کتاب میں کیا تبدیلی فرمائی۔ کیا یہ پورا حصہ حذف کردیا، یہ فرمادیا کہ یہ حوالے غلط ثابت ہوئے (جو کہ بظاہر ناممکن ہے) ، کسی حاشیے کا اضافہ فرمایا ، یا ناشرین کو کوئی اور ہدایت فرمائی، یا تصحیح کا ارادہ ظاہر کرنے کے بعد رائے تبدیل ہوگئی ۔ جب تک یہ سامنے نہ ہو تب تک کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں نے اپنے طور پر بازار سے پتا کرایا تو پتا چلا کہ اب تک یہ حصہ حسبِ سابق ہی چھپ رہا ہے۔ کسی کے پاس واقعی مولانا کا تصیح شدہ کوئی نسخہ ہو تو اس سے ضرور آگاہ فرمائیں ، ان کی مہربانی ہوگی۔ بالفرض مان لیا جائے کہ انہوں نے علوم القرآن کی یہ پوری کی فصل ہی واپس لینے کا اعلان اور اسے آئندہ شائع نہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہوتو تب بھی میری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک شخصیت کی بجائے کسی اور کا حوالہ آجائے گا وہ بھی تب جبکہ مولانا افغانی کی اس طرح کی تحریر دستیاب ہوجائے جس میں انہوں نے اپنی بات میں جزوی تصحیح یا توضیح کی بجائے اس سے مکمل رجوع کرلیا ہو ۔ اگر مولاناسلفی کے پاس ایسی تحریر موجود تھی تو اسے اپنے مضمون میں ذکر کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکی۔

دوسری بات یہ ہے کہ میں نے مولانا کرم الدین دبیر (والد مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ) کے کچھ اقباسات پیش کئے ہیں۔ یہاں بھی’’ حمیتِ دینی‘‘ کے غلبے میں سلفی صاحب کو یہ غلطی لگ گئی ہے کہ میں ان کی طرف شیعہ کی عدمِ تکفیر کا قول منسوب کرنا چاہتاہوں۔ اس خاندان کا تکفیر کا قائل ہونا اظہر من الشمس ہے۔ میرے حواس ابھی اتنے صحیح سالم ضرور ہیں کہ میں ایسی غلط بیانی سے بچوں جو چل ہی نہ سکتی ہو اور اس کا غلط ہونا ہر ایک کو معلوم ہو۔ ویسے مولانا دبیر بڑے آدمی ہیں ، لیکن فتوے کی دنیا میں اتنابڑا نام نہیں ہیں کہ تکفیر کے حوالے سے مجھے ان کی بات سے دور از کار استدلال کی ضرورت ہوتی ۔ ان کی بجائے اور کئی نام بآسانی لیے جاسکتے تھے۔ چلتے چلتے ایک مثال اور عرض کردوں، علامہ بحر العلوم ، ملانظام الدین بانی درس نظامی کے صاحبزادے ہیں، لکھنؤ میں رہتے تھے لیکن اہل تشیع کے ساتھ اختلاف بلکہ جھکڑے اور جان کے خطرے کی وجہ سے انہیں لکھنو چھوڑنا پڑا، ان کے لقب بحر العلوم ہی سے ان کے علمی مرتبے کا اندازہ ہوجاتا ہے، ان کی دیگر تصانیف کے علاوہ اصول فقہ پر ایک معروف کتاب ہے فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ، اس میں وہ عموماً اہل تشیع کا تذکرہ سخت الفاظ میں کرتے ہیں، لیکن جہاں ان کی تکفیر کی بحث آئی ہے وہاں انہوں نے عدمِ تکفیر کومدلل انداز سے ترجیح دی ہے، یہاں ان کی مثال صرف ضمناً یہ عرض کرنے کے لیے دی ہے کہ اگر تکفیر ہی کے حوالے سے کسی کا نام لینا ہوتا تو علامہ بحر العلوم کا لے لیتا جو اہل تشیع کے ڈسے ہوئے بھی ہیں اور فقہی دنیا میں مولانا دبیر کے مقابلے میں بہت بڑا نام ہیں۔ لیکن یہاں مدعا ہی اور ہے۔ میں نے مولانا کرم الدین دبیر کی عبارتیں اس سیاق میں پیش کی ہیں کہ جو حضرات اہلِ تشیع کے خلاف مناظرے کرتے رہے ان میں بھی سنجیدہ حضرات ایسے بھی تھے جن کی بھر پور یہ خواہش ہوتی تھی کہ ماحول میں کشیدگی پیدا نہ ہو۔ میرے اس مدعا پر مولانا کرم الدین کی عبارتیں واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں۔ اگر اس کے ساتھ یہ ملا لیا جائے کہ وہ بعد میں تکفیر کے بھی قائل ہوگئے تھے (اگرچہ حاشیے میں انہوں نے کفر کا لفظ استعمال نہیں کیا، اسلام سے واسطہ نہ ہونے کے لازمی معنی تکفیر کے نہیں ہوتے، تاہم ویسے حقیقت یہی ہے کہ وہ اور ان کے صاحبزادے تکفیر کے قائل تھے) تو میرا استدلال اور پختہ ہوجاتا ہے کہ اہل تشیع سے مناظرے کرنے اور تکفیر کا فتوی رکھنے کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ماحول میں تلخی پیدا نہ ہونے پائے ، اب ذرا یہ بات ذہن میں رکھ کر وہ شیعوں کے کفر کے قائل تھے درجِ ذیل اقتباسات دوبارہ پڑھئے ، ان کا مزا بڑھ جائے گااورماحول کو تلخی سے بچانے کے حوالے سے میرا استدلال اور مضبوط ہوتا نظر آئے گا کہ یہ باتیں وہ شخص کہہ رہا ہے جو ان کی تکفیر کاقائل ہے:

’’افسوس کہ آج کل انقلاب زمانہ سے ایسا تو کوئی مردِ خدا دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جو بنی نوع انسان [بنی نوع انسان کا لفظ اہم ہے ]میں اتفاق اور اتحاد بڑھانے کی سبیل پیدا کرنے کی سعی کرے۔لیکن اختلاف ڈالنے اور تفرقہ پیدا کرنے والے ہزاروں پہلوان ہر طرف گونجتے پھرتے ہیں ‘‘
’’صاحبان! جب تک دونوں فرقوں میں ایسے مجذوب الخیال اور مسلوب الحواس لوگ چن چن کر ’’کالا پانی‘‘ نہ بھیج دیے جائیں ان دونوں فرقوں میں یکجہتی اور اتحاد قائم ہونا مشکل ہے‘‘۔ 

میرا خیال ہے کہ مولانا کرم الدین کے پیروکاروں کو میرے جیسے غریب طالب علموں کی خبر لینے کی بجائے ان کی اس تجویز پر عمل کی کوئی سبیل ڈھونڈنی چاہیے۔

بہر حال میں نے شیعہ سنی مسئلے کے حوالے سے تاریخی تناظر میں تین باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ بطور فرقہ شیعہ کی تکفیر اہل السنت کا متفقہ فتوی نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ ملی تحریکات میں وہ شامل رہے ہیں(شامل کرنا چاہئے یا نہیں یہ میرا موضوع اور مسئلہ نہیں ہے، یہ ان قائدین کے فیصلے کا کام ہے جو میدان میں ہیں، میرے مضمون کا مقصد تو تاریخ کا یہ گوشہ واضح کرنا تھاکہ ایسا بھی ہوتا رہا ہے) تیسرے یہ کہ جو حضرات شیعوں کے کام خلاف کرتے رہے ہیں وہ بھی اس طرح کے ماحول کے روادرا نہیں تھے جو آج کل بنا ہوا ہے (موجود ماحول کے اسباب اور ذمہ داری کا تعین بھی میرے مضمون کے موضوع سے خارج ہے) ، تیسری بات کے سلسلے میں مولانا کرم الدین کے حوالے میں میں نے نقل کئے ہیں، ان حوالوں کا پہلی بات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پہلی اور تیسری بات کے درمیان متعدد صفحات کا فاصلہ ہے۔ قارئین سے گذارش ہے کہ میرے مضمون میں جہاں سے مولانا کرم الدین کے حوالے شروع ہورہے ہیں وہاں سے میری تمہید ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں۔

تاہم ایک جگہ میرے الفاظ ہیں’’احمد شاہ عیسائی کے ساتھ ان شیعہ صاحب کا تقابل کرتے ہوئے مؤخر الذکر سے شکوہ کناں ہیں کہ انہیں مسلمان ہو کر ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘ یہاں مسلمان کا لفظ بھی تکفیر عدمِ تکفیر کے حوالے سے نہیں بلکہ شیعہ بمقابلہ عیسائی ہے۔ تاہم پھر بھی اگر سلفی صاحب کی تسلی نہ ہو تو خط کشیدہ لفظ کی جگہ ’’مسلمان کہلا کر‘‘ پڑھ لیا جائے تب بھی میرا مدعا حاصل ہے۔جو صاحب بھی آئندہ میری تحریر شائع کریں وہ یہی متبادل لفظ اختیار فرمالیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ۔۔خاص اس عبارت کی نشان دہی بھی سلفی صاحب نے نہیں کی، میں نے ازخود ڈھونڈی ہے۔۔ اس لفظ کے علاوہ پورے مضمون میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ اعتراض پیدا ہوتا ہو جس کی عمارت خواہ مخواہ کھڑی کرلی گئی۔ اگر سیاق وسباق پر غور کرنے میں دقت ہورہی تھی تو ایک چھوٹے سے خط کے ذریعے ہی پوچھ لیتے تو مسئلہ حل ہوجاتا۔

یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ شیعہ سنی مسئلے پر تاریخی تناظر میں جو تین باتیں میں نے کہی ہیں، ان پر پورے شرح صدر کے ساتھ اب بھی قائم ہوں۔ سنا ہے کہ ایک طریقۂ واردات یہ بھی چلتا ہے بعض اوقات خود ہی یہ مشہور کردیا جائے کہ فلاں صاحب نے میرے کہنے پر رجوع کرلیا ہے۔ جیسے میڈیا والے کہتے ہیں کہ ہماری خبر پر فلاں حاکم نے فلاں معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اگر اپنی غلطی سمجھ آجائے تو اس سے رجوع کرنا انسان کا فرض ہے، لیکن میں تا حال ان تینوں باتوں پر پورے شرح صدر کے ساتھ قائم ہوں۔ میری طرف اس طرح کا کوئی وارداتی رجوع منسوب نہ کیا جائے۔

بات قدرے لمبی ہوگئی ، ہمارے جوشیلے عزیز (اللہ ان کا جوش و جذبہ مثبت کاموں میں استعمال کرائے) نے جو لفظ میرے لیے جا بجا استعمال فرمائے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ان سے تو توقع نہیں کہ وہ میرے مشورے کو کوئی اہمیت دیں گے۔ تاہم دیگر نوجوانوں سے گذارش ہے جب آپ کو کسی کی تحریر پڑھ غصہ آنے لگے اور جواب لکھنے کے لیے جوش پیدا ہو تو ہمیشہ تھوڑا سا توقف کرلیں، اور الگ الگ مجلسوں میں اس تحریر کو ٹھنڈے انداز سے متعدد بار پڑھیں۔ پھر سوچنا شروع کریں کہ اس میں کون سی باتیں قابلِ اعتراض ہیں اور کیا لکھنا ہے ، وگرنہ آپ سے ایسی غلطیاں سرزد ہونے کا امکان ہے جو خود آپ کے لیے پشیمانی کاباعث بنیں گی۔

بس آج اتناہی۔ جوشیلے اور غصیلے مضمون کے باقی اجزا کے بارے میں شیخ سعدی کے لفظوں میں بس یہی کہ:

ندانی کہ مارا سرِ جنگ نیست 
وگرنہ مجالِ سخن تنگ نیست

آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter