ہمارے انتہائی مہربان اور فاضل دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد امین صاحب کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہونے والے اہم علمی و فکری جریدہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ کے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں جامعہ ہمدرد کراچی کے ایک فاضل بزرگ جناب فصیح احمد کا مضمون ’’تار عنکبوت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے مولانا وحید الدین خان کے بعض افکار کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور اس میں ’’الشریعہ‘‘ کی پالیسی کے حوالہ سے بھی کچھ ارشاد فرمایا ہے جو درج ذیل ہے:
’’ایک بات ہم مدیر البرہان ڈاکٹر محمد امین صاحب کی خدمت میں بصد احترام عرض کرنا چاہتے ہیں کہ البرہان ایک نظریاتی، تحقیقی اور علمی رسالہ ہے لہٰذا اس رسالے میں مضامین کا چناؤ اور مضامین کی اشاعت کے حوالہ سے بھی علمی تحقیقی رویہ اپنانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچایا جائے۔ انتشار ذہنی سے بچنے کے لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایسے گمراہ کن اور غیر علمی مضمون کو رسالے میں چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوا دیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے۔ مضمون کا جواب ملنے کے بعد اس مضمون کے ساتھ اس جواب کو بھی شائع کر دیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم کر سکیں، کیونکہ بسا اوقات قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد دوسرے ماہ اس کا جواب کسی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تو اس قاری کے فکری انتشار یا گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ قارئین البرہان کو علمی و فکری انتشار سے بچانے کا اس سے بہتر اور مناسب کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ البرہان کو ہائیڈپارک نہیں بننا چاہیے۔ دینی علمی رسالوں کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کرنے کا کام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے الشریعہ کے ذریعہ بخوبی انجام دیا ہے۔ دنیا بھر کی غلط سلط تحریریں نہایت کروفر کے ساتھ الشریعہ میں شائع ہوتی ہیں۔ انتشار پھیلانے کے اس عمل کو وہ آزادانہ رائے اور علمی ترقی کہتے ہیں۔ موصوف جاوید غامدی صاحب کے نظریات اپنے صاحبزادے کے سائے میں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، تجدیدِ دین کے نام پر تجدد عام ہو رہا ہے۔‘‘
’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں جناب فصیح احمد کے ارشادات پر کچھ معروضات پیش کرنے سے پہلے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ا دا کرتے ہیں کہ انہوں نے علمی و فکری مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات اور مباحثہ و مکالمہ کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے مضامین کو ایک ہی فورم پر شائع کرنے کی ضرورت بیان کر کے ہمارے اس موقف کی اصولی طور پر تائید فرما دی ہے کہ علمی و فکری مسائل پر مکالمہ و مباحثہ ہونا چاہیے اور کوئی ایسا فورم بھی ضرور موجود ہونا چاہیے جہاں کسی مسئلہ پر مختلف موقف رکھنے والے دو یا دو سے زائد فریقوں کا موقف یک جا شائع ہو تاکہ قارئین کو سب لوگوں کا موقف سامنے رکھ کر رائے قائم کرنے میں آسانی رہے۔ الشریعہ گزشتہ ربع صدی سے یہی خدمت سر انجام دے رہا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری پالیسی پر ناقدانہ نظر رکھنے والے علمی حلقوں میں بھی اس کی اہمیت و ضرورت کا احساس پیدا ہو رہا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
البتہ محترم جناب فصیح احمد کے ان تحفظات کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا بھی ضروری ہے جن کا اظہار انہوں نے اس ارشاد گرامی میں کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے فرمایا ہے کہ الشریعۃ نے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کا کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے خیال میں انہیں اس تشبیہ کے لیے لندن کا طویل سفر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لاہور کا ’’موچی دروازہ‘‘ ان کے جذبات کے اظہار کے لیے کافی تھا۔ باغ بیرون موچی دروازہ یا ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے مذہبی اور سیاسی جلسوں میں ہمارے ہاں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال ہوتی آرہی ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ہم اس معاملہ میں خود کفیل نظر آتے ہیں۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ میں گزشتہ ربع صدی کے دوران شائع ہونے والے بہت سے مضامین کی زبان ’’ہائیڈ پارک‘‘ اور ’’موچی دروازہ‘‘ سے مختلف نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زبان کس نے استعمال کی ہے؟ اگر یہ زبان اور لہجہ و اسلوب ’’الشریعہ‘‘ کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے تو ہم مجرم ہیں۔ جناب فصیح احمد الشریعہ کی گزشتہ فائلیں چیک کر کے جہاں جہاں نشان دہی کریں گے، ہم اس پر کھلے دل سے معافی مانگیں گے۔ لیکن اگر ایسے مضامین ہم نے خود جناب فصیح احمد کی بیان کردہ ضرورت کے مطابق جوابی موقف کے طور پر مجبورًا شائع کیے ہیں تو اس کا بار ’’الشریعہ‘‘ پر ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہماری یہ معاشرتی مجبوری بن گئی ہے کہ ہم علمی، فکری اور تحقیقی مباحث میں بھی (چند مستثنیات کے ساتھ) ہائیڈ پارک کی زبان بولنے اور موچی دروازے کا لہجہ و اسلوب اپنانے کے عادی ہیں۔ ’’الشریعہ‘‘ اسی منفی معاشرتی رویے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ارباب علم و فضل کے عمومی ماحول کو یہ احساس دلانے کی سعی میں مصروف ہے کہ علمی و فکری مسائل میں علمی و فکری اسلوب اور زبان اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب فصیح احمد جیسے اصحابِ دانش پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ ’’ہائیڈ پارک ‘‘ میں کھڑے لوگوں سے تو کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے ،ہیں لیکن انہیں ’’ہائیڈ پارک‘‘ کے ماحول سے باہر آنے کی دعوت دینے والوں پر ان کی ناراضگی کا سارا نزلہ گر رہا ہے۔
رہی بات مضامین کے معیار اور انتخاب کی تو اس سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں، ایک یہ کہ ہم متعدد بار ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات میں یہ اپیل کر چکے ہیں کہ مضمون نگار حضرات علمی و تحقیقی لہجہ میں بات کریں اور باہمی الزام تراشی اور طعن و تشنیع سے گریز کرتے ہوئے علمی اندا زمیں اپنا موقف بیان کریں۔ ہماری اس اپیل کا دھیرے دھیرے اثر ہو رہا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ پہلے سے ’’افاقہ‘‘ دکھائی دینے لگا ہے۔ لیکن اس میں بہرحال وقت لگے گا اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ علمی مباحث میں علمی زبان و اسلوب کا ماحول عام کرنے میں ضرور کامیابی ہوگی۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ایک طرف کا موقف شائع ہوا ہے تو دوسری طرف کا موقف شائع کرنا بھی ضروری ہے، لیکن وہ موقف ایسے لہجے اور اسلوب میں ہے کہ جناب فصیح احمد صاحب کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو ہماری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ زبان و اسلوب کی کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے موقف کو شائع کر دیا جائے، ہو سکتا ہے دونوں مضامین کے تقابل میں خود صاحب مضمون کو اس بات کا احساس ہو جائے۔
دوسری بات یہ کہ کن عنوانات پر بات ہونی چاہیے اور کن موضوعات کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ ہماری رائے یہ ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح اور نفاذِ اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں عالمی اور قومی سطح پر جو امور زیر بحث آتے ہیں ان پر بات ضرور ہونی چاہیے اور مختلف علمی مکاتب فکر کے نقطۂ نظر کو قارئین کے سامنے آنا چاہیے۔
ہماری ایک معاشرتی اور نفسیاتی مجبوری یہ بھی ہے کہ وقت کی ضروریات کا تعین اپنے اپنے دائروں میں ہم خود ہی کر لیتے ہیں، حالانکہ وقت نہ اپنی رفتار میں ہمارا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور نہ اپنی ضروریات کا تعین ہم سے پوچھ کر کرتا ہے، اس کی رفتار بھی اپنی ہوتی ہے اور ضروریات کا دائرہ بھی اپنا ہوتا ہے، مگر ہماری الجھن یہ ہے کہ جو بات ہماری ترجیحات میں شامل ہو جاتی ہے وہ وقت کی ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے، اور جو عنوان یا موضوع ہماری ذاتی یا گروہی ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتا، اسے ہم سرے سے وقت کی ضروریات کے دائرے سے خارج قرار دینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں بسا اوقات عجیب و غریب لطیفے رونما ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں یہ بحث چلی کہ گستاخ رسولؐ کے لیے توبہ کی گنجائش ہے یا نہیں؟ ملک کے علماء کرام نے عمومی طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ موجودہ حالات میں اس کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا، لیکن جب اس بات کو علمی موقف کے طور پر بیان کیا جانے لگا تو یہ کہا گیا کہ احناف کا موقف بھی یہ ہے۔ ہم نے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ احناف کا متفقہ موقف یہ نہیں ہے اس لیے کہ امام ابو یوسفؒ اور امام ابوجعفر طحاویؒ نے گستاخ رسولؐ کے لیے صراحتاً توبہ کی گنجائش لکھی ہے جبکہ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے اس پر مستقل رسالہ تحریر کیا ہے کہ گستاخ رسولؐ کے لیے توبہ کی گنجائش کا نہ ہونا احناف کا متفقہ موقف نہیں ہے۔ اس لیے اگر حالات کے تقاضے کے تحت اس موقف کو اختیار کرنا ضروری ہو تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن اسے احناف کا متفقہ موقف نہ کہا جائے۔ اس پر ہمارے بہت سے دوست چیں بہ جبیں ہوئے اور بعض احباب نے تو چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش بھی فرمائی۔ لطیفے کی بات یہ ہے کہ ایک انتہائی مہربان اور صاحب علم دوست نے ذاتی ملاقات میں ہم سے فرمایا کہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے، مگر اسے اس وقت بیان کرنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، ہم نے عرض کیا کہ اگر اس وقت ضرورت نہیں تھی تو احناف کے موقف کی صحیح پوزیشن بیان کرنے کی ضرورت کیا قیامت کے دن پیش آئے گی؟
اسی طرح یہ مسئلہ کہ کیا پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانا درست ہے یا نہیں؟ ہم ایک عرصہ سے گزارش کر رہے ہیں کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پر امن جدوجہد کا ہر حربہ اختیار کرنا ہمارے لیے دینی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن ہتھیار بدست ہو کر اس مقصد کے لیے عسکری جنگ لڑنا درست نہیں ہے۔ اس پر ہمارے ایک انتہائی مہربان دوست جن کی دینی و جہادی خدمات کے ہم ہمیشہ معترف رہے ہیں، دور دراز سفر کر کے گوجرانوالہ تشریف لائے اور بڑے خلوص و خیر خواہی کے ساتھ فرمایا کہ آپ کا موقف درست ہو سکتا ہے، لیکن اس کے اظہار کا وقت یہ نہیں ہے، اس لیے ابھی اس بارے میں خاموشی اختیار کر لیں۔ میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی! اس وقت نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس موضوع پر بحث جاری ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے عسکری جدوجہد جائز ہے یا نہیں؟ اس لیے میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ ہم اپنے موقف کا وضاحت کے ساتھ اظہار کریں۔ آپ ہمارے موقف سے اختلاف کریں، لیکن ہمیں اپنے موقف کے اظہار کے حق سے تو محروم نہ کریں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کی وفات پر منعقد ہونے والی مجالس میں حاضری میرا معمول نہیں ہے، اکثر اوقات معذرت کر دیتا ہوں، لیکن اگر کہیں عمومی دینی مصلحت کے پیش نظر شریک ہونا ضروری ہو جاتا ہے تو وہاں اپنی گفتگو میں یہ وضاحت کر دیتا ہوں کہ اس قسم کی مجالس محض رسمی ہوتی ہیں، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اگر انہیں شرعی حیثیت دی جائے تو یہ بدعت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں یہ بات میں نے قدرے وضاحت سے بیان کی تو ایک دوست نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ غم کے لیے جمع تھے، یہاں یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے عرض کیا کہ کیا یہ بات مجھے شادی کی کسی محفل میں بیان کرنی چاہیے تھی؟ میرے بھائی! بات وہیں کہی جائے گی جو اس کا موقع ہوگا اور جہاں اس کی ضرورت ہوگی۔
اس لیے ہمارا موقف یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے عالمی اور ملکی سطح پر یا معاشرتی ماحول میں جس مسئلہ پر گفتگو چل رہی ہو یا جو سوال سامنے آجائے، اس پر اظہار خیال اہل دین کی ذمہ داری بن جاتا ہے اور کسی موضوع سے یہ کہہ کر گریز کرنا درست نہ ہوگا کہ وہ ہماری گروہی یا مسلکی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، البتہ ایک دوسرے کے موقف اور دلائل سے ضرور واقف ہونا چاہیے اور موقف کے اظہار کے لیے زبان اور اسلوب و لہجہ کو متوازن رکھنا چاہیے۔
محترم فصیح احمد صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے حلقۂ فکر کے بعض احباب کے مضامین کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت کا ’’طعنہ‘‘ بھی دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر صرف ان مضامین پر پڑی ہے اور انہی صفحات میں ان کے جواب میں شائع ہونے والے بیسیوں مضامین ان کی نظر کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ حالانکہ غامدی صاحب کے بہت سے افکار پر متعدد اصحابِ قلم نے ناقدانہ قلم اٹھایا ہے اور ’’الشریعہ‘‘ نے تفصیل و اہتمام کے ساتھ انہیں شائع کیا ہے۔ خود راقم الحروف کے ایک درجن سے زائد مضامین ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے ہیں جن میں غامدی صاحب کے افکار پر نقد کیا گیا ہے، حتیٰ کہ عمار خان سلّمہ نے بھی (جسے غامدی صاحب کے افکار کے فروغ کا ذریعہ قرار دینے کی ’’زیادتی‘‘ جناب فصیح احمد صاحب نے بھی بلاتکلف فرما دی ہے) ’’الشریعہ‘‘ کے انہی صفحات میں غامدی صاحب کے متعدد افکار سے اختلاف کیا ہے اور ان پر ’’علمی نقد‘‘ کیا ہے، مگر یک طرفہ مطالعہ کے خوگر دوستوں کو یہ سائیڈ دکھائی ہی نہیں دیتی اور وہ یک طرفہ طور پر ان یحدث بکل ما سمع کا ورد کیے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں شوقین مزاج نوجوان ’’یوم آزادی‘‘ یا دوسرے مواقع پر جب زیادہ موج میں ہوتے ہیں تو موٹرسائیکلوں کے سائلنسر اتار کر ’’ون ویلنگ‘‘ کرتے ہوئے گلیوں بازاروں میں شہریوں کی قوت سماعت کا امتحان لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ علمی اور دینی مباحث اس ماحول سے باہر نکلیں اور ہم جب کسی علمی اور فکری گفتگو اور مکالمہ کے دائرے میں داخل ہوں تو اپنے سائلنسر اور ویل چیک کر لیا کریں۔ بس اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے۔
شاید کہ اترجائے ’’کسی‘‘ دل میں مری بات