فقہ شافعی اور ندوۃ العلماء

مولانا عبد السلام خطیب بھٹکلی ندوی

ندوۃ العلماء ایک علمی، اصلاحی و دعوتی تحریک کا نام ہے جس کی خشتِ اول ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں مدرسہ فیضِ عام کانپور کے ایک جلسہ دستار بندی میں اس وقت کے زمانہ شناس اور نباضِ دہر علماء نے رکھی، جن میں سر فہرست حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کی شخصیت تھی۔ اس کے اہم مقاصد میں:

(۱) علوم اسلامیہ کے نصاب درس میں دور رَس اور بنیادی اصلاحات اور نئے نصاب کی تیاری۔

(۲) ایسے علماء پیدا کرنا جو کتاب و سنت کے وسیع و عمیق علم کے ساتھ جدید خیالات سے بخوبی واقف اور زمانہ کے نبض شناس ہوں۔

(۳) اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا۔

(۴) اسلامی تعلیمات کی اشاعت بالخصوص برادرانِ وطن کو اس کی خوبیوں سے روشناس کرانا۔ ۱؂

اس تحریک کے تعارف کا سب سے پہلا جلسہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں مدرسہ فیض کانپور ہی میں ہوا۔ پھر یہ تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنے متعین کردہ اہداف کے مطابق کام کرتی رہی، اس کے متعین کردہ اہداف و پالیسیوں میں ایک اہم شق رفع نزاعِ باہمی یعنی اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا تھا۔ اس کے لیے ندوۃ العلماء کے زیر سرپرستی منعقد ہونے والے جلسوں اور پروگراموں کی رودادوں کا ایک نظر مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ندوہ کے اجلاس میں ہمیشہ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے افراد کی نمائندگی رہی۔ ندوۃ کے اسٹیج پر اگر ایک طرف علمائے کرام تشریف فرما ہوتے تو ان کے شانہ بشانہ سوٹڈ بوٹڈ عصری تعلیم یافتہ حضرات بھی بیٹھے نظر آئے۔ اگر خانقاہ کے سجادہ نشیں حاضر جلسہ ہوئے تو دوسری طرف درس و تدریس سے متعلق اساتذہ بھی۔ حنفی حضرات کی ایک خاصی تعداد ہوئی تو اپنے دور کے عامل بالحدیث افراد بھی حاضر رہتے۔ فقیہ العصر جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:

’’ندوۃ کے پلیٹ فارم نے احناف اور اہل حدیث، علماء دیوبند اور علمائے بدایوں، مدارس و خانقاہوں سے نکلنے والے مشائخ اور عصری جامعات کے فضلاء کو ایک جگہ بٹھایا۔ ‘‘ ۲؂

بانیانِ ندوۃ کے سامنے وہ ذلت آمیز رسوا کن حالات تھے جو مسلمانوں کی حکومت و سلطنت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کی غلامی میں زندگی گزارتے ہوئے پیدا ہوگئے تھے کہ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل، ایسے اختلافات اور ایسی لڑائیاں کہ الامان والحفیظ۔ علماء و اہل مدارس اپنے پڑھے لکھے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی نگاہوں میں ذلیل و بے حیثیت ہو رہے تھے تو غیروں کی نگاہوں میں بے وقعت و بیکار۔ خاص کر شمالی ہندوستان میں کہ یہاں پر احناف اور اہل حدیث حضرات کی مخلوط و ملی جلی آبادی تھی، تو ان کے رفع یدین اور آمین بالجہر کے اختلافات، کورٹ کچہریوں تک پہونچ گئے تھے کہ اب مسائل کا شرعی حل غیر مسلم جج صاحبان کے حوالے تھا۔ 

تو اس عہد میں تحریک ندوۃ العلماء کا سب سے بڑا فائدہ بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی زید مجدہ:

’’یہ ہوا کہ مختلف الفکر لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وجہ سے فاصلے کم ہوگئے، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی، اور مخالف نقطہ نظر کے احترام کا جذبہ بیدار ہوا اور اس کی وجہ سے اہل علم کے ایک طبقہ میں وسیع الفکری اور وسیع المشربی کا مزاج پروان چڑھا۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں بھی فکر میں وسعت اور اختلاف رائے میں تحمل پیدا ہوگی وہاں اعتدال اور میانہ روی پیدا ہوگی اور افراط و تفریط سے بچنا ممکن ہوگا۔ اسی لیے فقہ کے میدان میں بھی ندوۃ العلماء کی پہچان اس کا اعتدال اور فروعی مسائل میں غلو سے اجتناب ہے۔‘‘ ۳؂

چونکہ مسلمانوں کے اس طرح کے بیشتر اختلافات کی جڑ یا تو تعلیم کے میدان میں قدیم و جدید کی تقسیم یا فقہی فروعی اختلافات میں تشدد و غلو تھا، اس لیے ندوۃ العلماء نے (ایک طرف) اصلاحِ نصاب کے ذریعہ قدیمِ صالح و جدیدِ نافع کو جمع کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف اختلافات فقہیہ میں اعتدال کی راہ دکھائی۔ اور اس سلسلہ میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہؒ کا نقطہ نظر ہی ندوۃ العلماء کی پہچان رہا، کہ شاہ صاحبؒ کے یہاں جو فکری و فقہی وسعت و توسع پایا جاتا ہے وہ برصغیر میں کم از کم اس وقت ناپید تھا۔ اور ندوۃ نے اس سلسلے میں صرف اجمالی رہنمائی اور اشارتی گفتگو ہی نہیں کی بلکہ فقہ کی تعلیم اور دارالافتاء کے قیام کے ذریعہ سے اس کو عملی شکل دینے کی بھی مکمل کوشش کی۔ اسی لیے سب سے پہلے ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے قیام ندوہ کے ابتدائی دور سے ہی دارالافتاء کے قیام کی کوشش کی اور بہت جلدی ہی اس سلسلے میں ندوۃ کی طرف رجوع ہونے لگا۔ اور اب تو ماشاء اللہ ندوہ کا دارالافتاء و دار القضاء ہندوستان کے گنتی کے چند اہم اداروں میں شمار کیا جاتا ہے اور ہند و بیرونِ ہند مختلف ممالک سے استفتاء ات آتے ہیں اور اس کے جوابات دیے جاتے ہیں اور دارالقضاء کے ذریعہ مختلف معاشرتی و سماجی مسائل کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ 

اسی طرح سے فقہی منہج و مزاج میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے علمائے ندوہ نے اپنے طلباء و مستفدین کی اعتدالی تربیت کا بھی بڑا خیال رکھا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ اپنے ایک عامل بالحدیث شاگرد کو ایک خط کے جواب میں نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وہابیت میں غلو اور تشدد نہ چاہیے، تصلب اور تعصب حکمِ دین میں چاہیے نہ کہ اشخاص اور ان کے مسالک میں، خواہ حنفیت ہو یا وہابیت بل ملۃ ابراھیم حنیفًا وماکان من المشرکین۔‘‘ ۴؂

ایک دوسری جگہ اپنے فقہی مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’مذہبی مسائل کی تحقیقات میں میرا یہ عمل رہا ہے کہ عقائد میں سلف صالحین کے مسلک سے علیحدگی نہ ہو البتہ فقہیات میں کسی ایک مجتہد کی تقلید بتمامہ نہیں ہو سکی بلکہ اپنی بساط بھر دلائل کی تنقید کے بعد فقہاء کے کسی ایک مسلک کو ترجیح دی ہے، لیکن کبھی کوئی ایسی رائے نہیں اختیار کی جس کی تائید ائمہ حق میں سے کسی ایک نے بھی نہ کی ہو، خصوصیت کے ساتھ مسائل کی تشریح میں حافظ ابن تیمیہؒ ، حافظ ابن قیمؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیقات پر اکثر اعتماد کیا ہے۔‘‘ ۵؂

اسی طرح ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد کو لکھا کہ:

’’اور مسائلِ فقہیہ میں فقہائے محدثین کے طرز کو اختیار کیا جائے۔‘‘ ۶؂

علامہ نے اپنے فقہی مقالات اور ریاستِ بھوپال کے چیف قاضی کی حیثیت سے دیے گئے فیصلوں میں اس کا بڑا خیال بھی رکھا۔ اسی لیے ایک ندوی فاضل نے آپ کے فقہی مزاج و مسلک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’مولانا سید سلیمان ندوی حنفی ضرور تھے مگر تقلید کی وجہ سے نہیں بلکہ تحقیق کی بناء پر، لیکن وہ اس انتساب کا ذکر و تذکرہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس نسبت سے وہ اپنا تعارف کراتے ہیں، ان کے پیش نظر اسلام تھا، اور ان کی تمام تر خدمات اسلام اور مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے نزدیک ملت کے لیے وہی نام بس ہے جو حضرات ابراہیم ؑ کی طرف سے تجویز ہوا۔ ھو سمّا کم المسلمین۔‘‘۷؂

یہ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تربیت کا انداز اور ان کا فقہی مزاج تھا جو ندوۃ کے ابتدائی دور کا سب سے کامیاب ترین پھل اور نتیجہ تھے۔ پھر جیسے جیسے ندوۃ اپنی ترقی کے مراحل طے کرتا گیا اسی طرح اس میں علمی و عملی میدان میں ترقی ہوتی گئی۔ 

ندوۃ کی دوسری سب سے اہم و ممتاز شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ہے جو کہ شیخ العرب والعجم کہلائے۔ ان کے دور میں تو ندوہ کا تعارف بھی ہندوستان و بیرون ہند میں زبردست ہوا اور ندوۃ میں مختلف علاقوں اور ملکوں سے کسب فیض کے لیے آنے والوں کی تعداد خوب بڑھی۔ حضرت مولانا علی میاںؒ نے بھی فقہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی لیکن باین معنئ عام آپ نہ مفتی کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور نہ اپنے آپ کو مفتی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ فقیہ النفس، نباضِ زمانہ اور امت مسلمہ کے ایک مقبول و ممتاز رہبر و رہنما تھے۔ مولاناؒ نے اپنے دور میں جدید پیش آمدہ مسائل کے علمی و فقہی حل کے لیے علماء و مفتیانِ کرام پر مشتمل چند افراد کی ایک کمیٹی ’’مجلس تحقیقات شرعیہ‘‘ کے نام سے قائم کی جو اس وقت کا ایک بڑا ہی جرأت مندانہ و مجتہدانہ قدم تھا۔ اس مجلس کے ذریعہ اجتماعی طور پر بہت سے جدید مسائل کو حل کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں اور اب تو عالم اسلام اور ہندوستان میں فقہ اکیڈمی وغیرہ اس طرح کے مسائل کو الحمد للہ حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 

فقہ شافعی اور ندوۃ العلماء

حضرت مولانا علی میاںؒ کے دور میں تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا اور بعض دوسرے ممالک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوہ آئے تھے، اس کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اسی طرح بھٹکل، کیرالہ، کوکن و مدراس کے بھی طلبہ کی آمد کا سلسلہ ندوہ میں شروع سے رہا۔ بھٹکل سے تو بڑے منظم و مرتب انداز میں طلبہ آتے رہے اور الحمد للہ روز افزوں ترقی پر ہے۔ تو مولانا علی میاں صاحبؒ نے ان طلبہ کی فقہ کی تعلیم کے لیے ندوہ کے عام نظام کے اندر ہی فقہ حنفی کے بجائے ان کے لیے فقہ شافعی کو پڑھانے کا انتظام کیا تاکہ یہ طلبہ واپس جا کر اپنے معاشرے کے لیے نامانوس نہ رہیں اور معاشرے کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ اس کے لیے حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ نے فقہ شافعی کے علماء و مدارس کے فقہ شافعی کے نصاب کو دیکھتے ہوئے ندوہ میں پڑھنے والے شافعی طلبہ کے لیے فقہ شافعی کی اہم درسی کتابوں کو نصاب میں داخل کیا اور فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی ایک اچھی تعداد کو ندوہ میں استاذ مقرر کیا۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک شافعی ندوی عالم کو شام کے ایک ممتاز فقیہ کے پاس شافعی کے اختصاص کے لیے بھیجا۔ اسی طرح ندوہ سے متعلق مدارس میں ان مدارس کو جو شوافع کے علاقے میں قائم ہیں، ان کو پوری آزادی دی کہ فقہ کے تعلق سے وہ اپنے علاقے کے نظام و مسلک سے وابستہ رہیں۔ ندوہ کے بہت سے شافعی فارغین نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ سے بھی فقہ شافعی کی خدمت کی، جن کی بھٹکل، کیرالہ اور دوسرے علاقوں میں ایک خاص تعداد ہے۔ ابھی چند ماہ پیشتر راقم کو تھائی لینڈ کے سفر میں وہاں جو ندوی فضلاء کی ایک بڑی تعداد اور ان کا عوام و علاقے کے اہم مدارس و مراکز سے جڑے رہنے کو دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ندوہ میں فقہ شافعی کے پڑھنے کی برکات کا اس میں بڑا دخل ہے کہ عوام کے مانوس مسلک سے ہٹ کر انہوں نے فتویٰ نہیں دیا اور عوام سے دور نہ رہے۔ 

اسی طرح بھٹکل اور اطراف کے علاقہ کا ندوہ سے جڑے رہنے میں بھی ندوہ کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کے فقہی مزاج کے اعتدال و توسع اور باقاعدہ عملی طور پر شوافع کے لیے فقہ شافعی کی عملی تعلیم کے انتظام کرنے کا بڑا دخل ہے۔ بلکہ ندوہ سے ملحق بعض مدارس میں بھی چند شافعی طلبہ اگر پہونچ جاتے ہیں تو ان کے بھی فقہ کو پڑھانے کا یہ حضرات اہتمام کرتے ہیں جس کی بہترین مثال خود حضرت مولاناؒ کے وطن ہی میں قائم مدرسہ ضیاء العلوم ہے کہ وہاں دو شافعی ممتاز علماء تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، شافعی نواں کے لیے فقہ حنفی کے پڑھانے کا مستقل انتظام کیا جاتا ہے۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل و مدرسہ ضیاء العلوم اور بعض دوسرے ندوی شافعی فضلاء کے قائم کردہ اداروں میں علمائے شوافع اور فقہ شافعی پر بھی جو کام ہوا یا ہو رہا ہے اس میں ندوہ کی سر پرستی اور اس کے فقہی اعتدال و توسع کا ضرور اثر پایا جائے گا۔

اس وقت ناظم ندوۃ حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم جو اپنے استاد و مرشد پیش رو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ہی کے صفات کے حامل اور انہی کے پرداختہ و پروردہ ہیں، ان میں بھی اسی طرح کا اعتدال و جامعیت، فقاہت و دانشمندی اور امت کی رہنمائی و رہبری کے صفات پائے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں تو حدیث میں اختصاص کرنے والے شافعی طلبہ کے لیے بخاری شریف کی جگہ باقاعدہ سنن بیہقی کے وہی ابواب داخل نصاب کیے گئے ہیں، اور اس سے شافعی طلبہ کو اپنے مسلک کے دلائل و ترجیحات کے معلوم کرنے کے سلسلے میں بڑا فائدہ ہو رہاہے۔ اسی طرح ندوہ کے دارالافتاء سے بھی فقہ شافعی سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں تو ان کا بھی اس کے اعتبار سے جواب دیا جاتا ہے۔ ندوہ کے مختلف دارالمطالعوں اور ندوہ کے علامہ شبلی لائبریری میں فقہ شافعی کے مصادر و مراجع بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دارالمصنفین میں مقیم ندوی فضلاء نے بھی امام شافعیؒ اور فقہائے شافعیہ کے سیرت و حالات پر بعض کتابیں لکھیں۔ اسی طرح ندوے سے متعلق ایک اہم ادارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاسیس پر نصف صدی گزرنے پر گزشتہ سال ۲۰۱۲ء میں جو علمی و دعوتی پروگرام ہوئے اس میں بھی نوجوان ندوی فضلاء جن میں سے اکثر ندوہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، انہوں نے بھی قدیم فقہائے شافعیہ کے حالات پر اردو میں مختصر و جامع کتابیں لکھیں۔ ندوہ کی جامع مسجد میں جو ائمہ حضرات مہتمم ندوہ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب الاعظمی الندوی کی نگرانی میں نماز پڑھاتے ہیں، ان میں بھی ایک شافعی امام ہیں، نیز مسجد ندوہ میں عموماً شافعی طلبہ کی بڑی رعایت کی جاتی ہے۔ 


حوالہ جات

۱۔ تاریخ ندوۃ العلماء (جلد ۱)

۲۔ ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابنائے ندوہ کی فقہی خدمات (ص ۲۶)

۳۔ ایضاً 

۴۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۰)

۵۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۱۷)

۶۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۲)

۷۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۴)

(بشکریہ ماہنامہ ’’بانگ حرا‘‘ لکھنؤ جون ۲۰۱۳ء)

مکاتب فکر

(نومبر ۲۰۱۳ء)

نومبر ۲۰۱۳ء

جلد ۲۴ ۔ شمارہ ۱۱

الشریعہ اور ہائیڈ پارک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بین الاقوامی قوانین اور اسلامی تعلیمات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دعوت دین اور انبیاء کرام علیہم السلام کا طریق کار
مولانا امین احسن اصلاحیؒ

فقہ شافعی اور ندوۃ العلماء
مولانا عبد السلام خطیب بھٹکلی ندوی

اسلام، جمہوریت اور مسلم ممالک
قاضی محمد رویس خان ایوبی

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر اسلم فرخی)
عرفان احمد

نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکاتیب
ادارہ

’’حیات ابوالمآثر علامہ حبیب الرحمان الاعظمیؒ‘‘
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تلاش

Flag Counter