(۲۳ ستمبر ۲۰۱۳ء کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے زیر اہتمام معروف عرب سکالر ڈاکٹر عامر الزمالی کی مرتب کردہ کتاب ’’بین الاقوامی قوانین انسانیت اور اسلام‘‘ (مترجم: پروفیسر محمد مشتاق احمد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کی تقریب رونمائی کے موقع پر کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! ڈاکٹر عامر الزمالی کی کتاب کا اردو ترجمہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو مختلف اصحابِ علم کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر محمد مشتاق احمد نے انتہائی مہارت اور ذوق کے ساتھ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور آج کے دور کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس پر وہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ اور مطابقت و اختلاف کے پہلوؤں کی نشاندہی ہماری اس دور کی اہم ضرورت ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہمارے انتہائی محترم اور فاضل دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں خاصا کام کیا تھا اور اب پروفیسر محمد مشتاق احمد کی اس طرف توجہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ دیگر اصحابِ علم بھی اس طرف متوجہ ہوں۔
مجھ سے قبل جناب خورشید احمد ندیم نے اپنے خطاب میں بین الاقوامی قوانین و معاہدات کے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے تجزیہ و تحقیق کی ضرورت کا ذکر کیا ہے اور اس کے لیے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے تجزیہ و تحقیق کی ضرورت کا ذکر کیا ہے اور اس کے لیے مکالمہ و مباحثہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے اور اسی بات کو آگے بڑھانا چاہوں گا۔ لیکن گفتگو کے آغاز میں دو سال قبل لاہور میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے ایک سیمینار کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ مجھے بعض چہرے یہاں دکھائی دے رہے ہیں جو اس سیمینار میں بھی موجود تھے، اس لیے یاد دہانی کے طور پر اپنی گزارش کا اعادہ کروں گا۔ میں نے اس سیمینار میں عرض کیا تھا کہ بین الاقوامی معاہدات بالخصوص جنگوں سے متاثرہ افراد دیکھ بھال اور ان کے حقوق و مفادات کے بارے میں وضع کیے گئے قوانین کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالعہ بہت بہتر بات ہے اور وقت کی ضرورت ہے، لیکن اگر اس ضرورت کا احساس ان قوانین کی ترتیب اور معاہدات کی تشکیل کے وقت کر لیا جاتا اور اسلام کو ایک زندہ معاشرتی حقیقت تسلم کرتے ہوئے معاہدات و قوانین کی تشکیل و تدوین میں اس کے احکام و قوانین کو سامنے رکھا جاتا تو آج کی صورت حال بالکل مختلف ہوتی اور یہ کاوشیں جو آج ہم کر رہے ہیں ان کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن اس وقت اس ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا بلکہ نظر انداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے ہمیں اس مکالمہ کی طرف آنا پڑ رہا ہے۔
اس حوالہ سے آج یہ بحث جن نکات کے گرد گھوم رہی ہے وہ یہ ہیں کہ:
- کیا آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین اسلام سے بالکل متصادم ہیں؟
- کیا یہ معاہدات و قوانین اسلامی تعلیمات سے مکمل موافقت رکھتے ہیں؟
- کیا ان معاہدات و قوانین کی بنیاد اسلامی تصورات پر رکھی گئی ہے؟ اور
- کیا ان معاہدات و قوانین کو اسلامی تعلیمات پر یا اسلامی تعلیمات کو معاہدات و قوانین پر برتری حاصل ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان نکات کے گرد گھومنے والی یہ ساری بحث محض تکلف ہے اور مفروضات پر مبنی ہے۔ ہمیں مفروضات کے دائرے سے ہٹ کر زمینی حقائق کی روشنی میں ان مسائل پر مکالمہ کرنا ہوگا اور معروضی صورت حال میں پیش آمدہ مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔
میری طالب علمانہ رائے میں آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین کا پس منظر صرف اور صرف مغربی ہے۔ مغرب میں تاریک صدیوں کے دوران بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون کے جبر کا شکار ہونے والا معاشرتی ماحول ان معاہدات اور قوانین کا حقیقی پس منظر ہے، جبکہ مسلمانوں کا ایک ہزار سال سے زائد عرصہ کا معاشرتی ماحول اور ان کا تہذیبی پس منظر اس میں قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جس طرح مغربی سوسائٹی مسیحیت کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہوگئی ہے، اسی طرح مسلم سوسائٹی بھی آہستہ آہستہ اپنے دین کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائے گی اور لادینی سوچ پر مبنی نئے فلسفہ و نظام کو سب سے منوانا آسان ہو جائے گا۔ لیکن یہ مغالطہ تھا کیونکہ اسلامی دنیا کو مذہب سے بے گانہ کرنے کے لیے کم و بیش دو صدیوں کی مسلسل منفی محنت کے باوجود مسلمان آج بھی دنیا میں ہر جگہ دین کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہے اور دینی تعلیمات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور آج اسلام اور بین الاقوامی معاہدات کے حوالہ سے مکالمہ کی جس ضرورت کا احساس و اظہار کیا جا رہا ہے، وہ بھی اسی حقیقت کا غماز ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ جب یہ معاہدات تشکیل پا رہے تھے اور قوانین کی ترتیب قائم کی جا رہی تھی اگر اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو صورت حال یہ نہ ہوتی جس سے آج ہم دوچار ہیں۔ مگر اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو محض رسمی طور پر ثانوی درجہ میں شریک کار بنانے کا طرز عمل اختیار کیا گیا جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
ڈاکٹر عامر الزمالی کی اسی کتاب میں شامل جیمس کوکین کے تفصیلی مقالہ کو ایک نظر دیکھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان معاہدات اور قوانین کی تشکیل و تدوین کے مرحلہ میں کس طرح پس منظر میں رکھنے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ مجھے اس کتاب میں وہ مقالہ سب سے زیادہ دلچسپ لگا ہے اور میں نے اسے بغور پڑھا ہے۔ اس موقع پر ریڈکراس کا کام اور اس کا نشان تک جس انداز میں زیر بحث آیا اور ہلال احمر اور سرخ سورج کے نشانات پر بحث ہوئی، اس کشمکش کا تذکرہ اس کتاب میں بطور خاص پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کے باوجود ہم اس بنیادی خلا کی بات کرتے ہوئے آج یہ نہیں کہتے کہ جو کچھ ہو چکا ہے، اسے بالکل ختم کر کے زیرو پوائنٹ پر واپس جایا جائے۔ یہ تو قابل عمل بات نہیں ہوگی مگر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس خلا کو محسوس کیا جائے اور اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ بین الاقوامی معاہدات و قوانین کی تشکیل میں مسلمانوں کو ان کا حصہ اور کردار نہیں دیا گیا۔ پھر ان حقائق کے اعتراف کے ساتھ اس پورے عمل کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی مکالمہ اور مباحثہ کے ذریعہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین میں تعارض و اختلاف کے نکات کون سے ہیں اور ان پر نظر ثانی کر کے قابل قبول ایڈجسٹمنٹ کا ماحول کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے جب وہ او۔آئی۔سی کے سربراہ تھے، اقوام متحدہ کی پالیسی سازی کے نظام اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر وغیرہ پر نظر ثانی کی جو بات کی تھی، وہ اسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے تھی مگر عالمی ادارے تو رہے ایک طرف، اس تجویز کو خود مسلمان حکومتوں نے قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔
میں اس سلسلہ میں ایک اور خلا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ بین الاقوامی معاہدات و قوانین اور اسلامی تعلیمات کے درمیان مکالمہ میں اسلامی تعلیمات کی طرف سے جن لوگوں کو نمائندہ سمجھا جاتا رہا ہے، وہ خود اس کنفیوژن کا ایک بڑا سبب ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی حکومتوں اور قوموں کی نمائندگی ضرور کر رہے ہوں گے، لیکن انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ چند سال قبل مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز اسلام اباد تشریف لائے تو ان کے سامنے مذاکرات اور مکالمہ کے لیے جناب شوکت عزیز تشریف فرما تھے۔ میں نے اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ آرچ بشپ آف کنٹر بری تو پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ شوکت عزیز صاحب مسلمانوں کے کون سے مکتب فکر کے نمائندہ ہیں؟ چنانچہ ہمارے ساتھ یہ دھاندلی بھی ہو رہی ہے۔
اس لیے میں ڈاکٹر عامر الزمالی کی اس کتاب اور بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کی طرف سے ان معاہدات و قوانین کے حوالہ سے مکالمہ کی ضرورت کے احساس و ادراک کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کتاب کی اشاعت کو اس سلسلہ میں ایک اہم پیش رفت سمجھتا ہوں۔ لیکن یہ گزارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مکالمہ کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب ہم مفروضات کے دائروں سے نکل کر معروضی صورت حال، تاریخی پس منظر اور زمینی حقائق کی بنیاد پر حقیقت پسندی کے ساتھ اس مکالمہ اور تحقیق کو آگے بڑھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت کام کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔