(۶، ۷ جنوری ۲۱۰۳ء کوہندوستان میں فقہ شافعی پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیااورجامعہ حسینہ شری وردھن کے اشتراک سے منعقدہونے والے دوروزہ قومی سیمینارمیں پیش کیا گیا۔)
اللہ تعالیٰ نے دنیاکے لیے جس دین کوپسندکیااوربندوں کوجس کا مکلف بنایاہے، وہ ابدی حقائق پر مشتمل ہے۔ اس کے عقائدومسلمات کو خلودعطاکیاگیاہے، مگرساتھ ہی وہ بھی زندگی سے بھرااورحرکت ونشاط سے معمورہے۔’’یہ دین چونکہ آخری اورعالمگیردین ہے اوریہ امت آخری اورعالمگیرامت ہے، اس لیے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیاکے مختلف انسانوں اورمختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا ۔۔۔اس امت کوجوزمانہ دیاگیاہے وہ سب سے زیادہ پرا زتغیرات اورپراز انقلابات ہے ‘‘۔(۱ ) مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی کے بقول زمان ومکان کی تبدیلیوں سے عہدۂ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دوانتظامات فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی تعلیم جامع وکامل اورزندہ ہے اوردوسرے اس دین کو ہر دور میں ایسے زندہ رجالِ کارعطاہوتے رہے ہیں جواس کی تجدیدکرتے ہیں۔ امام شافعی بھی ایسے ہی رجال اللہ اورمجددین اسلام میں سے ہیں جو اپنے تعلق باللہ ،زبان دانی ،اخلاص وللہیت،قانونی فہم، علمی انہماک اورخدمت دین میں ممتازہیں۔
اسلام کی تاریخ میں ائمہ اربعہ کا ظہورایک معجزہ تھا۔ ان میں امام ثالث حضرت امام شافعی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ افقہ الامۃ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اورامام دارا لہجرت امام مالک ؒ کے بعدآئے اوردونوں کے مدرسہائے فکراورمناہج فقہ کی خوبیوں کے جامع ہوئے ۔انہوں نے دونوں ہی مکاتب فکرسے خوشہ چینی کی ۔ ان کے علاوہ انہوں نے تقریباً انیس شیوخ سے علم اخذکیاجن میں فقیہ الشام امام اوزاعی کے شاگرد عمر بن ابی سلمہ اورفقیہ مصرلیث بن سعدکے شاگردیحییٰ بن حسان شامل ہیں۔ وہ امام لیث کی فقاہت سے بہت متاثرہوئے یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ: اللیث افقہ من مالک الاان اصحابہ لم یقوموا بہ: لیث مالک سے بڑے فقیہ ہیں مگران کے شاگردوں نے ان کواٹھایانہیں۔ (۲) شافعی کے شیوخ میں یمنی ،کوفی ،بصری اورمکی ،بغدادی استادوں کے نام بھی آتے ہیں۔امام مالک کے سامنے توان کوبنفس نفیس زانوئے تلمذطے کرنے کا شرف ملا۔فقہ حجاز یامدرسۃ الحدیث سے استفادہ کے بعدوہ عراق گئے جہاں مدرسۂ کوفہ یامدرسۃ اہل الرائے (۳) کے قریب آئے اورانہوں نے فقہ حنفی کے محررامام محمدؒ بن الحسن سے کسب فیض کیا۔ یوں وہ حدیث وفقہ دونوں کے جامع بنے اوراپنی شاداب عقل ،زرخیز دماغ ،بحث واستدلال اورکلام ومنطق کی زبر دست اورخداداد صلاحیتوں کے باعث دونوں ہی سابق فقہوں سے اپنی الگ راہ نکالی اورتیسرے مذہب فقہ کے بانی ومؤسس ہوئے۔
سوانح زندگی
نام محمد، والدکا نام ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع تھا۔ نسبی تعلق قریش کے بنو عبد المطلب سے تھا۔ عبدمناف میں آکر حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نسب مل جاتاہے۔فلسطین کے شہرغزہ میں سنہ ۱۵۰ ھ میں پیداہوئے۔ خداکی شان ہے کہ اسی دن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی وفات ہوئی تھی۔ شافعی کے والدکا سایہ بچپن میں ہی سرسے اٹھ گیا، ان کی پرورش تمام تروالدہ نے کی ۔جب دوسال کے ہوئے تووالدہ محترمہ ان کولے کران کے گھروالوں کے پاس مکہ آگئیں۔ عسرت ،یتیمی وتنگ دستی کے باوجودخاندانی وقارکی حفاظت اوراعلیٰ اخلاق پر تعلیم وتربیت ہوئی ۔امام شافعی کو غیر معمولی ذہانت، جفاکشی، دور اندیشی کے ساتھ ہی غضب کا حافظہ عطاہواتھا۔شعروادب میں بھی طاق ہوگئے کہ مدتوں تک مکہ سے دورصحرا میں بنوہذیل کے درمیان رہ کرعربی لغت، محاورے اورفصاحت وبلاغت سیکھی تھی۔ ساتھ ہی تیر اندازی میں بھی حذاقت تامہ حاصل کرلی۔بنوہذیل کے ہاں سے واپس آکرمکہ کے علماء کے پاس قرآن حفظ کیااورحدیث وفتویٰ کی تعلیم حاصل کی ۔ ان کے استادمسلم بن خالدزنجی نے ان کی قابلیت کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا: اے ابوعبداللہ، اب تم فتوی دو، کیونکہ فتوی دینے کے اہل ہوچکے ہو ‘‘ ۔ (۴) مگرشافعی کومزیدعلم کا شوق تھاچنانچہ انہوں نے اما م مالک ؒ کے درس حدیث اوران کی کتاب مؤطاکا شہرہ سنا تو مدینہ کی راہ لی۔ والئ مکہ نے ان کے لیے ایک سفارشی خط امام مالکؒ کی خدمت میں لکھ دیا۔ مگرمالک کی خدمت میں حاضری دینے سے پہلے ہی مکہ کے کسی عالم سے مؤطا لے کرپوری پڑھ لی بلکہ حفظ کرلی۔ اس کے بعدمدینہ حضرت امام مالک کی خدمت میں حاضرہوئے جس کا حال یوں لکھاہے : ’’میں صبح سویرے امام مالک کی خدمت میں پہنچ گیااورمؤطازبانی پڑھنی شروع کردی حالانکہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ امام صاحب سننے لگے۔ جب مجھے خیال آیاکہ امام مالک تھک گئے ہوں گے تومیں نے قرأت روکنی چاہی، مگرحضرت امام کومیری قرأتِ مؤطااتنی پسندآئی تھی کہ انہوں نے فرمایا: اے نوجوان اورپڑھ،چنانچہ یوں میں نے چنددنوں میں پوری مؤطاان کوسنائی اورختم کرلی۔‘‘ (۵) اس کے بعدشافعی فقہ وحدیث میں امام مالک سے مستفیدہونے لگے یہاں تک کہ اصحابِ مالک میں شمارہونے لگے اوران کی وفات(۱۷۹ھ)تک ان کے سرچشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہے ۔
پھریمن کے گورنرشافعی کواپنے ساتھ لے گئے اور علاقۂ نجران کا قاضی مقررکردیا جہاں آپ پوری جرأت ،عدل وانصاف اورخوفِ خداکے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے ،تاہم اس گورنرکے بعض عمال ومقربین کی زیادتیوں پر کھلی اورشدیدتنقیدنے اس کوآپ سے ناراض کردیا۔اس نے آپ سے یوں انتقام لیاکہ خلیفہ کی خدمت میں آپ کی شکایت لکھ بھیجی کہ یہاں کئی علوی لوگ ہیں اورایک قریشی نوجوان ان کا حمایتی ہے۔یہ لوگ خلافت پرخروج کا ارادہ رکھتے ہیں اورمیرے قابومیں نہیں آ رہے ۔خلیفہ عباسی ہارون الرشیدنے ان سب لوگوں کواپنے دربار بغداد بلا بھیجا۔ امام شافعی علویوں سے محبت رکھتے تھے، مگران پربغاوت کا الزام بالکل غلط تھا۔بہرحال اپنی باری آنے پرانہوں نے اپنی طلاقت لسانی اورزوربیان کے بل پر اپنے کیس کی وکالت کی اورخلیفہ کے قاضی امام محمدؒ بن الحسن تلمیذرشیدابوحنیفہ ؒ کی سفارش پر چھوڑدیے گئے۔یہیں سے وہ امام محمدؒ کے رابطہ میں آئے اور انہوں نے امام محمدکے علم وتفقہ سے فیض اٹھایا،ان سے مذاکرے کیے اورعراقی مکتب فکراوراس کے منہج سے براہ راست واقفیت حاصل کی۔
یہاں سے فارغ ہوکرشافعی مکہ گئے جہاں انہوں نے حرم مکی میں نوسال تک درس دیا۔امام احمدبن حنبل ؒ نے مکہ ہی میں ان کے آگے زانوے تلمذ تہہ کیاہے اور جب ۱۹۵ھ میں شافعی دوبارہ بغدادآئے تو امام احمدنے ان کا بڑا اکرام کیا۔ بغداد کے اس سفرمیں انہوں نے فقہ مالک اورفقہ حنفی سے الگ اپنی فقہی رایوں کااظہارشروع کیااوربغدادکے علماء وفقہاء سے ان کے مذاکرے ہوئے ۔ بغدادمیں انہوں نے جوفتوے دیے، انہی کوفقہ شافعی میں قول قدیم کہاجاتاہے۔
مصربھی اس وقت اہل علم کا مرکزتھاجہاں امام مالک کے بہت سے تلامذہ استادکی فقہ کوعام کررہے تھے۔ مصرہی میں امام لیث بن سعدتھے جن سے شافعی کی مراسلت ہوئی تھی۔۱۹۹ھ میں شافعی مصرگئے جہاں انہوں نے اپنامذہب فقہی باقاعدہ قائم کیا۔ وہاں ان کوبہت سے تلامذہ میسرآئے ۔مصرمیں انہوں نے اپنے بہت سے خیالات کی تنقیح کی اور بہت سی سابق رایوں سے رجوع کیااورنئی رائے پر فتوے دیے جن کوقول جدید کہا جاتاہے۔ ۲۰۴ھ میں مصر میں ہی شافعی کی وفات بھی ہوئی جس کے مختلف اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ ( ۶ ) ان کے تلامذہ بویطی ،سلیمان بن الربیع وغیرہ نے مصرمیں ان کے مسائل وفتاوی کومدون کیااوریہیں سے شافعی مسلک کی عالم اسلام کے مختلف خطوں میں اشاعت ہوئی ۔
امام شافعیؒ اوران کی فقہ کا بڑاکمال یہ ہے کہ انہوں نے حدیث وفقہ کوجمع کیاہے اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ فقہ شافعی میں اصح ما فی الباب (یعنی کسی مسئلہ کے سلسلے میں سب سے صحیح حدیث) سے اخذواستفادہ کا رجحان ہے۔ شافعی کا بہت بڑااورتجدیدی کارنامہ اورمجموعی طورپر اسلامی فقہ پر ان کا زبردست احسان ہے کہ انہوں نے فقہ اسلامی کے اصول مدون کیے،فروعی مسائل اورجزئیات کومنضبط کرنے والے جامع قواعدوکلیات کا استنباط کیااوراپنی ’الرسالہ‘ اور’الام‘ کے ذریعہ علم وفکرکی ایک نئی دنیا آبادکردی۔کتاب وسنت کے نصوص سے شرعی مسائل کا استنباط اپنی جگہ ایک عظیم الشان کام ہے۔تاہم اس مسائل کی اصول سازی اورنظریہ سازی اس سے بھی بڑاکام ہے اوریہ شافعی کی عبقریت ہے کہ انہوں نے دونوں کام کیے اوراس راہ میں طریق معتدل کی دریافت کی۔ مثال کے طورپر اپنے بہت سے معاصرین کی افراط وتفریط کے درمیان انہوں نے کہاکہ قرآن اصلِ شرع ہے (۷)شافعی کے لفظوں میں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جوکچھ بھی اپنی رحمت کے طورپر اوربندوں پرحجت کے لیے نازل فرمایا،اس کا عالم عالم ہے اورجواس کونہیں جانتاوہ جاہل ہے ۔اس کونہ جاننے والے کوعالم نہیں کہ سکتے اوراس کے جاننے والے کوجاہل نہیں کہ سکتے ۔اورعلم کے اندر لوگوں کے درحات مختلف ہیں۔اورجتناکوئی قرآن کا علم رکھتاہے اتناہی اس کا رتبہ سِواہے اس لیے طالبانِ علم پر لازم ہے کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی بھرپورجدوجہدکریں اوراس راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے اس کو برداشت کریں اورنص یااستنباط سے قرآن کے علم کے حصول میں نیت خالص اللہ کے لیے رکھیں۔‘‘
یعنی قرآن شافعی کے نزدیک بیانِ کلی ہے اور سنت اس کی تبیین۔ (۸ ) صحابہ بھی اسی کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: من جمع القرآن فقد حمل امراعظیما و لقد ادرجت النبوۃ بین جنبیہ ال اانہ لایوحی الیہ: جس کے پاس قرآن کا علم ہے تووہ ایک امرعظیم کا حامل ہے ،گویاکہ اس کے سینہ میں نبوت دے دی گئی ہے، اگرچہ اس کے پاس وحی نہیں آتی۔ (۹) ابن حزمؒ اس بنیادپر کہتے ہیں کہ: کل ابواب الفقہ لیس منہا باب الا ولہ اصل فی الکتاب، والسنۃ تعلنہ۔ فقہ کا کوئی باب ایسانہیں جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو، سنت اس کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے ۔اس کے بعدشافعیؒ نے بیانِ قرآن کی دوقسمیں کی ہیں:
۱۔وہ آیات جوخوداپنی شرح ہیں اورجن کو مزید تفسیر کی ضرورت نہیں، مثلاًصوم اورلعان کا بیان۔
۲۔ قرآن کی دوسری قسم وہ ہے جس کوانہوں نے القسم الذی من القرآن لایکون نص فی الموضوع بل البیان فیہ یحتاج الی السنۃ کہاہے یعنی وہ قسم جو موضوع پر خوددلالت نہ کرے بلکہ اس کے بیان کے لیے سنت کی ضرورت پڑے۔ (۱۰)
اسی طرح یہ مسئلہ ہے کہ قرآن کے فرائض وواجبات کے بارے میں صحیح نقطۂ اعتدال کیاہے؟شافعی نے قرآن کے متعددنصوص میں غورو فکر کرکے فرض کو دو وجہوں پر تقسیم کیاہے: فرض عین اورفرض کفایہ۔ وہ فرض کفایہ کو المطلوب علیٰ وجہ الکفایۃ یراد بہ العام ویدخلہ الخصوص ( ایساعام فرض جوکچھ لوگوں سے مطلوب ہو) سے تعبیرکرتے ہیں۔ (۱۱)امام شاطبی نے اس کی بے حدمعنی خیز تفصیل کی ہے اوراس کوفرض عین پر ایک گونہ فوقیت دی ہے۔ ابوزہرہ کی کتا ب میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔چونکہ امام شافعی نے خوداصول و قواعدکا استخراج کیااوران کی تدوین کی، اس لیے بقول ابوزہرہؒ ان کے تلامذہ اور بعد کے لوگوں کو مذہب شافعی پر تخریج (کسی اصل سے مزیدمسئلہ نکالنا)کے لیے اصول ثابتہ مقررہ میسرآگئے، جبکہ یہ چیز دوسرے مذاہبِ فقہ میں نہیں پائی جاتی کیونکہ شافعی کے علاوہ کسی اورامام سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے شافعی کی طرح قواعدبیان فرمائے ہوں۔ (۱۲)
امام شافعی کا دوسراکارنامہ حجیت حدیث کا اثبات ہے ۔موجودہ زمانہ میں انکارحدیث کا جوفتنہ پیداہواہے ،عموماً اس کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ یہ ایک نیا ظاہرہ Phenomenon ہے، مگرامام صاحب کی دونوں کتابوں الرسالہ اور الام کے ایک سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ایسانہیں ہے بلکہ یہ فتنہ نہایت قدیم ہے ۔شافعی کے زمانہ میں تین طرح کے منکرین حدیث موجودتھے جن سے ان کی گفتگوئیں بھی ہوئیں اورجن کی آرا کواپنی تحریروں میں نقل کرکے انہوں نے ان پرتفصیل سے محاکمہ بھی فرمایاہے۔ الام کی کتاب جماع العلم میں شافعی نے تفصیل سے منکرین سنت کے بارے میں بیان کیاہے ۔ (الرسالہ میں حجیت حدیث کا اثبات ہے اورالام میں منکرین سے مناظرہ اوران کے استدلال کا تفصیلی ردہے ۔) شافعی ؒ کے مطابق حدیث کا انکارکرنے والے فی الجملہ تین طرح کے لوگ ہیں :
پہلے تووہ لوگ ہیں جوبالکل ہی سنت کا انکارکرتے ہیں ۔الرسالہ میں امام صاحب نے ان لوگوں کا پورااستدلال نقل کرکے ان کو جواب دیاہے۔ان کے الفاظ میں ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : وجملۃ قبولہم واحتجاجہم لہ ان الکتاب فیہ تبیان لکل شیئی، وان الکتاب عربی، لایحتاج الی بیان غیر معرفۃ اللسان العربی والاسلوب العربی الذی جاء القرآن بہ، ولیس وراء بیانہ بیان (۱۳) ای السنۃ لایمکن ان تاتی بشرع زائدعلی مافی الکتاب اللہ (ابوزہرۃ )مطلب یہ ہے کہ قرآن عربی میں نازل ہواہے اورعربی کلام کوسمجھنے کے لیے عربی اورزبان اورعربی اسلوب کے علاوہ کسی اورچیز کی ضرورت کیوں پڑنے لگی ۔اسی سنت قرآن کے کسی حکم پر اضافہ بھی نہیں کرسکتی۔ان کے استدلال کا جواب امام شافعی نے بہت تفصیل سے دیاہے جس کی تلخیص ابو زہرہ نے کردی ہے۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف انہیں حدیثوں کولیتے ہیں جن کے مطابق قرآن میں کوئی حکم پایاجاتاہے۔ یہ خبر واحد کوقبول نہیں کرتے۔(ما کان فیہ قرآن یقبل فیہ الخبر) اورتیسرے نمبرپر وہ لوگ ہیں جوبس انہی احادیث کومانتے ہیں جومتواترومستفیض ہیں اور خبر واحد کی حجیت کے قائل نہیں ہے۔ (وثالث المذاہب المخالفۃ للجماعۃ مذھب الذین ینکرون حجیۃ خبرالآحاد جملۃ ولایعتبرون الا الاخبار المتواترۃ المستفیضہ (۱۴) پہلاگروہ توامت سے بالکل ہی خارج ہے (وقائل ذلک لیس من الاسلام فی شیء) (۱۵) اوردوسرے گروپ کے بارے میں تفصیل ہے کہ ان کے قول کے دومطلب نکلتے ہیں:ایک لحاظ سے یہ بھی پہلے ہی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذاانہیں میں سے شمارہوں گے اوراگران کے قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تعارض نہیں ہوسکتاتویہ بات درست ہے اوراس لحاظ سے اگریہ خبرواحدمیں شک کرتے ہیں توان کو خارج عن الامۃ (امت سے باہر) نہیں سمجھاجائے گا۔
پہلے گروپ کوامام صاحب زنادقہ ،خوارج اوربعض معتزلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جنہوں نے اپنی تائیدمیں ایک حدیث بھی گڑھ لی تھی کہ: جب تمہارے پاس کوئی حدیث آئے تواس کوکتاب اللہ پرپیش کرو۔ اس کے موافق ہوتوسمجھوکہ وہ میراہی قول ہے اوراس کے خلاف ہوتوسمجھوکہ وہ میراقول نہیں ہے کہ قرآن مجھ ہی پراتراہے، اسی سے اللہ نے مجھے ہدایت دی تومیراقول اس کے خلاف کیسے ہوگا۔ (ما اتاکم منی فاعرضوہ علی کتاب اللہ، فان وافق کتاب اللہ فانا قلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ، وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ہدانی اللہ)۔ اس حدیث کے سلسلہ میں عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایاکہ اس کوزنادقہ اور خوارج نے گھڑا ہے۔ (۱۶)
آج کے منکرین حدیث بھی کم وبیش انہی خیالا ت کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے استدلال بھی تقریباً یہی رنگ لیے ہوتے ہیں۔ امام شافعی ایک ایسے عہدمیں پیداہوئے تھے جب روایات کی کثرت تھی ،واضعین حدیث اورمنکرین سنت کی مذموم کوششوں سے اہل علم کے لیے سنت کے حوالہ سے ایک بڑاعلمی چیلنج پیداکردیاتھا۔وضعی حدیثوں کا ایک سیلاب تھا،ایسے میں شافعی جیسے عبقری نے وقت کے ا س چیلنج کا جواب دیا ۔ آپؒ نے واضح کیاکہ سنت صحیحہ ثابتہ قرآن سے باہرنہیں ہے، وہ قرآن ہی مستنبط ہے۔ اس کی اصل قرآن میں موجودہے اورسنت اس کی مستند ترین شرح وتفسیرہے۔ اسی کتاب میں آپ نے ثابت کیاکہ قرآن میں کئی جگہ الکتاب والحکمۃ ساتھ ساتھ آیاہے۔ (مثلاً البقرہ :۱۲۹ ) جس میں کتاب سے مرادقرآن اورحکمت سے مراداس کی نبوی تفسیر(حدیث ) ہے (الکتاب ہو القرآن والحکمۃ ھی السنۃ النبویۃ (۱۷) ظاہرہے کہ حکمت منزل من اللہ وحی اوراسوۂ نبوی کا عمل کی دنیامیں کامل ترین اظہارہے ،یہ وہ دانش نورانی ہے جس کو و ما ینطق عن الہوی ان ہو الاوحی یوحی (النجم:۳، ۴) کی تائیدربانی حاصل ہے ۔الرسالہ میں انہوں نے تینوں فریقوں کے جواب دیے ہیں اوراسی وجہ سے مکہ ،بغداد اور مصروغیرہ میں شافعی کوناصرالسنۃ اورحافظ حدیث کہاجاتاتھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ شافعی بغیرکسی تعصب کے حق کی حمایت کرتے تھے۔
امام شافعی سے پہلے اہل الرائے، اصحاب الحدیث پر اپنے منطقی طرز استدلال کے ذریعہ غالب آجایاکرتے جبکہ اصحاب الحدیث ذخیرۂ آثاروروایات میں ان کودبالیتے تھے۔ جب شافعی آئے تووہ ان دونوں ہی ہتھیاروں سے لیس تھے۔ چنانچہ ان سے دونوں مدرسہاءأفکر کے جس آدمی نے بھی بحث مباحثہ کیا، کوئی بھی شافعی کے سامنے نہ ٹک سکا۔ حق کے سلسلے میں بلاخوف لومۃ لائم امام شافعی نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ چنانچہ امام مالک سے محبت کے باوجود انہوں نے ’’خلاف مالک‘‘ لکھی جس میں اپنے استاذکی بہت سی رایوں پر تنقیدتھی۔اسی طرح اپنے دوسرے استادامام محمدسے بھی مناقشہ کیااوربصرہ کے علماء سے مناظرہ کیااورسب میں غالب رہے۔ مگربراہومسلکی تعصب کا کہ جب امام صاحب مصر گئے تووہاں کے مالکیوں نے ’’خلاف مالک‘‘ لکھنے کی وجہ سے والئ مصرسے ان کی شکایت کی اوران کو مصر سے نکلوادینے کی کوشش کی!! حالانکہ ان کا اختلاف صرف مالک سے ہی نہ تھا بلکہ حنفیہ اوردوسرے ائمہ فقہ سے بھی تھا۔ مثال کے طورپرامام شافعی خبر واحد کو اہمیت دیتے ہیں اورقرآن کے عام کی تخصیص خبر واحدسے جائزقراردیتے ہیں۔ اس بارے میں حنفیہ کا ان سے اختلاف ہے کیونکہ حنفیہ کہتے ہیں کہ قرآن قطعی الثبوت ہے اورخبرواحدظنی الثبوت،اس لیے ظنی سے قطعی کی تخصیص نہیں ہوسکتی (۱۸) سوائے اس صورت کے کہ اس عام کی پہلے ہی کسی اورسے تخصیص ہوچکی ہو۔
واضح رہے کہ ابوزہرہ کی تحقیق میں شافعی خودعقیدہ کے اثبات میں خبرواحدکوکافی نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے خبرواحدکی حجیت تو ثابت کی ہے تاہم وہ خبر واحد کو، جیساکہ ابوزہرہ لکھتے ہیں، قرآن کے یاخبر متواترومستفیض کے درجہ میں نہیں رکھتے اور ابوزہرہ کے لفظوں میں: بہذا تراہ یضع الامور فی مواضعہا فھو یجعل الآحادحجۃ فی العمل دون الاعتقاد، فیقرر ان الشک فیہ لاعقاب علیہ (۱۹) اس کے بعدامام صاحب نے خبرالواحد (روایات الخاصۃ ) کے قبول کے دقیق شرائط بیان کیے ہیں اوریہ سب شرطیں وہی ہیں جن کوماہرین مصطلح الحدیث نے قبول کیاا ور ان سے اتفاق کیاہے ۔خبرواحدکے علاوہ امام شافعی نے مرسل کوبھی بعض کڑی شرائط کے ساتھ قبول کیاہے، مثلاً یہ کہ مرسل کبارتابعین کی ہو، اس مرسل کی کسی اورمتصل روایت سے تائیدہوتی ہویاقول صحابی اس کے مطابق ہووغیرہ ۔
اسوۂ متواترہ مکشوفہ و مروجہ کا سب سے بڑااظہارامام مالک کے نزدیک عمل اہل مدینہ ہے، لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ خلافت راشدہ اور خصوصا حضرت عمربن الخطابؓ کے بعداجلۂ صحابہ کی بڑی تعدادجہاد،نشرعلم اوردعوتی مقاصدکے تحت مختلف بلادوامصادمیں پھیل گئی تھی اورمدینہ کاعلمی اختصاص بڑی حدتک ختم ہوگیاتھااوراس حقیقت کوخودامام مالک بھی تسلیم کرتے تھے۔ جبھی توانہوں نے خلیفہ منصورکواس بات سے روک دیاتھاکہ مؤطاکوپورے عالم اسلام کا دستورالعمل بنادیاجائے ۔انہوں نے خلیفہ کوخودیہی دلیل دی تھی کہ صحابہؓ کے علم کے حامل مختلف بلادمیں پھیل گئے ہیں اور وہاں لوگ ان کے فتووں پر عمل کر رہے ہیں، اگر ان کوایک ہی مدرسۂ فکرکا تابع بنادیاجائے گاتوبڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔اسی دلیل کوآگے بڑھاتے ہوئے امام شافعی نے جواستدلال کیا اس کا مفادیہ ہے کہ سنت قولی جومتعدداہل علم صحابہ جیسے ابوہریرہؓ، عائشہؓ اور ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے، اس کوعمل اہل مدینہ پرترجیج ہوگی ۔الرسالہ میں شافعی نے اصولی طورپر یہ ثابت کردیاکہ قولی حدیثوں سے مروجہ سنت (مدینہ میں)کی تصحیح وتنقیدکاکام لیاجائے گا۔ الرسالہ جو اصول حدیث، فقہ اوراسلام کی مذہبی تاریخ پر اولین تصنیف ہے، اس نے آنے والے دنوں میں فکراسلامی پرگہرے اثرات مرتب کیے۔
ہمارے زمانہ میں کچھ لوگ بڑی شدت سے تقلیدکے خلاف آواز بلندکررہے ہیں حالانکہ جس تقلیدجامدکی مخالفت کا ان کودعویٰ ہے، اس کا رستہ توخودائمہ متبوعین نے خودہی بندکردیاہے۔ چنانچہ ہرامام تقلیدجامدکے بالکل خلاف تھا اورسبھی حریت فکر کے قائل تھے۔ امام شافعی کا بھی اس کلیہ سے کوئی استثنا نہیں۔ جس طرح انہوں نے دلائل کے ساتھ اپنے اساتذہ اورمعاصرین سے اختلاف فرمایا، اپنے شاگردوں کوبھی اسی کی تربیت دی کہ وہ ان کی جامدتقلیدنہ کریں، چنانچہ شافعی نے فرمایا: اذا صح الحدیث فہو مذھبی واضربوا بقولی عرض الحائط ( جب صحیح حدیث مل جائے تووہی میرا مذہب ہے اوراس کے ہوتے ہوئے میرے قول کودیوارپر ماردینا)۔ تمام ائمہ سے اسی طرح کے اقوال منقول ہیں اورامام ابوحنیفہ کے اسکول کا تویہ امتیاز ہے کہ انہوں نے اپنے تلامذہ کو زبردست حریت فکری عطاکی تھی۔ اسی وجہ سے کہاگہاہے کہ ان کے ارشدتلامذہ نے امام ابوحنیفہ کی دو تہائی آرا سے اختلاف کیاہے۔ (۲۰) یہی آزادئ رائے امام شافعی کے ہاں بھی بدرجۂ اتم موجودہے۔چنانچہ ان کے ہاں یہ ہے کہ اگرشافعی کے قول کے خلاف کوئی حدیث مل جاتی ہے اوران کے قول کوچھوڑکرحدیث کو اختیارکرلیاجاتاہے تویہ مذہب سے خروج شمارنہیں ہوتا۔ بس شرط یہ ہے کہ جولوگ مذہبِ امام سے باہرجائیں، وہ رتبۂ اجتہادکوپہنچ گئے ہوں ۔ (۲۱)چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب شافعی میں تخریجات کرنے والے علما ء دوطرح کے تھے ۔وہ مخرّج جواصول شافعی سے باہرنہیں نکلتے جیسے شیخ ابو حامداورقفال۔ دوسرے وہ مخرّج جومذہب شافعی سے اصول وفروع دونوں میں باہرچلے جاتے ہیں، اس لیے کہ وہ خود اجتہاد مطلق کے درجہ پر فائز ہیں۔ مثال کے طورمحمدّون (محمدنام کے علماء )جن سے مرادہیں: محمدبن نصر،محمدبن جریرطبری، محمدبن خزیمہ اورمحمدبن المنذر، لیکن چونکہ انہوں نے کسی الگ فقہی مکتب فکرکی بنیادنہیں ڈالی اورشافعی ہی رہے، اس لیے ان کوبھی شافعی مذہب کے اندرہی شمار کیا جاتا ہے۔البتہ بعض کی رائے میں ان کے تفردات کوشافعی مسلک سے باہرسمجھاجائے گا۔(۲۲)
اسی طرح اسلامی فکرمیں قرآن ،سنت ،اجماع اورقیاس کے اصول اربعہ کوبھی امام شافعی نے الرسالہ میں مضبوط استدلالی بنیادوں پر قائم کردیاہے ۔تاہم ان کی تحریروں سے یہ مترشح ہوتاہے کہ اجماع سے مرادان کی صحابہ کااجماع ہے اوراس کے بعدکااجماع ان کے نزدیک ثابت نہیں۔اس کی توضیح یہ ہے کہ اگر صحابہ کسی امرپر متفق ہوں تووہ تمام فقہاء کے نزدیک اجماع ہے اوراس پر عمل واجب۔ اس میں فقہاء اوراہل الحدیث کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔اس کے بعد اگراہل مدینہ کا کسی امرپر اجماع ہے تواس کوامام مالک ایک دلیل شرعی مانتے ہیں اوراس کی مخالف صحیح حدیث کوردکردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک عمل اہل مدینہ کے خلاف ہوناحدیث میں قادح ہے۔امام شافعی کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ہرفریق اپنی رائے پر اجماع کا دعویٰ کررہاتھا۔ایسے میں شافعی نے اصولی طورپر اجماع کوشرعی حجت تسلیم کیا۔کتاب وسنت میں اس کی بنیاددریافت کی ،اس کے مبادی منضبط کیے ۔تاہم عملی سطح پر انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہرمسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کرناغلط ہے، کیونکہ ہمارے پاس اجماع کے عملاً وقوع کی کوئی دلیل نہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اجماع کامرتبہ کتاب وسنت کے بعد ہوگا اور وہ ان کے تابع ہوگا۔ اس معاملہ میں فریق مخالف کی انہوں نے شدت سے مخالفت کرتے ہوئے یہاں تک کہ دیاکہ: دعوی الاجماع خلاف الاجماع (اجماع کا دعوی کرنا خود اجماع کے خلاف ہے )اورآگے اس کوجواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اجماع کے عیب کے لیے تویہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدلوگوں کی زبانوں پر تمہارے اس زمانہ کے علاوہ کبھی اس کا نام نہیں آیا۔(۲۳) یوں شافعی بعض اجماع کے قائل ہیں، من کل الوجوہ اس کا انکارنہیں کرتے۔
اجماع کے علاوہ رائے ،قیاس (یااجتہاد) کوانہوں نے منضبط کیاہے مگراستحسان پر تنقیدکی ہے جس کا اعتبارمالکیہ وحنفیہ دونوں کے ہاں ہوتاہے۔کتاب الام میں اس کے ردمیں انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کاخلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ قیاس یارائے (اجتہاد)ایک اصولی فریم ورک کے اندر operate کرتاہے، اس لیے وہ درست ہے، جبکہ استحسان کوکسی کلیہ کے تحت لانا دشوار ہوتا ہے، اس لیے استحسان کودلیل شرعی نہیں سمجھا جائے گا ۔ چنانچہ اس بارے میں انہوں نے اپنے استادامام محمدسے اختلاف کیاہے جس طرح عمل اہل مدینہ کے سلسلہ میں انہوں نے اپنے دوسرے استادو شیخ مالک سے بھی اختلاف کیاتھا۔تاہم قیاس کوشافعی اجماع کی نگرانی میں دینے کے حامی ہیں۔ظاہرہے کہ اس کا مطلب ہے کہ نئی تعبیری اورفکری کوششوں کوفکراسلامی کے محورکے گردرکھاجائے ۔
واضح رہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اس خیال کا اظہارکیاہے کہ مذاہب اربعہ بنیادی طوردومذاہب یعنی فقہ شافعی اورحنفی کے اندرضم ہو جاتے ہیں اورانہوں نے التفہیمات الالٰہیہ میں کہاہے کہ میراطریقہ جہاں تک ممکن ہے ان دونوں مذاہب کے درمیان جمع وتطبیق کرناہے ۔فرماتے ہیں:
ونحن ناخذ من الفروع مااتفق علیہ العلماء ولاسیما ھاتان الفرقتان العظیمتان الحنفیۃ والشافعیۃ وخصوصاً في الطہارۃ والصلاۃ فأن لم یتیسر الاتفاق واختلفوا فنا خذ بمایشہد لہ ظاہرالحدیث ومعروفہ ونحن لانزدری احداً من العلماء فالکل طالب الحق ولا نعقدالعصمۃ في احدغیر النبیی صلی اللہ علیہ وسلم(۲۴)
’’ فروع میں ہم علما کے متفق علیہ مسئلہ کو لیتے ہیں خاص کر حنفی و شافعی مسلک کے اتفاق کو کہ یہ عظیم فرقے ہیں اور وہ بھی طہارت و نماز کے سلسلہ میں خصوصاً۔اگر اتفاق نہ حاصل ہو اور علما مختلف ہوں تو پھر جس مسئلہ کی تائید ظاہر حدیث سے ہوتی ہے، ہم اسے اختیار کرتے ہیں ۔ ہم علما میں سے کسی کی بھی اہانت نہیں کرتے کہ سبھی حق کے طالب ہیں، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کے لیے عصمت کا اعتقاد نہیں رکھتے۔‘‘
امام شافعی پر نئے نئے مطالعات جاری ہیں۔ مثال کے طورپرڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی نے اس کا اظہارکیاہے کہ امام شافعی کے نزدیک ’’نص شرعی ‘‘صرف اورصرف قرآن کوکہاجاسکتاہے ۔اس میں کوئی اورچیز اس کی شریک نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے الام کے بہت سے اقتباسات اورفقرے نقل کرکے اس تحقیق کوپیش کیاہے ۔البتہ یہ وضاحت کردی ہے کہ صحیح اورثابت سنت بہرحال اس کی شرح وتفسیرہے۔(۲۵)
امام شافعی کا ظہورعصرعباسی کے دوسرے مرحلہ میں ہوا جب مختلف اسلامی علوم وفنون کی تدوین زوروشورسے ہورہی تھی۔ علم کلام اورمتکلمین میدان میں تھے۔ یونانی، سنسکرت ،فارسی اوردوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ کی تحریک برگ وبارلارہی تھی۔ مسلمانوں میں بھی طرح طرح کے فقہی ،کلامی اورشیعہ فرقے وجودپذیرتھے۔فقہ حنفی ومالکی کی نشوونماہورہی تھی ۔اس عہدمیں انہوں نے آنکھ کھولی اوراپنے عہدکے ان سبھی حالات ،وقائع اورچیلنجوں سے واقفیت حاصل کی۔ امام صاحب قوی الحجت، زبان آور، فصیح وبلیغ ، اور استدلالی اندازومنطقی اسلوب تکلم کے مالک تھے۔چنانچہ اپنی کتابوں الرسالہ اورالام وغیرہ میں انہوں نے جومقدمات قائم کیے ،اورجس انداز میں فقہ ،فقہ حدیث اوراصول فقہ کے سلسلہ میں اپنے استدلالات کی بنیادرکھی اورجونتائج نکالے، ان سے ایک زمانے نے اتفاق کیا۔امام مالک نے مؤطاکے ذریعہ حدیث ،اقوالِ صحابہؓ اورعلماء مدینہ کی رایوں (عمل اہل مدینہ )اوراپنے فتاویٰ کوجمع کر دیا تھا۔ شافعی مؤطا سے بہت متاثرتھے اورسب سے پہلے اس کوانہوں نے ہی اصح کتاب بعدکتاب اللہ کا معزز نام دیاتھا۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نئے نئے مسائل کے حل کے سلسلہ میں اجتماعی اجتہاد، بحث ومناقشہ کے بعد مسائل کے استنباط واستخراج کی عظیم نظیرقائم کرچکے تھے ۔ان دونوں اماموں کے بعدان دونوں کے علمی فکری اورفقہی سرمایہ سے کام لے کرامام شافعی نے اصول فقہ کی تدوین کی اورادلۂ شرعیہ سے اخذ واستنباط کا ایک واضح منہاج قائم کردیاجس کے لیے قیامت تک امت ان کے زیر بار احسان رہے گی ۔
مراجع وحواشی
(۱) مولاناسیدابوالحسن علی ندوی تاریخ دعوت وعزیمت ،حصہ اول ،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ 1992، صفحہ 18
(۲) الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی حیاتہ وعصرہ فقہہ وآراۂ طبع ثانی دارالفکرالعربی 1978، ص 47)
(۳) اہل الرائے اوراہل الحدیث محض تغلیباہے۔رائے سے مرادہے کہ قرآن وحدیث میں اگرکسی مسئلہ میں صریح حکم نہیں مل رہاہے تو اجتہادکیاجائے ،جیساکہ فقہاء عراق کرتے تھے ،مگرایسی صورت حال میں فقہاء حجاز اجتہادکارحجان کم رکھتے تھے ۔تاہم ایسانہیں ہے کہ مدرسۃ اہل الرائے یعنی مدرسۂ کوفہ حدیث کوچھوڑکررائے پرعمل کرتاتھا اورنہ ہی یہ مطلب ہے کہ مدرسۃ اہل الحدیث (مدینۃ ) میں رائے اورتفقہ سے کام ہی نہیں لیا جا تا تھا۔فرق صرف کم وبیش کا ہے اوران دونوں ہی رجحانوں کی دلیل اسوۂ نبوی میں ملتی ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کا استعمال تغلیباہوتاہے اوردومختلف مناہج فکرکوبتانے کے لیے ہوتاہے ۔ اور یہاں اہل الحدیث سے مرادہمارے زمانہ کافرقہ اہل حدیث توہرگز مرادنہیں ہے ،جس پر ظاہریت کی چھاپ اورآج کل ائمہ فقہ اورخاص کرفقہ حنفی سے عداوت کا غلبہ ہے ۔
(۴) الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی حیاتہ وعصرہ فقہہ وآراۂ طبع ثانی دارالفکرالعربی 1978 اوراجتباء ندوی ،تاریخ فکر اسلامی، المرکزالعلمی نئی دہلی 1998)
(۵) حوالۂ سابق ،اور اجتباء ندوی ،تاریخ فکراسلامی ،المرکزالعلمی نئی دہلی 1998)
(۶) مشہور قول کے مطابق بواسیرکے مرض سے بعمر54سال امام شافعی کی وفات ہوئی اورمعجم یاقوت کی روایت کے مطابق کسی فتیان نامی متعصب مالکی سے ان کا مناظرہ ہوا جس میں شافعی نے اس کولاجواب کردیا۔اس نے امام صاحب سے بدسلوکی کی ،جس کی شکایت کسی نے والئ مصرسے کردی ،جس پراس نے فتیان کوسزادلوائی ۔ جذبۂ انتقام میں اس کے ساتھی امام صاحب کے حلقہ میں پہنچ گئے اورجب آپ کے سب تلامذہ اوراصحاب چلے گئے توآپ پرحملہ کردیا۔ان کے زدوکوب کرنے سے آپ زخمی ہوگئے جن کی تاب نہ لاکرچنددن بعدانتقال فرماگئے ۔ الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی (32)
(۷) ایضا (211)
(۸) ایضا (211)
(۹) ایضا (210)
(۱۰) ایضا (214)
(۱۱) (202)
۱۲۔ (379)
۱۳۔ (218)
۱۴۔ (220)
۱۵۔ (219)
۱۶۔ (دیکھیں ابوزہرہ : الامام الشافعی : صفحہ 219)
۱۷۔ (222)
۱۸۔ (208)
۱۹۔ (232)
۲۰۔ امام محمدؒ امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگردہیں اورفقہ حنفی کے اساطین میں سے ہیں مگراپنے استاذ سے نہ صرف فروع میں بلکہ اصول میں بھی سینکڑوں مسائل میں اختلاف کیا۔ سبکیؒ نے ان کے بارے میں لکھاہے : فانہمایخالفان اصول صاحبہما،طبقات الشافعیہ1/243امام الحرمین الجوینیؒ کہتے ہیں کہ ان دونوں نے مسلک حنفی کے 2/3حصہ میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا اور امام شافعی کا قول اختیارکیاہے۔ ملاحظہ ہو: صلاح الدین مقبول احمد، زوابع فی وجہ السنۃ قدیماوحدیثا،مجمع البحوث الاسلامیہ ،الطبعۃ الاولی 1411ھ1991جوگابائی 1/8نئی دہلی ۵۲۰۰۱۱صفحہ ۴۲۲
۲۱۔ (دیکھیں ابوزہرہ : الامام الشافعی،383)
۲۲۔ (صفحہ 382)
۲۳۔ (87)
۲۴۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، (تفہیمات ۲؍ ۲۴۲ اکادمیۃ الشاہ ولی اللہ دہلوی باکستان)۔
۲۵۔ ملاحظہ ہوکتاب :مفاہیم محوریہ فی المنہح والمنھجیہ دوسراباب مفہوم النص دارالسلام ،القاہرہ ،الطبعۃ الاولی، 2009)