(شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ۱۷۔۱۸ جون کو ’’معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں ائمہ و خطبا کا کردار‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار کی آخری نشست میں گفتگو۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! اگرچہ میری گفتگو کا عنوان ’’مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں‘‘ بتایا گیا ہے لیکن میں اس ورکشاپ کے عمومی موضوع کے حوالہ سے بھی کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں علماء کرام اور ائمہ و خطباء کے کردار کے ایک پہلو کے بارے میں شرکاء محفل کو توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اختلافات کی حدود اور ان کی مختلف سطحوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیں اور اختلافات کو ان کے دائرہ اور سطح تک محدود رکھنے کی روایت کو فروغ دیں تو باہمی احترام اور رواداری کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اس لیے کہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اختلاف کی اصل سطح اور دائرہ کو پیش نظر رکھے بغیر ہر اختلاف میں ایک ہی طرح کا طرز عمل اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے اختلافات اکثر اوقات تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں مذہبی اختلافات کی مختلف سطحوں اور دائروں کے بارے میں اپنے طالب علمانہ مطالعہ کی روشنی میں کچھ امور کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
- مذہبی اختلافات کا ایک دائرہ ایمان اور کفر کا ہے اور ادیان و مذاہب کی سطح کا ہے جیسا کہ مسلمان، مسیحی، یہودی، سکھ، ہندو اور بدھ مت وغیرہ مذاہب کے درمیان ہے۔
- ایک دائرہ حق و باطل کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اہل قبلہ کے مختلف گروہوں کا باہمی اختلاف کہتے ہیں۔ یہ اہل سنت، معتزلہ، خوارج، روافض اور منکرین حدیث کے درمیان اختلافات کا دائرہ ہے جو اپنی تمام تر شدت اور سنگینی کے باوجود بہرحال پہلے دائرہ سے مختلف ہے اور میں اسے حق و باطل کے اختلافات سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔
- تیسرا دائرہ اہل سنت کے اپنے داخلی ماحول میں فقہاء کرامؒ کے اختلافات کا ہے جس کا تعلق احکام و مسائل سے ہے مثلاً احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور ظواہر کے باہمی فقہی اختلافات ہزاروں مسائل میں ہیں لیکن یہ اختلافات ایمان و کفر اور حق و باطل کی سطح کے نہیں ہیں بلکہ خطا و صواب کے دائرے کے ہیں۔ کیونکہ فقہ و اجتہاد کے باب میں اہل السنۃ کا مسلّمہ اصول یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں جو موقف ہم میں سے کسی نے اختیار کیا ہے وہ صواب ہے جبکہ دوسری طرف کا موقف خطاء پر مبنی ہے (ولکن یحتمل الصواب) مگر اس میں صواب کا احتمال بھی موجود ہے۔
- چوتھا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے جو ایک ہی فقہ کے پیروکاروں کے درمیان اکثر موجود رہا ہے اور یہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اسے خطا و صواب سے تعبیر کرنے کی گنجائش بھی بسا اوقات نہیں ہوتی۔
- پانچواں دائرہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تشریحات کے مطابق عقائد کی تعبیرات کا ہے، حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مسلّمہ عقائد کے باب میں کسی عقیدہ سے اختلاف کی وجہ سے تو اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ کے دائرہ سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعبیر میں اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کو وہ درست نہیں سمجھتے۔ مختلف عقائد کی تعبیرات کے بارے میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواھر کے بیسیوں باہمی اختلافات اسی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجود یہ تینوں گروہ اہل السنۃ والجماعۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈمڈ کر رکھا ہے۔ بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے جبکہ ہم کفر و اسلام کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، بات خطا و صواب کی ہوتی ہے مگر ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔
اس کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں آج کے دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ہماری یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہم اپنے اپنے فقہی مذہب پر کاربند رہتے ہوئے ضرورت کے مقامات پر دوسرے فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے اصول فقہ میں ’’تلفیق‘‘ کی صورت بیان کی گئی ہے جس کی کچھ شرائط ہیں اور ان شرائط کے ساتھ مفتی کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جہاں اس نوعیت اور درجہ کی ضرورت محسوس کرے وہاں وہ دوسرے فقہی مذہب سے بھی استفادہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مفتی اور ضرورت دونوں کے درجہ اور سطح کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق مذاہب میں ایک دوسرے سے استفادہ کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔ میں ’’تلفیق‘‘ کے ان اصولوں اور دائروں کا پوری طرح احترام کرتا ہوں اور خود بھی ان کی پابندی کرتا ہوں لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ معاملہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک فقہی مذہب کے پیروکاروں کو کسی خاص مسئلہ میں دوسرے مذہب کے فقہی اقوال و جزئیات سے استفادہ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اسے سامنے رکھ کر اپنا مسئلہ حل کر لیں۔
لیکن حالات کے تغیر اور معاشرت کے ارتقاء کے باعث کچھ ایسی صورتیں اب سامنے آرہی ہیں جن میں ہمیں اس سے آگے بھی کچھ سوچنا ہوگا اور ایسے اجتماعی مسائل کے حل کی کچھ صورتیں نکالنا ہوں گی جو ’’تلفیق‘‘ کے مسلّمہ دائروں سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، مثلاً:
- جہاں ایسی سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں بالخصوص مغربی ممالک میں جہاں احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ وغیرہ مشترکہ طور پر رہتے ہیں اور مسجد یا کسی ادارے کا مشترکہ طور پر نظام چلا رہے ہیں، یعنی مسجد، مدرسہ یا مسلم سکول بناتے اور اس کا نظام چلانے میں حنفی، شافعی، ظاہری وغیرہ مشترکہ طور پر شریک ہیں وہاں کوئی ایسا مشترکہ فارمولا تشکیل دینا ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتا ہے جس میں تمام متعلقہ فقہی مذاہب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ یہ بہت سے مقامات پر آج کی ایک اہم ضرورت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
- بسا اوقات فقہی دائروں اور سطحوں سے بالاتر ایسے ملّی مسائل سامنے آجاتے ہیں جن میں مشترکہ سوچ کو اپنانا لازمی ہو تا ہے۔ مثلاً پاکستان بننے کے بعد ہمیں دو بڑے مسائل درپیش آئے تھے جن کے لیے ہمیں اجتماعی فیصلہ کرنا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہوگا اور کسی فرد یا گروہ کو اقتدار سونپنے کی وجہ جواز کی ہوگی؟ اور دوسرا یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانی گروہ کی معاشرتی حیثیت کیا ہوگی؟ ہم نے ان دونوں مسائل کا فیصلہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کیا اور طے کیا کہ پاکستان میں حکمرانی کا حق اسے حاصل ہوگا جسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا، جبکہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہوگی۔ اور قادیانیوں کے بارے میں ہم نے فیصلہ کیا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر اسلامی ریاست میں معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
- اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کل عالمی مارکیٹ میں ’’حلال فوڈ‘: کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی حلال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فراہم کی جانے والی حلال خوراک کے ’’حلال‘‘ ہونے کی ضمانت فراہم کی جائے جو ظاہر ہے کہ مسلمان حکومتوں کی طرف سے ہی فراہم کی جا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں حکومتی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جو کسی فوڈ کے حلال ہونے کے لیے تسلی کرنے کے بعد ’’حلال فوڈ‘‘ کی اسٹیمپ لگا دیتے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں یہ ضمانت میسر آجاتی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ابھی غور و فکر کے مراحل میں ہے، دو سال قبل لاہور کے ایک ہوٹل میں بین الاقوامی سطح کا سیمینار منعقد ہوا جس میں مجھے بھی شرکت اور گفتگو کا موقع ملا، اس کی جس نشست میں مجھے معروضات پیش کرنا تھیں اس کی صدارت اتفاق سے برادر مسلم ملک انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔ میں نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال فوڈ کی گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے آپس میں حلال و حرام کا کوئی مشترکہ فارمولا طے کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں غالب اکثریت شوافع کی ہے جن کے نزدیک سمندر کا ہر جانور حلال ہے اور اتفاق سے شوافع کی بہت بڑی اکثریت جزیروں میں آباد ہے جہاں چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک مچھلی کی اقسام کے علاوہ سمندر کی کوئی جاندار مخلوق حلال نہیں ہے۔ ہم دونوں جب حلال فوڈ کی گارنٹی لے کر بین الاقوامی مارکیٹ میں جا رہے ہیں تو ہمیں آپس میں اس حوالہ سے ’’حلال و حرام‘‘ کے کسی متفقہ موقف پر آنا ہوگا ورنہ عالمی مارکیٹ میں مذاق بن جائے گا کہ یہ پاکستانی حلال ہے اور یہ انڈونیشین حلال ہے، ہمیں ایسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میری اس گزارش سے مجلس میں اتفاق کیا گیا اور ان معاملات میں باہمی اتفاق رائے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔
گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کم از کم اہل السنۃ کے دائرہ کے فقہی مذاہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری فقہی مکاتب فکر سے واقفیت اور باہمی تبادلہ خیالات اور استفادہ کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ میں اس بات کا پوری طرح قائل بلکہ داعی ہوں کہ کسی ملک میں جس فقہی مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں اسی فقہ کا عملی نفاذ ہو۔ حنفی اکثریت کے ملک میں حنفی فقہ کو قانون کی بنیاد ہونا چاہیے، شافعی اکثریت کے ملک میں فقہ شافعی کا نفاذ ہی صحیح بات ہے اور مالکی اکثریت کے ملک کو اپنے دستور و قانون میں مالکی فقہ سے ہی استفادہ کرنا چاہیے، لیکن جہاں مشترکہ ماحول ہو وہاں اشتراک عمل کی قابل عمل فقہی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں اور بین الاقوامی فورم پر ہمیں مل جل کر باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کے ساتھ جانا چاہیے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی رائے عامہ اور مشترکہ علمی و فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے استفادہ کی ایسی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں جو آج کی دنیا میں اسلام کے جامع اور صحیح تعارف کے لیے ضروری ہیں۔
میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے زیادہ مناسب بات یہ ہوگی کہ اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کو فروغ دیا جائے۔ یہ فقہ حنفی کی اساس اور روایت بھی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ نے شخصی فقہ کی بجائے مشاورتی اور اجتماعی فقہ کی روایت کا آغاز کیا اور ہمارے دو بڑے فقہی ذخیروں ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی بنیاد بھی اجتماعی مشاورت پر ہے۔ اس لیے ہم اگر اجتماعی اور مشاورتی فقہی ماحول دوبارہ بحال کر لیں تو نہ صرف حضرت امام اعظمؒ کی روایت زندہ ہو جائے گی بلکہ آج کے بہت سے مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ’’البرہان‘‘ کے حالیہ شمارے میں ’’الشریعہ‘‘ اور ’’ضرب مومن‘‘ کے مباحثے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم سے ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ عبد القادر الجزائری کے حوالے سے جو بحث ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ اور ’ضرب مومن‘ میں جاری ہے، ا س کے بارے میں ہماری رائے کیا ہے؟ مختصراً عرض ہے کہ مفتی ابولبابہ صاحب کا موقف صحیح ہے، لیکن ان کا اسلوبِ اظہار روایتی اور جذباتی ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب کے خلاف لکھنے والے بعض دیگر احباب جیسے سید خالد جامعی صاحب اور محمد رفیق چودھری صاحب کا اور بعض جرائد جیسے ماہنامہ محدث، ماہنامہ صفدر، ماہنامہ ساحل ۔۔۔ کا انداز نگارش بھی جذباتی ہوتا ہے۔ اگرچہ قارئین کا ایک حلقہ اسے پسند کرتا ہے، لیکن سنجیدہ اہل علم اس کے مقابلے میں غیر جذباتی اور مدلل انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ خود غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب غیر جذباتی، شائستہ اور مدلل انداز میں لکھتے ہیں۔ ‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب محترم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر اختلاف کا اظہار دلیل اور شائستگی کے ساتھ ہونا چاہیے، تاہم اس کے بعد وہ یوٹرن لے کر فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ اسلام بالعموم بدزبانی کی مذمت کرتا ہے‘‘، لیکن مسئلہ ان کے خیال میں خاص نوعیت کا ہو تو اشتعال انگیزی، الزام تراشی، بدزبانی، طعن و تشنیع اور نفرت خیزی سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب محترم نے سوال کیا ہے کہ اختلاف کی حدود کیا ہیں؟ فرماتے ہیں:
’’ہم مولانا راشدی صاحب سے متفق ہیں کہ علمی اختلاف رائے میں تحمل و برداشت سے کام لینا چاہیے اور دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا چاہیے، لیکن ہم مولانا محترم سے پوچھتے ہیں کہ اس علمی اختلاف رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا منبع کیا ہے؟ ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیا سے اختلاف۔‘‘
ہم سب سے پہلے اس پر کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری طالب علمانہ رائے میں مذہبی اختلافات کے الگ الگ دائرے ہیں:
- ایمان و کفر کا دائرہ جو مسلمانوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب و ادیان کے درمیان ہے۔
- حق و باطل کا دائرہ جو اہل السنۃ، خوارج، معتزلہ اور روافض وغیرہ کے درمیان ہے، اور حضرت شاہ ولی اللہؒ اسے اہل قبلہ کے باہمی اختلافات سے تعبیر کرتے ہیں۔
- خطا و صواب کا دائرہ جو فقہاء کرام کے درمیان ہے اور احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے تمام تر فقہی اختلافات اسی دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
- اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ جو ایک ہی فقہی مذہب کے پیروکاروں کے درمیان بھی اکثر موجود رہتا ہے۔
عقائد کے باب میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ عقائد کے اختلاف پر تو اہل السنۃ سے کسی کو خارج سمجھتے ہیں، لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے صرف تعبیر کے اختلاف پر کسی کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جیسا کہ اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے درمیان بہت سے عقائد کی تعبیرات کے حوالہ سے اختلاف موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ سب اہل السنۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر عقائد کے باب میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کی الگ الگ تعبیرات اور مسائل میں احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے اختلاف خطا و صواب کے دائرہ میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں حق و باطل کے ترازو پر تولنا کسی طرح بھی انصاف کی بات نہیں ہے، جبکہ ہمارا ماحول یہ بن چکا ہے کہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کے اختلافات میں بھی ہم کفر و اسلام اور حق و باطل کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور معمولی سے فقہی اختلاف پر بھی دوسرے فریق کو کفر و ارتداد کی حدود میں دھکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے اس موقف سے خود ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے فورم پر پوری طرح متفق ہیں اور اس کا اظہار ہم ملی مجلس شرعی کی دستاویزات میں متعدد بار کر چکے ہیں۔ اس موقع پر قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے عنوان سے ہمارا ایک مشترکہ علمی و فکری فورم موجود ہے جس میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں۔ مولانا مفتی محمد خان قادری اس کے صدر ہیں جبکہ مجھے سینئر نائب صدر کی ذمہ داریاں ان دوستوں نے سونپ رکھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین صاحب سیکرٹری جنرل ہیں اور ہمارے رفقاء میں مولانا عبد الغفار روپڑی، مولانا ڈاکٹر حسن مدنی، مولانا عبد المالک خان، مولانا احمد علی قصوری، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ڈاکٹر فرید پراچہ بھی شامل ہیں۔
ملی مجلس شرعی کے فورم پر ہم سب کا موقف وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے کہ علمی، مسلکی اور فقہی اختلافات کو ان کی علمی حدود میں رکھا جائے اور ان میں مبالغہ آرائی کر کے انہیں باہمی تنافر و تنازع کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔ البتہ ’’البرہان‘‘ میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا ذوق اس سے کچھ مختلف نظر آتا ہے جو ظاہر ہے کہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے جذبات اور موقف کا جس لہجے میں چاہیں اظہار فرمائیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جس بحث کے تناظر میں ’’بد زبانی‘‘ کا جواز پیش کیا ہے، انھیں اس کی نوعیت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور کردار سے متعلق اختلاف کا تعلق تاریخ سے ہے، فقہ و عقائد کے باب سے نہیں۔ جن حضرات کے نزدیک وہ روایات قابل قبول ہیں جو ان کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں، وہ ان کے بارے میں جو چاہیں رائے قائم کریں، مگر ہمارا موقف یہ ہے کہ جب الجزائری قوم انہیں اپنا ہیرو سمجھتی ہے، ان کے معاصر عظیم مجاہد امام شاملؒ ان کے مجاہدانہ کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور عرب دنیا میں انھیں انتہائی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو ہم بھی انہیں وہی مقام دیتے ہیں اور اس کردار کے خلاف افسانوی قصوں اور قیاس آرائی پر مبنی بد گمانیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں (اور اس معاملے میں ہم اپنے موقف کو اس بنا پر نہیں چھوڑ سکتے کہ اس سے مغرب کے کسی نظریے کی تائید ہوتی ہے)۔
ہمارے اختلاف رائے کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیاء سے اختلاف۔‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے ان الزامات کی بنیاد پر ان امور کی نشاندہی فرما دیں جن میں ہم ان الزامات کے مستحق قرار پائے ہیں اور ازراہِ کرم درج ذیل سوالات کا جواب بھی مرحمت فرما دیں:
- کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں مسائل میں فقہاء کرام اور مفتیانِ کرام کے اختلافات ایک دوسرے سے اختلاف نہیں ہے، اور کیا یہ بات بات پر اختلاف نہیں ہے؟
- کیا احناف میں باہمی اختلافات موجود نہیں ہیں اور کیا آج کے بیسیوں حنفی دارالافتاء سینکڑوں مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر رہے؟
- کیا ائمہ اربعہ سے خود ان کے ماننے والوں نے بھی بہت سے مسائل میں اختلاف نہیں کیا؟
- کیا محدثین اور صوفیاء کرام کے مابین اختلافات کا وسیع سلسلہ موجود نہیں ہے؟
آپ اس اختلاف کا دروازہ آخر کیسے بند کر رہے ہیں اور کس دلیل سے کر رہے ہیں؟
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست نے ایک فکری نشست میں اختلافات اور بحث و مباحثہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ہاں تحقیق کا مطلب حق کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ حق کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جو حق ہمارے پاس موجود ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دیں اور اس کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالہ کی علمی محنت کریں۔
مجھے نصوص صریحہ کی حد تک اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ جو بات قرآن کریم اور حدیث و سنت سے اللہ تعالیٰ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی صورت میں یقینی طور پر ثابت ہو جائے، وہ بہرحال حق ہے اور اسے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا ہی ہماری دینی و علمی ذمہ داری ہے، لیکن کیا غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے؟ مجھے اس میں کلام ہے، اس لیے کہ غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل میں حکم، مصداق اور تعبیر کا تعین رائے اور اجتہاد سے ہوتا ہے۔ رائے اور اجتہاد کا دائرہ یہ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کے سوا کسی بھی شخصیت کی رائے اور تعبیر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے۔ سینکڑوں فقہاء کرامؒ نے اس دائرہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے اور بڑے بڑے اکابر فقہاء کرامؒ نے بہت سے مسائل میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس سے رجوع کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی غیر منصوص اور اجتہادی مسئلہ میں ہمارے ذہن میں جو رائے قائم ہوگئی ہے، حق اسی میں بند ہوگیا ہے، حق کی تلاش کی مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہی اور ہم نے اس کے بعد جو تحقیق کرنی ہے، اسی کو ثابت کرنے کے لیے کرنی ہے، درست بات نہیں ہے۔