معاصر ماہ نامہ الشریعہ گوجرانوالہ، بابت جون ۲۰۱۳ء میں جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’برصغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر ’’پہلی قسط کے طور پر شائع ہوا۔ فاضل مضمون نگار نے برصغیر پاک و ہند کی مذہبی و دینی روایات میں عدمِ برداشت، اشتعال اور فرقہ وارانہ تقسیم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ عدمِ برداشت کا تعلق فقط مذہب، مسلک، فرقہ اور عقائد و نظریات سے ہے یا علاقائی، موسمی، خاندانی اور ذاتی مزاج بھی اس میں مدخل ہیں، ہمیں فاضل مضمون نگار کے عنوان اور زیر عنوان کی نگارشات میں مماثلت کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ فقط ایک ہی مسئلے پر قلم کشائی کی گئی ہے کہ علماء امت نے شیعیت کی تکفیر کا متفقہ فتویٰ جاری نہیں کیا۔ مبادلۂ افکار و خیالات کی رُو سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا خطۂ برصغیر میں فقط شیعہ، سنی کش مکش ہی میں عدم برداشت پایا جاتا ہے؟ کیا دیوبندی و بریلوی، حنفی وغیر مقلد، مرزائی و مسلمان، حیاتی و مماتی، ملا و صوفی حتیٰ کہ مدنی و تھانوی تک کے دائروں میں برداشت، تحمل، وسعتِ نظر اور باوقار اختلاف موجود ہے؟ جب عدم برداشت معاشرے کے ہر ہر فرد کے لہو میں سرایت کر کے خاکم بدہن بلڈکینسر کا روپ دھار چکا ہے تو پھر شیعیت ہی موضوعِ سخن کیوں؟ اور اس ضمن میں قائد اہل سنت حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور آپ کے والد گرامی ابوالفضل مولانا قاضی کرم الدین دبیرؒ کا بطور اہتمام ذکر کرنا اور ان کی کتب سے اپنے خیالات کشید کرتے ہوئے ادھورے اقتباسات پیش کر کے تکلف اُٹھانا بلاوجہ ہلاکت آمیز نتائج نکالنے کے مترادف ہے۔ تاہم دلی مسرت محسوس کرتے ہوئے ہم اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ اہلِ علم نے ایک پیچیدہ اور دبے ہوئے موضوع پر کافی عرصے کے بعد اپنے خیالات کی نکاسی کی ہے اور اسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں بھی اپنی طالب علمانہ معروضات ملک و ملت کے سامنے رکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
فاضل مضمون نگار کو اپنے خیالات کے اظہار کا مکمل حق ہے اور ہمیں ان کے خیالات سے اختلاف پیش کرنے کا پورا استحقاق! اپنے دماغ میں جنم لینے والی باتوں کو ’’خیالات‘‘ قرار دینا اور دوسروں کے سنجیدہ اختلاف کوانا کا مسئلہ بنا لینا اہل تحقیق کا شیوہ نہیں ہے کیونکہ علم کی اپنی آبرو ہوتی ہے اور آبرو باختہ طبائع کا علمی مزاج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سو فاضل مضمون نگار کی خدمت میں پیشگی معذرت اور قلبی تعظیم کے باوجود ہم ان کی کاوشِ فکر پر ایک تحقیقی اور طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ امید ہے کہ اس متانت آمیز اختلاف سے قارئین کی ذہنی رسائیوں کو وُسعت ملے گی۔
فاضل مضمون نگار کا پہلا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’برصغیر میں اہل السنۃ والجماعت ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں۔ تاہم اہل تشیع کا بھی ہمیشہ قابل ذکر وجود رہا ہے۔ بعض علاقوں میں ان کی تعداد خاصی زیادہ رہی ہے بعض جگہوں پر مقامی حکمران یا نواب وغیرہ اہل تشیع میں سے رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بڑے نازک مسائل میں اختلاف موجود رہا ہے۔ ان مسائل پر بحث، مباحثہ، اور کتابیں لکھنے کا سلسلہ بھی رہا ہے لیکن سوائے چند استثنائی مثالوں کے اختلاف کبھی ایک دوسرے کے لیے جانی خطرات کا باعث نہیں بنا۔ جن مسائل میں فریقین کے درمیان اختلاف رہا ہے، وہ بنیادی طور پر تو حضور اقدس eکی رحلت کے بعد کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں، تاہم ان کے ساتھ چونکہ کئی مقدس اور محترم شخصیات کے ساتھ عقیدت کا معاملہ آگیا ہے، اس لیے انہوں نے بہت زیادہ نزاکت اور حساسیت اختیار کر لی اور اس اختلاف کی حیثیت اصولی اختلاف کی بن گئی۔ اگرچہ اب بھی فریقین کے درمیان بہت سے مشترکات موجود ہیں۔ دین کے اصل الاصول امور میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے ‘‘ (’’الشریعہ‘‘ صفحہ نمبر ۱۰)
تبصرہ
ہمیں فاضل مضمون نگار کے اس ایک اقتباس میں حقیقت سے گُریز پائی کا عنصر دکھائی دے رہا ہے اور فکری تذبذب کے ساتھ ساتھ لفظ بلفظ تضادات و تشکیک کے کانٹے بکھرے نظر آ رہے ہیں۔۔۔اگر ہم اس مکمل اقتباس کی تلخیص درج کر دیں تو شاید زیادہ تبصرے کی حاجت بھی نہ رہے اور صاحبانِ فکر و نظر بڑی آسانی سے کوئی نتیجہ اَخذ کر سکیں۔ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے۔
- اہل سنت اور اہل تشیع میں نازک مسائل میں اختلاف رہا ہے۔
- یہ اختلافات کبھی جانی خطرات کا باعث نہیں بنے ۔
- مقدس شخصیات کی عقیدت کی وجہ سے اس اختلاف نے اصولی اختلاف کی حیثیت اختیار کر لی۔
- فریقین میں بہت سے مشترکات اب بھی موجود ہیں۔
- اصل الاصول میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اربابِ فکر و نظر ذرا ان ارشادات پر غور فرمائیں کہ شیعہ و سنی میں اُصولی اختلافات ہیں، مگر ان میں بہت سی مشترکات بھی ہیں۔ اصولی اختلاف اور پھر اشتراک؟ یاللعجب! اور اس سے زیادہ تعجب یہ کہ ’’اصل الاصول میں کوئی اختلاف نہیں‘‘ فیا للعجب
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
فاضل مضمون نگار بخوبی جانتے ہوں گے کہ جب کوئی فرقہ اصولوں کی بناء پر اسلام سے ہٹ جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ اشتراک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن مقدس شخصیات سے تعلق کو ’’عقیدت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وہ دراصل ’’عقیدے‘‘ کا معاملہ ہے عقیدت اور عقیدے میں وہی فرق ہے جو خود شیعہ و سنی میں ہے اور یہ راز بھی فاضل مضمون نگار کی اپنی عبارت میں مضمرہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’مقدس شخصیات کے ساتھ عقیدت کے معاملہ کی وجہ سے یہ اختلاف، اصولی اختلاف کی حیثیت اختیار کر گئے‘‘
حضورِ والا! اصولی اختلاف عقیدے کے ٹکراؤ سے وجود میں آتے ہیں نہ کہ عقیدت کے ٹکراؤ سے۔۔۔ کون نہیں جانتا کہ صحابہ کرام رشد و ہدایت کی وہ مشعلیں ہیں جن کی کرنیں دور دور تک ضیاپاش ہوئیں جب پورے کا پورا معاشرہ ظلم و سرکشی اور تمرّد کی آفتوں میں گھرا ہوا تھا اور انسانوں کے حیاء سوز افعالِ قبیحہ ماحول کو بدبودار کیے ہوئے تھے، وہ صحابہ ہی تھے جن کے زہد و ایقان کی خوشبوؤں نے پورے عالم پر مُشکِ نافہ کا چھڑکاؤ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن مجید نے اُن پر جمالِ الٰہی کی چادریں تان دیں اور نبوت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا تو یہ جماعتِ مقدس امت کا ’’عقیدہ‘‘ بن گئی نہ کہ محض مرکزِ عقیدت ۔۔۔شارح ہدایہ علامہ ابن ہمام کی ایمانی جلالت یونہی تو نہیں کہہ اُٹھی کہ
’’ان من فضل علیاً علی الثلاثۃ فمبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق اوعمر رضی اللہ عنہما فھو کافر‘‘۔ (فتح القدیر جلد اول صفحہ نمبر ۳۰۴)
ترجمہ: ’’جو حضرت علی کو حضرات ثلٰثہ پر ترجیح دے، وہ بدعتی ہے اور جو حضراتِ ابوبکر و عمر کو خلیفہ نہ مانے، وہ کافر ہے‘‘۔
اور کون نہیں جانتا کہ اہل تشیع نہ صرف خلفاء کی خلافت کا انکار کرتے ہیں، بلکہ انہیں خلافت غصب کرنے والا اور آلِ رسول پر ظلم کرنے والا قرار دے کر نفرتوں کے وہ بھبھکے اُڑاتے ہیں کہ اس پر ایک ہزار سال کا لٹریچر شاہد ہے۔ کسی صدی کا کوئی مہذب سے مہذب شیعہ مجتہد یا عالم پیش کیجیے جس نے اصحاب رسول کی بھداڑانے میں اپنے شب و روز صرف نہ کیے ہوں؟
تاہم شیعہ و سنی اختلاف کی بنیاد مقدس شخصیات نہیں ہیں بلکہ مسئلہ امامت ہے۔ اسلام نے حضور اکرم کی رحلت کے بعد تصور خلافت دیا ہے اور اہل تشیع نے اس کے مقابل عقیدہ امامت کا خود ساختہ نظریہ پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصولی اختلاف تھا جس کی بناء پر اہل اسلام اور اہل تشیع کی راہیں جدا جدا ہوگئیں اور اس کے بعد شیعیت میں جتنابگاڑ آیا ہے، وہ اسی عقیدۂ امامت کی وجہ سے آیا ہے اور یہ عقیدۂ امامت شیعہ کے ہاں منصب نبوت سے بڑھ کر ہے ۔اس لیے فاضل مضمون نگار مذہب شیعہ کے متقدمین ہی نہیں، بلکہ متاخرین کی کتب بھی پڑھیں تو یکسانیت ملے گی۔ اگر ہمارے مخاطب ایک معروف عالم دین اور منصب افتاء پر فائز نہ ہوتے تو ہم چند حوالہ جات درج بھی کر دیتے، لہٰذا طوالت کے خوف سے ہم انہیں نظر انداز کر رہے ہیں اور ویسے بھی شیعہ عقیدۂ امامت اب اتنا آشکارا ہوچکا ہے کہ ہر جگہ اس پر شواہد دینے کی ضرورت ہی نہیں رہی البتہ دو حوالے پڑھتے جائیے۔
عصر حاضر کے معروف شیعہ مجتہد محمد حسین ڈھکو فاضل نجف اشرف عراق لکھتے ہیں:
’’تمام شیعہ امامیہ اس کے قائل ہیں کہ امام کو نبی کی طرح اول عمر سے آخر عمر تک تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اور احکام میں ہرقسم کی خطاء و لغزش سے منزہ و مبرّہ اور معصوم ہونا ضروری ہے۔‘‘ (اثبات الامامت، صفحہ نمبر ۲۳، ناشر مکتبہ السبطین سٹیلائٹ ٹاؤن، سرگودھا)
اور اس سے پہلے خمینی صاحب بھی لکھ آئے ہیں۔
’’ہمارے ضروریاتِ مذہب میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی بھی ائمہ کے مقامِ معنویت تک نہیں پہنچ سکتا، چاہے وہ ملک مقرب یا نبئ مرسل ہو، وہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘ (حکومت اسلامی، ناشر کتاب مرکز، شمالی ناظم آباد ، کراچی)
خمینی صاحب صرف مذہبی نہیں، بلکہ ملتِ شیعہ کے سیاسی راہنما تھے اور انہوں نے یہ بات ضروریات مذہب میں شامل کی ہے کہ انبیاء و مرسلین تک بھی آئمہ کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ اب بطور تقیہ اہل تشیع ختم نبوت کا اقرار بھی کر لیں تو وہ ناقابل قبول ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد عصمت کا اجراء منصب ختم نبوت پر ضرب کاری ہے۔ اسی بناء پر حضرت شاہ ولی اللہ نے ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں اہل تشیع کو ختم نبوت کا منکر قرار دیا ہے اور علماء اہل سنت نے اسی بنیادی عقیدے کی بناء پر فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ شیعیت اور اسلام دو مختلف اور جُدا چیزیں ہیں۔ اثنا عشری شیعہ ہوں یا اسماعیلی یا پھر نُصیری، (اس وقت یہی تین فرقے دنیا میں پائے جاتے ہیں) ان تینوں سے اہل السنۃ والجماعت کااصولی اختلاف ہے اور اصولی اختلاف کے فاصلے کبھی نہیں مٹتے۔ نیز اصولوں پر سودے بازی یا پھر اصولی مخالفین سے ’‘اشتراک‘‘ کی راہیں تلاش کرنا ہر دیدۂ بینا کے لیے وجۂ صدا ستعجاب ہے۔
فاضل مضمون نگار اگر خطاء و صواب، اور حق و باطل کے معیار پر غور کرتے تو وہ اس خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار کبھی نہ ہوتے۔فروعی اختلافات میں خطاء و صواب کی خلیج ہوتی ہے اور اصولی مخالفین سے حق و باطل کا معرکہ ہوتا ہے۔ حق و باطل کی محاذ آرائی میں اشتراکی راہیں ڈھونڈنا مچھلی کے منہ میں زبان ڈھونڈنے کے مترادف ہے یا دراز گوش کے سر سے سینگ!!
اہلِ تشیع کے عقائدِ ثمانیہ
جو حضرات شیعیت کے ہر تیور پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اسی دشت کی آبلہ پائی میں گذر گئی ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اہل تشیع کے آٹھ عقائد ایسے ہیں جو متصادم دین اسلام ہیں۔
1۔ عصمت کا اجراء تسلیم کر کے ایک گونہ مفہوم ختم نبوت سے انحراف۔
2۔ قرآن مجید کی محفوظیت سے انکار اور محرفین کو کافر نہ کہنا۔
3۔ عقیدۂ رجعت، یعنی آخرت سے پہلے عالم دنیا میں ایک بار پھر لوٹناہے۔
4۔ ائمہ کو افضل قرار دے کر افضیلت انبیاء کا انکار کرنا۔
5۔ حضراتِ شیخینؓ کی صحابیت اور خلافت سے انکار، جب کہ ان کا اللہ و رسول سے رضا یافتہ ہوتا امر قطعی ہے۔
6۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓؓ سمیت ماسوائے سیدہ خدیجۃ الکبریؓ، جملہ ازواجِ رسول کے متعلق منافرت پھیلانا۔
7۔ حضور اکرم کو اپنے نبوی مشن میں ناکام قرار دینا۔ جیسا کہ خمینی صاحب نے بھی صراحت سے کہہ دیا ہے۔ (اتحاد ویکجہتی ، ص ۱۵)
8۔ حضور اکرم کے بعد بلافصل خلافت کے قیام کا خدائی دعویٰ اور وعدہ تسلیم نہ کرنا، جب کہ یہ وعدہ قرآن مجید کی آیتِ استخلاف میں موجود ہے۔
سلطان العلماء حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، جن کی علمی تندرستی کا یہ حال ہے کہ رگ رگ سے ارغوانی موجیں تلاطم خیز ہیں، یوں رقمطراز ہیں:
’’حضراتِ محققین نے انہیں (شیعہ کو) ان کے عقائد ثمانیہ (آٹھ عقیدوں) کے باعث ہمیشہ دائرہ اسلام سے باہر سمجھا ہے۔ یہ نہیں کہ انہیں اسلام سے باہر کیا ہے۔ یہ عقائد اسلام میں تھے ہی کب کہ انہیں باہر کیا جائے؟ جو عقیدہ دائرۂ اسلام کے اندر ہو اسے کوئی باہر نہیں نکال سکتا اور جو اسلام کے قطعی عقیدوں سے معارض ہو، اسے اپنے اندر کوئی مسلمان جگہ نہیں دے سکتا۔ لزوم اور الزام اور بات ہے اور جو بات کفر ہو اس کا التزام اور اقرار اور بات ہے۔ ان دونوں صورتوں میں حکم بدل جاتا ہے۔ شیعوں کے ان عقائد کا ان کے ہاں بار بار اقرار ہے اور یہ لوگ اس کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان عقائد ثمانیہ کی بناء پر علماءِ حق نے ہمیشہ انہیں مسلمانوں سے باہر سمجھا ہے ‘‘ (عبقات جلد دوم، صفحہ نمبر ۲۰۸)
باقی فاضل مضمون نگار کا یہ کہنا کہ ’’اہل سنت کے ہاں اہل تشیع کی کئی کتابیں پڑھائی جاتی رہیں ہیں جیسے نحو میں کافیہ پر رضی کی شرح یا منطق میں شرح تہذیب وغیرہ‘‘ تو اس کی علمی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ علومِ خادمہ میں سے صَرف و نحو ہوںیا فلسفہ و منطق، اس کا تعلق ادیان یا مذاہب کے تقارب سے قطعاً نہیں ہے ۔ اس کا تعلق معلومات کے ساتھ ہے اور معلومات میں نظریاتی سرحدیں رکاوٹ نہیں ہوتیں۔ فاضل مضمون نگار نے علم، معلومات اور عقیدے کو گڈمڈ کر کے اچھا خاصا چڑیا گھر تیار کر دیا ہے۔ ثانیاً عرض ہے کہ علماء اہل سنت کی علمِ کلام یا منطق کی کتب پر جو شیعہ علماء نے شروحات لکھی ہیں، یہ اہل سنت کی علمی عظمت کی دلیل ہے۔ کسی شیعی کتاب کو سُنی معتبر عالم دین نے علمی حیثیت دی ہو تو پیش کیجیے؟ الحمدللہ! علماء اہل سنت کے علوم و فیوض کے سینہ دوز دفینے قیامت تک چشمِ حیرت میں سُرمہ بصیرت ڈالتے رہیں گے۔ فاضل مضمون نگار اگر شیعیت کے تبلیغی مزاج اور تدریسی رجحان کا مشاہدہ کرتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ شیعہ علماء کی کُل کائنات علم منطق ہے۔ ان کے ذاکر اگر جاہلانہ اور عامیانہ لہجے میں اصحابِ رسول پر تبرا بازی کرتے ہیں تو علماء شیعہ فلسفیانہ انداز میں تبرا بازی کرتے ہیں دور حاضر کے رافضی علماء میں سے علامہ طالب جوہری، غضنفر عباس، عقیل الغروی، عبدالحکیم بوترابی، اور ضمیر نقوی وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ فاضل مضمون نگار سے بصد احترام عرض ہے کہ آپ کے دعوے کے مطابق ’’نحو میں کافیہ پر رضی کی شرح کسی زمانے میں یہاں داخل درس رہی‘‘ اور سنی عالم علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب‘‘ کی شیعی شرح تہذیب بھی ‘‘۔۔۔اور اس پیرے کی ابتدا میں آپ نے لکھا ہے ’’اہل تشیع کی کئی کتابیں سنیوں کے ہاں پڑھائی جاتی رہیں۔‘‘ ایک دو شروحات اور لفظ ’’کئی‘‘ ؟؟ مبالغہ آمیزی سے ترازو کا پلڑا جھکاکر بھلا کب کوئی فاتح بن پایا ہے؟
آنکھوں والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟
علماءِ اہل سنت کا فتویٰ تکفیر
فاضل مضمون نگار نے مندرجہ ذیل موقف اپنایا ہے:
’’کچھ عرصے سے یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اہل تشیع کو تمام علمائے اہل السنۃ کا فر قرار دیتے ہیں اور یہ کہ یہ ان کامتفقہ فتوی ہے۔ یہاں فتاوی کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے، لیکن یہ غلط فہمی ضرور دور ہوجانی چاہیے اور یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ تکفیرِ شیعہ کا کوئی متفقہ فتویٰ موجود نہیں ہے۔۔۔جن حضرات نے تکفیر کی ہے ان کی ایک بڑی تعداد نے بھی درحقیقت بطورِ فرقہ تمام اہل تشیع کی تکفیر کرنے کی بجائے بعض عقائد کی تکفیر کی ہے‘‘۔ (’’الشریعہ‘‘ صفحہ نمبر ۱۳)
تبصرہ
اگر یہ کہا جاتا کہ کچھ عرصے سے تکفیرِ شیعہ بطور اعلان اور غوغہ عام ہوگیا ہے تو اس سے اتفاق کیا جاسکتا تھا مگر فتویٰ تکفیر کچھ عرصے کا تاثر نہیں، صدیاں بیت رہی ہیں، فاضل مضمون نگار کس صدی میں جانا چاہتے ہیں؟
کسی دور میں لفظِ شیعہ مشترک المعنی لفظ رہا ہے اور ان کی بطور تنظیم ،فرقہ وہ شکل نہیں تھی جو بعد میں ظاہر ہوئی، ان کی مذہبی کتب عام دستیاب نہیں تھیں اور مذہبی شعار ’’تقیہ‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی رُخ اور متعین سمت نہ تھی۔ علماء اہل سنت ہر قسم کا فتویٰ دینے میں اور خصوصاً فتویٰ تکفیر دینے میں بے حد محتاط ہوتے تھے جب کسی فرقے کا بنیادی مآخذ موجود نہ ہو، یا موجود تو ہو مگر زمانے کے اہل علم کی رسائی نہ ہو، اور تقیہ کی آڑ میں وہ گرگٹ کے بدلتے رنگوں کی طرح اپنے نظریات بدلتے رہتے ہوں تو ان حالات میں کوئی فتویٰ تکفیر کیسے دے؟ یہ کوئی مولانا احمد رضا خان صاحب والا بارُودی مزاج تھوڑا ہی تھاکہ جہاں نگاہ پڑی کافر بنا دیا مگر جن علماء کرام نے اپنی جملہ توانائیاں شیعیت کی کھود کُرید میں وقف کر دیں، ان کے مآخذِ علمیہ تک رسائی حاصل کی ا ور ان کے مذہبی مدوجزر کا مشاہدہ کیا پھر براہ راست ان سے مباحثے کیے۔ اُن سے بڑھ کر اہل تشیع کا واقف کون ہوسکتا ہے؟ لہٰذا فتویٰ اور رائے بھی انہی علماء کی معتبر ہوگی۔
علامہ خالد محمود پھر یا د آگئے ۔ پڑھیے:
’’جن علماء نے اثنا عشری عقائد کا ان کے اصل ماخذوں سے مطالعہ نہیں کیا وہ محض سوال کی عبارت پر ان کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے۔ سو ان کا فتویٰ اُن کے حق میں معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس باب میں ان علماء کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ان لوگوں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے یا انہوں نے ان کے اصل ماخذوں پر اطلاع پائی ہے‘‘ (عبقات جلددوم، ص۲۰۸)
علم و فضل کے بحرِ ذخار امام شعبیؒ (متوفیٰ ۱۰۴ھ) سے جب کبھی پوچھا جاتا کہ اہل تشیع کو کیا آپ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں؟ تو وہ جواب میں فرماتے کہ یہ اسلام میں گُھسے ہی کب تھے؟ امام شعبی کے اقوال اور فتوے علامہ ابن تیمیہ اپنی قابل فخر کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں جا بجا درج کرتے ہیں حالانکہ ابن تیمیہ جیسا انسان اتنی آسانی سے کسی صاحبِ علم کا نام نہیں لیتا۔۔۔ ایسا ہی ایک قول ابن تیمیہ درج کرتے ہیں۔
قال الشعبی: اخدرکم اہل ھذہ الاھواء المضلۃ، وشرھا الرافضۃ لم یدخلو فی الاسلام رغبۃً ولا رھبۃً۔ (منہاج السنۃ جلد اول صفحہ ۸، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ترجمہ: ’’امام شعبی نے فرمایا کہ میں تمہیں راہ راست سے بہکانے والے اہل بدعت سے ڈراتا ہوں اور ان میں سے سب سے بدتر رافضی ہیں، یہ لوگ رغبت اور خوفِ خدا کے ساتھ اسلام میں داخل نہیں ہوئے‘‘
قارئین کرام ! ایک ایک جملے پر غور کیجیے! خاموش آتش کی طرح سُلگتی شیعیت کی چنگاریوں سے بچنے کی کس دردِ دل سے دعوت دی جارہی ہے؟ یہ دعوت دینے والے کون ہیں؟ امام شعبی، اور اس کو نقل کرنے والے کون ہیں؟ ابن تیمیہ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے؟
علامہ سرخسی کے تبحر علمی سے بھلا کون ناواقف ہے؟ کئی افلاطونوں کے دماغ علامہ سرخسی کی قبر کے ایک ایک ذرے پر نچھاور کیے جاسکتے ہیں انہوں نے شیعیت کے داغوں کا مشاہدہ کیا، ان کے مذہبی عقائد پر تحقیق کی اور پھر بولے تو کیا بولے؟ پڑھیے۔
فمن طعن فیھم فھو ملحد، منابذ للاسلام و دواءہُ السیف ان لم یتب۔ (اصول سرخسی، جلد ۲، ص ۱۳۴)
ترجمہ: ’’جو صحابہؓ پر تنقید کے نشتر چلائے وہ الحاد کا مریض ہے اس نے اسلام کی چادر گویا اتار پھینکی، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا علاج تلوار ہے۔‘‘
ہمارے پاس بھی فاضل مضمون نگار کی طرح فتاوی کی تفصیل درج کرنے کا موقع نہیں ہے جب کبھی وہ موقع پالیں گے تو ان شاء اللہ ہم بھی شیعیت کے متعلق دس صدیوں کا ریکارڈ پیش کردیں گے۔ یہاں ہم اپنے اسی موقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ لکل فن رجال کے ضابطہ کے تحت تکفیر شیعہ کا مسئلہ ہو یا کوئی اور معرکہ درپیش ہو، اس میدان کے لوگوں کی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ آج بھی آپ کسی بڑے دارالعلوم میں جا کر کسی عالم دین سے کوئی فتویٰ مانگیں تو وہ دارالعلوم میں موجود دارالافتاء کی طرف آپ کی راہنمائی کر دے گا۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت تھانوی نے مجھ سے پوچھا، مولانا احمد رضا صاحب نے جو ہم پر تکفیری گولہ داغا ہے، کیا ان کو واقعتا غلط فہمی ہوئی یا دیدۂ و دانستہ انہوں نے کام کیا؟ حضرت تھانوی اپنی سلیم فطرت اور خوفِ خدا سے مزین ضمیر کے مطابق فرماتے تھے کہ کوئی مسلمان اتنی بڑی جرأت نہیں کر سکتا ، ضرور ان کو غلط فہمی ہوئی جب کہ مولانا محمد منظور نعمانی کی زندگی اس موضوع پر مناظروں میں گذر گئی تھی۔ وہ خان صاحب کے طوفانی مزاج اور بعض بریلوی حضرات کی نیتوں سے آگاہ تھے۔ مولانا نعمانی کا موقف یہ تھا کہ مولانا احمد رضا صاحب نے ضد بازی، آتشِ حسد، اور مخصوص اشتعالی مزاج کی بنا ء پر کفر کے فتوے لگائے۔ چنانچہ مولانا محمد منظور نعمانی نے حضرت حکیم الامت تھانوی کے اس حُسنِ ظن اور ملائمت کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے :
’’اس عاجز کا خیال ہے کہ اگر حضرت (تھانوی) نے ان کی کتابیں ملاحظہ فرمائی ہوتیں تو ان کو بھی یہ شُبہ غالباً نہ ہوتا‘‘ (بریلوی فتنہ کا نیا روپ، صفحہ نمبر ۱۴، مصنفہ مولانا محمد عارف سنبھلی)
معلوم ہوا کسی بھی طبقے کے مآخذ تک رسائی حاصل کیے بغیر محض سنی سنائی باتوں پر (خواہ وہ کتنی ہی ثقہ ہوں) کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہوتا ہے اور حضرت تھانوی کا یہ جملہ تو ان کے متعدد ملفوظات میں ملتا ہے کہ جب کوئی مجھ سے شیعیت کے متعلق تفصیل طلب کرتا ہے تو میں اس کو مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی کے پاس بھیج دیتا ہوں کہ وہ اس میدان کے آدمی ہیں۔ فاضل مضمون نگار کی مذکورہ سطر ’’علماء نے بطور فرقہ تمام شیعہ کی تکفیر کرنے کی بجائے بعض عقائد کی تکفیر کی ہے۔‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اس سے بطور فرقہ تکفیر لازم نہیں آتی، ہم سمجھتے ہیں شدید غلط فہمی ہے۔ جب عقائد پر تکفیر یا تفسیق کی جاتی ہے تو کافر یا فاسق تو فاعل ہوتا ہے۔ جو ان عقائد پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ آج اگر کہا جائے کہ جو طبقہ حضور اکرم کے بعد کسی کو نبی مانے تو وہ کافر ہے، اگر سائل پوچھے کہ کون کس کو نبی مانتا ہے؟ تو اس بات کا جواب سوائے اس کے کیا ہوگا کہ وہ فرقہ قادیانی ہے، اب نتیجہ کیا نکلا؟ کہ قادیانی کافر ہیں۔
اگر کہا جائے کہ حجیتِ حدیث کا انکار کرنے والے اسلام سے خارج ہیں؟ اگر سوال کیا جائے کس نے حجیتِ حدیث کا انکار کیا؟ تو لامحالہ عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز یا دیگر ان لوگوں کے نام بتائیں جائیں گے جو صراحتاً منکرین حدیث تھے۔
اگر کہا جائے کہ تقلید ائمہ کے بغیر عوام کے لیے دین پر چلنا مشکل ہے اور تارکینِ تقلید گمراہ ہیں، اس پر جب تارکین تقلید کی نشاندہی کروائی جائے گی تو سوائے غیر مقلدین کے کس کا نام لیا جائے گا؟ جنہیں اہل حدیث کہا جاتا ہے اسی طرح اگر کہا جائے کہ حضور اقدس کی بعد از وفات برزخی حیات پر پوری امت کا اجماع ہے اور اس کا انکار نظریۂ اہل سنت سے مفروری ہے اور جب پوچھا جائے گا کہ کون لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی برزخی حیات کے منکر ہیں؟ تو کم از کم ہمارے وطن (پاکستان) میں مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری اور ان کے غالی معتقدین کا نام لیا جائے گا ۔ بعینہٖ جب علمائے اہل سنت نے مشروط فتویٰ دیا تھا کہ ایسے عقائد رکھنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں مثلاً افک عائشہ صدیقہؓ، یا قرآن مجید میں کمی واقع ہونے کا عقیدہ یا غلط فی الوحی، یا حلت تبرا یعنی سبّ و شتم وغیرہ، یا جیسے مولانا مفتی محمد کفایت اللہ کا فتویٰ موجود ہے کہ:
’’اگر نذیر احمد غالی شیعہ ہوگیا ہے یعنی حضرت عائشہؓ پر تہمت کا قائل ہے یا قرآن مجید کو صحیح اور کامل نہیں سمجھتا یا حضرت ابوبکر صدیق کی صحبت کا منکر ہے یا حضرت علی کو وحی کا اصل مستحق سمجھتا ہے یا حضرت علی کی الوہیت کا قائل ہے تو بے شک وہ کافر ہے‘‘ (کفایت المفتی جلد اول، صفحہ نمبر ۲۸۰)
اب فاضل مضمون نگار ہی بتائیں کہ یہ عقائد کن لوگوں کے ہیں؟ قادیانیوں کے، دیوبندیوں کے، بریلویوں کے یا اہل حدیثوں کے؟ ایک ہی جواب آئے گا کہ یہ عقائد اثنا عشری شیعوں کے ہیں، اور اس وقت دنیا میں اکثریتی آبادی بمقابلہ اسماعیلی و نصیری انہی کی ہے۔ اگرچہ ان کے عقائد بھی خلاف اسلام ہیں۔
آج دنیا گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ہر فرقے اور ہر مسلک کی تقریریں، تحریریں اور لب و لہجہ ایک چھت کے نیچے فراہم کر دیا ہے۔ اب نہ تو وہ زمانہ رہا ہے جب علامہ ابن عابدین شامی کو شیعہ لٹریچر نہیں ملتا تھا اور نہ وہ دن رہے جب مولانا محمد منظور نعمانی انڈیا سے حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین کو خط لکھ کر شیعہ مذہب کی کتابیں منگواتے تھے کہ یہاں انڈیا میں اکثر نایاب ہیں۔۔۔ آج بحث و تمحیص کے بازار گرم ہیں، جب کوئی پڑھا لکھا مسلمان شیعہ علماء کی کتابوں میں صحابہ پر غلیظ الزامات دیکھتاہے، تقریروں میں تبرا سُنتا ہے۔ ترجمہ مقبول میں ’’شراب خور خلفاء کی خاطر قرآن بدل دیا گیا‘‘ جیسے رکیک جملے پڑھتا ہے۔ ’’تجلیاتِ صداقت‘‘ میں ’’اصحابِ رسول ایمان سے تہی دامن تھے‘‘ جیسی عبارتیں پڑھتا ہے۔ غلام حسین نجفی، عبدالکریم مشتاق، اشتیاق کاظمی، محمد حسین ڈھکو، اور دنیا بھر کے شیعہ علماء کی عربی، اردو اور فارسی زبان میں سوقیانہ اور واضح خلافِ اسلام باتیں پڑھ سُن کر جب ہمارے مفتیانِ عظام کے ایسے مضامین پر نگاہ ڈالتا ہے تو دونتائج سامنے آتے ہیں، تیسرا کوئی نہیں۔
1۔ یا تو اس کے جذبات مزید مجروح ہوتے ہیں، پہلے وہ شیعیت سے بدظن تھا، اب سُنیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا کہ ایسے صریح کفریہ عقائد رکھنے والے مسلمان ہیں تو پھر کُفر کس مگر مچھ کا نام ہے؟
2 ۔ یا وہ بھی دھنیاپی کر اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ جب یہ سب کچھ کفر نہیں تو پھر ہمیں بھی صحابہ کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر طبع آزمائی کر لینی چاہیے۔ پھر یہ تشکیک کے جراثیم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کاش فاضل مضمون نگار محض ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کو نہ دیکھتے، زمینی حقائق، نفسیاتی تلاطم، عملی و اعتقادی خرابیوں کے نتائج اور موقع و ماحول کے تقاضوں کو اہلِ افتاء نہیں سمجھیں گے تو کیا ہم بے لگام خطیبوں سے یہ توقع رکھیں؟ فتویٰ دینے کا اہل کون ہے؟ بصد معذت ہم یہاں اپنے قارئین سے مخاطب ہیں نہ کہ فاضل مضمون نگار سے، مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے آج سے چھہتر سال پہلے ۱۹۳۷ء میں لکھا تھا۔
’’فتویٰ دینے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ عالم، صاحبِ بصیرت، کثیر المطالعہ، وسیع النظر، احوالِ زمانہ سے واقف ہو‘‘۔ (کفایت المفتی جلد ۲، ص ۲۳۶)
یہ دو سطریں گویا ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام شعبی سے لے کر محدثین دہلی تک، خاندانِ شاہ ولی اللہ سے لے کر مولانا محمد قاسم نانوتوی تک، امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی سے لے کر حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین تک سب کے سب رفض و بدعت کے خلاف ایک ہی نہج پہ چلے ہیں، ان میں برداشت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگر غیرت غالب تھی۔ ہمارے آج کے فلاسفر اور دانشور فرصت نکال کر عدمِ برداشت اور غیرتِ دینی کے مابین فرق کو بھی ذرا واضح کر دیں تو احسان ہوگا۔
حجۃ الاسلام قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی تحمل و برداشت کا کوہِ گراں تھے۔ اگر ان میں جذباتیت، اور عدمِ برداشت کا عنصر ہوتا تو آج فکرِ دیوبند سکہ رائج الوقت نہ ہوتی۔ آج ہندو پاک میں علوم و فیوض کے جو چشمے بہہ رہے ہیں، ان کا سرچشمہ حضرت نانوتوی کی عالی ظرفی ہی تو ہے، مگر یہی سراپائے علم جب شیعیت کے خلاف قلم اُٹھاتا ہے تو پھر یوں بھی لکھا نظر آتا ہے۔
’’اصحابِ ثلثہ کو اول تو مولوی عمار علی صاحب (شیعہ ، ناقل) جیسوں کی اہانت یا برا کہنے سے کیا نقصان؟ بلکہ الٹا باعثِ رفعتِ شان ہے۔ چاند، سورج کی طرح وہ روشن ہوئے تو کتے ان پر بھونکے ، اوروں پر کیوں نہ بھونکے‘‘۔ (ہدیۃ الشیعہ، صفحہ نمبر ۲۲۳)
حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی سے آغا خانی شیعوں کے عقائد لکھ کر فتویٰ مانگا گیا کہ آیا ہم انہیں مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ تو حضرت تھانوی نے تفصیلی فتویٰ جاری فرمایا اور اس کی آخری سطور مندرجہ ذیل ہیں:
’’خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کفریات کے ہوتے ہوئے کسی کو مسلمان کہا جائے گا تو ناواقف مسلمانوں کی نظر میں ان کفریات کا قبح خفیف ہوجائے گا اور وہ آسانی سے ایسے گمراہوں کا شکار ہوسکیں گے تو کافروں کو اسلام میں داخل کہنے کا انجام یہ ہوگا کہ بہت سے مسلمان اسلام سے خارج ہوجائیں گے۔ کیا کوئی مصلحت اس مفسدہ کی مقاومت کر سکے گی۔‘‘ الخ (بوادرالنوادر، صفحہ نمبر ۷۴۱)
نوٹ۔ یہ کتاب حضرت تھانوی کی زندگی کی آخری تصنیف ہے اور آخری اعمال و اقوال کا پہلوں کے مقابلہ میں معتبر ہونا مسلَّمہ ہے۔
(جاری)