اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے ٹیسٹ

ڈاکٹر عبد الباری عتیقی

پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے کچھ سفارشات پیش کی ہیں جن میں ’’زنا بالجبر‘‘کے کیس میں DNA ٹیسٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے ایک سفارش بھی شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’زنا بالجبر‘‘ کا کیس ثابت کرنے کے لیے DNA ٹیسٹ قابل بھروسہ نہیں ہے، البتہ اسے ثانوی ثبوت کے طور پر مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ہم اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

ہماری روایتی دینی تعبیر میں زنا ’’مستوجبِ حد‘‘ (چاہے وہ بالرضا ہو یا بالجبر) کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے جو واحد طریقہ کار قابل قبول ہے وہ یہ ہے کہ چار مسلمان، عاقل ، بالغ، تزکیۃالشہود کے معیار پر پورا اترنے والے مرد یہ گواہی دیں کہ انہوں نے یہ جرم اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے کم تر یا مختلف کسی طریقے سے یہ جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جدید ذہن کے لیے یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ خصوصاََ ’’زنا بالجبر‘‘ کے جرم کو تو اس طریقہ کار سے کبھی ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا۔اسی وجہ سے یہ مسئلہ ہمارے یہاں طویل عرصے سے باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔

ہماری رائے میں روایتی دینی تعبیر میں اس حوالے سے ایک بنیادی غلطی پائی جاتی ہے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ اس میں زنا کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک ’’زنا بالرضا‘‘ اور دوسر ی ’’زنا بالجبر‘‘۔ پھر ان دونوں قسموں کو وقوع، ثبوت اور سزا کے حوالے سے بالکل ایک درجے میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اصولاََ ’’زنا‘‘ کا اطلاق صرف اس عمل پر ہوتا ہے جو دونوں فریقوں کی رضا مندی سے کیا گیا ہو۔ اس لیے اسے ’’زنا بالرضا‘‘ کہنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے بلکہ غلط فہمی کا موجب بھی ہے۔ اور ’’زنا بالجبر‘‘ کی اصطلاح تو بالکل ہی الجھانے والی اور Self Contradictory ہے۔ اصل میں یہ اصطلاح جس جرم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کے لیے صحیح لفظ ’’عصمت دری ‘‘ (Rape) ہے۔ یہ دونوں جرائم یعنی زنا اور Rape اپنے وقوع، نفسیات، اثرات، نتائج ہر حوالے سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ لوگوں نے محض ظاہری مماثلت کی بنا پر ان دونوں جرائم کو ایک ہی Category میں شامل کر دیا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ ساری غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ شریعت میں جہاں بھی زنا، اس کی سزا یا اس کو ثابت کرنے کے مخصوص طریقہ کار کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد ’’زنا‘‘ کا جرم ہے۔ رہا Rape یا عصمت دری کا معاملہ تو یہ براہ راست کہیں زیر بحث نہیں رہا۔رسول اکرمﷺ نے جن مجرموں کو رجم کی سزا دی ہے وہ اصل میں ’’زنا‘‘ کے مجرم نہیں تھے بلکہ Rape ، عصمت دری، قحبہ گری وغیرہ کے مجرم تھے۔ روایات میں ان مقدمات کی جو تفصیلات بیا ن ہوئی ہیں وہ اگرچہ کہ اتنی مبہم، ناقص، نامکمل اور بعض اوقات متضاد ہیں کہ محض ان کی بنیاد پر کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے لیکن اگر ان مقدمات پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو اتنا ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ محض ’’زنا‘‘ کے جرائم نہیں تھے بلکہRape ، عصمت در ی اور قحبہ گری وغیرہ کے واقعات تھے۔ ان مجرموں کو رسول اکرمﷺنے رجم کی جو سزا دی وہ، ہماری رائے میں، سورہ مائدہ کی آیتِ محاربہ سے ماخوذ ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے:

’’وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فسادبرپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، ان کی سزا بس یہ ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیںیا سولی پر چڑھائے جائیںیا ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا جلا وطن کر دیے جائیں۔‘‘ (المائدہ ۵: ۳۳)

رسول اکرمﷺنے ان جرائم پر فساد فی الارض کا اطلاق کیا اور ان مجرموں کو آیت میں بیان کردہ حکم اَنْ یُقَتََّلُوْا  (بدترین طریقے سے قتل) کے تحت رجم کرادیا۔اسی طرح اس جرم (Rape) کو ثابت کرنے کے لیے بھی شریعت نے ہمیں کسی مخصوص طریقے کا پابند نہیں کیا ہے۔ہر دور کے تمدن اور حالات کے مطابق جس قسم کے ثبوت اور شواہد سے عدالت اس بات پر مطمئن ہوجائے کے جرم واقع ہوا ہے ، وہی جرم کے مکمل ثبوت کے لیے کافی ہے۔ ہمارے علما کا اصرار ،کہ Rape کا جرم بھی اسی طرح ثابت ہوگا جس طرح شریعت میں ’’زنا‘‘ کے جرم کو ثابت کرنے کی شرائط رکھی گئی ہیں(یعنی چار عینی شاہدین)، نہ تو دین کے درست فہم کے مطابق ہے اور نہ تمدن صدیوں کے سفر کے بعد جہاں پہنچ چکا ہے، اس کا ہی صحیح ادراک ہے۔یہی وجہ ہے کہ DNA ٹیسٹ جیسا تقریباََ یقینی ثبوت بھی ہمارے علما کی نظر میں ناقابل اعتبار ٹھہرتاہے۔ یہ رویہ’’تقلید‘‘ کے نام پر روا رکھا جائے یا ’’تحفظِ دین‘‘کے نام پر، یہ بہرحال لوگوں کو دین سے متنفر کرنے اور جگ ہنسائی کے سوا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔

اسی سے جڑی ایک اور بات بھی ہم یہاں بیان کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔’’شریعت‘‘ اور ’’فقہ‘‘ کے حوالے سے ہماری یہاں زبردست لاعلمی اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور لوگ عموماََ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔’’شریعت‘‘ وہ قوانین ہیں جو پروردگار عالم نے انسانوں کے لیے خود متعین اور مقرر کر دیے ہیں۔ زمان و مکان کی تبدیلی سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ قیامت تک ہر انسان کے لیے واجب الاطاعت ہیں۔ لیکن یہ شریعت اللہ تعالیٰ نے عموماََان معاملات میں دی ہے جن میں انسان خود اپنی عقل اور تجربے سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتااور اس کے ٹھوکر کھانے کے امکانات یقینی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ان معاملات میں انسانوں کو بغیر ہدایت کے نہیں چھوڑا اور خود ان کی رہنمائی کر دی ہے ۔ یہ شریعت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ باقی تمام معاملات اللہ تعالیٰ نے اصلاََ انسانوں کی اس فطرت، عقل اور تجربے پر چھوڑ دیے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہیں۔ یہ کا م مسلمانوں کے نظم اجتماعی اور ارباب حل و عقد کا ہے کہ وہ ان معاملات میں فیصلہ کریں، اس شرط کے ساتھ کہ ان میں دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔’’فقہ‘‘ درحقیقت اس سارے ’’انسانی کام ‘‘ کا نام ہے جو اس حوالے سے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ کام صدیوں تک ہوتا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جو علمی اور قانونی ذخیرہ وجود میں آیا ہے اسی کا اصطلاحی نام’’فقہ‘‘ ہے۔ مثال کے طور پر ’’زنا‘‘ کے علاوہ کسی اور جرم کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ شریعت میں لازم نہیں کیا گیا ہے۔ فقہا نے اپنے دور کے حساب سے مثلاََ قتل، چوری، شراب نوشی کو ثابت کرنے کے لیے عینی شاہدین کی ایک مخصوص تعدادکا قانون بنا دیا۔ اپنے دور کے حساب سے یہ بالکل در ست قانون رہا ہوگا کیونکہ اس زمانے میں اس سے بہتراور قابل اعتماد کوئی ذریعہ موجود ہی نہیں تھا۔ ہمارے علما کی غلطی یہ ہے کہ وہ اب بھی صدیوں پہلے کے انسانی طریقہ کار کو من و عن جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور اسے شریعت کا لازمی تقاضہ سمجھتے ہیں۔ شریعت اور فقہ میں یہ فرق مد نظر رکھنا لازمی ہے کہ اول الذکر الہامی، ابدی اور غیر متبدل ہے جب کہ ثانی الذکر انسانی، غیر ابدی اور زمان و مکان کی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہو جانے والی ہے۔ اگر ہم ’صنوبر باغ میں آذاد بھی ہے پابگِل بھی ہے‘ کے مصداق ’ثبات‘ اور ’ تغیر‘ کے اس متوازن امتزاج کے منہج پر قائم رہتے تو آج دنیا کانقشہ اور مسلمانوں کا مقام ہی کچھ اور ہوتا۔ بد قسمتی سے ہم نے ’’فقہ‘‘ کو ’’شریعت ‘‘ کے مقام پر رکھ دیا ہے بلکہ عملاََشریعت کو فقہ کا اسیر بنادیاہے۔ آج دینی لحاظ سے ہمارے زیادہ تر علمی اور عملی مسائل اسی سوء فہم کا نتیجہ ہیں۔ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم وحی پر مبنی شریعت کو انسانی فہم پر مبنی فقہ کی بیڑیوں سے آزاد نہیں کرا دیتے۔ ہمیں فقہی ذخیرے سے استفادہ تو ضرور کرنا چاہیے لیکن اسے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دینا چاہیے۔

آراء و افکار

(اگست ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter