حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت میں نے طالب علمی کے دور میں پہلی بار کی۔ سن یاد نہیں، لیکن اتنا ذہن میں ہے کہ انار کلی لاہور میں جلسہ عام تھا ،میرا بچپن اورلڑکپن کا درمیان کا زمانہ تھا،والد محترم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم جلسہ سننے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہورگئے تو مجھے ساتھ لے گئے۔ انار کلی بازار میں بہت بڑا اجتماع تھا اور حضرت قاری صاحب نورّ اللہ مرقدہ نے اس سے خطاب فرمایا۔ خطاب کے مشتملات ذہن میں نہیں ہیں اورنہ ہی میں اس وقت عمر کے اس مرحلہ میں تھا کہ تقریر کے موضوع اور مواد کو ذہن میں محفوظ کرسکتا، البتہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ، جلسے کا ماحول اور اسٹیج کی بعض جھلکیاں اب بھی ذہن کی سکرین پر جھلملا رہی ہیں۔اس کے بعد یاد نہیں کہ کتنی بار دیکھا اور کہاں کہاں زیارت سے فیض یاب ہوا، مگر دو مواقع کی یاد ذہن میں ایسے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔
میرا بیعت کا تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ اللہ العزیز کے فرزند وجانشین حضرت مولانا عبیداللہ انور صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے تھا اورحضرت سے جماعتی تعلق بھی گہرا تھا کہ وہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ذمہ دار راہ نماؤں میں سے تھے اور میں جمعیۃ کا اس دور میں فعال کارکن تھا۔ اس دوہرے تعلق کی وجہ سے شیرانوالہ لاہور میں اکثر آنا جانا رہتاتھابلکہ زیادہ تر وقت وہیں گزرتاتھا۔ حضرت حکیم الاسلام جب بھی لاہور تشریف لاتے، حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ کی خواہش اور کوشش ہوتی کہ وہ شیرانوالہ میں بھی جلوہ افروز ہوں اور کئی بار حضرت حکیم الاسلام تشریف بھی لائے۔ ایک موقع پر ایک مخصوص سی نشست میں حضرت حکیم الاسلام تشریف فرماہوئے اور پاکستان کے معروف سیاستدان نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم بھی شریک مجلس تھے۔ نواب زادہ صاحب متحدہ ہندوستان کے دور میں آل انڈیا مجلس احرار الاسلام کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔ علماء دیوبند سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ مسلکا متصلب دیوبندی اور فرائض وواجبات کے پابند شب زندہ دار بزرگ تھے۔ اس محفل کی تیسری بڑی شخصیت حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ کی تھی جومیزبان تھے اورجہاں تک مجھے یاد پڑتاہے، خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ بھی موجود تھے۔ ان بزرگوں کے درمیاں دیوبند اورعلماء دیوبند کے حوالہ سے جو گفتگو ہوئی اور جس انداز میں انہوں نے باہمی محبت کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کیں، اس کا منظر ابھی تک ذہن میں نقش ہے۔ یہ حضرات گفتگو فرمارہے تھے اورہم ان کی باتوں کی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کررہے تھے۔
حضرت حکیم الاسلام ؒ کی زیارت کا ایک او ر منظر جو ذہن میں ابھی تک تازہ ہے، دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجلاس کے حوالہ سے ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی قیادت میں صد سالہ اجلاس میں جانے والے قافلہ میں میرا نام بھی شامل تھا، لیکن میں قافلہ کے ساتھ سفر نہ کر سکا تھا۔قافلہ کی روانگی کے بعد دوسرے دن سفر کے لیے نکلا اور واہگہ سے سرحد کراس کرکے انبالہ،دہلی اور سہارنپور سے ہوتاہوا جب دیوبند پہنچا تو صد سالہ اجلاس کی آخری نشست جاری تھی اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز اختتامی خطاب فرمارہے تھے۔ عجیب منظر تھا، چاروں طرف لاکھوں مسلمانوں بلکہ علماء کرام کا ہجوم تھا اورحضرت قاری صاحبؒ صد سالہ اجلاس کی شاندار کامیابی پر سراپا تشکر بنے الوداعی کلمات ارشاد فرمارہے تھے۔
یہ تو چند مناظر وہ ہیں جو آنکھوں دیکھے ہیں اور جو میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے ہیں۔ اس سے ہٹ کر غائبانہ ملاقاتوں اور حضرت قاری صاحب کی تحریرات وخطبات سے استفادہ کے مواقع کو شمار کرنا تو کجا میں اندازے سے بھی ان تصوراتی او ر فکری ملاقاتوں کی تعداد بیان نہیں کرسکتا۔ میری ولادت تقسیم ہند سے ایک سال بعد کی ہے۔ اس لیے تقسیم ہند سے قبل ہمارے اکابر کے درمیان مختلف حوالوں سے تقسیم کے جو دائرے سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں، وہ میری ولادت سے پہلے کے ہیں، لیکن اس دور کے واقعات پڑھتا اور سنتاہوں تو کبھی کبھی ذہن میںآتاہے کہ اگر میں اس دور میں ہوتاتو اپنی ذہنی افتاد اور انداز فکرکے حوالے سے اسی کیمپ میں ہوتا جسے معروف معنوں میں ’’مدنی گروپ‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کی نسبت شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے ہے، لیکن اس فکری وابستگی اور جانبداری کے باوجود حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ نور اللہ مرقدہ اور ان کے رفقا کے بارے میں عقیدت، محبت، احترا م، قلبی وابستگی او ر استفادہ کے حوالہ سے دل کے کسی کونے میں کوئی ایسی بات بحمد اللہ تعالیٰ محسوس نہیں کرتا جسے فرق سے تعبیر کیا جا سکتاہو اور بلاشبہ ان بزرگوں میں سے میری عقیدت ومحبت کا سب سے بڑا مرکز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی قدس اللہ سرہ العزیز کی ذات گرامی رہی ہے اور اس کی کچھ وجوہ ہیں جن کا اظہار ضروری خیال کرتاہوں۔
سب سے پہلی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خاندان سے ہیں اور ان کے پوتے ہیں۔ میں نسبتوں کے حوالے سے بہت خوش عقیدہ شخص ہوں اور نسبتوں کی برکات پر نہ صرف یقین رکھتاہوں، بلکہ جب اور جہاں موقع ملے، ان سے استفادہ کی کوشش بھی کرتاہوں۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی دو عظیم شخصیات کو جنوبی ایشیا کی مسلم تاریخ میں ایک ایسے سنگم کی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے ۱۹۵۷ء کے بعد مسلم جنوبی ایشیا کا رشتہ ۱۹۵۷ء سے پہلے کے مسلم جنوبی ایشیا کے ساتھ برقرار رکھنے میں فیصلہ کن کردار اداکیا اور یہ ان کی اجتہادی بصیرت اور مومنانہ فراست کا ثمرہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے طول وعرض میں ہر طرف نہ صرف قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں شب وروز گونج رہی ہیں، بلکہ۱۸۵۷ء سے پہلے کی مسلم تہذیب اور معاشرت کا عملی نمونہ پوری آب وتاب کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب وتقافت کی انتہائی طاقت ور اور طوفانی یلغار جنوبی ایشیا میں غلبہ پانے میں اگر کسی طبقہ اور ادارہ سے خوف اور رکاوٹ محسوس ہورہی ہے تو وہ یہی مولانا نانوتویؒ اور مولانا گنگوہی ؒ کا قافلہ ہے جو کفرو الحاد کی تہذیب کے سامنے سد سکندری بنا ہوا ہے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ میری محبت وعقیدت کی دوسری بڑی وجہ دارالعلوم دیوبند اور اس قافلہ حق کے لیے ان کی طویل او ر مسلسل خدمات ہیں جن میں کوئی دوسری شخصیت ان کی مثل نہیں ہے۔ ان کے طویل دور اہتمام میں دارا لعلوم دیوبند نے جو ترقی کی اور وسعت وتنوع کے جن دائروں سے یہ ازہر ایشیا متعارف ہوا، وہ علمی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے اور نہ صرف خاندان قاسمیؒ بلکہ قافلہ رشیدؒ وقاسمؒ کے لیے باعث فخر واعزاز ہے۔ انہوں نے اپنے عظیم دادا کے ورثہ کو نہ صرف قائم رکھابلکہ اس میں بیش بہا اضافہ کرکے اسے تاریخ میں زندہ جاوید بنا دیا اور تاریخ کے اوراق میں جب بھی دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ ہوگا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔
حضرت قاری صاحب کے ساتھ میری عقیدت ومحبت کی تیسری اور سب سے بڑی وجہ ان کا علمی مقام اور متکلمانہ شان ہے۔ وہ علم کا پہاڑ اور معلومات کا سمندر تو تھے ہی، مگر اس علم کے اظہار اور ابلاغ کے لیے ان کا انداز واسلوب ایسا حکیمانہ اور فطری تھا کہ ان کو سننے اور پڑھنے والا افادہ اور استفادہ کے اس سفر میں خود کو ان کے قدم بہ قدم چلتا ہوا محسوس کرتاتھا۔ میں ایک طالب علم کے طور پر دیوبندی مکتب فکر میں تین بزرگوں کو سب سے بڑا متکلم سمجھتا ہوں۔ (۱) حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، (۲) حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، (۳) حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، مگر اس ترتیب کے ساتھ کہ حضرت نانوتوی ؒ اہل علم کی اوپر کی سطح کے لیے متکلم تھے۔ اس سے نچلے درجہ کے اہل علم کے لیے بھی ان سے استفادہ آسان کام نہیں تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے علوم قاسمی کی قد رے تسہیل کرکے اس سے عام اہل علم کو استفادہ کا موقع فراہم کیا جبکہ حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ نے اس دائرے کو مزید وسعت دی اور عام اہل علم اور طلبہ کے ساتھ جدید پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ میں اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے عوامی خطبا میں سے دو شخصیتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں کہ مشکل سے مشکل علمی مسئلہ کو پبلک اجتماع میں ایسے سادہ اور فطری لہجے میں بیان کرتے تھے کہ سننے والوں میں سے شاید ہی کوئی استفادہ سے محروم رہتاہو۔ ان میں پہلا نمبر حکیم الامت حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کا ہے جبکہ میرے مطالعہ ومشاہدہ کے مطابق اس فن کے دوسرے امام ہمارے پاکستان کے معروف احراری خطیب حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ تھے۔ انہیں بھی ا للہ تعالیٰ نے اس فن سے نوازاتھا کہ مشکل ترین علمی مسئلہ کو عام فہم انداز میں اس سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کرجاتے تھے کہ کسی ان پڑھ دیہاتی کو بھی اسے سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی تھی۔
علم کلا م دین کے اہم ترین شعبوں میں سے ہے اور اسلامی عقائد واحکام کی تشریح ووضاحت کے لیے اپنے دور کے اسلوب بیان، اصطلاحات، زبان اور لوگوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ہر شخص اورطبقہ کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرنا دین کا اہم تقاضا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اسی ہتھیار کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرکے اپنے دور میں اسلامی عقائد کے خلاف مسیحیت اور آریہ سماج کے طوفانی حملوں کو ناکام بنایاتھا اور اپنے معاصرین میں اسلام کی برتری کے ساتھ ساتھ اپنی علمی وجاہت اورتفوق کا پرچم بلند کیا تھا۔ آج دین کی اہم ضروریات کا یہ پہلو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے اورہم آج کی دنیا میں اپنے ایک صدی پہلے کے علمی اسلوب اور اصطلاحات کے ذریعے دین سمجھانے کے درپے ہیں جس سے افہام وتفہیم کا ماحول بننے کی بجائے الجھاؤ اور کنفیوژن میں اضافہ ہورہاہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر ذریعہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور دینی احکام وقوانین کی تشریح میں ان کے اسلوب کا احیا کیا جائے اور وقت کے تقاضوں، اسلوب، اصطلاحات اور نفسیات کا ادراک کرتے ہوئے پورے شعور وحکمت کے ساتھ آج کے دور میں اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنجز کا سامنا کیا جائے۔