حدیث وسیرت کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھے سال تھی، جبکہ ان کی رخصتی اس کے تین سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حدیث وسیرت کے کلاسیکی اہل علم کے ہاں اسی بات پر اتفاق چلا آ رہا ہے، تاہم دور جدید میں بعض اہل علم نے متعدد پہلووں سے ان روایات پر شبہات وارد کیے ہیں اور ان کے تاریخی وواقعاتی استناد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی تحریروں سے اس زاویہ نظر کا بنیادی محرک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر مستشرقین کے اعتراض کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اس کم سنی میں ام المومنین کے ساتھ آپ کے نکاح کو ایک غیر اخلاقی فعل کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاہم متعلقہ روایات کو ناقابل قبول ثابت کرنے کے لیے ان حضرات کی طرف سے متعدد علمی نکات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور زیر بحث روایات کی تائید یا تردید کے ضمن میں متعدد اہل قلم کی نگارشات سامنے آ چکی ہیں، تاہم بعض پہلووں سے یہ بحث کسی قدر تشنہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں ہم زیر نظر سطور میں اس بحث کے مختلف پہلووں کے حوالے سے اپنا طالب علمانہ نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
روایات کی اسنادی حیثیت
سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ محدثانہ معیار کے لحاظ سے زیر بحث روایات کا مقام ومرتبہ اور حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے سے متعدد ناقدین نے جس نکتے کو بہت نمایاں طور پر بلکہ استدلال کے مرکزی نکتے کے طور پر پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی روایات کے مرکزی راوی کی حیثیت ہشام بن عروہ کو حاصل ہے جو محدثین کی تصریح کے مطابق مدینہ منورہ سے بصرہ چلے جانے کے بعد آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور چونکہ ان سے زیر بحث روایات کو نقل کرنے والے تمام راوی اہل بصرہ میں سے ہیں، جبکہ ان کے مدنی تلامذہ میں سے کسی نے یہ روایت نقل نہیں کی، اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت انھوں نے اپنے اختلاط کے دور میں بصرہ میں بیان کی تھی اور یہ چیز ان کے بیان کو قابل اعتماد نہیں رہنے دیتی۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ نکتہ جس قدر زور وشور سے اٹھایا گیا ہے، علمی وتاریخی لحاظ سے اتنا ہی کمزور اور بے بنیاد ہے، اس لیے کہ حدیث وسیرت کی کتب میں اس مضمون کی روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین کی عمر بالترتیب چھے اور نو سال ہونے کی بات خود ام المومنین سے ایک درجن کے قریب الگ الگ سندوں سے مروی ہے اور ام المومنین کے متعدد شاگردوں نے یہ روایت ان سے مختلف الفاظ میں اجمالاً یا تفصیلاً نقل کی ہے۔ ان رواۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ عروہ بن زبیر
ان سے اس روایت کو ان کے درج ذیل چار شاگردوں نے نقل کیا ہے:
الف۔ ہشام بن عروہ (بخاری، ۳۶۸۱۔ مسلم، ۱۴۲۲)
ب۔ ابن شہاب زہری (مسلم، ۱۴۲۲)
ج۔ ابو الزناد (المعجم الاوسط، ۶۹۵۷)
د۔ عبد اللہ بن عروۃ (معرفۃ الثقات، ۲۳۴۳)
گویا عروہ بن زبیر سے اس روایت کو نقل کرنے میں ہشام متفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کے تین متابع بھی موجود ہیں جن میں حدیث وسنت کے جلیل القدر امام، ابن شہاب زہری بھی شامل ہیں۔
۲۔ اسود بن یزید (مسلم، ۱۴۲۲)
۳۔ عبد اللہ بن صفوان (مستدرک حاکم، ۶۷۳۰)
۴۔ عبد اللہ ابن ابی ملیکۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۵)
۵۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن (سنن النسائی، ۳۳۷۹)
۶۔ قاسم بن محمد (الآحاد والمثانی ۳۰۰۷۔ طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۲)
۷۔ عبد الملک بن عمیر (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۹)
۸۔ عبد الرحمن بن محمد بن زید بن جدعان (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۳۱)
۹۔ یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب (مسند احمد، ۲۵۸۱۰۔ مسند ابی یعلیٰ، ۴۶۷۳۔ مسند اسحاق بن راہویہ، ۱۱۶۴)
۱۰۔ عمرۃ بنت عبد الرحمن (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/۵۸)
۱۱۔ ابو عبیدۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۹)
اس کے ساتھ اگر ذخیرۂ حدیث وسیرت کی ان روایات کو بھی شامل کر لیا جائے جن میں ام المومنین عائشہ کا واسطہ موجود نہیں اور بعض دوسرے صحابہ یا تابعین نے یہی مضمون بیان کیا ہے تو اس بات کا تاریخی ثبوت مزید یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ روایات درج ذیل ہیں:
۱۲۔ ابو عبیدۃ عن عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۷)
۱۳۔ ابو اسحاق عن مصعب بن سعد (الطبقات الکبریٰ ۸/۶۰)
۱۴۔ یزید بن جابر عن ابیہ (مستدرک، ۶۷۱۴)
۱۵۔ ابوعبیدہ عن جابر بن زید (مسند الربیع، ۵۲۲، ۷۴۱)
۱۶۔ حبیب مولیٰ عروۃ (مستدرک، ۶۷۱۶)
۱۷۔ جعفر بن برقان عن الزہری (الطبقات الکبریٰ ۸/۶۱)
۱۸۔ سعید بن ابی عروبۃ عن قتادۃ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۲۳/۱۹)
یہ ڈیڑھ درجن روایات بنتی ہیں اور ہشام بن عروہ کا نام ان میں سے صرف ایک سند یعنی عروہ بن زبیر کی سند میں آتا ہے، جبکہ باقی تمام سندوں سے ان کا سرے سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، اس لیے یہ نکتہ کہ بوقت رخصتی ام المومنین کی عمر نو سال ہونے کی بات اکیلے ہشام بن عروہ نے اپنے اختلاط کے دور میں بیان کی ہے، علمی لحاظ سے بالکل ناقابل التفات ہے۔
مخالف تاریخی قرائن ودلائل
بحث کی تکمیل کے لیے ان تاریخی استدلالات کا ایک جائزہ لینا بھی ضروری ہے جو اس دعوے کے حق میں پیش کیے گئے ہیں کہ ام المومنین کی عمر اس موقع پر نو سال سے کہیں زیادہ تھی اور یہ کہ وہ اس وقت اٹھارہ یا انیس سال کی نوجوان لڑکی تھیں۔ اس نوعیت کے استدلالات کا ایک جامع خلاصہ مولانا حبیب الرحمن کاندھلویؒ نے اپنے رسالہ ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘ میں بیان کر دیا ہے، اس لیے سہولت کی غرض سے ہم نے نقد وتبصرہ کے لیے انھی کی تحریر کو بنیاد بنایا ہے۔
مولانا کاندھلویؒ نے اس ضمن میں کل چوبیس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو اس قیاس پر مبنی ہیں کہ مختلف روایات میں ام المومنین کا اور ان کے مختلف ذمہ داریاں انجام دینے کا ذکر جس انداز سے ہوا ہے، ان سے ایک نوعمر بچی کا نہیں بلکہ ایک جوان لڑکی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ:
- جب حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی ترغیب دی تو آپ کے پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ میرے ذہن میں دو رشتے ہیں۔ ایک کنواری لڑکی یعنی عائشہ ہے اور دوسری ایک شوہر دیدہ خاتون یعنی سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا۔
- ہجرت کے بعد جب ام المومنین کے اہل خانہ نئی آب وہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تو وہ ان کی تیمار داری کرتی رہیں۔
- وہ غزوۂ احد میں، (بلکہ مولانا کاندھلوی کی تحقیق کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی) شریک ہوئیں اور خواتین کے ساتھ مل کر زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں، جبکہ اسی غزوے میں چودہ سال کے لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔
- ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ وہ اسامہ بن زید کی ناک پونچھ دیں یا ان کے زخم سے خون صاف کر دیں۔
معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ امور کو اس دعوے کے حق میں تائیدی قرائن کے طور پر اسی وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب کسی دوسری صریح اور مضبوط دلیل سے بنیادی مقدمہ ثابت ہو جائے۔ اس کے بغیر مذکورہ تمام قرائن ایک کمزور اور بالواسطہ استنباط سے زیادہ درجہ نہیں رکھتے اور ان کی بنیاد پر خود ام المومنین کے واضح اور صریح بیان کو علمی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات ایسے مفروضات پر مبنی ہیں جن کا اپنا ثبوت تاریخی لحاظ سے یقینی نہیں۔ مثلاً ام المومنین سے روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں سورۂ قمر کی آیت: ’بل الساعۃ موعدہم والساعۃ ادہی وامر‘ اتری تو میں ایک لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔ (بخاری، ۴۵۹۵) اس سورہ کی پہلی آیت میں شق قمر کے معجزے کا ذکر ہوا ہے جو مکی دور نبوت میں رونما ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معجزے کے ظہور کے وقت ام المومنین کی عمر اتنی تھی کہ وہ کھیلتی پھرتی تھیں اور انھیں اس بات کا بھی شعور تھا کہ قرآن کی فلاں آیت نازل ہوئی ہے۔ چونکہ سورہ کے داخلی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری سورہ یک بارگی نازل ہوئی ہوگی، اس لیے اگر متعین طور پر معلوم ہو جائے کہ شق القمر کا معجزہ کس سن میں رونما ہوا تھا تو ام المومنین کا مذکورہ بیان کسی حد تک قرینہ بن سکتا ہے، تاہم ذخیرۂ سیرت میں اس معجزے کے زمانہ ظہور کی تعیین سے متعلق کوئی قابل وثوق قرائن موجود نہیں۔
اردو کے سیرت نگاروں میں سے مولانا مودودی نے اس واقعے کو ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، ۵/۲۲۹) تاہم انھوں نے ان قرائن یا دلائل کا ذکر نہیں کیا جن سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اس کے برخلاف سید سلیمان ندوی کی رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے کا ہے ۔ (سیرت النبی ۳/۱۷۰) فرض کیجیے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے تو بھی اس وقت ام المومنین کی عمر معروف روایت کے مطابق تین سال بنتی ہے اور ایک غیر معمولی طور پر ذہین وفطین بچی کو اس عمر میں سنی ہوئی ایک آیت کا یاد رہ جانا کوئی بعید از امکان بات نہیں۔
یہاں مولانا کاندھلوی نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بظاہر ناقابل فہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔ مفسرین کا بیان ہے کہ یہ سورت سن ۴ نبوی میں نازل ہوئی۔‘‘ (ص ۱۸) یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں۔ اگر شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل رونما ہوا ہو تو یہ ۸ نبوی کا سن بنتا ہے، چنانچہ سورۃ القمر کا نزول بھی اس کے بعد ہی ماننا چاہیے۔ واقعہ اگر ۸ نبوی کا ہے تو سورۃ ۴ نبوی میں کیونکر نازل ہو سکتی ہے؟
اسی طرز استدلال کی ایک اور مثال دیکھیے:
ایک روایت میں ام المومنین یہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو انھیں صورت حال کا پورا شعور تھا۔ (بخاری، ۴۶۴) اس بیان کو کسی دلیل کے بغیر ۵ نبوی میں (جو عام روایت کے مطابق ام المومنین کا سن ولادت بھی ہے) کی جانے والی اجتماعی ہجرت حبشہ پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ حبشہ کی طرف اجتماعی ہجرت اس کے بعد یعنی ۷ نبوی میں بھی ہوئی، جبکہ سیدنا صدیق اکبر کے ارادۂ ہجرت کے بارے میں محدثین کا خیال یہ ہے کہ وہ شعب ابی طالب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محصور کیے جانے کے بعد ۷ یا ۸ نبوی کاواقعہ ہے، (فتح الباری ۷/۲۳۲) بلکہ بعض ارباب سیرت نے اسے ہجرت مدینہ کے بالکل قریب ۱۳ نبوی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ۳/۴۹۹۔ تاریخ الخمیس، ۳/۳۱۹) ظاہر ہے کہ ان مختلف احتمالات کی موجودگی میں یقینی طورپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ام المومنین کی روایت میں حبشہ کی طرف جس ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے، وہ ۵ نبوی ہی کی ہجرت حبشہ ہے۔
مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات بالکل سوء فہم پرمبنی ہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے سیدنا ابوبکر کے نکاحوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں دو نکاح کیے تھے۔ ایک قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے جن سے عبد اللہ اور اسماء پیدا ہوئیں اور دوسرا ام رومان سے جن سے عائشہ اور عبد الرحمن پیدا ہوئے۔ اس موقع پر طبری نے لکھا ہے:
فکل ہولاء الاربعۃ من اولادہ ولدوا من زوجتیہ اللتین سمیناہما فی الجاہلیۃ وتزوج فی الاسلام اسماء بنت عمیس (تاریخ طبری ۲/۳۵۱)
’’ان کے یہ چاروں بچے ان کی زمانہ جاہلیت کی دو بیویوں سے پیدا ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، جبکہ اسلام کی حالت میں انھوں نے اسماء بنت عمیس سے نکاح کیا۔‘‘
یہاں ’فی الجاہلیۃ‘ کا تعلق ’زوجتیہ‘ سے ہے اور مراد ہے وہ دو بیویاں جن سے سیدنا ابوبکر نے زمانہ جاہلیت میں نکاح کیا تھا، لیکن اس کا تعلق ’ولدوا‘ سے جوڑتے ہوئے مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ چاروں بچے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔
بعض دلیلوں میں روایات سے صریحاً کھینچ تان کر، بلکہ ان کے اصل مدعا کے بالکل برعکس نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ام المومنین کا یہ بیان منقول ہے کہ:
لم اعقل ابوی الا وہمایدینان الدین ولم یمر علینا یوم الا یاتینا فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفی النہار بکرۃ وعشیۃ (بخاری، ۴۶۴)
’’مجھے اپنے والدین کے بارے میں شعور ہوا تو وہ اس دین کو اختیار کیے ہوئے تھے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور شام کو ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔‘‘
ام المومنین کی مراد یہ ہے کہ بدو شعور سے ہی انھوں نے اپنے والدین کو اسلام پر قائم دیکھا۔ اسلوب سے واضح ہے کہ بعثت نبوی اور ان کے والدین کے اسلام کو قبول کرنے کا واقعہ ان کے شعور کی عمر سے پہلے ہو چکا تھا، چنانچہ اپنے شعور کی ابتدا سے ہی انھوں نے جو کیفیت دیکھی، وہ یہ تھی کہ والدین اسلام پر قائم تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز صبح اور شام کے اوقات میں ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ لیکن اس روایت سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اس حدیث میں برملا یہ دعویٰ فرما رہی ہیں کہ بعثت نبوی کے وقت میں صاحب عقل وہوش تھی اور یہ جو کچھ پیش آتا رہا، میری نظروں کے سامنے ہوتا رہا۔‘‘ (حبیب الرحمن کاندھلوی، ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘، ص ۳۱) یہ بدیہی طور پر اپنے ذہنی مفروضات کو روایت کے الفاظ میں پڑھنے کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔
مولانا کی پیش کردہ ایک اور دلیل میں بھی غالباً سوء فہم ہی کارفرما ہے۔ انھوں نے طبری کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکی عہد میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو یہ چاہا کہ اپنی بیٹی عائشہ کو، جن کی نسبت اس سے پہلے جبیر بن مطعم کے ساتھ طے ہو چکی تھی، رخصت کر دیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں مطعم بن عدی اور ان کی اہلیہ سے بات کی تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تمھاری بیٹی ہمارے بیٹے کو بھی بے دین بنا دے گی۔ مولانا نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین اس وقت کوئی چھوٹی بچی نہیں، بلکہ جوان اور رخصتی کے قابل تھیں۔
تاہم مولانا نے سیدنا ابوبکر اور مطعم بن عدی کے مکالمے کا واقعہ جس تناظر میں بیان کیا ہے، طبری میں وہ اس سے بالکل مختلف سیاق میں نقل ہوا ہے۔ وہاں نہ تو سیدنا ابوبکر کے ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے اور نہ ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن معطم کے گھر بھیج دینے کے حقیقی ارادے کا۔ طبری نے یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے کہ جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر سیدنا ابوبکر سے سیدہ عائشہ کے رشتے کے لیے بات کی تو ان کی والدہ ام رومان نے کہا کہ عائشہ کے رشتے کی بات مطعم بن عدی اپنے بیٹے کے لیے کر چکے ہیں اور ابوبکر وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اس پر سیدنا ابوبکر ام المومنین کی رخصتی کے ارادے سے نہیں، جیسا کہ مولانا کاندھلوی نے بیان کیا ہے، بلکہ اپنے وعدے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے لیے مطعم بن عدی اور ان کی بیوی کے پاس گئے اور اس موقع پر جو گفتگو ہوئی، اس میں مطعم اور ان کی اہلیہ نے یہ کہا کہ اگر ہم تمھاری بیٹی کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کر دیں گے تو وہ اسے بھی بے دین بنا دے گی۔ (طبری، ۲/۲۱۲)
معلوم نہیں مولانا نے اس واقعے کو سیدنا ابوبکر کے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے کیسے جوڑ دیا اور پھر یہ نتیجہ کیسے اخذکر لیا کہ وہ واقعی اس موقع پر ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن مطعم کے گھر بھیجنا چاہتے تھے۔
مولانا نے عربی زبان وادب اور تاریخ وانساب میں ام المومنین کی مہارت کو بھی اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال نہیں ہو سکتی۔ ان کا فرمانا ہے کہ ’’مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل مکہ کی زندگی سے بالکل مختلف تھے۔ یہاں قرآن، صوم وصلوٰۃ کے مسائل اور ملکی مہمات پیش نظر رہتیں۔ یہاں کا ماحول یہی تھا۔ اس ماحول کا انساب، تاریخ، شعر وشاعری سے کوئی دورکا واسطہ نہ تھا۔ ....... لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ام المومنین نکاح سے قبل عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ انھوں نے یہ تمام فنون اپنے والد سے حاصل کیے۔‘‘ (ص ۴۹، ۵۰)
یہ ایک عجیب وغریب استدلال ہے۔ اس وقت کے عرب تمدن میں مذکورہ علوم سکھانے کے لیے کوئی باقاعدہ تعلیمی یا تحقیقی ادارے قائم نہیں تھے جن سے وابستگی علمی وتحقیقی مہارت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہ چیزیں خدادا د فہم وفراست کے ساتھ ساتھ ارد گردکے ماحول اور شخصیات سے ہی سیکھی جاتی تھیں اور ام المومنین کو اس کے مواقع شادی کے بعد بھی پوری طرح میسر تھے۔ اپنے والد کے ساتھ بھی ان کا رابطہ تھا اور مدینہ میں موجود مہاجرین اورانصار کی خواتین، بلکہ یہودی عورتیں بھی ان سے ملنے کے لیے آتی رہتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ شعر وشاعری نہ سہی، تاریخ وانساب کا علم بہرحال سیکھ سکتی تھیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قرآن اور صوم وصلوٰۃ ہی کی باتیں نہیں کرتے رہتے تھے، بلکہ مجلس کی مناسبت سے ہر طرح کے موضوع پر گفتگو میں شریک ہوتے تھے اور مختلف امور سے متعلق آپ کی معلومات پر بسا اوقات صحابہ بھی حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔
تاریخی اعتبار سے مولانا کی پیش کردہ صرف دو دلیلیں ایسی ہیں جن میں کھینچا تانی اور تکلف کا عنصر نہیں پایا جاتا اور جو کسی حد تک قابل توجہ ہیں۔
ایک یہ کہ مورخ ابن اسحاق نے، جن کا بیان ابن ہشام نے بھی نقل کیا ہے، اپنی سیرت میں عہد مکی میں ان حضرات کا ذکر کرتے ہوئے جنھوں نے بعثت نبوی کے بعد بالکل ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا، دوسرے بہت سے افرادکے ساتھ سیدنا ابوبکر کی صاحب زادیوں سیدہ اسماء اور سیدہ عائشہ کا بھی نام درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ عائشہ اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں۔ (سیرۃ ابن اسحاق ۲/۱۲۴۔ سیرت ابن ہشام ۲/۹۲)
بظاہر اس بیان سے مولانا کا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ’’ابن ہشام کی تصریح کے مطابق ..... ام المومنین حضرت عائشہؓ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے کافی قبل سن ۱ نبوت میں مشرف بااسلام ہو چکی تھیں۔‘‘ (تحقیق عمر عائشہ، ص ۳۵) تاہم ابن اسحاق کے اس بیان کو ام المومنین کے اپنے بیان کی تردید کے لیے بنیاد بنانا اس لیے درست نہیں کہ اول تو ابن اسحاق نے اپنے اس بیان کا کوئی ماخذ نہیں بتایا۔ یہ یا تو ان تک پہنچی ہوئی کوئی ایسی اطلاع ہے جس کی سند معلوم نہیں اور یا پھر محض سبقت قلم ہے۔ دوسرے امکان کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن اسحاق اور ان کے شاگرد ابن ہشام، دونوں نے سیدہ عائشہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرتے ہوئے ام المومنین کا وہی معروف بیان نقل کیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ ان کا نکاح چھے سال کی عمر میں جبکہ رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (سیرۃ ابن اسحاق، ۵/۲۳۹۔ سیرت ابن ہشام، ۶/۵۷)
دوسرا استدلال جسے اس معاملے میں بظاہر نتیجہ خیز کہا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے اسے اس نقطہ نظر کے کم وبیش سبھی حاملین نے بیان کیا ہے، یہ ہے کہ ام المومنین کی ہمشیرہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ معلوم ہے کہ ان کی وفات ۷۳ھ میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دن بعد ہوئی تھی۔ اس ضمن میں تاریخی روایات میں دو مزید باتیں ملتی ہیں۔ ایک ان کے بیٹے عروہ بن زبیر کا یہ بیان کہ وفات کے وقت سیدہ اسماء کی عمر سو سال تھی (ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۲۲) اور دوسرے، ابن ابی الزناد کا یہ بیان کہ اسماء، ام المومنین عائشہ سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ (ابن عبد البر، الاستیعاب ۲/۶۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ۱۱۹۲۷۔ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۱۰) ان دونوں بیانات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہجرت کے موقع پر سیدہ اسماء کی عمر ۲۷ سال تھی اور چونکہ وہ ام المومنین عائشہ سے دس سال بڑی تھیں، اس لیے ہجرت کے موقع پر ام المومنین کی عمر ۱۷ سال ہونی چاہیے۔
یہ دلیل اس ضمن میں پیش کی گئی سب دلیلوں میں زیادہ قوی اور متاثر کن ہے، تاہم ہمارے خیال میں دو وجوہ اسے فیصلہ کن قرار دینے میں مانع ہیں۔
ایک یہ کہ مذکورہ نتیجہ عروہ بن زبیر اور ابن ابی الزناد، دونوں کے بیانات کو درست مان کر باہم ملائے بغیر نکالنا ممکن نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے عروہ بن زبیر تو سیدہ اسماء کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے گھر کے آدمی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کے بیان پر اعتماد نہ کیا جائے، لیکن ابن ابی الزناد کے بیان کی حیثیت یہ نہیں ہے۔ وہ تبع تابعی ہیں، یعنی ام المومنین کے ہم عصر نہیں۔ اس کے اس بیان کا ماخذ بالکل معلوم نہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ محض ان کا اندازہ یا کوئی سنی سنائی بات ہو۔ پھر ابن عبد البر نے ان کے بیان کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں کہ ’کانت اکبر من عائشۃ بعشر سنین او نحوہا‘۔ (الاستیعاب ۲/۶۱۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ متعین طور پر دس سال کے فرق کو وہ بھی جزم کے ساتھ بیان نہیں کر رہے۔ غالباً ذہبی نے اسی بات کے پیش نظر یہ لکھا ہے کہ:
کانت اسن من عائشۃ ببضع عشرۃ سنۃ (سیر اعلام النبلاء ۲/۲۸۸)
’’اسماء، عائشہ سے تیرہ تا انیس سال بڑی تھیں۔‘‘
دوسری بات یہ کہ عروہ بن زبیر نے جس سیاق میں اپنی والدہ کی عمر سو سال ہونے کی بات کہی ہے، اس سے یہ قوی تاثر ملتا ہے کہ ان کا مقصد متعین طور پر (Exactly) ان کی عمر بتانا نہیں، بلکہ دراصل ان کے بڑھاپے کو نمایاں کرنا ہے۔ عروہ کا بیان ہے:
کانت اسماء وقد بلغت ماءۃ سنۃ ولم یقع لہا سن (تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۲۷)
’’اسماء کی عمر سو سال کو پہنچ گئی تھی، پھر بھی ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔‘‘
تاریخ وسیرت کی روایات میں کسور کا اعتبار نہ کرتے ہوئے پوری دہائیوں کے لحاظ سے تاریخیں اور عمریں بیان کر دینے کا اسلوب عام ہے، اس لیے اگر ۷۳ھ میں وفات کے وقت ان کی عمر چرانوے یا پچانوے سال بھی ہو تو زبان کے عام اسلوب کے مطابق اس کو سو سال سے تعبیر کر دینے میں کوئی مانع نہیں۔ خاص طور پر جب گفتگو کا سیاق سیدہ اسماء کے بڑھاپے کو نمایاں کرنے کا تقاضا کر رہا ہو تو ایسے موقع پر مبالغے کے اسلوب میں یہ کہہ دینا کہ ’’سو سال کی عمر میں بھی ان کے دانت بالکل سلامت تھے‘‘ ہرگز اس کا متحمل نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر سیدہ اسماء کی عمر متعین طور پر پورے سو سال قرار دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین بھی اس نتیجے کو ماننے پر متفق نہیں ہیں اور علامہ ذہبی نے ابن ابی الزناد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
فان کان ما ذکرہ ابن ابی الزناد صحیحا من ان اسماء تکبر عائشۃ بعشر سنوات فہذا یعنی ان اسماء ماتت عن عمر ۹۱ سنۃ (تاریخ الاسلام ۵/۳۵۴۔ نیز دیکھیے سیر اعلام النبلاء ۳/۳۸۰)
’’اگر ابن ابی الزناد کا یہ بیان درست ہے کہ اسماء، عائشہ سے دس سال بڑی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا انتقال اکانوے سال کی عمر میں ہوا۔‘‘
فرض کر لیں کہ نکاح کے وقت اپنی عمر کے بارے میں خود ام المومنین کے اپنے صریح اور مستند بیان کو چھوڑ دوسرے افراد کی عمر اور تاریخ وفات سے ان کی عمر متعین کرنے کی علمی طور پر گنجائش ہے۔ اس صورت میں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ تاریخی کتابوں میں صرف سیدہ اسماء کی عمر اور سن وفات مذکور نہیں، بلکہ سیدہ عائشہ کی عمر اور سن وفات بھی ذکر کی گئی ہے۔ ان کے سن وفات کے متعلق ۵۶ھ، ۵۷ھ، ۵۸ھ اور ۵۹ھ کے مختلف اقوال موجود ہیں، تاہم عام طور پر مورخین نے ۵۸ھ کے قول کو قبول کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ وسیرت کی کتابو ں میں اس کی بھی تصریح ہے کہ وفات کے وقت ام المومنین کی عمر ۶۶ برس تھی۔ (الطبقات الکبریٰ، ۸/۷۸۔ تاریخ مدینۃ دمشق ۳/۲۰۳۔ المنتظم ۵/۳۰۳) ۶۶ میں سے ۵۸ برس نکال دیے جائیں تو ہجرت مدینہ کے وقت ان کی عمر ۸ سال بنتی ہے جو ام المومنین کے اس بیان کے عین مطابق ہے کہ ان کی رخصتی ہجرت مدینہ کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
کم سنی کی شادی کی اخلاقی حیثیت
جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ نو سال کی کم سن بچی کے ساتھ نکاح کرنا اخلاقی طور پر ایک معیوب بات لگتی ہے تو یہ اشکال دراصل معاشرت اور تمدن کے تغیر اور تہذیب وثقافت کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگرچہ انسانی نفسیات میں حاسہ اخلاقی (Moral Sense) کا وجود اور بنیادی اخلاقی تصورات کا شعور تمام انسانوں کے مابین ایک مشترک چیز ہے، لیکن کسی مخصوص معاملے پر اخلاقی اصولوں کا انطباق کرتے ہوئے اسے اخلاقی یا غیر اخلاقی قرار دینے میں انسانوں کے زاویہ نظر اختلاف ہو سکتا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی تہذیب یا معاشرت کے اپنے مخصوص تجربات، ماحول اور عرف ورواج کا بھی خاصا دخل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک معاشرت میں ایک چیز اخلاقی طور پر بالکل درست سمجھی جاتی ہو، جبکہ کوئی دوسرا معاشرہ بعینہ اسی چیز کو غیر اخلاقی تصور کرتا ہو۔ مثال کے طور پر ہندو معاشرے میں صدیوں تک ’ستی‘ کی رسم رائج رہی ہے اور اس کا باقاعدہ اخلاقی اور مذہبی جواز پیش کیا جاتا تھا، لیکن اسلامی تصورات کی رو سے اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اسلام میں مختلف معاشرتی جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں پر ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے جیسی سزائیں نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ جدید مغربی تہذیب ان سزاؤں کو غیر انسانی اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتی ہے۔ یہی معاملہ بہت سے ایسے امور کا ہے جنھیں مغربی تہذیب میں اخلاقی لحاظ سے بالکل درست سمجھا جاتا ہے، لیکن دنیا کے دوسرے معاشرے اور خاص طور پر مسلمان معاشرے اپنی مذہبی واخلاقی روایات کی روشنی میں انھیں جائز تسلیم نہیں کرتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حاسہ اخلاقی اور بنیادی اخلاقی تصورات کے سارے انسانوں کے مابین مشترک ہونے کے باوجود ان کے عملی انطباق میں اختلاف ہو سکتا ہے اور عملاً ایسا اختلاف دنیا میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں یہ طے کرنے کے لیے کہ کسی مخصوص معاملے میں کسی فرد یا گروہ کا کوئی عمل اخلاقیات کے دائرے کے اندر تھا یا اس سے متجاوز، اس بنیادی نکتے کو ملحوظ رکھنا بے حد اہم ہے کہ جس معاشرے اور ماحول میں اس عمل کو انجام دیا گیا، وہاں اس کی اخلاقی حیثیت کیا سمجھی جاتی تھی اور عمومی طور پر لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ کسی بھی شخص کو دانستہ بد اخلاقی کا مرتکب قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے معاشرتی تصورات کی رو سے اسے ایک غیر اخلاقی عمل سمجھتا ہو اور اس کے باوجود اس نے اس کا ارتکاب کیا ہو۔ کسی دوسرے معاشرتی ماحول سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے تصورات اور عادات کے لحاظ سے اس پر اچنبھا بھی محسوس کر سکتے ہیں اور اسے غیر اخلاقی بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ محض ان کے اپنے احساس کا بیان ہوگا جسے ایک آفاقی معیار کی حیثیت دینا بعض صورتوں میں خود بہت سے اخلاقی اصولوں کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں۔
کم سنی کی شادی کے متعلق جدید ذہن کا منفی تاثر بھی ہمارے نزدیک اسی نوعیت کی چیز ہے۔ متعدد وجوہ سے، جن میں جدید طبی تحقیقات اور ناگوار معاشرتی تجربات زیادہ اہم ہیں، جدید ذہن کم سنی میں لڑکی کی شادی سے ایک طرح کا توحش محسوس کرتا ہے جو ایک مخصوص تناظر میں بجا اور قابل فہم بھی ہے، تاہم عہد نبوی کی عرب معاشرت میں نو سال کی عمر میں لڑکی کی رخصتی کوئی عجیب اور خاص طور پر کوئی غیر اخلاقی معاملہ ہرگز نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات اول تو اسی سے واضح ہے کہ ام المومنین کو رخصت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دینے کی پیش کش خود ام المومنین کے والد سیدنا ابوبکر نے کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تھا۔ اس پر کسی بھی طرف سے کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کے ایک ایک عمل پر نہ صرف مشرکین اور یہود ونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہ کی بھی خاص طور پر نظر تھی اور وہ آپ کی شخصیت کو اخلاقی طور پر مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس درجے میں منفی پراپیگنڈے کا موضوع بنایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو سورۃ الاحزاب میں باقاعدہ اس مسئلے کی نوعیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کی غرض وغایت اور حکمت واضح فرمانا پڑی۔ اس کے برعکس ام المومنین عائشہ کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اس قسم کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر حدیث وسیرت کی روایات میں نہیں ملتا۔
پھر عرب معاشرت کے عرف اور ماحول کے لحاظ سے نو سال کی عمر میں لڑکی کے قابل نکاح ہونے پر مزید روشنی اس بات سے پڑتی ہے کہ خود ام المومنین سے باقاعدہ یہ فقہی فتویٰ منقول ہے کہ جب لڑکی نو سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ ’عورت‘ ہوتی ہے۔ (ترمذی، ۱۱۰۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ، ۱۴۲۵) مزید برآں اسی زمانے میں صرف خاندان قریش میں کم سے کم دو مثالیں ایسی ملتی ہیں جن میں اس عمر میں لڑکیوں کی رخصتی کر دی گئی۔
پہلا واقعہ سیدنا علی کی دختر سیدہ ام کلثوم کا ہے جن کا نکاح صغر سنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر ان کے ساتھ کیا گیا۔ نکاح کے وقت ان کی متعین عمر کا ذکر تو ہمیں کسی روایت میں نہیں ملا، تاہم یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ سیدنا عمر کی فرمائش پر سیدنا علی نے ابتداءً ان کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ ام کلثوم کی عمر ابھی بہت کم ہے، لیکن سیدنا عمر نے کہا کہ میں یہ نکاح محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیے کرنا چاہتا ہوں جس پر سیدنا علی نے رضامندی ظاہر کر دی۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۳۱۷۲)
دوسرا واقعہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہند کا ہے جن کا نکاح عبد اللہ بن عامر بن کریز کے ساتھ کیا گیا اور نو سال کی عمر میں ان کی رخصتی کر دی گئی۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق ۷۰/۱۸۸)
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جن معاملات میں شریعت نے وجوب اور فرضیت کے درجے میں کسی بات کا حکم نہیں دیا، ان میں کسی بھی معاشرت اور ثقافت کی مخصوص حساسیتوں کو ملحوظ رکھنا یقیناًحکمت ومصلحت کا تقاضا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو ایک مطلق معیار مان کر دوسرے معاشروں اور خاص طور پر عہد نبوی کی مسلم معاشرت بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور اقدامات کو بھی اس پر پرکھنا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ جس طرح عہد نبوی کی بعض مثالوں کی بنیاد پر اس بات پر اصرار کرنا درست نہیں کہ ہر دور اور ہر معاشرے میں کم سنی کی شادیوں کو لازماً جائز رکھا جائے اور اس ضمن میں عملی حالات اور تجربات سے جو مفاسد سامنے آئے ہیں، انھیں بھی ملحوظ نہ رکھا جائے، اسی طرح یہ طرز فکر بھی درست نہیں کہ جدید معاشرتی تصورات کو معیار مان کر عہد نبوی وعہد صحابہ کی معاشرت کو ان پر پرکھنا شروع کر دیا جائے اور ہر اس بات کی نفی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے جو ثقافت، تمدن اور طرز معاشرت کے فرق کی وجہ سے آج کے جدید ذہن کو اجنبی اور غیر مانوس محسوس ہوتی ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ نو سال کی عمر میں کسی لڑکی کی رخصتی عہد نبوی کی عرب معاشرت کے لحاظ سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی اور عملاً بھی ایسا کوئی اعتراض اس نکاح کے حوالے سے نہیں کیا گیا، لیکن یہ بات بہرحال مسلم ہے کہ اس عہد میں لڑکیوں کی رخصتی عام طورپر اتنی کم عمر میں نہیں کی جاتی تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ام المومنین کے معاملے میں عام رواج سے ہٹ کر اس نوعمری میں نکاح اور پھر رخصتی کا طریقہ اختیار کیا گیا؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کے جواب پر غور کیا جائے تو معاملے کے بہت سے اہم پہلووں کو درست تناظر میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک بنیادی نکتہ تو یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کم عمری میں ام المومنین عائشہ کی رخصتی اصلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یا مطالبے پر نہیں، بلکہ خود ام المومنین کے اہل خانہ کی خواہش پر ہوئی تھی۔ جہاں تک ام المومنین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام نکاح کو قبول کرنے کا تعلق ہے تو سیدنا ابوبکرکے زاویہ نظر سے یہ فیصلہ اس لیے قابل فہم تھا کہ نکاح کا پیغام کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر کی طرف سے آیا تھا جنھیں وہ اپنی جان ومال اور دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، چنانچہ بدیہی طور پر ان کا احساس یہی ہونا چاہیے تھا کہ اگر ان کی بیٹی خدا کے پیغمبر کے گھر میں چلی جائے تو نہ صرف بیٹی کے لیے بلکہ خود سیدنا ابوبکر اور ان کے پورے خاندان کے لیے بھی اس سے بڑا شرف اور اعزاز کوئی نہیں ہو سکتا۔ نکاح کے وقت سیدہ عائشہ کی کم عمری کی وجہ سے فوری رخصتی نہیں ہو سکتی تھی اور ممکن ہے، عام حالات میں ام المومنین کی رخصتی کے لیے بھی اسی عمر کا انتظار کیا جاتا جس میں عام طور پر اہل عرب میں لڑکیوں کو رخصت کیا جاتا تھا، تاہم اسی دوران میں ہجرت مدینہ کا مرحلہ آ گیا۔ مدینہ میں اگرچہ ام المومنین سودہ بنت زمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں، لیکن غالباً ان کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر کے اہل خانہ کی توجہ اس طرف گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو آباد کرنے کے لیے عائشہ کی رخصتی جتنی جلدی ہو سکے، کر دی جانی چاہیے۔ چنانچہ ام المومنین کے اپنے بیان کے مطابق ان کی والدہ انھیں رخصتی سے پہلے اس ارادے سے عمدہ اور جسم کو بھر دینے والی خوراک کھلایا کرتی تھیں کہ انھیں رخصت کر کے رسول اللہ کے گھر بھیجا جا سکے۔ (ابن ماجہ، رقم ۳۳۲۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زاویہ نظر سے دیکھیے تو اس فیصلے کی ایک نمایاں وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آپ سیدنا ابوبکر کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید مستحکم بنانا اور دوستی کے اس تعلق کو ایک مضبوط خاندانی رشتے میں بدل دینا چاہتے تھے۔ یہ معلوم ہے کہ قبائلی معاشرت میں اس طرح کے رشتے سماجی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انھیں دو گھرانوں اور قبیلوں کے مابین تعلقات کے استوار کرنے اور انھیں مضبوط تر کرنے میں بے حد موثر ذریعے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب ترین ساتھیوں یعنی خلفاے راشدین کے ساتھ تعلق اور وابستگی کے اظہار اور اسے مضبوط تر بنانے کے لیے ان کے ساتھ صہری رشتے قائم کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا۔ سیدنا عمر کی بیٹی حفصہ بیوہ ہوئیں تو عدت گزرنے پر آپ نے ان کے لیے نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ سیدنا عثمان کے نکاح میں یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں، زینب اور ام کلثوم دیں اور سیدنا علی کے ساتھ اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح فرمایا۔
ام المومنین عائشہ کے ساتھ نکاح میں بھی سیدنا ابوبکر کے ساتھ تعلق کو صہری رشتے کی صورت دینے کی اس خواہش کا، کار فرما ہونا عین قرین قیاس ہے۔ اس مقصد کے لیے ام المومنین کی بڑی بہن سیدہ اسماء کا انتخاب بھی ممکن تھا، تاہم قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد جب نئے نکاح کا معاملہ زیر غور آیا تو اس وقت تک سیدہ اسماء کا یا تو زبیر بن العوام کے ساتھ باقاعدہ نکاح ہو چکا تھا یا کم سے کم نسبت ضرور طے ہو چکی تھی۔ چنانچہ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق ہجرت کے پہلے سال انھوں نے اس حالت میں مکہ سے مدینہ کا سفر کیا کہ وہ حاملہ تھیں اور مدینہ پہنچتے ہی انھوں نے عبد اللہ بن زبیر کو جنم دیا جو مدینہ میں مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے۔ (بخاری، رقم ۳۶۹۷) ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی عہد میں ہی ان کا نکاح زبیر بن العوام سے ہو چکا ہو۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ جب سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا ابوبکر کی بیٹی کے ساتھ نکاح کی تجویز پیش کی تو سیدہ اسماء کے بجائے سیدہ عائشہ کا نام لیا، (مستدرک حاکم، رقم ۲۷۰۴) حالانکہ اگر سیدہ اسماء اس وقت زبیر کے نکاح میں نہ ہوتیں یا ان کی نسبت نہ طے ہوئی ہوتی تو فطری طور پر خولہ کو انھی کا نام لینا چاہیے تھا۔
اس سارے معاملے میں ایک خاص پہلو سے منشاے خداوندی بھی شامل تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک موقع پر ام المومنین عائشہ کو بتایا کہ مجھے دو مرتبہ خواب میں تم ریشم کے ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی پیش کی گئیں اور مجھ سے کہا گیا کہ کپڑا ہٹا کر دیکھیے، یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں نے کپڑا ہٹایا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو شرمندۂ تعبیر بھی کر دے گا۔ (بخاری، رقم ۳۶۸۲)اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ام المومنین سے نکاح کا فیصلہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اللہ کی ایک منشاکو رو بعمل کرنے کا پہلو بھی یقیناًموجود تھا۔
سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے واضح فرمایا ہے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں ایک طرف چند اعلیٰ دینی واخلاقی اوصاف اور دوسری طرف دین کو سیکھنے اور سکھانے کی صلاحیت اور جذبہ مطلوب ہے۔ ان دونوں پہلووں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کے طور پر ام المومنین عائشہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی منشا اور اس کے بتائے ہوئے معیار کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ام المومنین کا جو مقام تھا، وہ احادیث میں کثرت سے بیان ہوا ہے۔ آپ کی وفا ت کے بعد ام المومنین کو اپنے علم وفضل، خداداد فراست اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وتربیت کی بدولت امت کی دینی وعلمی راہ نمائی کے دائرے میں بلند مقام حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روایت اور علمی وفقہی مسائل کی وضاحت کے ضمن میں انھوں نے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر رسول اللہ کی دوسری ازواج مطہرات کے تقابل میں دیکھا جائے تو علم دین کے حوالے سے امت کو جتنا فیض سیدہ عائشہ کی ذات سے پہنچا ہے، وہ دوسری کسی زوجہ کے حصے میں نہیں آیا۔
ہمارے خیال میں معاملے کے مذکورہ تمام پہلووں کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ام المومنین کی رخصتی کے سلسلے میں عرب کے عام رواج سے ہٹ کر کیوں معاملہ کیا گیا، بلکہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ام المومنین کے ساتھ نکاح میں جن بلند تر دینی مصالح کی رعایت پیش نظر تھی، وہ نکاح اور رخصتی کے حوالے سے عام رواج کی پابندی سے کہیں زیادہ اہم تھے۔
مذکورہ امور کے ساتھ ساتھ اگر دو مزید نکتوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو ہمارے خیال میں جدید ذہن کو اس الجھن سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے جس میں وہ گرفتار ہے:
ایک یہ کہ روایات میں بظاہر جو بات بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ نو سال کی عمر میں سیدہ عائشہ کو رخصت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیج دیا گیا اور اس کے بعد سے وہ بیوی کی حیثیت سے آپ کے ہاں مقیم رہیں۔ ام المومنین کے اسلوب بیان اور عمومی قیاس کا تقاضا یہی بنتا ہے کہ ام المومنین اس وقت جسمانی طور پر بلوغت کو پہنچ چکی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت سے ہی تعلقات زن وشو قائم کر لیے تھے۔ تاہم اگر یہ فرض کیا جائے کہ ام المومنین اس وقت بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں اور جسمانی طور پر تعلقات زن وشو قائم کرنا مناسب نہیں تھا تو پھر یہ قیاس کرنے میں نہ صرف یہ کہ علمی وعقلی طور پر کوئی مانع نہیں، بلکہ یہ فرض کرنا علم وعقل کا عین تقاضا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے یقیناًمناسب وقت کا انتظار فرمایا ہوگا۔ جب آپ ام المومنین کی کم سنی کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ ان کو اپنی عمر کے مطابق دل بہلانے کے لیے کھلونے میسر ہوں (مسلم، ۱۴۲۲۔ الطبقات الکبریٰ، ۸/۶۲) اور ان کی ہم عمر سہیلیاں ان کے ساتھ آ کر کھیلیں (بخاری، ۵۷۷۹) بلکہ ام المومنین کی دلداری کے لیے آپ خود انھیں مسجد نبوی میں ہونے والے کھیل تماشوں کو دیکھنے کی دعوت دیتے اور خود بھی دیر تک ان کے ساتھ کھڑے رہتے تھے (بخاری، ۴۸۹۴) تو یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے ام المومنین کے ساتھ تعلقات زن وشو کو کسی بھی پہلو سے اور خاص طور پر کم سنی کی وجہ سے نامناسب محسوس کرنے کے باوجود اس پر اصرار کیا ہوگا؟
ان معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حساسیت کی کیفیت یہ تھی کہ جب بنو کندہ کے سردار نعمان بن ابی الجون نے آپ سے خود فرمائش کر کے اپنی بیوہ بیٹی امیمہ کا نکاح آپ سے کر دیا اور وہ اپنے قبیلے سے رخصت ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ کے طور پر مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لے گئے تو یہ محسوس کر کے کہ اسے آپ کا قرب پسند نہیں، آپ نہ صرف فوراً پیچھے ہٹ گئے ، بلکہ اسے فوری طور پر نکاح سے آزاد کر کے واپس اس کے اہل خانہ کے پاس بھجوا دیا۔ (بخاری، ۴۹۵۵۔ مسند احمد، ۱۶۱۰۵) زیر بحث مسئلے میں بھی اس نکتے کے حوالے سے کوئی قیاس کرتے ہوئے کہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے فوراً بعد تعلقات زن وشو قائم کر لیے ہوں گے، آپ کی شخصیت کے اس مسلمہ پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ کسی بھی شخصیت اور اس کے کسی بھی عمل کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے اس شخصیت کے عمومی مزاج، اخلاق وکردار اور رجحانات کو ملحوظ رکھنا دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی نوعیت کے امور کے پیش نظر یہ فرمایا تھاکہ:
اذا حدثتکم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فظنوا برسول اللہ الذی ہو اہناہ واہداہ واتقاہ (ابن ماجہ، ۱۹، ۲۰)
’’جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات بتاؤں تو (اس کا مفہوم متعین کرتے ہوئے) رسول اللہ کے بارے میں ایسا گمان رکھو جو زیادہ خوش گوار، زیادہ راستی اور زیادہ تقویٰ پر مبنی ہو۔‘‘
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ام المومنین کے ساتھ صغر سنی کے نکاح میں جدید ذہن کو جتنی بھی ’’قباحتیں‘‘ دکھائی دیتی ہیں، وہ سب ام المومنین کے سامنے بھی تھیں، بلکہ وہ تو خود صاحب معاملہ تھیں۔ یہ رشتہ ام المومنین سے پوچھ کر طے نہیں کیا گیا تھا اور نہ رخصتی کے وقت ہی ان کا عندیہ معلوم کیا گیا۔ یہ عمر جس میں ان کے کندھے پر خانگی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا گیا، ان کے کھیلنے کودنے کی عمر تھی اور فرض کر لیجیے کہ وہ جسمانی طور پر بھی بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں۔ ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں پینتالیس سال کا فرق تھا جو عام طور پر میاں بیوی کے مابین جذباتی موافقت کے پیدا ہونے میں مانع ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کی بڑی اہمیت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں کے حوالے سے ام المومنین کا رد عمل کیا تھا اور خود ان کے اپنے تاثرات اور احساسات کیا تھے؟ یہ اس معاملے کا سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے جسے غیر مسلم معترضین بھی کلی طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان کے اعتراضات کے زیر اثر خود مسلمانوں کا جدید ذہن بھی اس نکتے پر توجہ نہیں دے رہا۔
اگر تو خود صاحب معاملہ کا تاثر اور احساس یہ تھا کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور اس کے حقوق اور جذبات واحساسات مجروح ہوئے ہیں تو مذکورہ تمام اعتراضات بے حد وزنی بن جاتے ہیں، لیکن ذخیرۂ حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جذباتی وابستگی اور محبت کی جو کیفیت ام المومنین عائشہ کے ہاں دکھائی دیتی ہے، اسے کسی مبالغے کے بغیر میاں بیوی کی باہمی محبت کے ایک آئیڈیل نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین کے جذباتی تعلق کا حال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنی مرحوم اہلیہ سیدہ خدیجہ کا ذکر سن کر بھی وہ رقابت کے جذبات محسوس کرتی تھیں اور وہ بعض اوقات محبت اور ناز میں یہ کہہ کر آپ کو ٹوک بھی دیا کرتی تھیں کہ اللہ نے آپ کو اس سے اچھی بیوی عطا کر دی ہے، پھر آپ کیوں ایک بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں؟ (بخاری، ۳۶۱۰) وہ اپنی باری کی رات میں اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر دیکھتی رہتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ہی موجود ہیں یا کہیں اور چلے گئے ہیں ، بلکہ ایک موقع پر وہ رات کے اندھیرے میں تلاش کرتے کرتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قبرستان جا پہنچی تھیں جہاں آپ اہل ایمان کے لیے دعا اور استغفار میں مصروف تھے۔ (مسلم، ۴۸۶، ۹۷۴) ایک موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی تمام ازواج کو یہ اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپ سے علیحدگی کا فیصلہ کر سکتی ہیں اور ام المومنین عائشہ کو یہ اختیار دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ فیصلہ کرتے ہوئے جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر لینا تو ام المومنین نے یہ کہہ کر اسی وقت یہ اختیار واپس کر دیا تھا کہ: ’افیک یا رسول اللہ استشیر ابوی؟‘ (مسلم، ۱۴۷۸) ’’یارسول اللہ، کیا میں آپ سے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟‘‘ وہ ان خواتین کے متعلق جو اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتی تھیں، یہ کہا کرتی تھیں کہ کیا کسی عورت کو اپنے آپ کو کسی مرد کے سامنے پیش کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی؟ پھر جب قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی خواتین کو اپنے نکاح میں لے لینے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی تویہ ام المومنین ہی تھیں جنھوں نے یہ تبصرہ کیا کہ ’ما اری ربک الا یسارع فی ہواک‘ (بخاری، ۴۵۱۰، ۴۸۲۳) ’’آپ کا رب آپ کی خواہش کو پورا کرنے میں بڑی جلدی دکھاتا ہے۔‘‘
اس تعلق پر ام المومنین کو جو ناز تھا، اس کا اظہار وہ ایک خاص پیرایے میں کیا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ:
اعطیت سبعا لم یعطہا نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کنت من احب الناس الیہ نفسا واحب الناس الیہ ابا، وتزوجنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکرا ولم یتزوج بکرا غیری، وکان جبریل ینزل علیہ بالوحی وانا معہ فی لحاف ولم یفعل ذلک لغیری، وکان لی یومین ولیلتین وکان لنساء ہ یوم ولیلۃ، وانزل فی عذر من السماء کاد ان یہلک بی فئام من الناس، وقبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین سحری ونحری (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۳۰)
’’مجھے سات ایسے اعزاز حاصل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج کو حاصل نہیں: میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھی، میرے والد سے آپ سب سے بڑھ کر محبت رکھتے تھے، آپ نے میرے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا، جبریل اس حالت میں بھی آپ پر وحی لے کر نازل ہو جاتے تھے کہ میں آپ کے ساتھ ایک ہی لحاف میں ہوتی تھی جبکہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا گیا، آپ میرے پاس دو دن اور دو راتیں قیام کرتے تھے (کیونکہ حضرت سودہ نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی تھی) جبکہ باقی ازواج کے لیے ایک دن اور ایک رات تھی، مجھ پر لگائے گئے الزام کی صفائی آسمان سے نازل ہوئی جس کی وجہ سے کچھ گروہ میرے بارے میں (بد گمانی کا شکار ہو کر) ہلاکت کے قریب جا پہنچے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس کیفیت میں ہوا کہ آپ (کا سر مبارک) میرے سینے اور گردن کے درمیان رکھا ہوا تھا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ان جذبات واحساسات کو پیش نظر رکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق، عدل وانصاف اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کا اصل اعتراض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر نہیں بلکہ خود معترضین پر وارد ہوتا ہے جو شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ اس درجے کی محبت اور جذباتی وابستگی کو وزن دینے کے بجائے، جو رشتہ نکاح میں اصل چیز ہے، اپنے محدود اور ناقص اخلاقی پیمانوں سے اس رشتے کی قدر وقیمت متعین کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ رخصتی کے وقت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق تاریخی طور پر وہی بات مستند ہے جو عام طور پر مانی جاتی ہے۔ اس مضمون کی روایات پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں، نہ تو ان میں علمی طور پر کوئی وزن ہے اور نہ وہ دلائل ہی لائق اعتنا ہیں جو ام المومنین کی عمر کو تاریخی طورپر اس سے زیادہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال ہونے کی روایات خود ام المومنین سے اتنی کثرت سے مروی ہیں کہ ان کے مقابلے میں پیش کیے گئے تاریخی قیاسات یا بعض مبہم ومحتمل بیانات کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ جن اہل علم نے اس ضمن میں متبادل تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا جذبہ محرکہ بے حد قابل قدر ہے، تاہم علم وعقل اور دیانت وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ تاریخی حقائق کو اسی طرح تسلیم کر کے جس طرح وہ واقع میں رونما ہوئے، انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے، نہ یہ کہ ایک مخصوص تاثر کے تحت کمزور اور واہی استدلالات کا سہارا لے کر انھیں جھٹلانے کی سعی شروع کر دی جائے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔