مکاتیب

ادارہ

(۱)

۹ ربیع الاول، ۲ فروری ۲۰۱۲

بخدمت محترم مولانا زاہد الراشدی زید مجدہم

محترم مولانا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

آپ کو یہ جان کر یقیناًخوشی ہوگی کہ وہ شخص جس کے لیے آپ نے قارئین الشریعہ سے دعائے صحت کی درخواست کی تھی، وہ بالآخر اتنا صحت مند ہو ہی گیا کہ مایوسی کے ساتھ ہندوستان جا کر پھر لندن لوٹ آیا ہے۔ آپ ہی نے سب سے پہلے خاکسار کے لیے دعائے صحت کی درخواست کی تھی، سو آپ ہی کو سب سے پہلے بہتری کی اطلاع دے رہا ہوں۔ ڈیڑھ سال سے قلم ہاتھ میں نہیں لیا تھا۔ اسی کا اثر ہے کہ حروف صاف نہیں بن رہے۔ بالفاظ دیگر لکھنا بھول گیا ہوں۔ کمپیوٹر کی وجہ سے لکھنے کی عادت چھوٹ بھی گئی تھی۔

ایک ہفتہ ہوا یہاں آیا ہوں۔ سال گزشتہ کے کچھ شمارے مع جنوری ۲۰۱۲ء کے شمارے کے رضی سلمہ سے نکلوائے اور سب ہی پڑھ ڈالے۔ ماشاء اللہ فورم میں گرما گرمی بہت بڑھ رہی ہے۔ مگر جس بات پر لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا، وہ تو آپ کی ’’علمی او رمطالعاتی زندگی‘‘ ہے اور جو لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا، وہ صرف یہ ہے کہ اپنے مولانا تو بڑے چھپے رستم نکلے۔ اس بندے کو دعائیں جس نے ساری کتاب زندگی کھلوا کے رکھ دی۔ والسلام

میاں عمار صاحب کو سلام دیں۔

ممنون کرم

(مولانا) عتیق الرحمن (سنبھلی)

(۲)

برادرم ۔۔۔ صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے بڑی دلچسپی اور بھرپور تنقیدی نظر سے میری معروضات کا مطالعہ کیا اور تنقیح طلب نکات کی تعیین فرمائی۔ آپ کے سوالات کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر آئندہ سطور میں پیش کر رہا ہوں۔

۱۔ میرے خیال میں جسمانی بلوغت اور ذہنی پختگی میں فرق کرنے اور ہر عمر کے طبعی فطری رجحانات کو مناسب وزن دینے کی ضرورت ہے۔ تعلقات زن وشو کے لیے اخلاقی طور پر جس بات کا لحاظ ضروری دکھائی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ لڑکی جسمانی طور پر اس کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کے ساتھ نو سال کی عمر میں یہ تعلق قائم کیا تو یقیناًاس کو ملحوظ رکھا ہوگا، بلکہ ان سے بھی پہلے خود ام المومنین کے والدین کے سامنے یہ نکتہ لازماً رہا ہوگا جنھوں نے نکاح کے بعد تین سال تک اسی بات کے پیش نظر انھیں رخصت نہیں کیا اور پھر مدینہ منورہ آنے کے ایک سال بعد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی رخصتی کی پیش کش کی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس عمر میں کھیل کود کے ساتھ طبعی دلچسپی ہی سرے سے باقی نہ رہے۔ اس چیز کا تعلق بلوغت سے نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بلوغت کے بعد بھی لڑکپن کی عمر میں ایسی دلچسپیاں خاصی دیر تک برقرار رہتی ہیں۔ ام المومنین کا یہ ارشاد بھی جسمانی بلوغت کے تناظر ہی میں ہے کہ ’’نو سال کی عمر میں لڑکی کو ’’عورت‘‘ سمجھا جائے‘‘۔

۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین کی جذباتی وابستگی کا نکتہ میں نے مذکورہ بنیادی نکتے کے بعد اس کی مزید تائید کے طور پر پیش کیا ہے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ نو سال کی عمر میں اگر ام المومنین کی رخصتی کو ان کے والدین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا تو ان کی جسمانی صلاحیت کو دیکھ کر ہی کیا۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ ام المومنین سے اس معاملے سے متعلق کوئی منفی تاثر منقول نہیں، بلکہ وہ اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک وہی ہیں جن کے ساتھ آپ نے کنوارے پن کی حالت میں نکاح کیا۔ 

آپ نے جو مثال دی ہے، وہ صورت حال کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بڑی مفید ہے۔ اگر کوئی بہت عظیم المرتبت شخص میری رقم چرا لے اور اس کے باوجود میں اس کی شخصی عظمت کی وجہ سے اس پر برا نہ مانوں اور دیگر وجوہ سے اس سے میری محبت قائم رہے تو یقیناًاس سے رقم چرانے کا اخلاقی جواز ثابت نہیں ہوتا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ میں اس بات پر فخر کروں کہ اس نے میری رقم چرائی ہے یا اس بات کی خواہش کروں کہ وہ صرف میری ہی رقم چرایا کرے اور اگر میرے علاوہ وہ شخصیت کسی اور کی رقم بھی چراتی ہو تو میں اس پر رقیبانہ جذبات محسوس کروں۔ اگر میں ایسا کروں تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ جس چیز کو لوگ بظاہر چوری کا عمل سمجھ رہے ہیں، وہ چوری نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت اس سے بہت مختلف ہے جسے صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ نو سال کی عمر میں نکاح کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ عہد نبوت میں اس کا عام رواج تھا۔ میں نے صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر لڑکی میں اس عمر میں جسمانی بلوغت کی علامات ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کی سماجی اخلاقیات کے لحاظ سے یہ کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے بہت زیادہ مثالوں کا پایا جانا شاید ضروری نہیں۔ ممکن ہے اس کا عام رواج نہ ہو، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص معاملے میں دوسرے بہت سے وجوہ اور مصالح کے پیش نظر اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھا گیا ہو۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی ضروریات کے علاوہ ام المومنین عائشہ کے لیے آپ کی صحبت میں علم دین میں رسوخ حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا خاص طور پر اہم ہیں۔ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس معاملے میں خود اللہ تعالیٰ کی منشا بھی شامل تھی جسے مکہ مکرمہ میں ایک خواب کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کیا گیا تھا۔

۴۔ ہشام بن عروہ کے یہ روایت مدینہ میں بیان نہ کرنے کا نکتہ اس تناظر میں بالکل غیر اہم ہو جاتا ہے کہ اس روایت کا مدار ان پر نہیں ہے۔ انھوں نے یہ روایت عروہ بن زبیر سے نقل کی ہے اور عروہ سے اسی روایت کو ان کے علاوہ بھی تین راویوں نے نقل کیا ہے۔ ممکن ہے، ہشام نے مدینہ میں بھی یہ روایت بیان کی ہو، لیکن کتابوں میں نقل نہ ہو سکی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں ام المومنین سے اس بات کو نقل کرنے والے دوسرے بہت سے اصحاب کی موجودگی کی وجہ سے ہشام کو وہاں یہ روایت بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو۔ بہرحال جو بھی صورت ہو، ام المومنین کی طرف اس بیان کی نسبت میں ہشام کا واسطہ بالکل غیر اہم ہے۔

۵۔ یہ بات کہ عروہ بن زبیر کے علاوہ اس روایت کی باقی سندیں قوی نہیں، محض ایک فنی نکتہ ہے جو اگر محدثانہ تحقیق کے لحاظ سے بظاہر درست ہو (جس کے متعلق میں سردست کچھ نہیں کہہ سکتا) تو بھی تاریخی ثبوت کے اصولوں کے لحاظ سے زیادہ قابل توجہ نہیں ہے۔ کسی روایت کی مختلف سندوں میں، جن کی تعداد زیربحث معاملے میں ایک درجن ہے، ہر سند کے کسی نہ کسی راوی میں کوئی خرابی دکھا کر محدود ’’فنی‘‘ مفہوم میں توتنقید کی جا سکتی ہے، لیکن یہ با ور کرنا بے حد مشکل ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں راویوں نے محض ایک بے اصل بات ام المومنین کی طرف منسوب کر دی ہے۔

۶۔ سورۂ قمر کے نزول کے وقت ام المومنین ایک ’’جاریہ‘‘ تھیں ، یہ بات تو درست ہے، لیکن سورۂ قمر کا نزول کب ہوا؟ یہ بات متعین طو رپر معلوم نہیں۔ عربی میں لفظ ’’جاریۃ‘‘ صرف نوجوان لڑکی کے لیے نہیں، بلکہ چھوٹی عمر کی بچی کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور روایت میں ام المومنین کے الفاظ : کنت جاریۃ العب (میں ایک لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی) اس کا قرینہ ہیں کہ یہاں نوجوان لڑکی نہیں، بلکہ بچی ہی مراد ہے۔

۷۔ سیدہ فاطمہ کے سن ولادت اور ان کی اور سیدہ عائشہ کی عمر کے باہمی فرق سے متعلق بھی حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔مورخین کے قیاسات اس ضمن میں مختلف ہیں۔ ابن حجر کے نزدیک اگر یہ فرق پانچ سال کا تھا تو ذہبی نے آٹھ سال بیان کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۴۲۹) پھر یہ کہ ابن اثیر کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں سیدنا علی کے ساتھ نکاح کے وقت سیدہ فاطمہ کی عمر پندرہ سال پانچ ماہ تھی۔ (اسد الغابہ ۷/۲۱۶) اگر ابن حجر کا بیان درست مانا جائے تو بھی ام المومنین کی عمر سیدہ فاطمہ کے نکاح کے وقت دس سوا دس سال سے زیادہ نہیں بنتی۔ ان کا سن ولادت ۵ قبل نبوت ہونے کی بات بھی یقینی نہیں۔ ابن عبد البر اور حاکم کی تحقیق یہ ہے کہ وہ بعثت نبوی کے پہلے سال پیدا ہوئیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اکتالیس سال تھی۔ (الاستیعاب ۴/۳۷۴۔ المستدرک ۳/۱۷۶) ظاہر ہے کہ ام المومنین کے اپنے صریح بیان کو چھوڑ کر اس طرح کے مشتبہ تاریخی معاملات سے ان کی عمر متعین کرنے کی کوشش علمی طور پر درست نہیں ہو سکتی۔

۸۔ جنگ احد میں ام المومنین کی شرکت سے استدلال دو وجوہ سے درست معلوم نہیں ہوتا۔ ایک تو یہ کہ وہ وہاں لڑائی میں شریک ہونے کے لیے نہیں، بلکہ دوسری خواتین کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے گئی تھیں، اس لیے پندرہ سال سے کم عمر کے مردوں کو، جو ظاہر ہے کہ لڑائی کے لیے جانا چاہتے تھے، اگر اس غزوے میں ساتھ نہیں لے جایا گیا تو اس ضابطے کا اطلاق خواتین پر کسی طرح نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ اس جنگ میں شرکت کے لیے پندرہ سال کی عمر کی قید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان نہیں فرمائی جس سے کوئی عمومی ضابطہ اخذ کیا جا سکے۔ دراصل عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب نوجوان لڑکوں کو پیش کیا گیا جو جنگ میں شریک ہونا چاہتے تھے تو آپ نے ان میں سے بعض کو اجازت دے دی جبکہ ابن عمر کو اجازت نہیں دی۔ اب یہ ابن عمر کا اپنا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ اس سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجازت نہ دینے کی وجہ بھی ان کا چودہ سال کا ہونا تھا۔ 

۹۔ سیدہ اسماء کی عمر سے جو استدلال کیا گیا ہے، وہ میری نظر میں دو وجہ سے کمزور ہے۔ ایک تو یہ کہ تاریخی ثبوت کے لحاظ سے اسے ام المومنین کے اپنے بیان پر، جو ان سے درجن بھر راویوں نے نقل کیا ہے، ترجیح نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر اس لیے کہ سیدہ اسماء کی عمر بوقت وفات سو سال ہونے کی بات ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کی ہے، جبکہ عروہ ہی نے ام المومنین کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ دوسری یہ کہ اس استدلال کی صحت کا سارا مدار اس بات پر ہے کہ عروہ کے بیان میں سو سال سے مراد متعین طور پر سو سال اور ابن ابی الزناد کے بیان میں دس سال سے مراد متعین طور پر دس سال ہی ہوں، جبکہ عمروں کے بیان میں اہل عرب کا عام اسلوب اسے حتمی طور پر قبول کرنے سے مانع ہے۔ یہ محض ایک اندازہ نہیں، بلکہ حدیث وسیرت کی روایات میں یہ اسلوب عام ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے متعلق مستند ترین روایات میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔

امید ہے کہ مذکورہ توضیحات کسی حد تک مفید ہوں گی۔ بے حد شکریہ

محمد عمار خان ناصر

(۳)

محترم مدیر، ماہنامہ’’ الشریعہ‘‘ 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کے مؤقر مجلہ ماہنامہ ’’ الشریعہ‘‘ میں ’’ معارف اسلامی‘‘ کی جانب سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی یادمیں خصوصی اشاعت پر محترم قاری محمد طاہر صاحب کا تبصرہ پڑھنے کا موقع ملا۔تبصرہ پڑھ کر اس لحاظ سے دلی خوشی محسوس ہوئی کہ ہمارے ہاں الحمدللہ اب بھی ایسے اہل علم حضرات موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ مضامین و مقالات کو پڑھتے ہیں بلکہ بہت غور و خوص کے ساتھ پڑھتے ہیں اورمقالات پر اپنی Observation بھی دیتے ہیں ۔راقم الحروف چونکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کلیہ علوم اسلامیہ کے شعبہ تدریس و تحقیق سے منسلک ہے اور مذکور ہ خصوصی اشاعت کے تمام مراحل سے براہ راست آگاہی رکھتا ہے، اس لیے قاری صاحب کے تبصرہ پر چند معروضات آپ کے مؤقر مجلہ کی وساطت سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

(۱) تبصرہ نگار نے ڈاکٹر چشتی صاحب کے تاثرات میں درج علامہ اقبال کے شعر کے دوسرے مصرعہ پر بحث کی ہے اور اسے شعری اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے، حالانکہ بقول چشتی صاحب یہ مصرعہ علامہ اقبالؒ ہی سے منقول ہے اور ڈاکٹر چشتی صاحب کے مرشد محترم شیخ طفیل احمد فاروقی اس روایت کو زیادہ پسند فرماتے تھے اور ادب کے مایہ ناز شاعر غلام محمد شمسی ؒ کے پاس علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ کلام کا جو مخطوط تھا اس میں علامہ کا یہ شعر اسی ترمیم کے ساتھ درج تھا۔ مناسب ہوتا اگر قاری صاحب تبصرہ کرنے سے پہلے چشتی صاحب سے رابطہ کر لیتے اور اس شعر کے بارے میں صحیح صورتحال قارئین کو بتا دیتے ۔

(۲) تبصرہ نگار نے ڈاکٹر ثناء اللہ حسین کے مقالے کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک ہی عنوان سے دو مرتبہ لکھا گیا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔معارف اسلامی کو اچھی طرح پڑھ لیں۔ یہ مقالہ ایک ہی عنوان سے دو بار کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔ تفسیر کے موضوع پر ڈاکٹر عبد الحمید خان عباسی نے مستقل مقالہ لکھا ہے اور ثناء اللہ حسین نے جو معلومات جمع کی ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں۔ دونوں مقالات میں کسی پہلو سے تکرار نہیں ۔مناسب ہوتا کہ تبصرہ نگار ایسی رائے دینے سے پہلے دونوں مقالات کو اچھی طرح سے پڑھ لیتا۔

(۳) تبصرہ نگار نے حدیث اور فقہ کے ضمن میں مقالات کا تذکرہ نہیں کیا ،حالانکہ یہ سارے مقالات ڈاکٹر محمود غازی کے مطبوعہ محاضرات پر مبنی ہیں اور ان میں مقالہ نگار حضرات نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مواد جمع کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ تبصرہ میں ڈاکٹر تاج الدین الازہری، ڈاکٹر عبد الغفار بخاری،ڈاکٹر غلام یوسف اور ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کی کاوش کو بھی شامل کر لیا جاتا۔ یہ سب وہ حضرات ہیں جنہوں نے ڈاکٹر غازی صاحب کی رفاقت میں طویل عرصہ تک علمی سفر کیااور جنہیں ڈاکٹر غازی صاحب کے ساتھ محض ظاہری اور سطحی نہیں بلکہ عقیدت و ارادت کا رشتہ ہے۔

(۴) مطبوعہ تبصرہ میں حصہ عربی کے مقالات کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔حالانکہ عربی کے دونوں مقالات نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے فنی اعتبار سے ڈاکٹرغازی ؒ کا تعارف پیش کیا ہے اور ڈاکٹر فضل اللہ نے ڈاکٹر غازی صاحب کے عربی زبان و ادب پر عبور کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے جس سے عام طور پر ہمارے ہاں لوگ واقفیت نہیں رکھتے ۔

(۵) خصوصی اشاعت کے حصہ انگریزی کے بارے میں قاری صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں محض تکرار ہے اور اردو مقالات کا ترجمہ دیا گیا ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اصل میں قاری صاحب نے اردو اور عربی مقالات کے Abstracts کو دیکھ کر اس طرح کہا ہے۔ Abstractsکے بعد انگریزی میں تین مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد الغزالی صاحب ہے جس کا عنوان My Brothaer ,Mahmood Ahmad Ghaziہے۔ اس آرٹیکل میں ڈاکٹر غزالی صاحب نے محض اپنے تاثرات نہیں بلکہ اپنے دل کے جذبات مرتب کیے ہیں اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ مرتب کئے ہیں ۔اگر یوں کہا جائے کہ یہ آرٹیکل اس خصوصی اشاعت کی جان ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

دوسرا آرٹیکل ڈاکٹر محمود احمد غازی کے خطاب پر مبنی ہے۔ یہ خطاب ڈاکٹر غازی ؒ نےU.K میں ایک خصوصی موقع پر کیا تھا جس میں علوم دینیہ کے مراکز اور مدارس اور خاص طور پر بر صغیر میں علوم اسلامی کی ترویج اور اشاعت پر بحث کی گئی ہے۔ یہ خطاب اپنے موضوع پر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس خصوصی اشاعت کی قدرو قیمت میں اس نے نمایاں اضافہ کیا ہے ۔تیسرا آرٹیکل داکٹر جنید ندوی کا ہے جس کا تعلق ڈاکٹر غازی ؒ کی کتاب"The Life & Work of the Prophet of Islam,"V.1 by Mahmood Ahmad ghazi: A Reading ہے۔ ڈاکٹر جنید ندوی نے اس کتاب پر بہت جامع اور وقیع تبصرہ کیا ہے ۔اور اس کے اہم پہلوؤں کو اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ چند معروضات محض اس لیے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں تا کہ محترم قاری طاہر کے تبصرہ میں جو پہلو رہ گئے ہیں، وہ ماہنامہ الشریعہ کے قارئین کے سامنے آ سکیں اور بعض اہم نکات کی وضاحت ہو سکے ۔

ڈاکٹر ثناء اللہ حسین 

لیکچرر شعبہ قرآن و تفسیر 

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد

(۴)

محترم جناب عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی بخیر!

’’ماہنامہ الشریعہ‘‘نے جدید انداز میں بحث ومباحثہ اور مکالمہ کے ذریعہ دین کو سمجھنے اور سمجھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ بہت اچھا تھا مگر اب اس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوتے جارہے ہیں جو جھوٹ اور دجل وفریب کا سہارا لے کر اسلام دشمن قوتوں کوخوش کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلامی شخصیات کو نشانہ تنقید بنارہے ہیں جو قطعاًدرست نہیں۔ مجھے مخدوم محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ اور آنجناب کی نیت پر بالکل بھی شک نہیں، مگر آپ سے دانستہ یا نادانستہ یہ سہو ضرور ہورہا ہے کہ آپ اس مؤقر جریدے میں بعض دفعہ ایسے لوگوں کو جگہ دیتے ہیں جو اپنی بے تکی لفاظی کے ذریعے ’’الشریعہ ‘‘کے صفحات سیاہ کرنے کے سواکوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے۔امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں غور فرمائیں گے۔

ماہ فروری کے ماہنامہ الشریعہ میں مکاتیب کے عنوان سے ایک مکتوب کے جواب میںآپ کی تحریر پڑھ کر جہاں آپ کے افکار ونظریات سے آگاہی ہوئی، وہیں دکھ بھی ہوا جس کا شاید فون پر بھی آپ سے اظہار کیا تھا۔آپ اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق تو یقیناًرکھتے ہیں، مگرآپ کو اپنی رائے کے اظہار کے ساتھ ساتھ کسی کی بلکہ ان لوگوں ( جنہیں امت کے مقتدر حلقوں کی تائید وسرپرستی حاصل ہے )کی جدوجہد کو شرارت کا نام دینے یا انہیں فسادی قرار دینے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔ گذشتہ چند شماروں میں مسئلہ تکفیر کی بحث میں اہل تشیع کی تکفیر کے متعلق آپ کی امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے پیش کردہ باتوں سے مجھے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ تمام کی تمام باتیں درست ہیں، مگر ان تمام باتوں سے کسی صورت یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روافض کی تکفیر نہ کی جائے بلکہ ان کی نسبت اسلام کا خیال رکھا جائے۔ ماہ دسمبر کے شمارے میں آپ نے اپنی کسی مجلس میں کی جانے والی اپنی گفتگو کو تحریری صورت میں پیش کیا ہے جس میں آپ یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ امام ابن تیمیہؒ کا مؤقف یہ ہے کہ کسی کلمہ گومسلمان کے کفریہ عقائد یا مستلزم کفر عقائد کی بناپر اس کی تکفیر نہ کی جائے بلکہ اس کی نسبت اسلام کو ترجیح دی جائے۔آپ کا یہ فرمان بالکل بجا اور حضرت امام ابن تیمیہؒ کا نقطہ نظر بھی بالکل درست، مگر اس کے باوجود امام ابن تیمیہؒ روافض کی تکفیر کے قائل ہیں۔ایک ہے، امام ابن تیمیہ ؒ کے مؤقف کو آپ کا سمجھنا اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق اس کا من پسند مطلب نکالنا اور ایک ہے امام ابن تیمیہ کا مؤقف جس کی وضاحت انہوں نے خود کھل کر بیان فرمادی ہے جو آپ کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی رائے کو درست سمجھا جائے یا امام ابن تیمیہؒ کے مؤقف کو درست سمجھا جائے جبکہ آپ اس مسئلہ میں جابجا امام ابن تیمیہؒ کے مؤقف کودرست قرار دیتے ہیں۔ انتہائی اختصار کے ساتھ میں یہاں صرف دوعبارتیں پیش کررہا ہوں جن سے امام ابن تیمیہ کے مؤقف کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی تصنیف الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں دوعنوان قائم کیے ہیں جنکی عبارتیں پیش خدمت ہیں ۔ان عنوانات کے تحت وہ بہت ساری عبارتیں ایسی لائے ہیں جن سے آپ کے مؤقف کی تردید ہوجاتی ہے۔ 

پہلا عنوان یہ ہے: وقد قطع طائفۃ من الفقہاء من اہل الکوفۃوغیرہم بقتل من سب الصحابۃ وکفر الرافضۃ۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ص ۴۱۲)

ترجمہ: ’’اہل کوفہ ودیگر فقہا نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالیاں دینے والے کے قتل اور روافض کی تکفیر کو یقینی قرار دیا ہے۔‘‘

دوسرا عنوان کچھ یوں ہے: صرح جماعات من اصحابنا بکفر الخوارج المعتقدین البراءۃ من علی وعثمان وبکفر الرافضۃ المعتقدین لسب جمیع الصحابۃ الذین کفروا الصحابۃ وفسقوھم وسبوھم۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ص۴۱۳ )

ترجمہ: ’’علماء کی بہت ساری جماعتوں نے خوارج کے کفر کی تصریح کی ہے جو حضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہماسے برأت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسی طرح روافض کے کفر کی تصریح کی ہے جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی ہے،انہیں فاسق قرار دیا ہے اور انکو گالیاں دی ہیں۔ ‘‘

آپ نے اپنی تحریر میں اہل تشیع کے کفر پر اجماع نہ ہونے کی بھی بات کی ہے بلکہ اجماع ہونا ناممکن قرار دیا ہے۔اس کے متعلق صرف ایک حوالہ پیش خدمت ہے امید ہے کہ یہی کافی ہوگا۔حضرت ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ قلت وھذا فی غیر حق الرافضۃ فی زماننا فانہم یعتقدون کفر اکثر الصحابۃ فضلاً عن سائر اہل السنہ والجماعۃ کفرۃ بالاجماع بلانزاع۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۹ص۱۳۷

ترجمہ:میں کہتا ہوں یہ بات ان رافضیوں کے بارے میں ہے جو ہمارے زمانے کے نہیں ہیں(ملا علی قاریؒ کے زمانے سے پہلے کے رافضی) کیونکہ جو ہمارے زمانے کے رافضی ہیں وہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کا عقیدہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ وہ تمام اہل سنت والجماعت کو کافر کہیں ۔بس یہ بالاجماع کافر ہیں بغیر کسی اختلاف کے۔

اب یہ فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں کہ اجماع ممکن ہے یا ناممکن ۔تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس عنوان پر قدرے تفصیل کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے جس کا یہ خط متحمل نہیں ہوسکتا۔ آپ اگراس عنوان پر کوئی تحریری مکالمہ یا مباحثہ کروالیں اور فریقین کے نقطہ نظر سے آگاہی کا موقع دیں تو پھر اپنی معروضات بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

محمد یونس قاسمی

جہانیاں، خانیوال

(۵)

محترم عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم

آپ کو خط لکھ کر زحمت اس لیے دے رہا ہوں کہ ماہ فروری کے ’الشریعہ‘ کے کلمہ حق سے اصولی طور پر سارے مضمون سے اس خاکسار کو اختلاف ہے، مگر الاتقان فی علوم القرآن سے جو روایت سیدنا علی کے حوالے سے بیان کی گئی ہے، اہل حدیث تو اسے پیش کرتے ہی تھے، مگر آپ لوگوں نے اسے پیش کر کے قرآن کریم سے اپنی بے خبری کا بھی ثبوت دیا اور یوں قران پر بھی بہتان لازم آیا اور علی رضی اللہ عنہ کے ذمے بھی ایک جھوٹی بات لگا دی:

’’علی رضی اللہ عنہ نے جب ابن عباس کو خوارج سے گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھا: ۔۔۔ ’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘

قرآن میں ہرگز احتمالات نہیں، بلکہ برعکس طو رپر قرآن تو اپنے مبین ہونے کا دعوے دار ہے۔ دیکھیں: (۱) حم والکتاب المبین، (الزخرف آیت ۱،۲) ’’قسم ہے اس واضح کتاب کی‘‘۔ یہ حتمی طور پر فیصلہ کن ہے۔ (۲) انہ لقول فصل۔ (الطارق آیت ۸۶) ’’بے شک یہ قرآن دوٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔‘‘ (۳) لا یاتیہ الباطل من بین یدینہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید (حم السجدۃ آیت ۴۲) ’’اس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا، نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے اللہ کی طرف سے۔‘‘

لا ریب، یہ روایت کسی دشمن قرآن نے وضع کر کے سیدنا علی اور قرآن پر الزام لگایا ہے۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ابن عباس سے اسی قسم کی روایات کے بارے میں یہ بات موجود ہے کہ ’’علی رضی اللہ عنہ ایسے فیصلے ہرگز نہیں کہہ سکتے۔‘‘ یہ روایت قرآن کی بے شمار آیات کے خلاف ہے اور آپ تو اصول حدیث مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ خلاف قرآن کوئی روایت قبول نہیں ہوتی۔ ابن الصلاح، خطیب اور ابن تیمیہ کی اصول حدیث کی عبارات تو آپ کو ازبر ہوں گی۔ 

آپ کو پہلے بھی ایک خط پروفیسر اکرم ورک کے حوالے سے لکھا تھا جس میں آں محترم نے قرآن کو اپنی تشریح وتاویل کے لیے حدیث وسنت کا محتاج لکھا تھا، مگر میرے خط کا جواب نہ آں محترم نے دیا اور نہ ہی آپ نے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ جملہ اور اس بات الاتقان کے حوالے سے علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی گئی ہے، توہین وتنقیص قرآن پر مبنی ہیں۔ اللہ ہمیں غلطی سے توبہ کی توفیق بخشیں۔ آمین

محمد امتیاز عثمانی، راولپنڈی

(۶)

بخدمت گرامی قدر مخدوم العلماء حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

آپ کی وساطت سے چند امور الشریعہ کے قارئین کرام اور دیگر متعلقہ حلقوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 

(۱) احقر جمعیت علماء اسلام کا ایک کارکن ہے، لیکن غیر متحرک ہے۔ غیر متحرک ہونے کی وجہ غیر معقول قسم کی گروپ بازی ہے جو کہ سراسر ذاتیات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور امر پر بھی بہت دل دکھتا ہے۔ وہ یہ کہ آج تک جمعیت علمائے اسلام کا مستقل بنیادوں پر کوئی مرکزی دفتر نہیں ہے، نہ ہی ماہنامہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کا مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔ ہر دو گروپوں کے قائدین کے پاس بھی شاید ہی مکمل ریکارڈ اور دیگر دستاویزات موجود ہوں۔ المیہ بر المیہ یہ ہے کہ قائدین جمعیت جو کہ قائدین انقلاب کہلاتے ہیں، آج تک جمعیت علمائے اسلام کی مستند اور مکمل تاریخ بھی نہیں لکھوا سکے۔ 

الجمعیۃ راولپنڈی کے تازہ خاص نمبر میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے جلسہ کراچی کی مکمل رپورٹ پڑھ رہا تھا اور یہ سو چ رہا تھاکہ مضمون نگار حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے ناقدین کو تلخ وتند جوابات دینے پر جو صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں، کاش کہ وہ جمعیت کی تاریخ لکھنے پر صرف کرتے تو بہت فائدہ ہوتا۔ قائد جمعیت کا ذاتی دفاع مستحسن ہے، لیکن جمعیت کی تاریخ لکھنا اس سے زیادہ اہم امر ہے۔ قائدین جمعیت ملک گیر جلسوں پر جو کثیر رقوم خرچ کرتے ہیں، اگر وہ رقوم بچا کر مرکزی دفتر قائم کرنے کا اہتمام کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایسا دفتر جس میں ریسرچ اسکالرز کے لیے جمعیت کی تاریخ کے متعلق کتب ورسائل موجود ہیں، دیگر لوازمات موجود ہوں، بہت ضروری ہے۔ اسی طرح جمعیت کے متعلق علمی وتحقیقی کام کی تڑپ رکھنے والوں کے لیے ایک یا زیادہ ایسی ویب سائٹس کا قیام ضروری ہے جس میں تمام رسائل، کتب اور دیگر ضروری امور موجود ہوں۔ 

بہت سے حلقوں کا یہ بجا شکوہ ہے کہ جمعیت کے ضلعی، صوبائی اور مرکزی عہدیداروں سے ملنا ایک مصیبت برداشت کرنے سے کم نہیں۔ یہ حضرات عوام کو قریب نہیں آنے دیتے۔ انقلاب کیا آئے گا؟

احقر کا انداز تحریر شاید گستاخانہ قرار پائے، متعلقہ تمام قائدین وکارکنان سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ ایک دکھی دل کی آواز ہے۔ کاش کہ متعلقہ اکابر اور حلقوں تک پہنچ سکے اور وہ اس پر عمل کر سکیں۔

(۲) دو ماہ پہلے الشریعہ میں دینی مدارس کے اساتذہ کرام کے مسائل پر ایک خط چھپا تھا۔ حیران ہوں کہ اس بحث کو کسی نے آگے نہیں بڑھایا، حالانکہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مہتمم حضرات، مدرسین کے حوالے سے ماضی کا پچاس سالہ ماحول اور اپنے لیے پچاس سال بعد کا ماحول فرض کر لیتے ہیں۔ مدرسین کی ایک بڑی تعداد چار پانچ ہزار روپے تنخواہ پر گزارہ کر رہی ہے۔ بیسیوں مدارس ایسے ہیں جہاں مدرسین کے لیے مساجد کی امامت وخطابت شجر ممنوعہ ہے۔ مدرسہ کی مختلف نظامتیں، نگرانیاں اور نگرانوں کی نگرانی، عجیب ماحول ہے۔ محتاط الفاظ استعمال کرنا سخت مشکل ہے۔ مدرسین چار پانچ ہزار میں کیسے گزارہ کرتے ہیں؟ عقل مند کے لیے ان کی مشکلات کو جاننا مشکل نہیں۔

اساتذہ کے لیے دو دو کمروں کے مختصر کوارٹر جہاں صحن سرے سے مفقود ہے، موسم گرما اور لوڈ شیڈنگ میں ان اساتذہ کے اہل خانہ کیسے زندگی گزاریں گے؟ متعلقہ مہتمم کو احساس نہیں۔ ایک مہتمم صاحب نے اساتذہ کی میٹنگ میں فرمایا کہ اب ہمارے پاس کافی فنڈز جمع ہیں، سوچ رہے ہیں کہ سال دو سال بعد تنخواہیں بڑھا دی جائیں۔ اساتذہ کی سالانہ ترقی سو دو سو روپے اور مہنگائی اس سے کئی گنا زائد ہے۔ مہتمم صاحبان اوران کی اولاد کے لیے بے شمار سہولیات، صواب دیدی فنڈز ہیں اور اساتذہ کے لیے مقررہ تنخواہ سے ایک روپیہ بھی زائد نہیں۔ بعض مدارس میں مدرسہ کے ناظم مالیات مہتمم کے اختیارات استعمال کرتے یں۔ سالانہ ترقی لگانے نہ لگانے میں وہ اپنی پسند اور ناپسند مقدم رکھتے ہیں۔ بیس بیس سال تدریس کرنے والوں اور نئے بھرتی ہونے والے مدرسین کی تنخواہیں کئی مدرسوں میں برابر ہیں۔ مہتمم حضرات کی مرضی کا نام اصول ہے۔

پنجاب کے غالباً پچاس فی صد مدارس میں اساتذہ کو بندۂ بے دام کی حیثیت دی جاتی ہے۔ صبح کی اذان سے لے کر رات گئے تک بے چاروں کے لیے مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ اضافی کاموں کا معمولی معاوضہ ملتا ہے اور بعض مدارس میں ملتا ہی نہیں اور نوکری کا عدم تحفظ اس پر مستزاد ہے۔ یہ وہ احوال ہیں جو بندہ کے مشاہدہ میں آئے یا معتبر ذرائع سے سنے۔ جزئیات کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ 

احقر عمومی حالات عرض کر رہا ہے۔ ان واقعات کو کسی خاص مدرسہ یا مہتمم پر منطبق نہ کیا جائے اور بدگمانی نہ کی جائے۔ بعض مہتمم حضرات اپنے مدرسین کی کامیابی اور ہر دل عزیزی برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی ناکامی کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔ کیا وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اکابرین ان حالات پر غور فرمائیں گے؟ اکابرین سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کریں اور احقر کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ حالات صر ف کسی خاص مسلک کے مدارس کے ساتھ خاص نہیں۔ تمام مسالک کے بیسیوں مدارس یکساں صورت حال سے دوچار ہیں۔ 

(۳) گزشتہ ایک صدی سے امت مسلمہ کے زوال پر محققین کی طبع آزمائی بلکہ زور آزمائی جاری ہے۔ کسی کو اس زوال کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ قرآن مجید کی صداقت مشکوک ہے۔ کسی کے ہاں احادیث مشکوک ہیں۔ کوئی فقہ وفقہا کی کاوشوں سے نالاں ہے۔ کسی کے نزدیک متکلمین کی کاوشیں اس تباہی کا سبب ہیں۔ ایک عجیب طوفان برپا ہے۔ نئے نئے محققین ہیں، نئی نئی تحقیقات ہیں۔ حال ہی میں ’’ادراک زوال امت‘‘ کے نام سے انڈیا سے دو ضخیم جلدیں منظر عام پر آئی ہیں۔ موصوف کی محنت اپنی جگہ، کئی جگہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اپنا ذہن صاف نہیں۔ حقائق کا پورا علم نہیں رکھتے، وہ مثبت امور کو بھی منفی انداز سے لیتے ہیں۔

احقر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمارے مسلک کے موجودہ اکابر میں آپ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اس لائق ہیں کہ اپنے انداز میں قلم اٹھائیں اور زوال امت کی مستند تاریخ لکھ دیں کہ امت مسلمہ قرن اول سے دور حاضر تک کن فکری، معاشی، معاشرتی، سیاسی بحرانوں، المیوں اور طوفانوں سے دوچار ہوئی۔ یہ تجزیہ مستند انداز میں لکھا جانا بہت ضروری ہے جو کہ آپ حضرات ہی لکھ سکتے ہیں۔ دور حاضر میں دو قسم کے مصنفین بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایک قینچی مار مصنفین جو اپنے دماغ سے ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتے اور دوسرے وہ حضرات جن کا مطالعہ وسیع مگر سطحی ہے۔ اس میں گہرائی، اعتدال اور سلامت فکر نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو ایک نتیجہ ذہن میں مرتب کر کے اس کے مطابق حقائق کو ڈھال لیتے ہیں۔ آپ اور دیگر دونوں بزرگوں پر سب حضرات کو اعتماد ہے۔ اگر لکھنے کی فرصت نہ ہو تو مختلف فورموں پر سلسلہ وار خطبات کی ایک سیریز ریکارڈ کروا دیں جنھیں بعد میں کتابی صورت دی جا سکے۔ آپ سمیت تینوں شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ اس موضوع کی اہمیت کو محسوس کریں اور نوجوان نسل کی راہنمائی فرمائیں۔ 

یہ موضوع اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک مخصوص بہت منظم طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے اور اس فکر کے حاملین کے ہاں ان کی اسلامی تعبیر کے علاوہ باقی سب گمراہی اور کفر ہے۔ ان جذباتی عناصر کے سامنے بند باندھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ایک مجلس میں ایک صاحب کی گفتگو سنی۔ وہ فرما رہے تھے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی فکر بھی غلط تھی، مولانا راشدی اور مولانا محمد تقی عثمانی بھی غلط کہتے ہیں۔ ایک دو اور اصحاب کے نام لیے کہ وہ بھی غلط ہیں اورع : مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اس جارحانہ انداز سے احقر کو بہت صدمہ پہنچا۔ اکابر پر سے اعتماد ختم کرنے کی تحریک بہت سے اپنے کہلانے والے بھی چلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ شاید سردست اندازہ نہ ہو سکے۔

(۴) الشریعہ کے ذریعے کچھ عرصہ پہلے آپ سے بھی گزارش کر چکا ہوں۔ آپ سے، حضرت عثمانی صاحب سے، مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں میں چھپے ہوئے اصحاب فضل وکمال سے گزارش ہے کہ جدید علم کلام پر قلم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ اسلام سے لگاؤ رکھنے والا جدید تعلیم یافتہ طبق بہت سی علمی الجھنوں اور تشنگیوں کا شکار ہے۔ وہ آپ جیسے اصحاب فضل وکمال کی طرف ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن سب بزرگوں کی اپنی اپنی مصروفیات، ترجیحات اور مسائل ہیں۔ سوال بارش کے پہلے قطرے کا ہے جس کے لیے کوئی بزرگ جرات نہیں کر رہا۔ اگر کسی ایک بزرگ نے پہل کر دی تو سلسلہ چل نکلے گا۔

حضرت امام اہل سنتؒ نے راقم کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی میں لکھا تھاکہ میرے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی لکھنا چاہیے۔ غلطی کس سے نہیں ہو تی، طبع اول کی کوتاہی طبع ثانی میں دور ہو جائے گی۔ ان کا یہ فرمان قصداً لکھا ہے تاکہ اہل علم لکھنے کے لیے ذہن بنا سکیں۔ مذکورہ تین اکابرین کے ساتھ مفتی ابولبابہ شاہ منصور مدظلہ کا نام لکھنا بھول گیا۔ ان کے پاس وسائل بھی ہیں، افرادی قوت بھی اور کتب خانہ بھی میسر ہے۔ الشریعہ کے واسطے سے ان سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔

حضرت شیخ الحدیث کی تصوف پر کتاب لکھنے کی وصیت آپ محاضرات کی صورت میں پوری کر دیں۔ان محاضرات کو کتابی صورت دے دی جائے۔ ہمت تو آپ نے ہی کرنی ہے۔ حضرت تھانویؒ مریدوں کو فرماتے تھے کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ 

مشتاق احمد عفی عنہ

ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ

۲ مارچ ۲۰۱۲ء

مکاتیب

(اپریل ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter