میڈیکل سرجری نے ارتقائی منازل طے کر کے موجودہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بہت سے ناقابل علاج امراض آج سائنس کے سامنے رفوچکر ہوتے نظر آنے لگے ہیں، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو وہ بہت بھیانک ہے۔ ایلوپیتھک طریق علاج کے مابعد اثرات کی وجہ سے آج انسان متبادل کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ دوسری طرف طب مشرق کے حاملین کی حالت علمی لحاظ سے نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اس میں حالات کا بھی بہت عمل دخل ہے اور کالے انگریزوں کا خفیہ ہاتھ دور تک پہنچا ہوا ہے۔ جدید طبی علوم سیکھنے والے پر ابتدا سے انتہا تک لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور فارغ ہونے کے بعد وہ عیش وعشرت میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے جبکہ طب مشرق کے طلبہ کو کوئی پوچھنا تک گوارا نہیں کرتا۔ ایک طبیب کو فراغت کے بعد سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ اسے طب کو ہی الوداع کہہ دینا پڑتا ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ عملی زندگی میں قدم نہیں جما سکتا۔ اس کے پاس نہ پیسہ ہوتا ہے نہ تجربہ اور نہ ایسی حالت کہ موجودہ سوسائٹی اس کو قبول کرے۔
میں نے پرانے اطبا کے چراغوں سے اپنی حکمت کا چراغ روشن کیا ہے، مگر پھر بھی معاشرے کی تیکھی نظریں مجھے گھائل کر دیتی ہیں۔ اطبا کے خلاف عجیب عجیب باتیں سن کر دل کے زخم ہرے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود، حقیقت خود کومنوا ہی لیتی ہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ:
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
آج بھی ملک کے طول وعرض میں اطبا اپنے مطب چلا رہے ہیں اور بعض دفعہ ایسے حیران کن واقعات سننے میںآتے ہیں جن پر بڑے بڑے معالج انگشت بدنداں ہیں۔ لقوے کی ایک مریضہ کا ناقابل یقین واقعہ سنیں۔ ان کے میاں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں سی ایم ایچ میں اساتذہ کرام کا استاذ ہوں۔ میری اہلیہ پر دوسری بار لقوہ کا حملہ ہوا ہے اور پہلے حملے کے اثرات بھی زبان پر نمایاں ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کس کس سے علاج کرایا ہے؟ فرمانے لگے کہ تمام متعلقہ ڈاکٹر صاحبان میرے وفادار شاگرد ہیں۔ انھوں نے اپنی پوری کوشش کی ہے، مگر اب دوسرا حملہ ہو چکا ہے۔ دوران کلام میں، مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کچھ گومگو کی کیفیت میں ہیں کہ اطبا کی لن ترانیوں سے خوب واقف تھے اور میری حالت دیکھ کر بھی کچھ سہمے ہوئے تھے اور ڈرتے تھے کہ باقی ماندہ صحت کا سفینہ بھی کہیں بیچ بھنور میں ڈوب نہ جائے۔
میں نے کہا کہ کوئی امر مانع نہ ہو تو نبض اورحالات سے آگاہی حاصل ہو جائے۔ کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ چل کر نبض دیکھ لیں۔ نبض دیکھی، مطلوبہ سوالات کر کے بیماری کی تہہ تک پہنچا۔ مریضہ کی رنگ حد درجہ کالی ہو چکی تھی۔ ماضی میں کچھ امراض کا مجھے شک ہوا تو میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ہاں، یہ امراض لاحق رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ جن معالجین کرام نے آپ کا علاج کیا ہے، بہت ممکن ہے کہ میں ان کے پایے کا نہ ہوں، پھر بھی میرا وعدہ ہے کہ اگر آپ پرہیز کریں تو ان شاء اللہ لقوہ ہمیشہ کے لیے نیست ونابود ہو جائے گا۔ خور ونوش کے پرہیز کے علاوہ ایسا کمرہ ہونا چاہیے جس میں کہیں سے روشنی نہ آئے، نہ بلب روشن کریں اور نہ ہی ہوا کا گزر ہو۔ تمام ضروریات زندگی کمرے کے اندر ہی پوری کریں۔ دوا دے کرمیں نے نتیجے کابے تابی سے انتظار کیا۔ ایک ہفتے کے بعد ان کے میاں نے کہا کہ جو حملہ آج سے چھ سال پہلے ہوا تھا، اس کا بھی نام ونشان ختم ہو گیا ہے اور صحت کی خوشی میں کل ہم نے جشن منانا ہے۔
میں نے اللہ تعالیٰ کا ہزار بار شکر ادا کیا۔ یہ تھی ریٹھے کی مسیحائی جس نے مریضہ کی رنگت نکھاری اور اس کی جان بچائی۔ یوں میرے علاج معالجہ نے اپنی قیمت پائی۔