معاشرہ، قانون اور سماجی اخلاقیات ۔ نفاذ شریعت کی حکمت عملی کے چند اہم پہلو

محمد عمار خان ناصر

کسی معاشرے میں شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ یہ سوال چند دوسرے اور اس سے زیادہ بنیادی نوعیت کے سوالات کا ایک حصہ ہے جن سے تعرض کیے بغیر اس سوال کے مضمرات کی درست تفہیم ممکن نہیں۔ مثلاً:

۱۔ ایک اسلامی معاشرہ کے بنیادی اوصاف وخصائص کیا ہیں اور وہ کون سی چیزیں ہیں جن کا اہتمام کرنے کا شارع نے مسلمانوں کے ایک معاشرے سے تقاضا کیا ہے؟ 

۲۔ معاشرے کی عمومی اخلاقی سطح اور شرعی قوانین کے مابین کیا تعلق ہے؟ آیا قانونی نوعیت کے احکام کا نفاذ ایک مطلوب اسلامی اور اخلاقی معاشرہ پیدا کرنے کی کافی ضمانت ہے یا ان احکام کی تاثیر اور افادیت بذات خود کسی اخلاقی سانچے کی محتاج ہے؟

۳۔ نفاذ شریعت کے حوالے سے معاشرے اور نظم اجتماعی کے مابین تعلق اور باہمی ذمہ داریوں اور فرائض کی نوعیت کیا ہے؟ 

۴۔ اگر کوئی معاشرہ مناسب اخلاقی تربیت سے محروم ہو اور نفاذ قانون کے ادارے بد عنوانی کا عنوان بن چکے ہوں، وہاں شرعی قوانین کے نفاذ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟

مذکورہ سوالات کی ترتیب میں ایک منطقی ربط پایا جاتا ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ 

پہلے سوال کو لیجیے:

قرآن وسنت کے نصوص میں جس معاشرے کو خدا کا مطلوب معاشرہ قرار دیا گیا ہے، اس کا سب سے بنیادی وصف یہ ہے کہ اس پر اللہ کی عبودیت اور بندگی کی چھاپ نمایاں ہو اور لوگ نماز اور زکوٰۃ کی عبادتوں کو پورے دینی جذبے اور اہتمام کے ساتھ بجا لائیں۔ انفرادی اور اجتماعی معاہدے ایفا کیے جائیں؛ ذاتی یا گروہی مفاد کی پروا کیے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں لائے بغیر حق کی گواہی دینے کا جذبہ زندہ ہو اور مسلمانوں کا اجتماعی وجود دنیا میں حق کی شہادت کا عنوان ہو؛ والدین اور اعزہ واقربا کی ضروریات وحاجات کا خیال رکھا جائے؛ یتیموں کے حقوق محفوظ ہوں؛ فحاشی اور بے حیائی ایک مبغوض چیز ہو اور اس کے فروغ کے تمام راستے مسدود کرنے کا اہتمام کیا جائے؛ نظم ریاست لوگوں کو قتل، چوری، ڈاکہ، تہمت طرازی اور جان ومال وآبرو پر تعدی کی دوسری صورتوں سے بچانے کے لیے ہمہ وقت چوکس ہو اور اس طرح کے مجرموں پر خدا کی مقرر کردہ سزائیں کسی رو رعایت کے بغیر نافذ کی جائیں؛ معاشرے میں خیر کی طرف دعوت دینے اور برائی سے روکنے کی عمومی فضا قائم ہو اور معاشرہ ہر سطح پر اس حوالے سے حساس ہو؛ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے رشوت اور سفارش کے بجائے عدل وانصاف کی بنیاد پر کیے جائیں؛ کوئی بالادست کسی زیر دست پر زیادتی یا اس کی حق تلفی نہ کر سکے؛ لوگوں کو اپنی اپنی قابلیتوں کے مطابق علمی وعملی ترقی کرنے اور اپنے اپنے ذوق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع میسر ہوں؛ دولت کی تقسیم کا نظام عادلانہ اور منصفانہ ہو اور نظم اجتماعی اس میں پیدا ہونے والی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک رہے؛ خدا کی شریعت کی پاس داری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام ہو اور کوئی خوف، مفاد، لالچ یا دباؤ اس پر عمل درآمد کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے؛ اخوت، بھائی چارے، ہم دردی اور خیر خواہی کا رویہ عام ہو اور لوگ ذاتی یا گروہی ناپسندیدگی کی بنا پر ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے، ایک دوسرے کے عیب ڈھونڈ کر ان کی تشہیر کرنے یا نسلی وقبائلی تفاخر کے امراض میں مبتلا نہ ہوں؛ دین اور دینی شعائر کا پورا پورا احترام کیا جائے؛ مساجد ومکاتب آباد ہوں اور دین کی تعلیم اور اس کی نشر واشاعت معاشرے کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہو؛ اللہ کے دین کی نشر واشاعت اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی کا جذبہ دلوں میں موج زن ہو؛ اقلیتی گروہوں کو جان ومال کا تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور وہ سیاسی ومعاشرتی حقوق سے پوری طرح بہرہ مندہوں----- مختصر الفاظ میں ایک اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں اجتماعی سطح پر اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا رنگ غالب ہو اورخالق اورمخلوق، دونوں کے حقوق ایک اعلیٰ اخلاقی احساس ذمہ داری کے ساتھ پورے پورے ادا کیے جائیں۔ 

ایک حقیقی اسلامی معاشرے کے خط وخال کی یہ تفصیل پیش نظر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں نفاذ شریعت کی بحث معاشرے کی اصلاح وتربیت کے حوالے سے کسی مثبت اور جامع فکری اور مذہبی غور وفکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ اصلاً اس سیاسی کشمکش کا ایک ذیلی نتیجہ (bi-product) ہے جو پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ملک کی آئینی ودستوری حیثیت کے تعین کے ضمن میں پیدا ہو گئی۔ آئندہ دستوری مراحل میں بھی نفاذ اسلام کی بحث نظری اور سیاسی سطح پر زندہ رہی اور ابھی تک زندہ ہے اور نفاذ شریعت کے عنوان سے کی جانے والی ساری جدوجہد اور اقدامات کا محور یہی سیاسی نزاع ہے۔ اس پس منظر میں نفاذ اسلام کی یہ جدوجہد اپنے ہدف کے اعتبار سے اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور قانون تک محدود رہی اور مذہبی طبقات نے اپنی جدوجہد سے دستوری سطح پر مملکت کے نظریاتی تشخص کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ عملاً جن قوانین مثلاً قادیانیوں کے خلاف امتناعی قوانین یا توہین رسالت کی سزا وغیرہ پر عمل درآمد پر اصرار کیا گیا، ان کے پس منظر میں زیادہ تر عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کارفرما تھے جبکہ حقیقی معاشرتی اصلاح کا پہلو ان میں نمایاں نہیں تھا۔ گویا یہ ساری جدوجہد اصلاً چند خطرات اور تحفظات کے تناظر میں تھی اور اس کے محرکات میں اسلام کے ریاستی ومعاشرتی کردار کے تحفظ کے مخلصانہ جذبے کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقات کی سیاسی اور معاشرتی بقا (Political & Social Survival) کا سوال بھی یقیناًکار فرماتھا۔ اس محدود اور یک رخی اپروچ سے نفاذ اسلام کا جو تصور نہ صرف عوام بلکہ خود مذہبی طبقات میں پروان چڑھا، وہ مثبت معنوں میں ایک پاکیزہ اور خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند معاشرے کا تصور نہیں، بلکہ محض یہ تھا کہ بعض خلاف اسلام عناصر کے خلاف امتناعی اور تعزیری اقدامات کتاب قانون میں شامل کر لیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر لوگوں کے اخلاق وکردار کو بہتر بنانے، معاشرے میں تعلیم کو عام کرنے، غربت اور ناداری کے خاتمے کے لیے سماجی سطح پر محنت کرنے، کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے، لوگوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کرنے، نزاعات کے پرامن تصفیے کے لیے کوئی غیر سرکاری نظم قائم کرنے اور اس طرح کی دوسری سماجی سرگرمیوں کو ’’نفاذ اسلام کی جدوجہد‘‘ سے غیر متعلق سمجھا جاتا ہے۔

اب دوسرے سوال کو لیجیے:

ہمارے ہاں بالعموم شریعت کے قانونی احکام کے نفاذ کو اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے ہم معنی سمجھا جاتا اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے کسی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے تمام تقاضے خود بخود پورے ہو جائیں گے۔ یہ غلط فہمی شریعت اور معاشرے کے ایک ناقص اور محدود فہم اور اخلاقیات اور شرعی قوانین کے باہمی تعلق کو معکوس کر دینے کا نتیجہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے نصوص میں بیان ہونے والے قانونی احکام خود مکتفی (self-contained) قسم کی ہدایات کا کوئی مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مربوط فکری واعتقادی اور اخلاقی نظام کا جز ہیں۔ قرآن مجید کتاب وحکمت کی تعلیم کی غایت اور احکام شریعت کا مقصد افراد اور معاشرے کا تزکیہ اور اخلاقی تطہیر بیان کرتا ہے۔ قرآن میں شریعت کے تمام احکام اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں اور تمام احکام کے پیچھے کارفرما اخلاقی اصولوں کو نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے کہیں بھی مجرد طور پر شرعی احکام وقوانین کی فہرست بیان کرنے پراکتفا نہیں کی، بلکہ اس کے ساتھ مابعد الطبیعیاتی یعنی علمی واخلاقی اساسات کی روشنی میں ان قوانین کے اصل مقصد کو بھی واضح کیا ہے۔ یہ اعتقادی واخلاقی اساسات شرعی احکام کے لیے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور قانونی احکام سے درحقیقت انھی کی پاس داری اور تحفظ مقصود ہے۔ 

الف۔ قرآن کاعام اسلوب یہ ہے کہ وہ اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے موقع کی مناسبت سے پیش نظر ہدایات بیان کرنا شروع کر دیتا ہے اور انھی کے ضمن میں وہ احکام بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کی تنفیذ اپنی نوعیت کے لحاظ سے معاشرے کے ارباب حل وعقد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قرآن ان احکام کو نہ تو عمومی اخلاقی ہدایات سے الگ کر کے بیان کرتا ہے اور نہ ان کو ممتاز کرنے کے لیے کوئی مخصوص اسلوب اختیار کرتا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں یہ سب ہدایات اصلاً اخلاقی ہدایات ہیں جن کا مخاطب پورا معاشرہ ہے، جبکہ ان میں سے خالص قانونی نوعیت کی ہدایات اور ان احکام کو ممتاز کرنے کی ضرورت جن کی تنفیذ کے ذمہ دار ارباب حل وعقد ہیں، دراصل قرآن کے مخاطبین کے لیے ان ہدایات کو رو بعمل کرنے کے ایک عملی تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔ 

مثال کے طورپر سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے وہ اخلاقی حدود وآداب بیان کیے ہیں جن کا لحاظ اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور خود مسلمان مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے حوالے سے رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلے میں کوئی رائے پیش کرنے اور آپ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے اورپکارتے ہوئے آپ کی شان نبوت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اہل ایمان کے باہمی آداب کے حوالے سے کسی فاسق کی اطلاع پر اقدام کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنے کی تاکید کی گئی ہے جبکہ اہل ایمان کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، برے القاب رکھنے، بدگمانی کرنے، دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں لگنے اور غیبت وغیرہ جیسی اخلاقی برائیوں کی شناعت کی گئی ہے۔ انھی ہدایات کے ضمن میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمان ان کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں اور اگر کوئی ایک گروہ زیادتی کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف لڑائی کر کے اسے راہ انصاف پر لائیں۔ یہ ہدایت بدیہی طور پر نظم اجتماعی سے متعلق ہے، لیکن قرآن نے یہاں اسلوب تخاطب میں کوئی فرق پیدا نہیں کیا اور اس طرح نہایت بلاغت کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ نظم اجتماعی کی قانونی ذمہ داریاں اور اختیارات دراصل عمومی اخلاقی اصولوں ہی سے پھوٹتے اور ان کی توسیع ہوتے ہیں اوریہ کہ قانونی سطح پر ان کی تنفیذ خارج سے معاشرے پر مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت معاشرے ہی کے اجتماعی اخلاقی شعور کی عکاسی اور اس کی نمائندگی کرتی ہے۔

ب۔ قرآن کے بیان کردہ بیشتر احکام اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ ان کی عملی تنفیذ اصلاً کسی قانونی اتھارٹی پر منحصر نہیں، بلکہ ان میں معاملے کے فریقین اور معاشرے کی عمومی اخلاقی حس کو اپیل کی گئی ہے۔ گویا قرآن یہ فرض کرتا ہے کہ حقوق وفرائض اور عدل وانصاف کا تصور اور اس کے مطابق کسی معاملے کا تصفیہ کرنے کا بنیادی اخلاقی ڈھانچہ تو خارج میں موجود ہے، جبکہ قرآن اپنی ہدایات کے ذریعے سے صرف یہ راہنمائی کرنا چاہتا ہے کہ کسی مخصوص معاملے میں اخلاقی اصولوں کو عملاً متشکل کرنے کی بہتر اور پاکیزہ صورت کیا ہو سکتی ہے اور یہ کہ اگر کسی موقع پر فریقین کی طرف سے جذبات یا مفادات کی رو میں بہہ کر اخلاقی طرز عمل سے گریز کا رویہ پیدا ہو سکتا ہے تو اسے برسر موقع متنبہ کرتے ہوئے راہ راست کو واضح کر دیا جائے۔

اس کی ایک نمایاں مثال خاندان کے دائرے میں مرد اور عورت کے باہمی حقوق وفرائض کامسئلہ ہے۔ مرد کو جسمانی اور انتظامی پہلو سے جو برتری فطری طور پر حاصل ہے، اس کے نتیجے میں انسانی معاشرے کا بڑی حد تک ایک مردانہ معاشرے (Patriarchal Society) کی صورت اختیار کر لینا ناگزیر ہے۔ شریعت اسی عملی حقیقت کی روشنی میں مرد اور عورت کے دائرہ ہاے کار اور حقوق وفرائض کی تعیین میں بعض پہلووں سے حکیمانہ امتیاز کو ملحوظ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں مردانہ معاشرے میں خواتین ہمہ جہت استحصال اور نا انصافی کا شکار رہی ہیں۔ تاہم قرآن نے اس استحصال کے خاتمے کے لیے جدید مغربی مفہوم میں ’’مساوات پر مبنی معاشرے‘‘ (Egalitarion Society) کے تصور کو نہ کہیں آئیڈیل کی حیثیت سے بیان کیا ہے، نہ معاشرتی وقانونی سطح پر اس کے حصول کی کوئی کوشش کی ہے اور نہ اس حوالے سے کسی طبقاتی کشمکش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے بجائے قرآن کی ہدایت کا سارا زور مردوں کو مخاطب بنا کر ایثار اور ترحم کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کو نمایاں کرنے اور ان کی بنیاد پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے معاشرے کی اخلاقی حس کو اپیل کرنے پر ہے۔ چنانچہ قرآن نے زوجین کے حقوق وفرائض کی جو تقسیم بیان کی اور مختلف احوال سے متعلق جو ہدایات دی ہیں، ان کا مخاطب ایک ایسا معاشرہ ہے جو اخلاقی اعتبار سے مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، اورجو نزاع کی صورت میں اپنی داخلی اخلاقی قوت کی بنیاد پر قرآن کی ہدایات کو شارع کے حقیقی منشا کے مطابق رو بعمل کر سکتا ہے۔ 

مثال کے طور پر قرآن مجید نے بیویوں کی سرکشی اور نشوز کی صورت میں آخری چارے کے طور پر شوہروں کو ان کی مناسب جسمانی تادیب کا اختیار دیا ہے، تاہم حکم کے موقع ومحل سے واضح ہے کہ یہ اختیار ایک نہایت محدود قانونی (strictly legal) مفہوم میں بیان کیا گیا ہے، نہ کہ ایک اخلاقی آئیڈیل کے طور پر، اور اس نہایت محدود قانونی اختیار کے عملی استعمال پر بھی شریعت نے نہایت سخت اخلاقی قدغنیں عائد کی ہیں۔ حق تادیب کا استعمال بدیہی طورپر ایک خانگی معاملہ ہے اور اس میں قانونی سطح پر عائد کی جانے والی کسی پابندی کے موثر ہونے کا امکان عملاً نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بدیہی طورپر اس حق کو مذکورہ اخلاقی حدود کا پابند بنانے کا انحصار افراد کی اخلاقی تربیت اور مجموعی معاشرتی رویے پر ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اس توازن کو قائم کرنے کی موثر ضمانت تھی اور یہ آپ ہی کی ذات گرامی کا احترام تھا کہ آپ کی محض ایک ہدایت پر شوہروں نے اپنا حق تادیب استعمال کرنا چھوڑ دیا، لیکن ظاہر ہے کہ اس اخلاقی آئیڈیل کو معاشرے میں زندہ رکھنا آپ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دین کا ایک مستقل اور ابدی اخلاقی مطالبہ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی واخلاقی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سماجی فضا بھی موجود ہو جو اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتی ہو۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے شوہروں کو بیویوں کی جسمانی تادیب کا جو اختیار دیا ہے، وہ کوئی بے قید اور مطلق اختیار نہیں، بلکہ بہت سی اخلاقی حدود وقیود کا پابند اختیار ہے اور اس کی معنویت اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب اسے قرآن کے بیان کردہ اخلاقی فریم ورک کے اندر رو بعمل کیا جائے۔ اس اخلاقی فریم ورک اور معاملے کے دوسرے فریق سے متوقع اخلاقی تقاضوں سے الگ کر کے اس اختیارکو شرعی اختیار نہیں کہا جا سکتا اور اگر شوہر کو تجاوز سے روکنے کا کوئی سماجی واخلاقی نظام موجود نہ ہو تو اسے یک طرفہ طور پر یہ حق دے دینا شریعت کا مقصود نہیں بلکہ قطعی طور پر اس کے منشا ومقصود کے خلاف ہوگا۔

ج۔ قرآن کے اس زاویہ نگاہ کوزیادہ نمایاں انداز سے واضح کرنے والی مثالیں وہ ہیں جن میں قرآن ایک ہی مسئلے سے متعلق ہدایات کا ایک مجموعہ بیان کرتا ہے اور ان میں سے بعض ہدایات نجی یا سماجی سطح پر افراد معاشرہ سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ بعض نظم اجتماعی سے۔ ہدایات کا یہ مجموعہ قرآن کی نظر میں بحیثیت کل مطلوب ہوتا ہے اور ان پر جزوی طور پر عمل کا طریقہ قرآن کے مقصود کو پورا نہیں کرتا۔ قرآن معاشرے اور اس کے نظم اجتماعی کو یہاں بھی دو جدا جدا وجود (entities) تصور کر کے الگ الگ مخاطب نہیں کرتا اور نہ اپنے اسلوب سے اس امر کی کوئی گنجایش پیدا ہونے دیتا ہے کہ معاشرہ یا نظم اجتماعی اپنے اپنے دائروں میں اس مجموعہ کے بعض اجزا کو رو بعمل کر لیں تو قرآن کا مطلوب پورا ہو جائے گا۔ قرآن اس مجموعے کو بحیثیت مجموعے کے رو بعمل دیکھنا چاہتا ہے اور یہ توقع کرتا ہے کہ معاشرہ اور نظم اجتماعی پوری ہم آہنگی اور توافق اور یکساں احساس ذمہ داری کے ساتھ اس کی ہدایات کو بجا لاتے ہوئے کسی مخصوص معاملے میں دینی واخلاقی اصولوں اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو عملی صورت میں متشکل کریں گے۔

مثال کے طور پر قتل کے معاملے کو لیجیے۔ قرآن مجید نے قصاص کا قانون دو مقامات پر نہایت موکد انداز میں بیان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں قانون اور عدالت کی طرف سے کسی نرمی اور مداہنت کو روا نہیں ٹھہراتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن نے دونوں جگہ مقتول کے ورثاکو نہایت بلیغ انداز میں قاتل کو معاف کر دینے کی ترغیب بھی دی ہے۔ ورثا کی طرف سے معافی کا یہ فیصلہ ظاہر ہے کہ قانون اور عدالت کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہوگا، لیکن اصلاً یہ عدالت کے قانونی دائرۂ اختیار سے ماورا ہے اور اس کے لیے ورثا میں ترغیب اور آمادگی پیدا کرنا اصلاً سماجی سطح پر بہی خواہوں سے مطلوب ہے۔ یہی معاملہ قتل خطا کے احکام کا ہے جہاں قرآن نے قاتل پر قتل ہونے والے مسلمان کی دیت ادا کرنے کے علاوہ اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر ایک مومن غلام کو آزاد کرنا یا اس کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں دو مہینے کے متواتر روزے رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کو ان ہدایات پر عمل اپنے کل میں مطلوب ہے اور اس کے نزدیک قتل خطا کے مرتکب کے تزکیہ اور خدا کی رحمت کے اس پر متوجہ ہونے کا عمل دیت کی ادائیگی اور غلام کی آزادی دونوں سے مشروط ہے۔ یہاں بھی دیت کی ادائیگی تو ایک قانونی معاملہ ہے لیکن غلام کی آزادی یا روزے رکھنا سراسر ایک انفرادی فعل ہے جس سے قانون کو کوئی سروکار نہیں ہو سکتا اور نہ جبراً کسی کا غلام آزاد کرنے یا اسے روزے رکھوانے سے فرد کو وہ تزکیہ حاصل ہو سکتا ہے جو اس ہدایت سے قرآن کا مقصود ہے۔ 

قرآن مجید نے چوری، قذف اور زنا پر متعین سزائیں بیان کی ہیں اور اہل ایمان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترس کھائے بغیر ان سزاؤں کو مجرم پر نافذ کر دیں۔ تاہم یہ اس صورت میں ہے جب معاملہ عدالت کے نوٹس میں آ جائے اور وہ اس پر قانونی کارروائی کرنے کی پابند قرار پائے۔ جہاں تک اس ضمن میں معاشرتی سطح پر مطلوب رویے کا تعلق ہے تو وہ اس سے بالکل مختلف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے شریعت کا عمومی رجحان یہ سامنے آتا ہے کہ اس کا اصل زور مجرم کو ہر حال میں سزا دینے پر نہیں، بلکہ جہاں تک ممکن ہو، اسے سزا سے بچاتے ہوئے اصلاح احوال کا موقع فراہم کرنے پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے ان لوگوں کو جن سے جرم سرزد ہو جائے، یہ ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالے رکھیں اور توبہ واستغفار کے ذریعے سے اسے اللہ تعالیٰ سے معاف کرانے کی کوشش کریں۔ آپ نے معاشرے کے لوگوں کو بھی یہی ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو عدالت میں پیش کرنے سے گریز کریں، کیونکہ مقدمہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد مجرم پر سزا کا نفاذ قاضی کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ضمن میں ارباب حل وعقد کے لیے بھی یہ راہنما اصول بیان فرمایا ہے کہ ان کی اصل دلچسپی مجرم کو سزا دینے سے نہیں بلکہ عدل وانصاف کے حدود میں رہتے ہوئے اس کے لیے معافی کی گنجایش تلاش کرنے سے ہونی چاہیے۔اسی طرح قرآن نے یہ پہلو بھی کم وبیش ہر موقع پر نمایاں کیا ہے کہ اگر مجرم حقیقتاً توبہ واصلاح پر آمادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرنے اور گناہوں کو بخش دینے والے ہیں اور اس سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ توبہ واصلاح کی راہ اختیار کرنے والے مجرموں کو معمول کی معاشرتی زندگی بسر کرنے میں پورا تعاون فراہم کرے اور امتیازی رویہ اختیار کر کے انھیں سماجی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ 

شریعت کے اصل مقصود یعنی تزکیہ اخلاق کے پہلو سے یہ ایک بے حد اہم بات ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک صاحب ایمان جیسے اپنے لیے دوسرے انسانوں کے سامنے رسوائی کو پسند نہیں کرتا، اسی طرح اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی اس کا جذبہ اور کوشش یہی ہونی چاہیے کہ انھیں رسوائی اور سزا کا سامنے کیے بغیر توبہ اوراصلاح کاموقع مل جائے۔ اہل ایمان کو خود اپنے گناہوں کو یاد رکھتے ہوئے گناہ کے مرتکب ہونے والے اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی ستر او رپردہ پوشی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سے انھیں اس بات کی یاد دہانی ہوگی کہ ان کے نامہ اعمال میں بھی بہت سے گناہ ہیں جن پر خدا نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں لوگوں کا عمومی مزاج اس کے برعکس تشکیل پا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک برخود غلط رویے (self-righteousness) کا شکار ہو چکا ہے اور دوسرے انسانوں سے ہمدردی کے بجائے ان کی رسوائی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی لحاظ سے ایک نہایت پست اور منفی رویہ ہے، اور سیدنا مسیح علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں پائے جانے والے اسی رویے کی قباحت واضح کرتے ہوئے ایک واقعے میں، جس میں لوگ بدکاری کی مرتکب ہونے والی ایک خاتون کو پورے مذہبی جوش وخروش کے ساتھ سنگ سار کرنے کے لیے لے جا رہے تھے، ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اسے سنگ سار کرنے کے لیے پہلا پتھر وہ شخص اٹھائے جس نے زندگی میں خود کبھی بدکاری نہ کی ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کسی معاشرے کی اخلاقی تربیت اس نہج پر نہ ہوئی ہو اور گناہ گار انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور انھیں سزا دلوانے کے بجائے سزا سے بچاتے ہوئے اخلاقی اصلاح کی ترغیب دینے کا رویہ عام نہ ہو اور ایک مرتبہ جرم کا راستہ اختیار کر لینے والوں کے لیے پلٹ کر معمول کا طرز زندگی اختیار کرنے کے سارے راستے بند ہوں اور وہ باقی کی زندگی گزارنے مجرمانہ ماحول ہی میں گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو اپنے اخلاقی رویے کے اعتبار سے ایسے معاشرے کو شارع کا مطلوب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔

ریاست سے متعلق اسلام کے بیان کردہ احکام وہدایات کا اہم ترین حصہ ارباب حل وعقد کی ذمہ داریوں اور طرز حکمرانی سے متعلق ہے۔ ان تمام ہدایات کا محور ایک بنیادی اخلاقی اصول ہے،یعنی یہ کہ اختیار واقتدارکو ایک امانت اور ذمہ داری سمجھا جائے اور اسے خوف خدا اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ خالصتاً لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ حکمران طبقے میں ایک خاص اخلاقی رویے کی آبیاری کیے بغیر مذکورہ طرز حکمرانی کا رائج ہونا محض چند قوانین منظور کر لینے سے ممکن نہیں۔ کسی قوم کے حکمران طبقے کا طرز عمل درحقیقت اپنے معاشرے ہی کی عکاسی کرتا ہے اور اس کے اچھے یا برے اوصاف بحیثیت مجموعی قوم کے اخلاقی رجحانات ہی کی تصویر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکمران طبقے کے بعض افراد تو مستثنیٰ ہو سکتے ہیں، لیکن حکمران طبقے سے بحیثیت ایک طبقے کے معاشرے کے عمومی اخلاقی معیار سے ہٹ کر کسی اخلاقی رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بعض روایات میں ’کما تکونون یومر علیکم‘ کے الفاظ میں غالباً اسی پہلو کو بیان کیا گیا ہے، یعنی جس طرح کے تم ہوگے، اسی طرح کے حکمران تم پر حکمرانی کریں گے۔ (القضاعی، مسند الشہاب، رقم ۵۷۷۔ بیہقی، شعب الایمان، رقم ۷۳۹۱) 

قرآن نے اپنے اس زاویہ نگاہ کو ان مقامات پر مزید موکد کیا ہے جہاں اس نے بنی اسرائیل میں شرعی قوانین کی پاس داری نہ کرنے یا ان کو پامال کرنے کا مجرم صرف ان کے ارباب حل وعقد کو نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پورے گروہ کو قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ایسے معاملات میں قانونی وانتظامی ڈھانچے کو یک طرفہ طور پر مجرم نہیں ٹھہراتا، اس لیے کہ مثال کے طور پر اگر کسی معاشرے میں عدالتیں اور نفاذ قانون کے ادارے انصاف فراہم نہیں کرتے تو بظاہر یہ اگرچہ حکومتی نظام کا قصور ہے، لیکن اس کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ حکام کے ہاں اخلاقی حدود کی پامالی کا اصل منبع خود معاشرے کا اخلاقی فساد ہے اور حاکم، قاضی یا کوئی دوسرا انتظامی منصب دار جب فیصلہ یا اقدام کرتے ہوئے عدل وانصاف کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو اس کے لیے تحریک پیدا کرنے، دباؤ ڈالنے اور تحریص وترغیب یا تخویف کے سارے اسباب فراہم کرنے کا عمل درحقیقت خود معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے کل پرزے ظاہر ہے کہ معاشرے ہی سے فراہم ہوتے ہیں اور ان کے اخلاقی رجحانات کی تشکیل بھی عمومی معاشرتی اثرات ہی کے تحت ہوتی ہے، چنانچہ ان کے لیے اپنی منصبی حیثیت میں بھی اس سے بلند تر کسی اخلاقی معیار کی توقع کرنا عبث ہے، بلکہ یہ واقعہ ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی دیانت دار فرد کے لیے اپنے ضمیر کے مطابق منصبی ذمہ داریاں انجام دینا ہی کم وبیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے اور انصاف کو خریدنے کی ممانعت بیان کی ہے، وہاں اس کا نقطہ آغاز حکام کو نہیں بلکہ خود معاشرے کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرہ ۲:۱۸۸)
’’اور ایک دوسرے کامال باطل طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ مال کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کرو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کرتے ہوئے کھا سکو، جب کہ تم جانتے ہو۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سیاسی اور انتظامی سطح پر ارباب اختیار کو بحیثیت مجموعی ان اوصاف کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعی اخلاقی آدرشوں کی آبیاری کو تعلیم وتربیت کے نظام کا حصہ بلکہ مقصود بنایا جائے، رشوت اور بدعنوانی کے معاشی ومعاشرتی اسباب کا ازالہ کیا جائے اور ظلم، ناانصافی اور استحصال کو جنم دینے اور اس کو تحفظ فراہم کرنے والے سیاسی اور سماجی کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ 

اب تیسرے سوال کا جائزہ لیجیے:

اوپرکی سطور میں ہم نے جو بحث کی ہے، اس سے واضح ہے کہ شریعت کے بیان کے حوالے سے قرآن کا مطمح نظر فقہ اور قانون کے زاویہ نگاہ سے کہیں زیادہ وسیع، جامع اور ہمہ گیر ہے۔ فقہ کا دائرہ شرعی احکام کے ان پہلووں تک محدود ہے جنھیں متعین قانونی ضابطوں کی صورت میں بیان کرنا اور ان پر فقہی جواز یا عدم جواز کا حکم لگانا ممکن ہو۔ قانون کا دائرہ اس سے بھی زیادہ تنگ اور محدود ہو جاتا ہے، کیونکہ وہاں صرف وہ چیزیں زیربحث آ سکتی ہیں جن کا تعلق عدالت وقضا سے ہو اور جن میں ریاستی نظام کی مداخلت ممکن ہو۔ قرآن کا زاویہ نگاہ چونکہ ان دونوں محدودیتوں سے بلند تر ہے اوروہ شریعت کو اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے حصول کا ایک ذریعہ قرار دیتا ہے، اس لیے اس نے ان دونوں پہلووں کو الگ الگ بیان نہیں کیا اور نہ ریاست اور عدالت کو براہ راست کہیں مخاطب کیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب سے اس کا یہ زاویہ نگاہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل درآمد اور ان کے نفاذ کے جذبے کو خود معاشرے کے اندر سے پھوٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے نزدیک آئیڈیل یہ نہیں کہ کوئی قانونی اتھارٹی محض حاکمانہ اقتدار کے بل بوتے پر شرعی حدود وضوابط کی پاس داری اور ان کی تنفیذ کا فرض انجام دے دے، بلکہ یہ ہے کہ خدا کی شریعت کی پیروی اور اس کے نفاذ کے لیے قوت محرکہ (driving force) خود معاشرہ ہو جو اس مقصد کے لیے مناسب قانونی وانتظامی ادارے بھی وجود میں لائے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے حوالے سے ان کی کارکردگی کا مسلسل محاسبہ بھی کرتا رہے۔

علم عمرانیات کی رو سے قرآن کے اس زاویہ نگاہ کی اہمیت اور معنویت بے حد واضح ہے۔ معاشرہ اصلاً چند مشترک مقاصد اور منافع کے حصول کے لیے تشکیل پاتا ہے اور اس کی تشکیل کے لیے افراد یا گروہ اگر اپنی آزادانہ مرضی اور اختیار کو قربان کرتے ہیں تو انھی مشترکہ مقاصد اور منافع کے پیش نظر کرتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کے نظام کے لیے شیرازہ بندی کا کام اصلاً حقوق وفرائض کے حوالے سے ان اساسی تصورات کے ساتھ وابستگی سے حاصل ہوتا ہے جن کی روشنی میں معاشرتی نظام اور قوانین تشکیل دیے جاتے ہیں۔ سماجی سطح پر ان تصورات کے عمومی شعور سے مقاصد اور منافع کی نگہبانی کا ایک خود کار نظام وجود میں آ جاتا ہے اور معاشرہ اپنی روز مرہ سرگرمیوں کے تسلسل میں اصلاً اسی سماجی نظام پر انحصار کر رہا ہوتا ہے ۔ جہاں تک رسمی قانون کا تعلق ہے تو وہ معاشرے سے مقدم نہیں ہوتا اور نہ اس کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کو پیشگی منضبط کرتا ہے۔اس کے برعکس وہ کسی معاشرے کے اساسی فلسفہ حیات اور اس کے تحت پیدا ہونے والی عملی رسوم اور حدود وقیود کی فرع ہوتا اور ان کے رائج اور مستحکم ہو جانے کے بہت بعد وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ کہ معاشرتی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے نفاذ قانون کے رسمی اداروں کی مداخلت کا کم سے کم ہونا اور ناگزیر صورتوں تک محدود ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ حد سے زیادہ مداخلت نہ صرف قانونی اداروں کی ذمہ داریوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر سکتی ہے بلکہ قانونی اداروں پر زیادہ انحصار خود معاشرے کی اپنی داخلی قوت کو کمزور کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ سماجی نظام کی شیرازہ بندی میں قانون کا کردار بنیادی اور ہمہ گیر نہیں، بلکہ ثانوی ، جزوی اور محدود ہے اور اگر قانون کی پشت پر کسی معاشرے کی ذہنی ہم آہنگی اور اس کی پابندی کرنے کا جذبہ موجود نہ ہو تو محض قانون کے زور پر کسی معاشرے کو مخصوص خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں نظری سطح پر مروجہ قانونی ڈھانچے کی اساسات کو چیلنج کر دیا جاتا اور اس کے اخلاقی جواز یا عملی افادیت پر سوالات اٹھا دیے جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ لوگوں کی اس کے ساتھ وابستگی کمزور ہو نا شروع ہو جاتی ہے اور معاشرہ اور قانون، دونوں بتدریج نئے تصورات کے مطابق ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اب ہم آخری سوال کی طرف آتے ہیں جو اس بحث کا اصل سوال ہے، یعنی یہ کہ اگر کوئی معاشرہ اپنے مذہبی شعور اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے اس سطح پر نہ ہو کہ اس سے اپنی داخلی اخلاقی قوت کی بنیاد پر شرعی احکام وقوانین کی پاس داری کی توقع کی جا سکے تو قانونی سطح پر اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟ قرآن مجید سے ہمیں اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرآن کے زاویہ نگاہ کی رو سے شریعت دراصل ایمان واخلاق کی فرع ہے اور جب وہ معاشرے کو بحیثیت مجموعی شرعی احکام کا مخاطب بناتا ہے تو یہ فرض کر کے بناتا ہے کہ معاشرے میں ایمان واخلاق کی اقدار اس درجہ مستحکم ہو چکی ہیں کہ معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں اولاً خود ان احکام کی پابندی کو قبول کرنے اور ثانیاً اپنے سماجی اداروں کی وساطت سے ان کے قانونی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے شرعی قوانین کی اعتقادی واخلاقی اساسات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات اور انسانی معاشرے کی طبعی ساخت کے تناظر میں اس حکمت عملی کے بنیادی پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے جو کسی معاشرے میں شرعی احکام وہدایات کی عمل داری قائم کرنے کے لیے اختیار کی جانی چاہیے۔ 

قرآن مجید کے نزول کے مختلف مراحل کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اس نے مکی دور کی سورتوں میں شریعت کے عملی حدود وقیود سے تعرض کرنے کے بجائے توحید اور آخرت کے ان بنیادی تصورات کو دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی ہے جو انسان اور اس کے رب کے باہمی تعلق کو صحیح اساسات پر استوار کرتے، اس میں اطاعت اور تقویٰ کے لیے آمادگی پیدا کرتے اور زندگی کے معاملات کے حوالے سے جواب دہی کا اخلاقی احساس بیدار کرتے ہیں۔ اس کے بعد مدنی دور میں مختلف معاملات سے متعلق شرعی حدود وقیود کی تعیین کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا، تاہم یہاں بھی شرعی احکام کی فہرست یک بارگی نازل کرنے کے بجائے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا اور جن احکام کی قانونی سطح پر فوری تنفیذ ممکن یا قرین مصلحت نہیں تھی، ان میں پہلے اصل رکاوٹ کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا اور اس کے بعد مطلوب احکام دیے گئے۔ 

یہاں قرآن مجید کے ان احکام کا ایک سرسری مطالعہ مفید ہوگا:

سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۴ میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر یا بیماری کے باعث رمضان کے مقررہ دنوں میں روزہ نہ رکھ سکے اور باقی دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے میں بھی نفسیاتی مشکل محسوس کرے تو وہ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ دے دے۔ بعد میں اس رخصت کو منسوخ کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ رمضان میں کسی عذر کے تحت چھوڑے جانے والے روزوں کی گنتی دوسرے دنوں میں بہرحال پوری کرنی ہوگی۔ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ دینے کی ابتدائی رخصت کی حکمت واضح ہے کہ اس سے مقصود ان لوگوں کے احوال کی رعایت کرنا تھا جن کا تعارف اسلام کے ساتھ بالکل نیا تھا اور رمضان کے روزے ایک مرتبہ چھوٹ جانے کے بعد انھیں انفرادی طورپر دوسرے دنوں میں قضا کرنے کی ہمت وہ اپنے اندرنہیں پاتے تھے۔

سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے مال میں معروف کے مطابق والدین اور دیگر اقربا کے لیے وصیت کر دے۔ یہ ایک ابتدائی ہدایت تھی جس میں اقربا کے حصوں کی تعیین معروف کے مطابق مرنے والے کی صواب دید پر چھوڑ دی گئی تھی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کے ساتھ اقربا کے رشتے کی نوعیت اور ان کے مابین منفعت کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے والدین، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے حصوں کو خود متعین فرما کر ان کی پابندی کو لازم قرار دیا۔ یہ حصے ابتدائی حکم میں بھی متعین کیے جا سکتے تھے، لیکن چونکہ عرب معاشرت میں تمام حق داروں میں وراثت کی منصفانہ تقسیم کا تصور ہی بالکل اجنبی اور نامانوس ہو چکا تھا اور یتیموں کا مال ہڑپ کرنا ایک عام اخلاقی برائی کی صورت اختیار کر چکا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ ابتدائی مرحلے میں اس حکم کو لوگوں کے لیے مانوس اور معروف بنانے کے لیے وصیت کا طریقہ تجویز کیا جائے تاکہ مرنے والے اور اس کے ورثا، دونوں کے ہاں منصفانہ تقسیم کا جذبہ بیدار ہو اور وہ اگلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ تقسیم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔

سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں زنا سے متعلق عبوری احکام بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بدکاری کی زیادہ سنگین صورتوں یعنی پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن نے اس مرحلے پر اصلاً کسی باقاعدہ سزا کے بیان کو موضوع نہیں بنایا، بلکہ ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں جو قحبہ عورتوں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کو ناممکن بنا دیں اور یاری آشنائی کا تعلق رکھنے والے جوڑے اپنے طرز عمل سے تائب ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں زنا عام ہو اور لوگوں کے اندر اس کے بارے میں اخلاقی حساسیت مردہ چکی ہو، وہاں کوئی قانونی اقدام کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے پر جرم کی ایسی صورتوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو بدکاری کے فروغ کے لیے منبع ومصدر کی حیثیت رکھتی ہوں اور جن کو ختم کیے بغیر سماجی یا انفرادی سطح پر عفت وعصمت کے تصور کی آبیاری اور اس کے مطابق پاکیزہ اخلاقی زندگی کی فضا پیدا کرنا ناممکن ہو۔ مزید یہ کہ جرم کے حوالے سے کیے جانے والے تادیبی اقدامات کا فوری مقصد بھی جرم کی قرار واقعی سزا دینے کے بجائے محض جرم کی ان صورتوں کا سدباب ہوگا اور جرم کے مرتکبین کو پورا پورا موقع دیا جائے گا کہ وہ توبہ واصلاح کا راستہ اختیار کر لیں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عہد نبوی میں شرعی احکام کے نزول کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ایک خاص وقت تک شراب اور سود کو حرام نہیں کیا گیا۔ یہ تعبیر زیادہ درست نہیں ہے۔ شراب، جوا اور سود اپنی نوعیت کے لحاظ سے کوئی ’’فقہی احکام‘‘ نہیں بلکہ اخلاقی برائیاں ہیں اور انھیں مثبت معنوں میں شرعی طور پر جائز قرار دیے جانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن نے ان کی ناپسندیدگی اور شناعت کے ضمن میں اپنا رجحان ابتدا ہی سے واضح رکھا ہے۔ درست بات یہ ہے کہ انھیں قانونی طور پر جرم اور قابل مواخذہ قرار دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کیا گیا جب لوگ ذہنی طور پر ان کی شناعت سے مانوس ہو جائیں اور قانونی پابندی کے نافذ ہونے کے بعد ان کے ترک کرنے میں عملاً زیادہ مشکل پیش نہ آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قانون کو اگر کتاب قانون میں تو درج کر دیا جائے، لیکن معاشرہ ابھی ذہنی طور پر اس کی پابندی کے لیے تیار نہ ہو یا عملی پیچیدگیوں کی وجہ سے قانونی سطح پر اس کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو تو اس کے نہایت منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قانون کی حرمت اور اس کی تاثیر اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب وہ عملاً نافذ بھی ہو رہا ہو۔ بصورت دیگر قانون نہ صرف اپنی نفسیاتی تاثیر سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ الٹا قانون شکنی کا رجحان پیدا کرنے اور قانون کی پابندی کے تصور کو بحیثیت مجموعی کمزور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانے اسی پہلو کو یوں بیان کیا ہے کہ قرآن میں زنا اور شراب کی حرمت کا حکم پہلے ہی دن نازل نہیں کر دیا گیا بلکہ پہلے تذکیر اور وعظ ونصیحت کے ذریعے سے لوگوں میں خوف خدا کا جذبہ پیدا کیا گیا، ورنہ اگر ابتدا ہی میں یہ ممانعت نازل کی جاتی تو لوگ کہتے، بخدا ہم کبھی زنا اور شراب کو نہیں چھوڑیں گے۔

روایتی مذہبی نقطہ نظرمیں بالعموم تدریجی مراحل میں نازل ہونے والے شرعی احکام کو محض تاریخی اہمیت کا حامل جبکہ عملاً بے مصرف سمجھا جاتا ہے۔ تاہم قرآن مجید کے ایک آفاقی پیغام ہونے کے تناظر میں قرآن کی حتمی ترتیب میں ان ابتدائی اور تدریجی احکام کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا جانا اپنے اندر اس سے کہیں زیادہ معنویت رکھتا ہے اور ان کو محفوظ رکھنے کا مقصد انسانی ذہن کو اس نکتے کی طرف متوجہ رکھنا ہے کہ شریعت کے حتمی احکام کو عملاً کسی معاشرے میں نافذ کرتے ہوئے اس کے احوال وظروف کی رعایت ملحوظ رکھی جانی چاہیے اور حالات یا موانع کا تقاضا ہو تو معاشرے کو ایک مبنی بر مصلحت تدریج کے ساتھ ہی اصل آئیڈیل کی طرف لے جانا چاہیے۔ جلیل القدر حنفی اصولی اور فقیہ ابوبکر الجصاص نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجیدمیں کوئی منسوخ حکم ایسا نہیں جسے ہر اعتبار سے ناقابل عمل قرار دیا گیا ہو، بلکہ حکم میں تبدیلی کا تعلق دراصل احوال میں تبدیلی سے ہے اور اگر وہ حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں جن میں پہلا حکم دیا گیا تھا تو حالات کے تقاضے سے پہلا حکم بھی عود کر آئے گا۔ ہمارے نزدیک جصاص کی یہ بات دو ترامیم کے ساتھ درست ہے: 

ایک یہ کہ انھوں نے یہ بات ایک محدود اور جزوی فقہی مفہوم میں بیان کی ہے جو بجاے خود درست ہے، تاہم اس سے کسی مخصوص معاشرے میں نفاذ شریعت کی حکمت عملی کا ایک عمومی اصول بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شرعی احکام وقوانین کے مخصوص مزاج کے ساتھ مناسبت یا عدم مناسبت کے تناظرمیں غیر عرب معاشروں میں شریعت کے نفاذ میں تدریج کی جو حکمت عملی بطور اصول تجویز کی ہے، کسی معاشرے کی ذہنی وفکری اور اخلاقی سطح کے تناظر میں بھی نفاذ شریعت کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ 

دوسرے یہ کہ قرآن مجید میں عبوری نوعیت کے جو احکام محفوظ رکھے گئے ہیں، ان کی حیثیت نظائر کی ہے جنھیں تجویز کرتے وقت عرب معاشرے کے ان مخصوص عبوری حالات کو ملحوظ رکھا گیا تھا جن میں یہ احکام دیے گئے۔ بعد کے زمانوں میں ایسی صورت حال سے سابقہ پیش آنے پر ان نظائر سے اصولی راہنمائی تو لی جائے گی، لیکن یہ کسی باقاعدہ شرعی حکم کی حیثیت نہیں رکھتے جنھیں بعینہ اسی صورت میں اختیار کرنا لازم ہو۔ اس کے بجائے اقدامات کی عملی صورت تجویز کرتے وقت اس مخصوص معاشرے کے حالات وضروریات سامنے رکھنا ضروری ہوگا جسے عبوری اور تدریجی مراحل سے گزارکر اصل شریعت کی پیروی کے قابل بنانا مقصود ہے۔

مذکورہ سطور میں کی جانے والی بحث کا خلاصہ حسب ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے:

۱۔ کسی معاشرے کو ’اسلامائز‘ کرنے کا عمل اپنے بنیادی تصورات اور نوعیت کے لحاظ سے اصلاً معاشرے میں ایمان واخلاق کی جوت جگانے، اس کی ذہنی وفکری سطح بہتر بنانے اور اس کی سماجی سرگرمیوں کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے سے عبارت ہے۔ شریعت کا مقصد بھی انسان کا اخلاقی تزکیہ ہے اور قرآن مجید نے اسی پہلو سے ہر شرعی حکم کی ایمانی واخلاقی اساسات اور اس کو محیط مختلف اخلاقی پہلووں کی طرف اہتمام کے ساتھ توجہ دلائی ہے۔ گویا قرآن کے زاویہ نگاہ سے قانونی احکام کوئی الگ تھلگ (separable) ہدایات نہیں بلکہ ایمان واخلاق پر مبنی ایک وسیع تر نظام کا حصہ ہیں اور اس سے الگ کر کے نہ تو ان کی علمی وعقلی اساسات اور حکمتوں کی توضیح ممکن ہے اور نہ تزکیہ وتطہیر کا وہ مقصد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس کے پیش نظر شارع کی طرف سے یہ احکام دیے گئے۔ چنانچہ اگر نفاذ شریعت کا مقصد کسی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانا ہے تو اس کے لیے منظم کی جانے والی جدوجہد کا ہدف بھی معاشرے کا اسلامی تصور بحیثیت کل ہونا چاہیے نہ کہ محض اس کے بعض اجزا۔ 

۲۔ شریعت کے نفاذ کے لیے معاشرہ اور نظم اجتماعی کی تقسیم محض انتظامی پہلو سے ہے، جبکہ اخلاقی ذمہ داری کے اعتبار سے معاشرہ ایک ناقابل تقسیم کل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن ہر جگہ اپنے احکام کا مخاطب بحیثیت مجموعی اہل ایمان کے پورے معاشرے کو بناتا ہے اور انھیں اسی حیثیت میں ان کی پابندی کامکلف ٹھہراتا ہے، جبکہ یہ حکم کی نوعیت ہوتی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ ان میں سے کون سی چیزیں فرد سے متعلق ہیں، کن ہدایات کی تنفیذ کی ذمہ داری سماجی سطح پر معاشرے پر عائد ہوتی ہے اور کون سے امور ہیں جن پر عمل درآمد ایک با اختیار قانونی اتھارٹی پر منحصر ہے۔ یوں قرآن شریعت پر عمل اور اس کی پابندی کو بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور اس کے نزدیک نفاذ شریعت کا معیاری تصور یہ ہے کہ شرعی حدود کی پاس داری کا جذبہ پورے معاشرے پر غالب ہو اور قانونی وسماجی اداروں کو اس مقصد کے حصول کے لیے وسیلے کی حیثیت سے استعمال کیا جائے، نہ یہ کہ ارباب حل وعقد محض حاکمانہ اختیار کے زور پر سوسائٹی پر دین کے چند مظاہر کو نافذ کر دیں۔ 

۳۔ قانون کے موثر اور با مقصد نفاذ کے لیے سوسائٹی میں ان ایمانی واخلاقی اساسات اقدار کا احیا اور استحکام ضروری ہے جو قانون کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مذہبی شعور اور اخلاقی حس کو بیدار کیے بغیر قوانین کا ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کر دینے سے نہ معاشرے کے تزکیے کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ قانون ہی پر پوری طرح عمل درآمد ممکن ہے۔ اس لیے اگر سوسائٹی کی عمومی ذہنی وفکری فضا کسی قانونی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور قانون کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو تو اصل توجہ ایمان واخلاق کو بہتر بنانے اور نفاذ شریعت کے لیے فکری واخلاقی سطح پر زمین ہموار کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے جبکہ قانون کے نفاذ میں حالات کی رعایت سے تدریج کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح ایسی فاسد رسوم جو معاشرے میں رچ بس گئی ہوں، ان کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے محض قانونی حکم کا بیان کر دینا کافی نہیں، بلکہ سماجی عوامل اورمحرکات کے ذریعے سے لوگوں کے تصورات کی اصلاح کی جانی چاہیے۔

اس بحث کی روشنی میں دیکھیے تو ہمارے ہاں رائج مذہبی تصورات اور ان کی بنیاد پر کی جانے والی جدوجہد سے نفاذ اسلام کی ایک بے حد مسخ شدہ اور نہایت غیر متوازن تصویر سامنے آتی ہے۔ مثلاً:

  • اگر کسی معاشرے میں شارع کی ہدایت کے مطابق شادی کے لیے بیٹی بلکہ بیٹے کی مرضی کو بھی کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو اور اس معاملے میں ماں باپ کی پسند کے مقابلے میں اپنا انتخاب بیان کرنے کو غیر صحت مندانہ سماجی رویہ سمجھا جاتا ہو، وہاں یک طرفہ طور پر باپ کے حق ولایت کو قانونی طور پر نافذ کر دینا اور اگر کوئی لڑکی اپنے حق کے استعمال کا موقع نہ پا کر عدالت کے ذریعے سے یا اس کی وساطت کے بغیر اپنی پسند کی شادی کر لے تو کیا اس کے نکاح کو باطل قرار دے کر ’حدود آرڈیننس‘ کے تحت اس کے خلاف بدکاری کا مقدمہ درج کرنے کو شارع کامنشا قرار دیا جا سکتا ہے؟
  • اگر کسی معاشرے کی اخلاقی حالت یہ ہو کہ مختلف مذہبی گروہ اعتقادی وفقہی تعبیرات کے اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہوں، ایک دوسرے کو گستاخ رسول، گستاخ امام اور منکر حدیث کہتے ہوں، ایک دوسرے کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے درج کراتے ہوں، اور جہاں گروہی مذہبی یا سیاسی اختلافات کی چوکھٹ پر انسانی جان ومال اور آبرو کی قربانی چڑھانا عین دین وایمان کا تقاضا سمجھا جاتا ہو، وہاں یہ فرض کرنے کی گنجایش کس حد تک درست ہوگی کہ کوئی مسلمان توہین رسالت کے سوال کو اپنے کسی ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، اس لیے کسی شخص کے خلاف توہین رسالت کا الزام عائد کیا جانا ہی اس کا جرم ثابت ہونے کے مترادف ہے؟
  • اگر کسی معاشرے میں کشف والہام انفرادی دائرے سے اٹھ کر ایک باقاعدہ اداراتی صورت اختیار کر چکے ہوں، ان کی بنیاد پر شخصیات اور جماعتوں کے عند اللہ مقبول ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کیے جاتے ہوں، لوگوں کی ان کی طرف دعوت جاتی اور ان کے ساتھ وابستہ ہونے والوں کو نجات کی بشارت دی جاتی ہو، القا والہام کی بنیاد پر مراقبہ وسلوک کے نظام مرتب کیے جاتے بلکہ سیاسی ومذہبی اختلافات میں بھی حق وباطل کی تفریق کرنا ایک عام چلن ہو، جہاں خواب اور بشارات کسی کے مامور من اللہ ہونے کا ایک مستند ذریعہ سمجھے جاتے ہوں، ایسی فضا میں اگر کوئی شخص ’’شبانی سے کلیمی دو قدم ہے‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کر دے اور عام لوگ اس کے فریب میں مبتلا ہو کر اسے ایک ’’امتی نبی‘‘ مان لیں تو انھیں کس حد تک اس کا قصور وار ٹھہرایا جا سکتا اور راہ راست پر لانے کی ہمدردانہ کوشش کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے محض ان کا معاشرتی مقاطعہ کرنے اور قانونی اقدامات کے ذریعے سے انھیں مسلمانوں سے الگ کر دینے پر اکتفا کے طرز عمل کو کس حد تک اخلاق، حکمت اور دعوت دین کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟ 
  • ایک ایسی سوسائٹی جس میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے محرکات وترغیبات بکثرت میسر جبکہ مناسب عمر میں آسان شادی کے مواقع معدوم ہوں، جہاں عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے تحت در آنے والے تہذیبی واخلاقی اثرات اور ایک ناہموار سماجی ڈھانچے سے پیدا ہونے والی ترجیحات بنیادی کردار ادا کرتی ہوں، جہاں پیشہ ورانہ بدکاری معاشرے میں خواتین کی محکومانہ حیثیت اور ان کے استحصال پرمبنی ایک مضبوط نظام کی پیداوار ہو، اس صورت حال میں زنا کی سزا کو محض قانون کی کتاب میں درج کر دینے سے معاشرے کی اخلاقی تطہیر وتربیت کے وہ تقاضے کیونکر پورے ہوں گے جو شریعت کا اصل مطلوب ہے اور کیا دین کے تجویز کردہ اخلاقی وسماجی ڈھانچے کے بغیر یہ سزائیں ایک بے جوڑ سی چیز دکھائی نہیں دیں گی؟ 
  • ایک ایسے معاشرے میں جہاں تقسیم دولت میں تفاوت اور طبقاتی تفریق جرم کے محرکات میں ایک اہم محرک کی حیثیت رکھتا ہو، روزگار اور معاشی مواقع سے محروم نوجوان چوری ڈاکے کو ذریعہ روزگار بنا لینے پر مجبور ہو جائیں، نظام انصاف ظلم اور نا انصافی کا نمونہ بن چکا ہو اور جھوٹے مقدمات کا تناسب اگر زیادہ نہیں تو جینوئن مقدما ت سے کم بھی نہ ہو، معاشرے کے طاقتور طبقات قانون کی گرفت سے کلیتاً آزاد ہوں جبکہ قانون کا پھندا صرف کمزور اور سیاسی پشت پناہی سے محروم مجرموں کے گلے میں پورا آتا ہو، ایسے معاشرے میں سرقہ اور حرابہ کی سزاؤں کو قانون کا حصہ بنا دینے اور سوسائٹی کی اخلاقی صورت حال سے صرف نظر کرتے ہوئے انھیں جوں کا توں نافذ کرنے پر اصرار کو کیا جائز طور پر نفاذ شریعت کی طرف پیش رفت کہا جا سکتا ہے؟
  • ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی اکثریت طلاق کے شرعی طریقے اور اس کی حکمتوں سے ناواقف ہو، جہاں معاشرتی اور معاشی مشکلات ومسائل نے لوگوں سے صبر وحوصلہ اور تحمل چھین کر انھیں ذہنی تناؤ کا مریض بنا دیا ہو، جہاں مطلقہ عورت کے لیے باعزت زندگی گزارنا یا عقد ثانی کرنا بے حد مشکل ہو اور طلاق مرد کے بجائے حقیقت میں عورت کے لیے سزا قرار پائے، کیا ایسے معاشرے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو لازماً نافذ قرار دینا حکمت ومصلحت پر مبنی شریعت کا منشا ہوگا اور کیا اس سے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے کی سزا فی الواقع اس کے اصل مجرم یعنی شوہر ہی کو ملے گی؟

یہ چند سوالات محض نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، ورنہ نفاذ اسلام کے ناقص، محدود اور یک طرفہ تصور کے تحت کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیجیے توقدم قدم پر وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے جسے سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنی الہامی زبان میں ’’مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو نگل لینے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شرعی احکام کے درست اور منصفانہ نفاذ کے لیے انفرادی وسماجی اخلاقیات کا ڈھانچہ موجود نہ ہو جو اپنے داخلی اور خارجی دباؤ کے تحت قانون پر اس کی لفظ اور روح کے مطابق عمل درآمد کرا سکے، اور اس کی غیر موجودگی میں دوسرے درجے میں ہی سہی، کمزور طبقات کی داد رسی کے لیے موثر اور منصفانہ قانونی انتظام بھی موجود نہ ہو تو قانون کی کتاب میں درج کی جانے والی اسلامی شقیں بھی عملاً کمزور اور بے بس طبقات کے استحصال پر منتج ہوں گی۔ مذہبی طبقے کا یہ استدلال یقیناًدرست ہے کہ غیر منصفانہ نظام کے تحت قانون کے غلط استعمال کا ذمہ دار اصل قانون کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ اگر عملی قانونی ڈھانچہ ظلم وستم اور نا انصافی پر مبنی ہو اور اس میں کوئی بہتر سے بہتر قانون بھی انصاف فراہم کرنے کے بجائے ظلم پر منتج ہو جائے تو ایسے نظام پر اسلامی قوانین کی چادر ڈال کر مطمئن ہو جانا بھی دین یا معاشرے کی کوئی خدمت نہیں اور اس سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ قانونی ڈھانچے میں ان بنیادی تبدیلیوں کے لیے جدوجہد کی جائے جن کے بغیر شرعی قوانین کے فوائد اور برکات سے مسلمانوں کا معاشرہ بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔

دین اور معاشرہ

(دسمبر ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter