گزشتہ دنوں اتحاد تنظیماتِ مدارس اور حکومت کے مابین دینی مدارس کے حوالے سے کچھ امور پر اصولی اتفاق کیا گیا۔ اس اتفاق کے بارے میں بہت سے حلقوں میں مختلف قسم کا ابہام پایا جاتا ہے بالخصوص مذہبی طبقے اور مدارس کی دنیا میں ان مذاکرات کی تفصیل،پس منظر، متفقہ نکات اور ان کے نتائج کے حوالے سے مکمل اور درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بعض احباب کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ تشویش، سوالات اور مدارس کے حوالے سے بیداری اور حساسیت بہت غنیمت ہے۔ زیر نظر مضمون میں ان مذاکرات میں طے پانے والے امور کے حوالے سے حقیقی صورت حال واضح کرنا مقصود ہے تاکہ ابہام دور ہو اور اس معاملے کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آسکے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو حکومت اور مدارس دینیہ کی قیادت کے مابین جن امور پر اصولی اتفاق کیا گیا، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ حکومت دینی مدارس کے پانچوں نمائندہ وفاقوں کو خود مختار تعلیمی اور امتحانی بورڈ کا درجہ دے گی اور ایگزیکٹو آرڈر یا ایکٹ آف پا رلیمنٹ کے ذریعے اس بورڈکو قانونی اور آئینی حیثیت دی جائے گی۔
۲۔ دینی مدارس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک عصری مضامین کو شامل کیا جائے گا۔
۳۔ دینی مدارس گورنمنٹ کی طرف سے شائع کردہ متعلقہ کلاس کی عصری مضامین کی کتب پڑھائیں گے، اپنے لیے کوئی الگ نصاب یاکتب تیار نہیں کریں گے۔
۴۔ درس نظامی اور دینی علوم کے حوالے سے حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا، مدارس دینیہ اپنے نصاب کی تشکیل وتعیین اور تدریس وتعلیم کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد اورخود مختار ہوں گے۔
۵۔ ہر وفاق کی نصاب کمیٹی میں حکومت کے دو نمایندے ہوں گے جو بوقت ضرورت صرف عصری مضامین کی تعلیم وتدریس اور معیار کے حوالے سے ہونے والی مشاورت میں شریک ہوں گے۔ ان دونوں نمائندوں کا دینی نصاب ونظام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
۶۔عصری مضامین کے نصاب تعلیم، معیار تعلیم اور معیار امتحان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مدارس کے نمائندہ وفاقوں اور حکومت کے درمیان ایک مشترکہ ادارہ بنے گا، جس کا نام،دائرہ اختیار،دائرہ کار اور ہیئت کے حوالے سے اگلے اجلاس میں مشاورت کی جائے گی۔
۷۔ رجسٹریشن ایکٹ جو ۲۰۰۶ء میں جاری ہو چکا اور نافذ العمل بھی ہے، دینی مدارس اس کی مکمل پاسداری کریں گے۔
۸۔ حکومت کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی تاوقتیکہ وہ ٹھوس ثبوت کے ساتھ متعلقہ وفا ق کو اعتماد میں نہ لے۔
۹۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ ؍ایگزیکٹو آرڈر کا مسودہ حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس کی باہمی مشاورت سے تیار کیا جائے گا، حکومت یک طرفہ طور پر کوئی مسودہ پیش نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ حادثاتی طو رپر اور اچانک نہیں ہو گیا، بلکہ اس سلسلے میں گزشتہ دس سالوں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عرصے میں ان مذاکرات میں مختلف نشیب وفراز آئے، بعض مواقع پر ڈیڈلاک بھی پیدا ہوا اور بعض مواقع پر یوں محسوس ہوا جیسے حکومت اور مدار س کی قیادت کسی حتمی نتیجے اور منزل تک پہنچ جائے گی، مگر یہ سلسلہ جاری رہا اور آیندہ بھی جاری رہے گا۔ ان مذاکرات کے دوران ہر مرحلے پر مدارس کی تمام نمائندہ تنظیموں نے اپنی اپنی مجالس عاملہ کے مختلف اجلاسوں میں تفصیل سے حکومت اور مدارس کے مابین زیر بحث آنے والے امور پر تبادلہ خیال اور غور وخوض کیا اور اس کے ممکنہ نتائج واثرات اور فوائد ونقصانات پر تفصیلی بات چیت ہوئی، پھر اتحاد تنظیماتِ مدارس کے پلیٹ فارم پر بھی مشاور ت ہوتی رہی حتی کہ بعض قانونی،تعلیمی اور سیاسی ماہرین سے بھی رہنمائی طلب کی گئی اور آئندہ بھی کوئی فیصلہ مدارس کی نمایندہ تنظیموں کی مجالس عاملہ ومجالس شوریٰ اوردیگر ارباب مدارس کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔
جہاں تک اس اتفاق کے نتیجے میں طے پانے والی عصری تعلیم کا معاملہ ہے، اس کے بارے میں اربابِ مدارس یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عصری تعلیم جبراً مدارس پرمسلط نہیں کی جائے گی اور کوئی بھی مدرسہ عصری تعلیم دینے کا پابند نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم کی آزادی کا حق مسلّم ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، تاہم جو مدارس اپنے ہاں عصری تعلیم نہیں دیں گے ان کی اسناد کی حیثیت بھی عصری تعلیم دینے والے اداروں کے مساوی نہیں ہو گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ عصری تعلیم کو مدارس میں شامل کرنا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں، بلکہ وفاق المدارس کی قیادت اور ہمارے اکابر نے اس کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے آج سے دو دہائیاں قبل ۱۹۸۹ء میں مڈل تک عصری تعلیم کو شامل نصاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات وغیرہ کا کوئی سلسلہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اس وقت مڈل تک نصاب میں انگریزی،ریاضی سمیت جملہ عصری مضامین کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا اور متوسطات کے نام سے مڈل تک عصری تعلیم دی جانے لگی اور ۱۹۸۹ء سے لے کر اب تک متوسطہ باقاعدہ مدارس کے نظام کا حصہ ہے۔اس کے بعد ۲۰۰۲۔۲۰۰۳ء میں نویں اور دسویں کلاس کی تعلیم کو از خود وفا ق المدارس نے اپنے نصاب میں شامل کیا، جو آج تک اختیاری طور پر نصاب میں شامل ہے۔ اب صرف ایک قدم آگے بڑھ کر انٹر میڈیٹ تک تعلیم دینے کا ارادہ کیا گیا ہے، کیونکہ وفاق المدارس کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے ایسی عصری تعلیم جو ہمارے مقاصد میں مخل نہ ہو، بلکہ ممد ومعاون ہو اسے نصاب میں شامل کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہو گا۔
البتہ اس اتفاق کے تناظر میں بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس فیصلے سے ہماری دینی تعلیم متاثرہو گی۔ اس بارے میں اکابر علمائے کرام اور ارباب علم ودانش کو سوچنا چاہیے اور اس کا کوئی بہتر حل تجویز کرنا چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ درسِ نظامی کاحجم کم نہ کیا جائے، بلکہ تعلیم کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔
دوسری بات جس پر ہمارے ہاں بہت حساسیت پائی جاتی ہے وہ حکومتی مداخلت ہے۔اس حوالے سے یاد رہے کہ حکومتی نمائندے مدارس کی تنظیموں کی مجالس عاملہ یا مجالس شوریٰ میں شامل نہیں ہوں گے، بلکہ محض نصابی کمیٹی میں شامل ہوں گے اور وہ بھی صرف اس اجلاس میں شریک ہوں گے جس کے ایجنڈے میں عصری تعلیم کے حوالے سے کوئی مشاورت یا غور وخوض کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دینی معاملات اور دینی امور کے ساتھ ان کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔یوں تیس افراد پر مشتمل امتحانی کمیٹی میں ان دو افراد کی موجودگی معاونت کے لیے ہوگی، مداخلت کے لیے نہیں۔
بہرحال مدارس دینیہ کی قیادت نے پوری دیانت داری، ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ یہاں تک سفر کیا ہے اور ابھی بہت سفر اور کئی مراحل باقی ہیں۔ اکابر کی رہنمائی، مجالس عاملہ ومجالس شوریٰ کی مشاورت اور ارباب مدارس کی آراء وتجاویز کی روشنی میں آگے بڑھاجائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب تک کی پیش رفت ہماری کامیابی ہے، کیونکہ مدارس کے نمائندہ وفاقوں کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دینے کا مطالبہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا اور ہمارے ہر اجلاس،ہر قرار داد اور اعلامیے میں بار بار اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح مدارس کی تحتانی اسناد کی عدم قبولیت بھی ہمارا ایک دیرینہ مسئلہ تھا۔اس سے قبل حکومت مدارس کے سسٹم اور حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن اس فیصلے سے ہم اپنا تشخص منوانے میں بھی کامیاب ہوئے،اپنی تعلیمی اور امتحانی حیثیت قبول کروانے میں بھی کامیاب رہے،اپنی تحتانی اسنادکی حیثیت بھی منو الی۔
باقی یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مدارس کی قیادت مدارس کے معاملے میں کسی بھی شخص سے زیادہ محتاط اور حساس ہے اور تمام قائدین کو اس بات کا بخوبی احساس وادراک ہے کہ اس وقت دینی مدارس بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کی قیادت کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ تمام احباب خاطر جمع رکھیں، ایسا کوئی فیصلہ قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا، جس سے مدارس کی حیثیت، مقاصد یا حریت و آزادی پر کوئی حرف آئے۔ وما توفیقی الا باللہ۔