ہمارا موجودہ زمانہ افراط وتفریط کا ہے۔ جہاں تک خواتین اور جنگی معارک میں ان کی شرکت کا تعلق ہے، عام طور پر لوگ افراط وتفریط میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی مکمل آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی ہمسری کے دعوے دار ہیں اور یہ جملہ کہ ’’عورتیں مردوں کے شابہ بشانہ کام کر سکتی ہیں‘‘ ہماری روزمرہ کی زندگی اور صحافت میں عام ہو چکاہے اور عملی حقیقت بھی یہی ہے کہ عورتیں ہر میدان میں مردوں کے ساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں، خواہ وہ سرکاری دفاتر ہوں، خواہ تجارتی کمپنیاں اور بینک یا ہسپتال اور اسی قسم کے دوسرے بیسیوں ادارے۔ فوج میں بھی اب خواتین کو خاصی نمائندگی دی جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو صدیوں کی تہذیبی اور مقامی روایات کے سبب عورتوں کو بالکل پردے اور چاردیواری میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے افغانستان، سعودی عرب میں یا ہمارے ملک کے مختلف طبقات کے نزدیک۔
اسلام کی اولیں تاریخ میں خواتین کے کردار سے بے خبری کے سبب یہ بات عام ہوگئی ہے کہ عورتوں کا اسلامی جہاد میں کوئی کردار نہیں، اس لیے آج کے زمانے میں ان کی فوجی خدمات غیر ضروری بلکہ خلاف اسلام ہیں۔ لیکن اگر ہم اسلامی تاریخ بنظر غائر پڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اسلام میں عورتوں کی اس آزادی اور خودسری کا تصور ہرگز نہیں جو مغربی تہذیب کے اثر سے ہمارے معاشرے میں عام ہے، نہ اسلام نے عورتوں کو مردوں کے شا نہ بشانہ بے پردگی اور بے مہار آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی قیود جو افغانستان یا سعودی عرب میں ہیں، یہ ایک طرح کی تفریط ہے لیکن عورتوں کی وہ آزادی جو ہم اپنے ملک، مصر، شام اور عراق وغیرہ میں دیکھتے ہیں، اس کی بھی اسلام میں گنجایش نہیں۔ عورتوں کو معاشرے میں مختلف کام کرنے کی اسلام نے یقیناًآزادی دی ہے، لیکن حدود وقیود کے ساتھ جس کا ایک نمونہ موجودہ ایران میں نظر آتا ہے۔ عہدنبوی میں بھی کچھ خواتین تجارت کرتی تھیں اور ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بازار کی نگرانی پر مامور تھی۔ لیکن فی الوقت ہمارا موضوع جہاداور خواتین ہیں، بالفاظ دیگر فوجی خدمات کا کردار۔ ہماری تاریخ کایہ وہ پہلو ہے جس سے بہت سے پڑھے لکھے بلکہ اکثر اسلام پسند لوگ بھی بے خبر ہیں۔
کتب حدیث، سیرت نبوی اور تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بعض معرکوں میں خواتین شریک ہوا کرتی تھیں۔ غزوۂ احد کے موقع پر خود آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بعض دوسری صحابیات (ام سلیم، ام سلیط) کے ساتھ زخمیوں کو پانی پلانے اور ان کو شہر منتقل کرنے میں مشغول تھیں اور ایک مشہور صحابیہ حضرت ام عمارۃؓ ، نسیبہ بنت کعب تو تلوار لیے باقاعدہ کافروں سے جنگ کر رہی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کادفاع کر رہی تھیں۔ وہ ناپاک کافر ابن قمۂ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کرنے کے لیے بڑھا تھا، اس پر حضرت ام عمارہ نے تلوار کا وار کیا، لیکن چونکہ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا، اس لیے اس وار کا اس پر اثر نہ ہوا اور بھاگتے ہوئے اس نے حضرت ام عمارہؓ پر وار کیا۔ اس سے ان کو کاری زخم لگا جس کو انہوں نے برداشت کیا۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے بھی اس جنگ میں لڑ رہے تھے۔ حضرت ام عمارۃ نے اس موقعے پر کئی کافروں کو قتل کیا۔ ان کی بہادری کے جوہر دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: من تطیق ما تطیقین ام عمارۃ (کس میں اتنی طاقت ہے جو ام عمارہ میں ہے؟) ام عمارہ پھر جنگ خیبر میں بھی شریک تھیں اور جنگ یمامہ میں تو انہوں نے وہی بہادری کے جوہر دکھائے جو جنگ احد میں دکھائے تھے۔ وہ مسیلمہ کذاب کو اس جنگ میں اپنے بیٹے عبداللہ کی شہادت کے بعد ذاتی طور پر قتل کرنے کے درپے تھیں، لیکن جب وہ اس کے قریب پہنچیں تو دور سے وحشی قاتلِ حمزہ کا، جو مسلمان ہو چکے تھے، بھالا مسیلمہ کذاب کے لگا جس نے اس کی جان لے لی۔ ام عمارہ کے علاوہ ام عطیہ اور ام سلیم وغیرہ کی جنگ احد اور خیبر میں شرکت کا ذکر ہمیں سیرت وتاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، بلکہ امام بخاری نے تو ’کتاب الجہاد‘ میں ایک خاص باب عورتوں کے جہاد یا فوجی خدمات کے متعلق باندھا ہے۔ یہ باب ۶۵ ہے او ر اس کا عنوان ہے ’ غزوالنساء وقتالھن مع الرجال‘ (عورتوں کی غزوات میں شرکت اور مردوں کے ساتھ مل کر جنگ کرنا)۔
اس کے علاوہ انہوں نے متعدد دوسرے ابواب میں خواتین کا جہادی معارک میں زخمیوں کا علاج کرنے، پانی پلانے اور شہیدوں کو مدینہ منتقل کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ مذکورہ باب ۶۵ سے لے کر باب ۶۸ تک چند احادیث فوجی کارروائیوں میں خواتین کی شرکت سے ہی متعلق ہیں۔ باب ۶۸ ’رد النساء الجرحی والقتلی‘ (خواتین کا زخمیوں اور شہیدوں کاعلاج کرنا اور منتقل کرنا) میں وہی ایک صحابیہ ربیع بنت معوذ کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا کرتی تھیں ، لوگوں کو پانی پلاتی اور ان کی خدمت کرتی، اور زخمیوں اور شہیدوں کو مدینہ منتقل کرتی تھیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے صحیح بخاری کی شرح میں اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے اس بات کاجواز ثابت ہوتا ہے کہ غیر عورت، غیر مرد کا ضرورت کے موقعے پر علاج کر سکتی ہے۔ ہمارے پیش نظر موضوع سے قطع نظر اس حدیث اور حافظ ابن حجر کی اس تشریح سے اس بات کا جواز ملتا ہے کہ خواتین مردوں کا علاج کر سکتی ہیں۔
یہ تو عہد نبوی سے متعلق غزوات یا جہادی معرکوں میں خواتین کے اکا دکا اشتراک کی مثالیں ہیں، کیونکہ اس زمانے کی لڑائیوں میں افواج کی بڑی تعداد نہیں ہوتی تھی، لیکن عہد نبوی کے فوراً بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں جو جہادی معرکے عراق وشام میں پیش آئے، ان میں عورتوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور باقاعدہ جنگ میں شریک ہوئیں، خاص طور پر جنگ یرموک جو شام وفلسطین کے رومی حکمرانوں کے خلاف ایک انتہائی فیصلہ کن جنگ تھی اور اس کا اولیں اسلامی تاریخ کی جنگوں میں بہت بڑا مقام ہے، کیونکہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح یابی کے بعدملک شام وفلسطین اور اردن میں رومی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ ہماری قدیم ترین تاریخ یعنی ’تاریخ طبری‘ میں جنگ یرموک کاذکر تفصیل سے ہے، لیکن افسوس کہ یہ تاریخ جو سنین کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے، اس میں جنگ یرموک میں شریک ہونے والے مجاہدین کا علیحدہ تذکرہ نہیں۔ معرکے کی تفصیلات میں ادھر ادھر ہمیں ان کے نام معلوم ہو جاتے ہیں۔ ا نہی میں ایک انتہائی اہم مجاہدصحابی ضرار بن الازور ہیں جنہوں نے اس معرکے میں زبردست داد شجاعت دی تھی، لیکن افسوس ہے ہماری تواریخ میں معرکہ یرموک کے مشہور ترین دو قائدین حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور خالد بن ولیدکے ساتھ دوسرے قائدین شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان اور عمروبن العاص تو معروف ہیں لیکن ان صف اول کے قائدین کے علاوہ دوسرے درجے کے قائدین جیسے ضرار بن الازور اور را فع بن عمیرہ اتنے معروف نہیں۔ شرحبیل بن حسنہ اور ضرار بن الازور کی قبور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح قبر کے قریب ہی اردن کے پایہ تخت عمان سے ذرا فاصلے پر موجود ہیں اور ہمیں ۱۹۹۲ء میں ان کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہو گا کہ حضرت شرحبیل کا نام کچھ عوام الناس نے غلط طور پر پڑھا اور اسی غلط تلفظ سے اپنے بچوں کے نام ’شرجیل‘ رکھنے لگے جوہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں، لیکن یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ صحیح لفظ شُرَحْبِیْل ہے۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تاریخ اسلام کے اس فیصلہ کن اور اہم معرکے میں بہت سی مسلمان خواتین یعنی صحابیات بھی شریک تھیں، ان کا ذکر ہمیں کتب تواریخ میںیکجا نہیں ملتا۔ یہ صرف دوسری صدی ہجری کے مشہور مورخ واقدی ( محمد بن عمر) سے منسوب ’فتوح الشام‘ کاامتیاز ہے کہ اس میں ان مجاہد خواتین اور ان کی جنگی خدمات کا کافی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے اور خاص طو رپر حضرت ضرار بن الازور کی بہن خولہ بنت ا لازور کو تو انہوں نے اس جنگ کاہیرو بنا دیا ہے۔ یہ غالباً ’فتوح الشام‘ ہی کا اثر ہے کہ ہمارے بعض پڑھے لکھے اور اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے شعرا میں بھی ان خولہ کا نام بہت مشہور ہے۔ اگر چہ اسلامی ثقافت میں ایک دوسری خولہ یعنی خولہ بنت ثعلبہ کتب تفسیر وحدیث میں زیادہ مشہورہیں، کیونکہ ان کے اللہ سے فریاد کرنے پر اٹھائیسویں پارے میں سورۃ مجادلہ نازل ہوئی تھی۔ ’فتوح الشام‘ کا جو نسخہ لبنا ن کا چھپا ہوا متداول ہے اور ہمارے سامنے ہے، اس میں تو جنگ یرموک میں عورتوں کی شرکت سے متعلق علیحدہ سے ایک باب ہے۔ یہی نہیں بلکہ حضرت خولہ بنت الازور کی فوجی کارروائیوں سے متعلق علیحدہ سے ایک فصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فصل کایہ عنوان ناشر کی طرف سے ہو لیکن ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ فتوح الشام کے جو دسیوں ایڈیشن انیسویں صدی میں شائع ہوئے ہیں، ان کے بارے میں محققین کی رائے یہ ہے کہ وہ واقدی کی اصل کتاب نہیں۔ قدیم کتب جیسے ’فہرست الندیم‘ (یہی نام د رست ہے جو مولف نے اپنے قلمی نسخے پہ لکھا تھا، ابن الندیم غلط مشہور ہو گیا) اور یاقوت کی ’معجم الادباء‘ اور معاصرین میں سے خیرا لدین زرکلی کی ’الاعلا م‘ اور رضا کحالہ کی ’معجم المولفین‘ وغیرہ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ واقدی نے ’فتوح الشام‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، اس کے دسیوں قلمی نسخوں کا ذکر عصر حاضر کے ترکی علامہ فواد سیز گین نے اپنی کتاب ’تاریخ التراث العربی‘ میں کیا ہے۔ اس کتاب کے منظوم ومنثور ترکی تراجم بھی ہو چکے ہیں، لیکن جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا، محققین اس کی واقدی سے نسبت کے بارے میں بڑے شکوک رکھتے ہیں ۔ خود ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ اپنی موجودہ صورت میں یہ کتاب واقدی (وفات: ۲۰۷ھ) کی تصنیف نہیں معلوم ہوتی اور اس ذیل میں ہمیں خیرالدین زرکلی، صاحب ’الاعلام‘ کی یہ بات کہ اس پوری کتاب کی نسبت واقدی سے صحیح نہیں، زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر کتاب کا کچھ مواد واقدی کا لکھا ہوا ہے اور کچھ بعد کے لوگوں کا اضافہ ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوسرے سے اس کتاب کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میںیہ ایک انتہا پسندانہ رائے ہے۔ ہمارے ناقص خیال میںیہ کتاب اپنی موجودہ شکل میں صلیبی جنگوں کے بعد یا ا س دوران میں یعنی چھٹی یا ساتویں ہجری میں لکھی گئی ہے۔ اس کا انداز بیان و ہ ہے جو دوسری صدی کے اس مصنف کا ہے اور نہ ہی وہ اسلوب نگارش ہے جو مصنف کی دوسری مستند ومتداول کتاب ’المغازی‘ میں ہے۔ (تحقیق ۱۹۶۶ء Marsden Jones)۔ ہمارے خیال میں کتاب کابنیادی مواد تو واقدی کی اصل کتاب سے لیا گیا ہے، لیکن اس کی تفصیلات میں جذبہ جہاد کو ابھارنے کے لیے وہ رنگ آمیزی کی گئی ہے جو صلیبی عہد کی دوسری کتابوں میں نظر آتی ہے۔ کتاب کے آخری صفحہ ۲۱۵ وصفحہ ۲۱۸پر واقدی سے دوتین سو سال بعد کے مصنفین مورخ مسعودی، ابن خلکان اور طبرانی کے ذکر سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ پوری کتاب واقدی کے قلم سے نہیں۔ بہرحال اگرچہ وہ تمام مجاہد خواتین جن کا ذکر اس کتاب میں ہے، ان کے حالات صحابہ وصحابیات سے متعلق قدیم وجدید عربی اور اردوکتابوں میں نہیں ملتے، جن میں ’سیر صحابیات‘ اور طالب ہاشمی کی مفصل ’تذکار صحابیات‘ قابل ذکر ہیں۔ لیکن بہرحال جیسے ہم آگے چل کر دیکھیں گے، بعض صحابی مجاہدات کاذکر ان کتابوں میں بھی ملتا ہے اور سیدسلیمان ندویؒ نے پچاس ساٹھ سال قبل اپنے مقالہ ’’مسلمان عورتوں کی بہادری‘‘ میں بھی بہت سی ان خواتین کا ذکرکیا ہے۔
واقدی نے جنگ یرموک کے ذکر میں پچیس ان خواتین کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس جنگ میں عملی حصہ لیا اور اپنی تلواروں کے جوہر دکھائے۔ ان میں سر فہرست خولہ بنت الازور (جنہوں نے ایک موقعے پر پانچ کافروں کو قتل کیا) اور عفراء بنت غفارؓ (جنہوں نے چار کافروں کو قتل کیا) ہیں اور ام حکیم اور ام ابان کی بہادری کے قصے بھی فتوح الشام میں بیان کیے گئے ہیں۔ ان خواتین کے علاوہ واقدی کے بقول قبیلہ لخم، جذام اور قبیلہ خولان کی بہت سی خواتین بھی جنگ یرموک کے معارک میں شریک تھیں۔ ان مجاہد خواتین کی ایک ڈیوٹی یہ بھی تھی کہ میدان جنگ میں فوج کے پیچھے ہاتھوں میں خیموں کے ڈنڈے لے لیں اور اپنے سامنے پتھر جمع کر لیں اور اگر مجاہدین شکست کھا کر واپس بھاگنے لگیں تو وہ ان مسلمانوں پر پتھر برسا کر اور ان کے گھوڑوں پر ڈنڈے چلا کر ان کو غیرت دلائیں اور واپس جنگ کے لیے بھیجیں۔ ان کا ایک کام یہ بھی تھا کہ جو بچے ان کے ساتھ تھے، ان کو ہاتھوں میں اٹھا کر شکست خوردہ بھاگنے والے مجاہدین کو غیرت دلائیں کہ تم اپنی بیوی بچوں کے لیے لڑو۔ مجاہدین کی ہمت بڑھانے کے لیے کچھ خواتین جنگی ترانے بھی گایا کرتی تھیں۔ فتوح الشام کے مصنف نے حضرت خولہ بنت الازور کے ترانے کے چند شعر نقل کیے ہیں جو وہ عود پر جنگی لہجے میں گا رہی تھی:
یا ہاربا عن نسوۃ ثقات
لھا جمال ولھا ثبات
تسلموھن الی الھنات
تملک نواصینا مع البنات
اعلاج سوق فسق عتاۃ
ینلن منا اعظم الشتات
مذکورہ بالا خواتین کے علاوہ چند دیگر خواتین کا ذکر ’فتوح الشام‘ کے مصنف نے امتیازی حیثیت سے کیا جن کے نام صحابہ وصحابیات سے متعلق مشہور ومتداول کتاب ’اصابہ‘ میں، ہیں۔ وہ یہ ہیں:
۱۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جوگھوڑے پر سوار اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوامؓ کے ساتھ جنگ یرموک میں شریک تھیں۔
۲۔ ام ابانؓ زوجہ حضرت ابان بن سعید بن العاص، جنہو ں نے اس معرکے میں اپنے شوہر کی شہادت کے بعد ان کے قاتل سے بدلہ لیا اور اسے جہنم رسید کیا۔
۳۔ ام حکیم بنت الحارث زوجہ عکرمہ بن ابی جہلؓ، جنہوں نے اپنے شوہر کے انتقام میں سات کافر قتل کیے۔
۴۔ اسماء بنت یزید بن سکن، جنہوں نے اپنے خیمے کے بانس سے ۹ رومیوں کو قتل کیا۔ (اصابہ، جلد ۴)
یہ سب خواتین ہیں جن کی جنگ یرموک میں شرکت کا ذکر ہمیں کتب رجال یا طبقات صحابہ میں ملتا ہے، جیسے طبقات ابن سعد، الاصابہ، اور سیر اعلام النبلاء، یا اردو کی وہ کتابیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ لیکن ان کے علاوہ بعض دوسری مجاہدات کے نام فتوح الشام میں دیے گئے ہیں اور افسوس کہ ان کا ذکر کتب طبقات صحابہ میں نہیں۔ ان میں عزہ بنت عامر بن عاصم الفہری، رملہ بنت طلیحہ زبیری، رعلہ ، امامہ ، زینب ، لبنیٰ بنت حازم، سلمیٰ بنت زارع، مزروعہ بنت عملوق ،کعوب بنت مالک بن عاصم، سعیدہ بنت عاصم الخولانی، سلمیٰ بنت ہاشم ، نعم بنت فیاض (قناص؟) اورسلمیٰ بنت لوی ہیں۔ افسوس کہ ان موخرالذکر صحابیات کے حالات کتب طبقا ت میں نہیں ملتے۔
اگر چہ ہم کتاب فتوح الشام کی واقدی کی طرف نسبت پر تحفظات رکھنے کے بارے میں حق بجانب ہیں، لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ صاحب کتاب نے اپنی طرف سے خواتین کے یہ فرضی نام لکھ دیے ہیں۔ مسلمانوں کا بہت سا اولیں ذخیرہ کتب جس کا ذکر الندیم کی کتاب الفہرست یا، یاقوت کی معجم الادباء میں ہے، ضائع ہو گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان مجاہدات کے نام ان ضائع شدہ کتابوں میں ہوں۔ اس لیے ہمیں ان مجاہدات کے ناموں میں شک وشبہ کرنے کی گنجائش نہیں۔ جنگ یرموک میں ان صحابیات کی شرکت ہماری خواتین کے لیے عملی مثال ہے۔ عصر حاضر کی مسلمان خواتین جو صلیبی دشمنوں کے مقابلے میں اپنے مسلمان بھائیوں یاشوہروں کے ساتھ اپنا کردار ادا کر نا چاہتی ہیں، جنگ یرموک کی روشنی میں ان کو اس بات کی مکمل اجازت ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ فضیلت واخلاق او ر اسلامی حدود کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
کتاب ’فتوح الشام‘ کی واقدی سے نسبت کے بارے میں جو شکوک ہیں، ان سے قطع نظر اس بات کا انکا رممکن نہیں کہ اس کتاب نے مسلمانوں بلکہ مسلمان خواتین کے دلوں میں جذبہ جہاد اور سرفروشی کو زندہ رکھنے میں بڑ ا کردار ادا کیا ہے۔ برصغیر کے عظیم ترین مجاہد شہید رائے بریلوی کے خاندان کے ایک فرد سید عبدالرزاق کمالی نے اس کتاب کا منظوم ترجمہ ’’صمصام الاسلام‘‘ کے نام سے انیسویں صدی کے اواخر میں کیا تھا اور یہ منظوم ترجمہ، جو ۲۴ہزار اشعار پر مشتمل ہے، ان کے خاندان میں باقاعدہ بلند آواز سے پڑھا جا تا تھا اور اس میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں۔ اس کتاب کا منظوم ترجمہ ترکی کی ز بان میں بھی کیا گیا ہے اور فارسی زبان میں بھی۔ جنگ یرموک سے متعلق تاریخ طبری، تاریخ ابن الاثیر اور البدایہ والنہایہ وغیرہ کے مستند بیانات ہمیں تاریخی حقائق تومہیا کرتے ہیں، لیکن یہ کتابیں ہمارے اندر جذبہ جہاد اور اپنے دین ووطن کی خاطر سرفروشی کی شمع روشن نہیں کرتیں۔ یہ کام بھرپور انداز میں کتاب ’فتوح الشام‘ نے انجام دیا ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں اپنے دلوں میں موجودہ زمانے کے دشمنوں کے خلاف جذبہ جہاد کو زندہ رکھنا اور اس کو تیز کرنا مقصود ہو تو ’فتوح الشام‘ کا مطالعہ ہمارے لیے ناگزیر ہے۔